أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاٰتَيۡنَا مُوۡسَى الۡـكِتٰبَ وَ جَعَلۡنٰهُ هُدًى لِّبَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِىۡ وَكِيۡلًا ۞

ترجمہ:

اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی اور اس کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت دینے والا بنایا تھے کہ میرے سوا کسی کو کارساز نہ قرار دو ۔

تفسیر:

(بقیہ تفسیر آیت ١)

پھر حضرت سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب رب کی ثنا کرتے ہوئے فرمایا :

الحمدللہ الذی ارسلنی رحمۃ للعالمین وکافۃ للناس بشیرا و نذیرا وانزل علی الفرقان فیہ تبیان کل شیئ و جعل امتی خیر امۃ اخرجت للناس وجعل امتی امۃ وسطا و جعل امتی ھم الاولون وھم الاخرون و شرح صدری ووضع عنی وزری و رفع لی زکری وجعلنی فاتحا و خاتما۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا اور تمام لوگوں کے لیے بشیر اور نذیر بنایا اور مجھ پر قرآن مجید نازل کیا جس میں ہر چیز کا واضح بیان ہے اور میری امت کو تمام امتوں سے بہتر بنایا اور میری امت کو امت وسط بنایا اور میری امت کو امت اول بنایا اور میری امت کو امت آخر بنایا اور میرا سینہ کھول دیا اور مجھ سے بوجھ اتار دیا اور میرا ذکر بلند کیا اور مجھے ابتدا کرنے والا او انتہا کرنے والا بنایا۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کھڑے ہو کر فرمایا انہی فضائل کی وجہ سے تم سب پر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فضیلت دی گئی ہے۔

اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام نبیوں کو نماز پڑھائی، امام بیہقی کی اس روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے، اس کو امام مسلم اور امام نسائی نے روایت کیا ہے۔

امام نسائی حضرت انس سے روایت کرتے ہیں :

ثم دخلت الی بیت المقدس فجمع لی الانبیاء علیھم السلام فقد منی جبرئیل حتی اممتھم۔ پھر میں بیت المقدس میں داخل ہوا، اس میں میرے لیے تمام انبیاء (علیہم السلام) کو جمع کیا گیا پھر حضرت جبریل نے مجھے پکڑ کر ان کے آگے کھڑا کیا اور میں نے سب انبیاء کو نماز پڑھائی۔

امام بیہقی حدیث سابق کے تسلسل میں بیان کرتے ہیں :

آپ نے فرمایا پھر تین برتن لائے گئے جن کے منہ ڈھکے ہوئے تھے آپ کے پاس ایک برتن لایا گیا جس میں پانی تھا آپ سے کہا گیا کہ اس کو پئیں، آپ نے اس میں سے تھوڑا سا پانی پی لیا، پھر ایک اور برتن پیش کیا گیا جس میں دودھ تھا، آپ نے اسے سیر ہو کر پیا، پھر ایک اور برتن پیش کیا گیا جس میں شراب تھی، آپ نے فرمایا میں سیر ہوچکا ہوں اور اس کو پینا نہیں چاہتا، آپ سے کہا گیا آپ نے ٹھیک کیا، آپ کی امت پر عنقریب شراب حرام کردی جائے گی اور اگر آپ (بالفرض) شراب پی لیتے تو آپ کی امت میں سے بہت کم لوگ آپ کی پیروی کرتے اس کے بعد آسمان کی طرف چڑھ گئے۔ (الحدیث بطولہ) (دلائل النبوۃ ج ٢، ص ٤٠١)

اس حدیث کو امام ابن جریر طبری نے سورة اسراء کی تفسیر میں اور امام ابن ابی حاتم نے روایت کیا ہے، امام حاکم نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔

اس حدیث کو حافظ ابن کثیر نے بھی امام ابن جریر کے حوالے سے روایت کیا ہے۔ 

اس حدیث کو حافظ الہیثمی نے امام بزار کے حوالے سے ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس کی سند کے تمام راویوں کی توثیق کی گئی ہے ماسوا ایک راوی کے اور وہ ربیع بن انس ہے۔ (مجمع الزوائد ج ١ ص ٦٧، ٧٣)

(اس حدیث کا بقیہ حصہ انشاء اللہ ہم واقعاتی ترتیب کے مطابق بعد میں ذکر کریں گے۔ )

امام بخاری مالک بن صعصعہ سے روایت کرتے ہیں :

