(۴) اچھی بات بدعت حسنہ اور جمع قرآن

۷۰۔ عن زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال : أرسل اِلیّ أبو بکر مقتل أہل الیمامۃ فاذا عمر بن الخطاب عندہ قال أبو بکر: اِن عمر أتانی فقال : اِن القتل قد استحر یوم الیمامۃ بقراء القرآن و اِنی أخشی أن استحر القتل بالقراء بالمواطن فیذہب کثیر من القرآن، و اِنی أری أن تامر بجمع القرآن ، قلت لعمر: کیف تفعل شیئا لم یفعلہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم؟ قال عمر: ہذا و اللہ خیر! فلم یزل عمر یراجعنی حتی شرح اللہ صدری لذلک، و رأیت فی ذلک الذی رأی عمر، قال زید : قال أبو بکر: اِنک رجل شاب عاقل لانتہمک و قد کنت تکتب الوحی لرسول اللہ فتتبع القرآن فأجمعہ فواللہ لو کلفونی نقل جبل من الجبال ما کان أثقل علی مما أمرنی بہ من جمع القرآن ، قلت: کیف تفعلون شیئا لم یفعلہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم؟ قال : ہو واللہ خیر، فلم یزل أبو بکر یراجعنی حتی شرح اللہ صدری للذی شرح لہ صدر أبی بکر و عمر فتتبعت القرآن أجمعہ من العسب واللخاف و صدور الرجال حتی وجدت آخر سورۃ التوبۃمع أبی خزیمۃ الأنصاری لم أجدہا مع أحد غیر ہ’’ لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ أنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ ‘‘ حتی خاتمۃ برآء ۃ ، فکانت الصحف عند أبی بکر حتی توفاہ اللہ ثم عند عمر حیاتہ ثم عند حفصۃ بنت عمر ۔ فتاوی رضویہ ۱۲/۸۳

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ یمامہ والوں سے جنگ کے ایام میں مجھے امیر المؤمنین سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بلایا ۔اس وقت سیدنا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی انکے ساتھ تھے۔فرمایا: حضرت عمر میرے پاس آئے اور کہا: جنگ یمامہ میں قرآن کریم کے کتنے ہی قاری شہید ہوگئے ہیںاور مجھے خدشہ ہے کہ مختلف مقامات پر قاریوں کے شہید ہو جانے کے باعث قرآن مجید کا اکثر حصہ جاتا رہے گا ۔ لہذا میری رائے ہے کہ آپ قرآن کریم کے جمع کرنے کا حکم صادر فرمادیں ۔میں نے ان سے کہا :میں وہ کام کیسے کروں جسکو خود حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے نہیں کیا ؟حضرت عمر نے اس پر کہا:خدا کی قسم ! کام توپھر بھی اچھا ہے۔چنانچہ حضرت عمر مجھ سے اس بارے میں بحث کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کیلئے میرا سینہ کھولدیا اور میں حضرت عمر کی رائے سے متفق ہوگیا ۔حضرت زیدبن ثابت کا بیان ہے کہ حضرت صدیق اکبر نے فرمایا:تم نو جوان آدمی ہو اور صاحب عقل و دانش بھی نیز تمہاری قرآن فہمی کے بارے میں مجھے پورا اعتماد ہے ۔ اور تم حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے کاتب وحی بھی رہے ہو ۔لہذا مکمل کوشش کے ساتھ قرآن کریم جمع کردو۔خدا کی قسم ! اگر مجھے پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر نے کا حکم دیا جاتا تو اسے اس کام سے زیادہ بھاری نہ سمجھتا ۔میں عرض کرنے لگا: آپ وہ کام کیوں کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے نہیں کیا ۔آپنے فرمایا:خدا کی قسم ! پھر بھی یہ کام تو اچھا ہے ، پھر برابر حضرت صدیق اکبر مجھ سے بحث کرتے رہے یہا ں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ بھی اس طرح کھول دیا جس طرح حضرت صدیق اکبر اور حضرت عمر کیلئے کھولدیا تھا ۔چنانچہ میں نے قرآن کریم کو کجھور کے پتوں ، پتھر کے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں سے تلاش کر کے جمع کیا یہاں تک کہ سورئہ توبہ کی آ خری آیت حضرت ابو خزیمہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ملی اور کسی سے دستیاب نہ ہوئی ۔ یعنی ’’ لقدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مَّنْ أنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ ألْآیَہ‘‘پھر یہ جمع کیا ہوا نسخہ حضرت ابو بکر صدیق کے پاس رہا۔ جب ان کا وصال ہو گیا تو حضرت عمر کے پاس پھر حضرت حفصہ بنت عمر کی تحویل میں رہا۔

