مبارک رات شب قدر

تحریر: محمد افضل
بڑی مبارک ساعتیں اور بڑے خوشگوار لمحات گزر رہے ہیں، وہ قیمتی لمحات جس میں اللہ تعالی کی خاص نعمتیں، برکتیں بارش کی طرح برستی ہیں، یہ پرنور مبارک گھڑیاں امت مسلمہ کے لئے بڑی ہی قیمتی ہیں، اور خدا کی طرف سے نایاب تحفہ بھی، کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ امت محمدیہ ان مبارک گھڑیوں میں رحمتوں برکتوں نعمتوں سے مالا مال ہوکر خود کو سنوار لیں اپنے اعمال وافعال وتحریکات کو اسلامی رنگ میں رنگ کر اپنی زندگیوں کی سمتوں کو صحیح ڈایریکشن میں کر لیں ، اور اللہ کی عطاء کردہ عنایتوں، رحمتوں کے وصیلہ سے اپنے گناہوں، خطاؤں اور تمام بشری لغزشوں کی معافی مانگ کر دربار الہی میں مؤمنانہ حاضری دیں،
اسی لئے اللہ تبارک و تعالی نے امت محمدیہ کو بہت سے مختلف مواقع اور مبارک گھڑیوں سے نوازنے کے ساتھ ساتھ بہت سی خصوصی اور عظیم رحمتوں اور برکتوں سے بھی نوازا ہے جن سے کسی دوسری امت کو نہیں نوازا گیا. 
مسلمانوں کو عطا کردہ اہم اور عظیم بابرکت مواقع میں سے رمضان کا مہینہ سب سے زیادہ افضلیت کا حامل ہے، یہ وہ مہینہ ہے جس کو تمام دوسرے مہینوں پر فوقیت بخشی گئی ہے، اس مہینے کی مخصوصیت اور اہمیت کا اندازہ اسکی برکت رحمت شان سے لگا سکتے ہیں، کیونکہ یہ مبارک مہینہ بے شمار تاریخی اور اسلامی نایاب کارناموں سے معمور ہے، اس مہینہ کا پہلا عشرہ رحمت کے خزانوں کے ساتھ امت مسلمہ پر سایہ فگن رہتا ہے، دوسرا عشرہ مغفرت کی کنجی لیکر مسلمانوں کو گناہوں و بدکاریوں سے بچاتا ہے، جبکہ اس کا آخری عشرہ  پہلے عشروں سے بھی زیادہ معزز اور افضل ہوتا ہے، کیونکہ لیلتہ القدر یعنی شب قدر راتوں میں سب سے افضل ہے یہ رات اکثر و بیشتر اسی عشرہ میں ہوتی ہے اس لئے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم عبادت وغیرہ کا اہتمام اس عشرہ میں زیادہ کیا کرتے تھے اور دوسروں کو بھی یہی ترغیب دیتے تھے.