پھر حضرت جبرئیل مجھے لے کر چلے یہاں تک کہ ہم آسمان دنیا پر پہنچے تو حضرت جبریل نے آسمان کا دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا کون ہے ؟ انہوں نے کہا جبریل ہے، پھر آسمانوں سے فرشتوں نے پوچھا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، پوچھا گیا وہ بلائے گئے ہیں ؟ جبریل نے جواب دیا کہ ہاں، کہا گیا کہ انہیں خوش آمدید ہو، ان کا آنا بہت اچھا اور مبارک ہو، دروازل کھول دیا گیا، جب میں وہاں پہنچا تو آدم (علیہ السلام) ملے، جبریل نے کہا یہ آپ کے باپ آدم (علیہ السلام) ہیں، آپ انہیں سلام کیجیے، میں نے سلام کیا، انہوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا خوش آمدید ہو صالح بیٹے اور صالح نبی کو، پھر جبریل (میرے ہمراہ) اوپر چڑھے، یہاں تک کہ دوسرے آسمان پر پہنچے، اور انہوں نے کہا اس کا دروازہ کھولایا، پوچھا کون ؟ انہوں نے کہا جبریل، دریافت کیا گیا تمہارے ہمراہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، پھر پوچھا کہ وہ بلا گئے ہیں ؟ جبریل نے کہا ہاں، اس (دوسرے آسمان کے دربان) نے کہا خوش آمدید ہو، ان کا آنا بہت اچھا اور مبارک ہے۔ یہ کہہ کر دورازہ کھول دیا، پھر جب میں وہاں پہنچا تو وہاں یحی اور عیسیٰ (علیہما السلام) ملے اور وہ دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔ جبریل نے کہا یہ یحییٰ اور عیسیٰ ہیں آپ انہیں سلام کیجیے، میں نے انہیں سلام کیا، ان دونوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا خوش آمدید ہو اخ صالح اور نبی صالح کو، پھر جبریل مجھے تیسرے آسمان پر لے گئے اور اس کا دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا کون ؟ انہوں نے کہا جبریل، جبریل سے دریافت کیا گیا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے بتایا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر دریافت کیا گیا وہ بلائے گئے ہیں ؟ جبریل نے کہا ہاں، اس کے جواب میں کہا گیا انہیں خوش آمدید ہو، ان کا آنا بہت ہی اچھا اور نہایت مبارک ہے اور دروازہ کھول دیا گیا، پھر جب میں وہاں پہنچا تو یوسف (علیہ السلام) ملے، جبریل نے کہا یہ یوسف ہیں انہیں سلام کیجیے میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے سلام کا جواب دیا، پھر انہوں نے کہا خوش آمدید ہو اخ صالح اور نبی صالح کو، اس کے بعد جبریل مجھے چوتھے آسمان پر لے گئے اور اس کا دروازہ کھلوایا پوچھا گیا کون ؟ انہوں نے کہا جبرئیل، پھر دریافت کیا گیا تمہارے ہمرا کون ہے ؟ جبریل نے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، پھر پوچھا گیا وہ بلائے گئے ہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں، چوتھے آسمان کے دربان نے کہا انہیں خوش آمدید ہو، ان کا آنا بہت ہی اچھا اور مبارک ہے اور دروازہ کھول دیا گیا، پھر جب میں وہاں پہنچا تو ادریس ملے، جبریل نے کہا یہ ادریس ہیں انہیں سلام کیجیے، میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے سلام کا جواب دیا اس کے بعد کہا خوش آمدید ہو اخ صالح اور نبی صالح کو۔ پھر جبریل مجھے لے کر اوپر چڑھے، یہاں تک کہ پانچویں آسما تک پہنچے اور انہوں نے دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا کون ؟ انہوں نے کہا جبریل، دریافت کیا گیا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوچھا گیا کیا وہ بلائے گئے ہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں، پانچویں آسمان کے دربان نے کہا انہیں خوش آمدید ہو، ان کا آنا بہت ہی اچھا اور مبارک ہے، پھر جب میں وہاں پہنچا تو ہارون ملے، جبریل نے کہا یہ ہارون ہیں انہیں سلام کیجیے، میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے سلام کا جواب دیا، پھر کہا خوش آمدید ہو اخ صالح کو اور نبی صالح کے لیے۔ پھر جبریل مجھے اوپر چڑھا لے گئے، یہاں تک کہ ہم چھٹے آسمان پر پہنچے، جبریل نے اس کا دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا کون ؟ انہوں نے کہا، جبریل، دریافت کیا گیا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، پوچھا گیا کیا وہ بلائے گئے ہیں انہوں نے کہا، ہاں، اس فرشتے نے کہا انہیں خوش آمدید ہو، ان کا آنا بہت ہی اچھا اور مبارک ہے۔ میں وہاں پہنچا تو موسیٰ ملے، جبریل نے کہا یہ موسیٰ ہیں انہیں سلام کیجیے۔ میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا خوش آمدید ہو اخ صالح کو اور نبی صالح کو۔ پھر جب میں آگے بڑھا تو وہ روئے، ان سے پوچھا گیا آپ روتے کیوں ہیں تو انہوں نے کہا میں اس لیے روتا ہوں کہ میرے بعد ایک مقدس لڑکا مبعوث کیا گیا جس کی امت کے لوگ میری امت سے زیادہ جنت میں داخل ہوں گے۔ پھر جبریل مجھے ساتویں آسمان پر چڑھا لے گئے اور اس کا دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا کون ؟ انہوں نے کہا جبریل، پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، پوچھا گیا کیا وہ بلائے گئے ہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں، تو اس فرشتے نے کہا خوش آمدید ہو ان کا آنا بہت اچھا اور نہایت مبارک ہے، پھر جب میں وہاں پہنچا تو ابراہیم ملے جبریل نے کہا یہ آبا کے باپ ابراہیم ہیں انہیں سلام کیجیے،حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا خوش آمدید ہو ابن صالح اور نبی صالح کو۔