]۱[ امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں

دیکھو !زید بن ثابت نے صدیق اکبراور صدیق اکبر نے فاروق اعظم پر اعتراض کیا تو ان حضرات نے یہ جواب نہ دیا کہ یہ نئی بات نکالنے کی اجازت نہ ہونا تو پچھلے (آئندہ) زمانہ میں ہوگا ،ہم صحابہ ہیں، ہمارا زمانہ تو خیر القرون ہے ، بلکہ یہ جواب فرمایاکہ اگر حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے نہ کیا پر وہ کام تو اپنی ذات میں بھلائی کا ہے، پس کیونکر ممنوع ہو سکتا ہے۔ اسی پر صحابہ کرام کی رائے متفق ہوئی اور قرآن عظیم باتفاق حضرات صحابہ جمع ہوا ۔ اب غضب کی بات ہے کہ ان حضرات کو سودا اچھلے اور جو بات کہ صحابہ کرام میں طے ہوچکی پھر اکھیڑیں ۔جو ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ کیا تم صحابہ ،تابعین اور تبع تابعین سے محبت و تعظیم میں زیادہ ہو ۔ کہ جو کچھ انہوں نے نہ کیا تم کرتے ہو ۔ لطف یہ ہے کہ بعینہ وہی اعتراض اگر قابل تسلیم ہو تو تبع تابعین پر باعتبار تابعین اور تابعین پر باعتبار صحابہ اور صحابہ پر باعتبار رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وارد۔ مثلا جس فعل کو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وصحابہ و تابعین کسی نے نہ کیا اور تبع تابعین کے زمانہ میں پیدا ہوا، تو تم اسے بدعت نہیں کہتے ۔ ہم کہتے ہیں اس کام میں بھلائی ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم و صحابہ و تابعین ہی کرتے۔ تبع تابعین کیا ان سے زیادہ دین کا اہتمام رکھتے ہیں ۔ جو انہوں نے نہ کیا یہ کریں گے۔ اسی طرح تابعین کے زمانہ میں جو کچھ پیدا ہوا اس پر وارد ہوگا کہ بہتر ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم و صحابہ کیوں نہ کرتے۔تابعین کچھ ان سے بڑھ کر ٹھہرے ۔ علی ہذا القیاس، جو نئی باتیںصحابہ نے کیں انہیں بھی تمہاری طرح کہا جائے گا ۔

بزہد و ورع کوش و صدق و صفا

و لیکن میفزا ئے بر مصطفی

کیا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ وعلیہ وسلم کو معاذ اللہ انکی خوبی معلوم نہ ہوئی یا صحابہ کوا فعال خیر کی طرف زیادہ توجہ تھی ۔ غرض یہ بات ان مدہوشوںنے ایسی کہی جس کی بنا پر عیاذا باللہ ، عیاذاباللہ ، تمام صحابہ و تابعین بھی بدعتی ٹھہرے جاتے ہیں ۔ مگر اصل وہی ہے کہ نہ کرنا اور بات اور منع کرنا اور چیز ۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اگر ایک کام نہ کیا اور اسکو منع بھی نہ فرمایا تو صحابہ پر کون مانع ہے کہ اسے نہ کریں ، تو تبع تابعین پر الزام نہیں اور وہ نہ کریں تو ہم پر مضائقہ نہیں ۔بس اتنا ہونا چاہیئے کہ شرع کے نزدیک وہ کام برا نہ ہو۔

عجب لطف کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین کا قطعا نہ کرنا تو حجت نہ ہو اور تبع تابعین کو باوجود ان سب کے نہ کرنے کے اجازت ملی ، مگر تبع تابعین میں وہ خوبی ہے کہ جب وہ بھی نہ کریںتو اب پچھلوں کیلئے راستہ بند ہوگیا ۔

