أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِيۡنَ هَاجَرُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا فُتِنُوۡا ثُمَّ جٰهَدُوۡا وَصَبَرُوۡۤا ۙ اِنَّ رَبَّكَ مِنۡۢ بَعۡدِهَا لَغَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ۞

ترجمہ:

پھر بیشک آپ کا رب، ان لوگوں کے لیے جنہوں نے آزمائشوں میں مبتلا ہونے کے بعد ہجرت کی پھر جہاد کیا اور صبر کیا، بیشک آپ کا رب ان (آزمائشوں) کے بعد ضرور بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔ ؏

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : پھر بیشک آپ کا رب، ان لوگوں کے لیے جنہوں نے آزمائشوں میں مبتلا ہونے کے بعد ہجرت کی پھر جہاد کیا اور صبر کیا، بیشک آپ کا رب ان (آزمائشوں) کے بعد ضرور بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔ (النحل : ١١٠)

جان کے خوف سے صرف زبان سے کلمہ کفر کہنے والوں کی معافی کا حکم :

اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا حال اور ان کا حکم بیان فرمایا تھا جنہوں نے ایمان لانے کے بعد شرح صدر سے کفر کیا اور جن لوگوں نے جان بچانے کے لیے زبانی طور سے کفر کیا تھا لیکن ان کا دل اسلام پر مطمئن تھا، ان کا حکم اب بیان فرما رہا ہے کہ جو لوگ فتنہ میں مبتلا ہوگئے پھر انہوں نے ہجرت کی اور صبر کیا تو ان سے زبانی طور پر جو کفر سرزد ہوا تھا اللہ تعالیٰ اس کو بخشنے والا مہربان ہے۔ اس کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ جن لوگوں نے اسلام کی راہ میں مشکلات اٹھائیں اور کفار کے مظالم برداشت کیے اور ہجرت کی اللہ تعالیٰ ان کو بخشنے والا مہربان ہے۔

اس کی تیسری تفسیر یہ ہے کہ عبداللہ بن سعد بنا بی سرح مرتد ہوگئے تھے، فتح مکہ کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا، انہوں نے حضرت عثمان کے پاس پناہ لی۔ حضرت عثمان ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے کر آئے اور ان کی معافی چاہی۔ آپ نے ان کو معاف کردیا، یہ دوبارہ اسلام لائے اور انہوں نے اسلام میں نیک عمل کیے۔ اس کی تفصیل سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٤٣٥٨ اور سنن النسائی رقم الحدیث : ٤٠٧٨، میں ہے۔ لیکن یہ تیسری تفسیر مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ مکی سورة ہے اور یہ ہجرت کے کافی بعد کا واقعہ ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل آیت نمبر 110