پھر میں سدرۃ المنتہی تک چڑھایا گیا تو اس درخت سدرہ کے پھل مقام ہجر کے مٹکوں کی طرح تھے اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں جیسے تھے، جبریل نے کہا یہ سدرۃ المنتہی ہے اور وہاں چار نہریں تھیں دو پوشیدہ اور دو ظاہر، میں نے پوچھا اے جبریل یہ نہریں کیسی ہیں ؟ انہوں نے کہا ان میں جو پوشیدہ ہیں وہ تو جنت کی نہریں ہیں اور جو ظاہر ہیں وہ نیل و فرات ہیں، پھر بیت المعمور میرے سامنے ظاہر کیا گیا، اس کے بعد مجھے ایک برتن شراب کا اور ایک دودھ کا اور ایک برتن شہد کا دیا گیا، میں نے دودھ کو لے لیا جبریل نے کہا یہی فطرت (دین اسلام) ہے آپ اور آپ کی امت اس پر قائم رہیں گے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٨٨٧)

علامہ نظام الدین نیشاپوری سدرۃ المنتہی کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

فالمنتھی حینئذ موضع لا یتعداہ ملک ولا یعلم ماوراءہ احدوالیہ ینتھی ارواح الشھداء۔ سدرۃ المنتہی وہ جگہ ہے جس سے آگے فرشتے نہیں جاسکتے اور نہ کسی کو یہ علم ہے کہ سدۃ المنتہی کے ماوراء کیا ہے۔ شہداء کی روحیں بھی یہاں تک جاتی ہیں۔

نیز علامہ نیشاپوری لکھتے ہیں :

ان جبریل تخلف عنہ فی مقام لو دنوت انملۃ لاحترقت۔ ایک مقام پر جبریل آپ سے پیچھے رہ گئے (اور کہا) اگر میں ایک پور بھی قریب ہوا تو جل جاؤں گا۔ (غرائب القرآن ج ٦، ص ٢٠٢، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت ١٤١٦ ھ)

علامہ اسماعیل حقی لکھتے ہیں :

وھو مقام جبریل وکان قد بقی ھناک عند عروجہ (علیہ السلام) الی مستوی العرش و قال لو دونت انملۃ لاحترقت۔ یہ مقام جبریل ہے جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرش کی جانب عروج فرمایا تو حضرت جبریل وہیں رہ گئے اور کہا اگر میں ایک پور کے برابر بھی قریب ہوا تو جل جاؤں گا۔ (روح البیان ج ٩ ص ٢٢٤، مطبوعہ کوئٹہ)

ملا علی قاری لکھتے ہیں :

عن الحسن قال فارقنی جبریل ای فی مقام قرب الجلیل وقال لو دنوت انملۃ لاحترقت۔ حسن بصری روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : رب جلیل کے قرب کے مقام میں حضرت جبریل مجھ سے الگ ہوگئے اور کہا اگر میں ایک پور کے برابر بھی قریب ہوا تو جل جاؤں گا۔ (شرح الشفاء ج ١، ص ١٢٦، بیروت)

ملا عبدالوہاب شعرانی، شیخ محی الدین ابن عربی سے نقل کرتے ہیں :

پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سدرۃ المنتہی کی طرف عروج کرایا گیا اس کے پھل مٹکوں کے برابر تھے اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح تھے، آپ نے اس کو دیکھا درآنحالیکہ اس کو اللہ کی طرف سے نور نے ڈھانپ رکھا تھا اور کوئی شخص اس کی کیفیت بیان کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، کیونکہ شدت نور کی وجہ سے آنکھ اس کا ادراک نہیں کرسکتی، آپ نے دیکھا سدرہ کی جڑ سے چار دریا نکل رہے ہیں، دو دریا ظاہری تھے اور دو دریا باطنی تھے، آپ کو حضرت جبریل نے بتایا کہ ظاہری دریا نیل اور فرات ہیں اور باطنی دریا جنت کی طرف جارہے ہیں اور نیل اور فرات بھی قیامت کے دن جنت میں چلے جائیں گے اور یہ جنت میں شہد اور دودھ کے دریا ہوں گے۔ شیخ ابن عربی نے کہا ان دریاؤں سے پینے والوں کو مختلف قسم کے علوم حاصل ہوتے ہیں اور بتایا کہ بنو آدم کے اعمال سدرۃ المنتہی کے پاس رک جاتے ہیں اور یہ روحوں کی جائے قرار ہے، اوپر سے جو چیزیں نیچے نازل ہوتی ہیں یہ ان کی انتہا ہے اوپر سے کوئی چیز نیچے نہیں جاسکتی، اور جو چیزیں نیچے سے اوپر جاتی ہیں یہ ان کی بھی انتہا ہے، نیچے سے کوئی چیز اس کے اوپر نہیں جاسکتی، اور یہیں پر حضرت جبریل کی جائے قیام ہے۔ اس جگہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) براق سے اترے اور آپ کے لیے رفرف (سبز رنگ کا تخت) لایا گیا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رفرف پر بیٹھے اور جبریل نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رفرف کے ساتھ نازل ہونے والے فرشتے کے سپرد کردیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبریل سے آگے چلنے کا سوال کیا تاکہ آپ کو ان کی وجہ سے انسیت رہے، حضرت جبریل نے کہا میں اس پر قادر نہیں ہوں، اگر میں ایک قدم بھی چلا تو جل جاؤں گا، ہم میں سے ہر فرشتے کے لیے ایک معروف جائے قیام ہے، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ نے یہ سیر آپ کو اس لیے کرائی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی نشانیاں دکھائے، آپ اس سے غافل نہ ہوں، پھر حضرت جبریل نے آپ کو الوداع کہا اور آپ اس فرشتے کے ساتھ روانہ ہوئے، رفرف آپ کو لے کر روانہ ہوا حتی کہ آپ مقام استوا پر پہنچے جہاں آپ نے صریف اقلام (قلم چلنے) کی آواز سنی اور اقلام الواح میں اللہ تعالیٰ کے ان احکام کو لکھ رہے تھے جو اللہ اپنی مخلوق کے متعلق جاری فرماتا ہے اور ملائکہ جو بندوں کے اعمال لکھتے ہیں اور ہر قلم ایک فرشتہ ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم جو کچھ عمل کرتے ہو ہم اس کو لکھ رہے ہیں، پھر آپ نور میں تیزی سے دوڑے اور جو فرشتہ آپ کے ساتھ تھا وہ پیچھے رہ گیا جب آپ نے اپنے ساتھ کسی کو نہ دیکھا تو آپ گھبرائے اور عالم نور میں آپ حیران و پریشان تھے اور آپ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آپ کیا کریں، اب فرشتہ تھا نہ رفرف تھا آپ کے ہر طرف نور تھا اور آپ عالم وجد میں دائیں بائیں جھوم رہے تھے، اس وقت آپ نے دیدار کی اجازت طلب کی تاکہ اپنے رب کے حضور خاص میں داخل ہوں تب حضرت ابوبکر کی آواز سے مشابہ ایک آوازئی :