اس بے عقلی کی کچھ حد بھی ہے ۔ اس سے تو اپنے یہاں کے ایک بڑے امام نواب صدیق حسن خاں شوہر ریاست بھوپال ہی کا مذہب اختیار کرلوتو بہت اعتراضوں سے بچو، انہوں نے بے دھڑک فرمادیا : جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے نہ کیا سب بدعت و گمراہی ہے ۔ اب چاہے صحابہ کریں خواہ تابعین ، کوئی ہو بدعتی ہے ، یہاں تک کہ بوجہ ترویج تراویح امیر المؤمنین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معاذ اللہ گمراہ ٹھہرایا۔ اور اعدائے دین کے پیر و مرشد عبد اللہ کی روح مقبوح کو بہت خوش کیا ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔

مجلس قیام کا انکار کرتے کرتے کہاں تک نوبت پہونچی ۔ اللہ تعالی اپنے غضب سے محفوظ رکھے ۔ آمین

امام علامہ احمد بن محمد عسقلانی شارح بخاری مواہب اللدنیہ میں فرماتے ہیں :

الفعل یدل علی الجواز و عدم الفعل لا یدل علی المنع ۔

کرنے سے تو جواز سمجھا جاتا ہے اور نہ کرنے سے ممانعت نہیں سمجھی جاتی ۔

شاہ عبد العزیز صاحب تحفہ اثنا عشریہ میں فرماتے ہیں

نکردن چیزے دیگر است و منع فرمود ن چیزے دیگر

یہ تمہاری جہالت ہے کہ تم نے فعل کے نہ کرنے کو اس فعل سے ممانعت سمجھ رکھا ہے ۔

سخن شناس نئی دلبرا خطا اینجاست

حقیقۃ الامر یہ ہے کہ صحابہ و تابعین کو اعلاء کلمۃ اللہ و حفظ بیضۂ اسلام ، نشر دین متین ،قتل وقہر کافرین ، اصلاح بلاد وعباد ،اطفائے آتش فساد، اشاعت فرائض و حدود الہیہ، اصلاح ذات البین، محافظت اصول ایمان ، حفظ روایت حدیث و غیرہاامور کلیہ مہمہ سے فرصت نہ تھی۔

لہذا یہ امور جزئیہ مستحبہ تو کیا معنی بلکہ تاسیس قواعد و اصول ، تفریع جزئیات و فروع ، تصنیف و تدوین علوم، نظم دلائل حق ردشبہات اہل بدعت و غیرہاا مور عظیمہ کی طرف بھی توجہ کامل نہ فرماسکے ۔ جب بفضل اللہ تعالیٰ ان کے زور بازو نے دین الہی کی بنیاد مستحکم کر دی، اور مشارق و مغارب میں ملت حنفیہ کی جڑ جم گئی، اس وقت ائمہ و علمائے ما بعد نے تخت و بخت سازگار پاکر بیخ و بن جمانے والوں کی ہمت بلند کے قد م لئے ،اور باغبان حقیقی کے فضل پر تکیہ کر کے اہم فالاہم کاموں میں مشغول ہوئے ۔ اب تو بے خلش صرصر و اندیشہ ٔ سموم اور ہی آبیاریاں ہونے لگیں ۔

فکر صائب نے زمین تدقیق میں نہریں کھودیں ،ذہن رواں نے زلال تحقیق کی ندیاں بہائیں ،علماء و اولیا ء کی آنکھیں ان پاک مبارک نونہالوں کیلئے تھالے بنیں، ہوا خواہان دین و ملت کی نسیم انفاس متبرکہ نے عطر باریاں فرمائیں ۔ یہاں تک کہ یہ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا باغ ہرا بھرا پھلا پھولا لہلہایا ،اور اسکے بھینے پھولوں ، سہانے پتوںنے چشم و کام و دماغ پر عجب ناز سے احسان فرمایا۔ الحمد للہ رب العالمین ۔