رمضان کی خصوصیات و افضلیت پر اگر بات کی جائے تو یقیناً الفاظوں کا ذخیرہ کم پڑ جائیگا اقلام کی نوکیں ٹوٹتی رہیں گی اور سیاہی ختم ہوتی چلی جائیگی لیکن رمضان کی برکت و رحمت پر چھیڑی گئی گفتگو ختم نہیں ہوگی، کیونکہ یہ ہے ہی اتنا افضل جسکا اندازہ لگانے کی بساط ہمارے کند ذھنوں میں نہیں،
  یہی وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن جیسی مقدس کتاب نازل ہوئی. اسکی فضیلت اور اسکی عظمت کے لئے یہ ہی کافی ہے کہ قرآن کریم نازل کرنے کے لئے اس ماہ کا انتخاب کیا گیا،
   یوں تو رمضان کا پورا مہینہ عبادت و تلاوت اور عظمت و احترام کا مہینہ ہے اور اسکا آخری عشرہ سب سے زیادہ اہم اور خاص ہے اسی عشرہ میں ایک رات ہے جس میں اللہ تبارک و تعالی کی رحمتیں اور برکتیں مزید برستی ہیں اور وہ شب قدر کی رات ہے 
   چنانچہ اللہ تبارک و تعالی نے اس رات کی عظمت و احترام اور اس کی اہمیت سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا ہے *”وما ادراک ما ليلة القدر ليلة االقدر خير من الف شهر”* یعنی تمہیں کیا معلوم لیلتہ القدر کیا ہے؟ ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص ہزار مہینے  عبادت اور نیک اعمال کرتے رہے جس میں شب قدر نہ ہو اور جو شخص شب قدر کی عبادت میں مشغول رہے تو اس کا یہ عمل ہزار مہینہ نیک اعمال کرنے والے شخص سے افضل و بہتر ہوگا
    یعنی جس شخص نے اس رات کو سنت کے مطابق گزارا اور عبادت کی تو اس کے لئے اس رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے 
اگر حساب لگایا جائے تو یہ تراسی سال اور چار مہینے( 4_83) بنتے ہیں۔
      لیلتہ القدر مجموعہ ہے دو لفظوں کا یعنی لیل کے معنی شب اور رات کے ہیں اور قدر بمعنی قابل احترام اور عظمت والے کے ہیں مفسرین نے اس رات کو لیلتہ القدر کے نام سے پکارے جانے کے تین وجوہات بیان کی ہیں( ۱) لفظ قدر بمعنی تقدیر کے ہیں اس رمضان کے اگلے رمضان تک تمام مخلوقات کی تقدیر لکھی جاتی ہے اور فیصلے کئے جاتے ہیں( ۲) دوسری وجہ یہ ہیکہ قدر کے ایک معنی عظمت و شرافت کے ہیں چنانچہ جو شخص اس رات آپ صلى الله عليه وسلم کے طریقہ پر عبادت میں گزارے گا وہ خود بھی صاحب قدر ہو جاتا ہے اور اس رات کی عظمت و برکت اس کے اندر سرایت کر جاتی ہے( ۳) تیسری وجہ یہ ہیکہ ایک معنی تنگی کے بھی آتے ہیں اس تنگی سے مراد یہ ہے کہ اس رات فرشتے اس قدر زیادہ اترتے ہیں کہ زمین اپنی وسعت کے با وجود تنگ پڑ جاتی ہے اس لئے اس رات کا نام لیلتہ القدر ہے 
   اس رات کی فضیلت و برکت اور عظمت و احترام احادیث مبارکہ میں متعدد مقامات پر ذکر ہوئی ہیں 
  چنانچہ حدیث میں ہیکہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا “شب قدر حق تعالی نے میری امت کو مرحمت فرمائی جو پہلی امتوں کو نہیں ملی” 
ایک دوسری روایت میں ہیکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی امتوں کی عمروں کو دیکھا کہ لمبی لمبی عمریں ہیں جس میں اس طرح کے کار خیر کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں اور آپ صلى الله عليه وسلم کی امت کی عمریں بہت تھوڑی ہیں اگر یہ نیک اعمال میں برابری کرنا چاہیںتو نہیں کر سکتے اس سے اللہ کے لاڈلے نبی صلى الله عليه وسلم کو رنج ہوا تو اس کی تلافی میں اللہ تعالی نے یہ رات مرحمت فرمائی {مؤطا امام مالک} اور بھی روایات ہیں
  حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک موقع پا کر عرض کیا کہ حضور صلى الله عليه وسلم یہ تو بتلا دیجئے کہ شب قدر عشرہ کے کون سے میں ہوتی ہے حضور صلى الله عليه وسلم اتنے ناراض ہوئے کہ نہ اس سے قبل مجھ پر اتنے خفا ہوئے تھے اور نہ بعد میں ہوئے اور فرمایا کہ اگر اللہ تعالی کا یہ مقصود ہوتا تو بتلا نہ دیتے! اور فرمایا آخر کے سات راتوں میں شب قدر کو تلاش کرو 
    ام المؤمنین  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضور اکرم صلى الله عليه وسلم سے نقل فرماتی ہیں کہ لیلتہ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو 
  جمہور علماء کے نزدیک یہ شب آخری عشرہ کی اکیسویں شب سے شروع ہوتی ہے عام ہیکہ مہینہ ۲۹ تاریخ کا ہو یا ۳۰ کا اس حساب سے حدیث کے مطابق شب قدر کی تلاش ۲۱۲۳۲۵۲۷۲۹` کی راتوں میں کرنا چاہئے اگر یہ مہینہ ۲۹ کا ہو تب بھی آخری عشرہ یہی کہلاتا ہے۔
  لیلتہ القدر میں ایک ایسی ساعت ہے جس میں جو دعا مانگی جائے وہ وہ قبول ہو جاتی ہے چنانچہ مسلمانوں کو چاہئے کہ لیلتہ القدر میں جامع دعا مانگے جو دونوں جہان میں فائدہ بخش ہوں
  بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ پوری رات کا جاگنا تو بڑی مشکل ہے تھوڑی دیر جاگ کر عبادت کرنے کا کیا فائدہ یہ خیال بالکل غلط ہے اگر رات کے اکثر حصے میں جاگنا نصیب ہو جائے تو انشاء اللہ یہ فضیلت حاصل ہو جائیگی 
  اس رات کو پانے کے لئے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم پوری زندگی آخری عشرہ کا اعتکاف کیا کرتے تھے اور اکیلے ہی نہیں بلکہ ان راتوں میں اپنے اہل و عیال کو بھی جگایا کرتے تھے اور فرمایا کہ جو شخص اس شب سے محروم رہا وہ تمام تر نعمتوں اور برکتوں سے محروم رہا
  اس رات کا سب سے بڑا انعام یہ ہیکہ اس رات مغفرت کا وعدہ ہے
  ایک روایت میں ہیکہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ اللہ کے حبیب صلى الله عليه وسلم سے دریافت کیا یا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم! اگر مجھے شب قدر کا پتہ چل جائے تو کیا دعا مانگوں؟ آصلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا! ایے اللہ بیشک تو معاف کرنے والا ہے معافی کو پسند کرتا ہے پس تو مجھے معاف کر دے ﴿ترمذی ابن ماجہ﴾
  لہذا اس رات کی تلاش میں ہم سب کو فکر مند ہونا چاہئے اور اسکو پانے کے لئے محنت و مشقت کرنی چاہئے دنیا میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو مال و دولت اور دنیا کو پانے کے لئے کئی کئی راتیں جاگ جاتے ہیں تو اتنی قیمتی دولت کے لئے اگر ہم چند راتیں جاگنے کا اہتمام کر لیں تو کیا مشکل ہے یہ رات ہر ایمان والے کو یہ پیغام دیتی ہے کہ ایے بندۂ مؤمن خدا کی رحمت اور برکت کو لوٹ لے اور اللہ کی ذات بڑی مہربان اور معاف کرنے والی ہے اسکی ذات رحمت سے نوازنے کے لئے بہانہ ڈھونڈتی ہے.
   لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اس رات میں دعاؤں اور مناجات تلاوت وغیرہ میں اپنے آپ کو مشغول رکھیں اور اس وقت  کرونا وائرس کی شکل میں اللہ کا عذاب جو پوری دنیا پر منڈلا رہا ہے اور خاص طور سے ہمارے ملک ہندوستان میں جو روز بروز فسادات دہشت گردی مذہبی تشدد نفرت تعصب پسندی تنگ ذھنی سے بھری ہوئی سنگین واردات ظاہر ہو رہی ہیں اسکے مد نظر ہمیں چاہئے کہ ہمیں اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر دعاء و استغفار کریں گڑگڑائیں اور اپنے روٹھے رب کو راضی کریں۔
اللہ تعالی اس مبارک گھڑی کی ہمیں قدردانی کی توفیق عطاء فرمائے آمین