قف یا محمد فان ربک یصلی۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٹھہرئیے آپ کا رب صلوۃ پڑھتا ہے۔

آپ اس آواز سے متعجب ہوئے اور دل میں سوچا کہ کیا میرا رب نماز پڑھ رہا ہے ؟ جب آپ کے دل میں تعجب پیدا ہوا اور آپ ابوبکر کی آواز سے مانو ہوئے تو آپ پر اس آیت کی تلاوت ہوئی : 

ھو الذی یصلی علیکم وملائکتہ۔ وہ جو تم پر صلوۃ پڑھتا ہے اور اس کے فرشتے صلوۃ پڑھتے ہیں۔

تب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذہن اس طرف متوجہ ہو اس سے مراد نماز نہیں بلکہ اس سے اللہ کی رحمت کا نزول مراد ہے۔

پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس حضرت شریفہ میں داخل ہونے کا اذن ملا، اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر وحی نازل کی جو وحی نازل کرنی تھی اور آپ کی آنکھ نے وہ جلوہ دیکھا جس کو آپ کے علاوہ اور کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ (الیواقت والجواہر ج ٢، ص ٣٦٦، ٣٦٧، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٨ ھ)

امام بیہقی حضرت ابوہریرہ کی سابق طویل حدیث کے آخر میں روایت کرتے ہیں :

اس وقت اللہ تعالیٰ آپ سے ہمکلام ہوا اور فرمایا مانگیئے، آپ نے عرض کیا : تو نے حضرت ابراہیم کو خلیل اللہ بنایا اور ان کو ملک عظیم عطا فرمایا اور تو نے حضرت موسیٰ سے کلام کیا، اور تو نے حضرت داؤد کو ملک عظیم عطا فرمایا اور ان کے لیے لوہے کو نرم کردیا اور پہاڑوں کو مسخر کردیا، اور تو نے حضرت سلیمان کو ملک عظیم عطا فرمایا اور ان کے پہاڑوں، جنوں، انسانوں، شیطانوں اور ہواؤں کو مسخر کردیا، اور ان کو اتنی عظیم سلطنت دی جو ان کے بعد اور کسی کے لائق نہیں ہے اور تو نے حضرت عیسیٰ کو توریت اور انجیل کا علم عطا فرمایا اور انہیں مادر زاد اندھوں اور برص کے مریضوں کے لیے شفا دینے والا بنادیا اور وہ تیری اجازت سے مردوں کو زندہ کرتے تھے اور تو نے ان کو اور ان کی والدہ کو شیطان سے اپنی پناہ میں رکھا۔ تب آپ کے رب نے فرمایا : میں نے آپ کو اپنا خلیل بنایا اور توارت میں لکھا ہوا ہے کہ وہ خلیل الرحمن ہیں اور تمام لوگوں کی طرف آپ کو بشیر و نذیر بنا کر بھیجا اور آپ کا شرح صدر کیا وار آپ سے بوجھ دور کردیا اور آپ کے ذکر کو بلند کیا، جب بھی میرا ذکر کیا جاتا ہے اس کے ساتھ آپ کا ذکر ہوتا ہے۔ (یعنی اذا وغیرہ میں) اور آپ کی امت تمام امتوں سے بہتر بنائی گئی اور آپ کی امت امت عادلہ بنائی گئی اور آپ کی امت کو اول اور آخر بنایا گیا، اور آپ کی امت کے بعض لوگوں کے دلوں میں آپ کی کتاب رکھی گئی اور ان کا کوئی خطبہ اس وقت تک درست نہیں ہوگا جب تک وہ آپ کے عبد اور رسول ہونے کی گواہی نہ دیں، اور میں نے آپ کو ازروئے خلق کے تمام انبیاء میں اول اور از روئے بعثت کے تمام انبیا ٤ میں آخر بنایا اور آپ کو سبع مثانی ( سورة فاتحہ) اور سورة بقرہ کی آیات عرش کے خزانے کے نیچے سے دی ہیں جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیں، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے رب نے مجھے فضیلت دی مجھ کو رحمت للعالمین بنایا، تمام انسانوں کے لیے بشیر اور نذیر بنایا، میرے دشمنوں کے دل میں ایک ماہ کی مسافت سے میرا رعب ڈال دیا، میرے لیے مال غنیمت کو حلال کردیا، جو مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا، اور تمام روئے زمین کو میرے لیے مسجد اور تیمم کا ذریعہ بنایا اور مجھے کلام کے فواتح، خواتم اور جوامع عط اکیے اور اور مجھ پر تمام امت کو پیش کیا گیا اور اب امت کا کوئی فرد مجھ پر مخفی نہیں ہے خواہ وہ تابع ہو یا متبوع، پھر مجھ پر پچاس نمازیں فرض کی گئیں اور میں حضرت موسیٰ کے پاس لوٹا۔ (دلائل النبوۃ ج ٢، ص ٤٠٢، ٤٠٣)