اب اگر کوئی جاہل اعتراض کرے ،یہ کنچھیاں جو اب پھوٹیں پہلے کہاں تھیں، یہ پتیاں جو اب نکلیں پہلے کیوں نہاں تھیں، یہ پتلی پتلی ڈالیاں جوا ب جھومتی ہیں نو پیدا ہیں ،یہ ننھی ننھی کلیاں جو اب مہکتی ہیں تازہ جلوہ نما ہیں ، اگر ان میں کوئی خوبی پاتے تو اگلے کیوں چھوڑ جاتے، تو اس کی حماقت پر اس الہی باغ کا ایک ایک پھول قہقہہ لگائے گا کہ او جاہل !اگلوں کو جڑ جمانے کی فکرتھی، وہ فرصت پاتے تو یہ سب کر دکھاتے ۔آخر ا س سفاہت کا نتیجہ یہ ہی نکلے گا ۔ کہ وہ نادان اس باغ کے پھل پھول سے محروم رہیگا۔

بھلا غور کرنے کی بات ہے ۔ایک حکیم فرزانہ کے گھر آگ لگی، اسکے چھوٹے چھوٹے بچے بھولے بھالے اندر مکان کے گھر گئے اور لاکھوں روپیہ کا مال و اسباب بھی تھا، اس دانشمند نے مال کی طرف مطلق خیال نہ کیا ،اپنی جان پر کھیل کر بچوں کو سلامت نکال لیا ۔یہ واقعہ چند بے خرد بھی دیکھ رہے تھے ، اتفاقاً ان کے یہاں بھی آگ لگ گئی ۔یہاں نرا مال ہی مال تھاکھڑے ہوئے دیکھتے رہے اور سارا مال خاکستر ہو گیا ۔ کسی نے اعتراض کیا،تو بو لے :تم احمق ہو ، ہم اس حکیم دانشور کو آنکھیں دیکھے ہوئے ہیں، اسکے گھر آگ لگی تھی تو اس نے مال کب نکالا تھا جو ہم نکالتے؟ مگر بے وقوف اتنا نہ سمجھے کہ اس اولوالعزم حکیم کو بچوں کے بچانے سے فرصت کہاں تھی کہ مال نکالتا،نہ یہ کہ اس نے مال نکالنا برا جانکر چھوڑ دیا ۔ اللہ تعالیٰ کسی کواوندھی سمجھ نہ دے ۔ آمین

ہم نے مانا جو کچھ قرون ثلثہ میں تھا سب منع ہے ۔ اب ذرا حضرات مانعین اپنی خبر لیں۔ یہ مدرسے جاری کرنا، لوگوں سے چندہ لینا ،طلبہ کے لئے مطبع نول کشور سے فیصدی دس روپیہ کمیشن لیکر کتابیں منگانا،بہ تخصیص روز جمعہ بعد نماز جمعہ وعظ کا التزام کرنا، جہاں وعظ کہنے جائیں نذرانہ لینا، دعوتیں اڑانا، مناظروں کے لئے جلسے اور پنچ مقرر کرنا ، مخالفین کے رد میں کتابیں چھپوانا لکھوانا ،واعظوں کا شہر بشہر گشت لگانا ، صحاح کے دو دو ورق پڑھ کر محدثی کی سند لینا ،اور انکے سوا ہزاروں باتیں کہ اکابر و اصاغر طائفہ میں بلا نکیر رائج ہیں قرون ثلثہ میں کب تھیں ؟ان پیشوایان فرقۂ جدیدہ کا تو ذکر ہی کیا ہے جو دو دو روپے نذرانہ لیکر مسئلوں پر مہر ثبت کریں ،مدعی اور مدعی علیہ دونوںکے ہاتھ میں حضرت کا فتوی ، حج کو جائیں تو کمشنر دہلی وبمبئی کی چٹھیاں ضرور ہوں ۔ کیا یہ باتیں قرون ثلثہ میں تھیں یا تمہارے لئے پروانہ معافی آگیا کہ جو چاہو کرو ، تم پرکچھ مواخذہ نہیں ، یا یہ نکتہ چینیاں انہیں باتوںمیں ہیں جنہیں تعظیم و محبت حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے علاقہ ہو، باقی سب حلال و شیرمادر ۔ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ فتاوی رضویہ، ۱۲/۸۴تا ۸۷

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۷۰۔ الجامع الصحیح للبخاری، فضائل القرآن ، ۱/۷۴۵