امام بخاری روایت کرتے ہیں :

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساتویوں آسمان سے اوپر سدرۃ المنتہی پر پہنچے اور جبار رب العزت آپ کے نزدیک ہوگیا اور قریب ہوا حتی کہ وہ آپ سے دو کمانوں کی مقدار برابر ہوگیا یاس سے بھی زیادہ نزدیک ہوگیا، پھر اللہ تعالیٰ جو آپ پر وحی نازل کرتا ہے اس نے آپ پر وہ وحی نازل کی اور آپ کی امت پر دن اور رات میں پچاس نمازیں فرض کردیں، پھر آپ نیچے اترے حتی کہ حضرت موسیٰ تک پہنچے، حضرت موسیٰ نے آپ کو روک لیا اور کہا یا محمد ! آپ کے رب نے آپ کو کیا حکم دیا ؟ آپ نے فرمایا اس نے مجھ کو ہر روز (دن اور رات میں) پچاس نمازیں پڑھنے کا حکم دیا ہے، حضرت موسیٰ نے فرمایا آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی، آپ واپس جایئے تاکہ آپ کا رب آپ کی امت سے تخفیف کردے، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت جبریل کی طرف متوجہ ہوئے، گویا اس معاملہ میں ان سے مشورہ لیتے تھے، حضرت جبریل نے کہا ٹھیک ہے اگر آپ پسند کریں تو، آپ پھر حضرت جبار میں پہنچے اور آپ نے اسی پہلے مقام پر پہنچ کر عرض کیا : اے ہمارے رب ! ہمارے لیے تخفیف کردے کیونکہ میری امت اتنی نمازوں کی طاقت نہیں رکھتی، تب اللہ تعالیٰ نے دس نمازیں کم کردیں، پھر آپ حضرت موسیٰ کے پاس پہنچے حضرت موسیٰ نے آپ کو پھر روک لیا، پھر حضرت موسیٰ آپ کو بار بار آپ کے رب کے پاس بھیجتے رہے حتی کہ پانچ نمازیں رہ گئیں، حضرت موسیٰ نے آپ کو پانچ نمازوں پر پھر روک لیا اور کہا یا محمد ! خدا کی قسم میں اپنی قوم بنو اسرائیل کا اس سے کم نمازوں میں تجربہ کرچکا ہوں، وہ پانچ سے کم نمازیں بھی نہ پڑھ سکے اور ان کو ترک کردیا آپ کی امت کے اجسام، ابدان، قلوب، آنکھیں، اور کان تو ان سے زیادہ کمزور ہیں، آپ پھر جایئے اور اپنے رب سے تخفیف کرایئے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر بار حضرت جبریل کی طرف متوجہ ہوتے تھے تاکہ وہ آپ کو مشورہ دیں اور حضرت جبریل نے اس کو ناپسند نہیں کیا اور آپ پانچویں پر پھرگئے اور عرض کیا اے میرے رب ! میری امت کے جسم، دل، کان، اور بدن کمزور ہیں آپ ہم سے تخفیف کردیجیے، جبار نے فرمایا : یا محمد ! آپ نے فرمایا لبیک وسعدیک، اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے لوح محفوظ میں جس طرح لکھ دیا ہے میرے اس قول میں تبدیلی نہیں ہوتی، ہر نیکی کا دس گنا اجر ہے، پس یہ لوح محفوظ میں پچاس نمازیں ہیں اور آپ پر پانچ نمازیں فرض ہیں، آپ حضرت موسیٰ کی طرف لوٹے حضرت موسیٰ نے پوچھا آپ نے کیا کیا، آپ نے فرمایا ہمارے رب نے تخفیف کردی ہے اور ہمارے لیے ہر نیکی کا اجر دس گنا کردیا، حضرت موسیٰ نے فرمایا خدا کی قسم ! میں بنو اسرائیل کا اس سے کم نمازوں میں تجربہ کرچکا ہوں، انہوں نے اس سے کم نمازوں کو بھی ترک دیا تھا، آپ پھر اپنے رب کے پاس جایئے اور ان نمازوں میں بھی کمی کرایئے، آپ نے فرمایا اے موسیٰ ! بہ خدا مجھے اپنے رب سے حیا آتی ہے، پھر اسی رات آپ واپس آکر مسجد حرم میں سوگئے اور صبح بیدار ہوئے۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث : ٧٥١٧)

امام بیہقی روایت کرتے ہیں :

حضرت ابو سعید خدری ایک طویل حدیث کے آخر میں بیان کرتے ہیں، معراج کی صبح کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ کو ان عجائبات کی خبر دی، آپ نے فرمایا میں گزشتہ راست بیت المقدس گیا اور مجھے آسمان کی معراج کرائی گئی اور میں نے فلاں فلاں چیز دیکھی، ابو جہل بن ہشام نے کہا کیا تم کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتوں پر تعجب نہیں ہوتا ان کا دعوی ہے کہ یہ گزشتہ رات بیت المقدس گئے اور صبح کو یہاں ہمارے ساتھ ہیں حالانکہ ہم میں سے ایک شخص ایک ماہ کی مسافت طے کر کے بیت المقدس پہنچتا ہے اور پھر ایک ماہ کی مسافت طے کر کے یہاں واپس پہنچتا ہے، تو یہ آنا اور جانا دو ماہ میں طے ہوتا ہے، اور ایک رات میں جاکر واپس آگئے ؟ پھر آپ نے ان کو قریش کے قافلہ کی خبر دی اور فرمایا میں نے جاتے وقت اس قافلہ کو فلاں فلاں جگہ دیکھا ہے اور جب میں واپس لوٹا تو میں نے اپنے اس قافلہ کو فلاں گھاٹی کے پاس دیکھا ہے، پھر آپ نے قافلہ میں جانے والے ہر شخص اور اس کے اونٹ کی خبر دی کہ وہ اونٹ اس طرح تھا اور اس پر فلاں فلاں سامان لدا ہوا تھا، ابو جہل نے کہا انہوں نے ہمیں کئی چیزوں کی خبر دی ہے، پھر مشرکین میں سے ایک شخص نے کہا مجھے بیت المقدس کی عمارت اور اس کی ہیئت اور اس کی کیفیت کا سب سے زیادہ علم ہے، اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دعوے میں سچے ہیں تو اس کا ابھی پتہ چل جائے گا پھر اس مشرک نے کہا، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے بیت المقدس کا سب سے زیادہ علم ہے، آپ مجھے اس کی عمارت، اس کی ہیئت اور پہاڑ سے اس کے قرب کے متعلق بتایئے ؟ تب اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو اٹھا کر آپ کے سامنے رکھ دیا، پھر جس طرح ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں آپ اس طرح دیکھ کر بیت المقدس کے متعلق بیان فرما رہے تھے، آپ نے بتایا کہ اس اس طرح اس کی عمارت ہے اور اس کی اس اس طرح ہیئت ہے اور وہ پہاڑ کے اس اس طرح قریب ہے، اس نے کہا آپ نے سچ کہا، پھر وہ اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دعوے میں سچے ہیں۔ (دلائل النبوۃ ج ٢، ص ٣٩٥، ٣٩٦)

اس حدیث کو امام ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر میں روایت کیا ہے، امام ابن ابی حاتم نے بھی اس کو روایت کیا ہے اور حافظ ابن کثیر نے بھی اس کا امام ابن جریر کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔

امام بیہقی روایت کرتے ہیں :

اسماعیل بن عبدالرحمن قرشی بیان کرتے ہیں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج کرائی گئی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی قوم کو فافلہ کی علامتوں کی خبر دی، تو انہوں نے کہا یہ قافلہ کب آئے گا ؟ آپ نے فرمایا یہ قافلہ بدھ کو آئے گا، پھر بدھ کے دن قریش صبح سے قافلہ کے انتظار میں بیٹھے رہے، حتی کہ دن غروب ہونے لگا اور قافلہ نہیں آیا تب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی تو دن بڑھا دیا گیا اور سورج کو روک دیا گیا، اور سورج کو صرف اس دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے روکا گیا تھا یا حضرت یوشع بن نون کے لیے جب جمعہ کے دن انہوں نے جبارین سے جہاد کیا تھا اور ان کے فارغ ہونے سے پہلے سورج غروب ہونے لگا تو انہوں نے دعا کی کہ سورج کو موخر کردیا جائے کیونکہ ہفتہ کے دن ان کے لیے جنگ کرنا جائز نہ تھا۔ (دلائل النبوۃ، ج ٢، ص ٤٠٤)

علامہ زرقانی لکھتے ہیں :

بعض روایات میں ہے کہ قافلہ بدھ کے دن نصف النھار کے وقت آگیا تھا یہ روایت اس کے خلاف ہے، لیکن حقیقت میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ آپ تین قافلوں کے پاس سے گزرے تھے، اور مشرکین میں سے ہر ایک نے اپنے قافلہ کے متعلق پوچھا تھا ان میں سے ایک قافلہ بدھ کی دوپہر کو آگیا تھا اور یہ قافلہ بدھ کی شام کو پہنچا تھا۔ (شرح المواہب الدنیہ ج ٢، ص ١٢٦، مطبوعہ دار الفکر بیروت)

امام بخاری روایت کرتے ہیں : 

حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب قریش نے میری تکذیب کی تو میں میزاب کعبہ کے نیچے کھڑا ہوگیا اللہ تعالیٰ نے میرے لیے بیت المقدس کو منکشف کردیا، پھر میں بیت المقدس کو دیکھ دیکھ کر انہیں اس کی علامات کی خبر دیتا رہا۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث : ٥٨٨٧)

حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں :

امام محمد بن اسحاق اپنی سند کے ساتھ حضرت ام ہانی سے روایت کرتے ہیں کہ جس رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج ہوئی، اس رات آپ میرے گھر میں سوئے ہوئے تھے، پھر اس رات میں نے آپ کو وہاں موجود نہ پایا، پھر آپ نے معراج کا پورا واقعہ بیان فرمایا اور فرمایا میرا ارادہ ہے کہ میں قریش کو بتلاؤں کہ میں نے اس رات کیا کیا دیکھا ہے، میں نے آپ کا دامن پکڑ لیا اور کہا اگر آپ اپنی قوم کے پاس گئے تو وہ آپ کا انکار کریں گے اور آپ کی تکذیب کریں گے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا دامن چھڑا کر اپنی قوم کے پاس تشریف لے گئے، آپ نے ان کے پاس جاکر ان کو واقعہ معراج کی خبر دی، جبیر بن مطعم نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر واقعہ تم اس رات وہاں گئے ہوتے تو اس وقت ہمارے پاس نہ ہوتے، ایک شخص نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ نے فلاں فلاں جگہ ہمارے اونٹوں کو دیکھا تھا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں بخدا میں نے دیکھا ان کا ایک اونٹ گم ہوگیا تھا اور وہ اس کو ڈھونڈ رہے تھے، اس شخص نے کہا کیا آپ بنو فلاں کے اونٹوں کے پاس سے گزرے تھے ؟ آپ نے فرمایا ہاں، میں نے ان کو فلاں فلاں جگہ دیکھا، ان کی سرخ رنگ کی اونٹنی کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی، ان کے پاس پیالے میں پانی تھا جس کو میں نے پی لیا، اس نے کہا اچھا بتایئے ان کی اونٹنیاں کتنی تھیں اور ان کے چرواہے کون کون تھے ؟ آپ نے فرمایا میں نے اس وقت ان کی گنتی کی طرف توجہ نہیں کی تھی تو اسی وقت وہ اونٹ اور ان کے چرواہے آپ کے پاس حاضر کردیئے گئے، آپ نے اونٹوں کو گن لیا اور ان کے چراہوں کو جان لیا، پھر آپ نے قریش سے فرمایا تم نے مجھ سے بنو فلاں کے اونتوں کی تعداد اور ان کے چراہوں کی گنتی کے متعلق پوچھا تھا، سون ان کے اونٹوں کی تعداد اتنی ہے اور ان کے فلاں فلاں چرا ہے ہیں، اور ان میں ابو قحافہ کے بیٹے (حضرت ابوبکر) کے بھی چرا ہے ہیں، اور صبح یہ اونٹ وادی ثنیہ میں پہنچ جائیں گے، وہ لوگ صبح وادی ثنیہ دیکھنے کے لیے پہنچ گئے کہ آیا آپ نے سچ فرمایا ہے یا نہیں ؟ سو وہ اونٹ آگئے، ان لوگوں نے اونٹ والوں سے پوچھا کیا تمہارا کوئی اونٹ گم ہوگیا تھا، انہوں نے کہا ہاں، پھر دوسرے سے پوچھا کیا تمہاری سرخ اونٹنی کی ٹانگ ٹوٹی تھی، انہوں نے کہا ہاں، پھر انہوں نے پوچھا کیا تمہارے پاس پیالہ تھا ؟ حضرت ابوبکر نے کہا بخدا میں نے وہ پیالہ رکھا تھا اس سے کسی نے پانی پیا تھا نہ کسی نے اس پانی کو زمین پر گرایا تھا (اور وہ پانی ختم ہوگیا تھا) حضرت ابوبکر نے کہا میں اس کی تصدیق کرتا ہوں، پھر اسی دن حضرت ابوبکر کا لقب صدیق ہوگیا۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٣، ص ٢٥، ٢٦، مطبوعہ دار الفکر بیروت، ١٤١٩ ھ)

امام ابن ابی حاتم نے اپنی سند کے ساتھ حضرت انس بن مالک سے روایت کیا ہے (اس روایت کے آخر میں ہے) صبح کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین کے سامنے واقعہ معراج سنایا، وہ لوگ حضرت ابوبکر کے پاس گئے اور کہا اے ابوبکر ! تمہارے پیغمبر یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ گزشتہ رات ایک ماہ کی مسافت کا سفر کر کے واپس لوٹ آئے ہیں، اب بولو کیا کہتے ہو ؟ حضرت ابوبکر نے کہا اگر واقعہ آپ نے یہ فرمایا ہے تو سچ فرمایا ہے اور میں اس کی تصدیق کرتا ہوں، اور میں تو اس سے زیادہ بعید باتوں میں آپ کی تصدیق کرتا ہوں، آپ آسمان سے آنے والی خبریں بیان کرتے ہیں اور میں ان کی تصدیق کرتا ہوں، مشرکین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا آپ کے دعوی پر کیا دلیل ہے ؟ آپ نے فرمایا میں فلاں فلاں جگہ پر قریش کے قافلہ کے پاس سے گزرا تھا، مجھے دیکھ کر ایک اونٹ بدک کر بھاگا اور چکر لگانے لگا اور اس قافلہ میں ایک اونٹ تھا جس پر سیاہ اور سفید رنگ کی دو بوریاں لدی ہوئی تھیں وہ گرپڑا اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی، جب قافلہ واپس آیا تو انہوں نے قافلے والوں سے پوچھا تو انہوں نے اسی طرح بیان جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمایا تھا اور اسی دن سے حضرت ابوبکر کا نام صدیق پڑگیا۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٣، ص ٨، ٩، مطبوعہ دار الفکر بیروت، ١٤١٩ ھ)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی اور اس کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت دینے والا بنایا تھا کہ میرے سوا کسی کو کارساز نہ قرار نہ دے۔ (اے) ان لوگوں کی اولاد جن کو ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا بیشک وہ بہت شکر گزار بندے تھے۔ (بنی اسرائیل : ٢، ٣)

اللہ کے سوا کسی اور کو وکیل نہ بنانے کا معنی :

سورة بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا تھا کہ اس نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج کی فضیلت عطا فرمائی اور اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ پر تورات نازل فرما کر ان کو فضیلت عطا فرمائی، پھر تورات کے متعلق یہ فرمایا کہ ہم نے تورات کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت دینے والا بنایا تھا، یعنی تورات ہی بنو اسرائیل کو جہالت اور کفر کے اندھیروں سے نکال کر علم اور دین حق کیر وشنی کی طرف لے جانے والی تھی۔

اس کے بعد فرمایا کہ تورات کی ہداتی یہ تھی کہ تم میرے سوا کسی کو کارساز نہ قرار دو یعنی تم اپنے معامالت میں اللہ کے سوا کسی اور پر بھروسہ نہ کرنا، اور غیر اللہ پر اعتماد نہ کرنا ہی توحید ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معراج کے بعد اس کا ذکر فرمایا اس کا حاصل یہ ہے کہ بندہ کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی مرتبہ اور کوئی معراج نہیں ہے کہ وہ بحر توحید میں اس طرح مستغرق ہوجائے کہ وہ اپنے تمام مقاصد اور تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر توکل نہ کرے، اگر وہ زبان سے کچھ بولے تو اللہ تعالے کے متعلق بات کرے، اگر وہ کچھ سوچے اور غور و فکر کرے تو اللہ تعالیٰ کی صٖفات کے متعلق سوچے اور غور وفکر کرے یہ سوچے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کتنی عظیم اور کتنی کثیر نعمتیں عطا کی ہیں، اور اس نے ان نعمتوں کی کتنی ناشکری کی ہے، اس کی اطاعت کرنے کی بجائے کتنے گناہ کیے، پھر اپنی تقصیر اور کوتاہی پر نادم اور شرمسار ہو اور اشک ندامت بہائے، اگر اسے کسی چیز کی طلب ہو تو صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کرے، اور اگر کسی چیز سے پناہ مانگنی ہو تو صرف اللہ سے پناہ مانے اور اپنی کل اغراض اور مطالب کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرے اور جب اللہ کے سوا اور کسی پر اس کی نظر نہیں ہوگی اور صرف اس کی ذات ہی اس کا مطمح نظر ہوگی تو پھر یہ معنی صادق آئے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اپنا وکیل نہیں بنانا۔

علامہ المبارک بن محمد ابن الاثیر الجزری المتوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک اسم وکیل ہے، اس کا معنی ہے جو بندوں کے رزق کا کفیل اور ضامن ہے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے والا ہے، اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ جس چیز میں اس پر توکل کیا گیا ہے وہ اس کو مہیا کرنے میں مستقل ہے۔ (النہایہ ج ٥، ص ١٩١، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ)

سید محمد مرتضی زبیدی متوفی ١٢٠٥ ھ لکھتے ہیں :

لغت میں توکل کا معنی ہے کسی کام میں اپنے عجز کا اظہار کر کے غیر پر اعتماد کرنا اور اہل حقیقت کے نزدیک اس کا معنی ہے ہر چیز میں اللہ تعالیٰ پر اعتماد کرنا اور لوگوں کے پاس جو کچھ ہے س سے مایوس ہونا، اور المتوکل علی اللہ اس کو کہا جاتا ہے جس کو یہ یقین ہو کہ اس کے رزق اور اس کی تمام ضروریات کا اللہ تعالیٰ کفیل اور ضامن ہے سو وہ اسی کی طرف رجوع کرے اور اس کے غیر پر توکل نہ کرے۔ (تاج العروس ج ٨ ص ١٦٠، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت)

حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مصیبت زدہ شخص کی یہ دعائیں ہیں : اے اللہ ! میں تیری ہی رحمت کی امیدر کھتا ہوں سو تو مجھے پلک جھپکنے کے لیے بھی میرے حوالے نہ کر، اور میرے تمام کاموں کو ٹھیک کردے تیرے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٥٠٩٠)

حضرت نوح (علیہ السلام) کا بہت شکر گزار ہونا :

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : بیشک وہ بہت شکر گزار بندے تھے۔

ان دونوں آیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ تم میرے سوا کسی کو وکیلل نہ بناؤ اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، کیونکہ نوح (علیہ السلام) بہت شکر گزار بندے تھے اور وہ اس لیے بہت شکر کرتے تھے کہ کیونکہ وہ موحد تھے اور ان کو جو نعمت بھی ملتی تھی اس کے متعلق ان کو یہ یقین تھا کہ وہ نعمت اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے عنایت فرمائی ہے، اور تم سب لوگ نوح (علیہ السلام) کی اولاد ہو سو تم بھی ان کی اقتدا کرو، اللہ کے سوا کسی کو معبود نہ بناؤ اور اس کے سوا اور کسی پر توکل نہ کرو، اور ہر نعمت پر اس کا شکر ادا کرو۔

حضرت نوح (علیہ السلام) کے بہت شکر گزار ہونے کے متعلق حسب ذیل احادیث ہیں :

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری اپنی سند کے ساتھ راویت کرتے ہیں :

سلمان بیان کرتے ہیں کہ حضرت نوح (علیہ السلام) جب کپڑے پہنتے یا کھانا کھاتے تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے اس وجہ سے ان کو عبد شکور فرمایا۔ ، (جامع البیان رقم الحدیث : ١٦٦٣٦)

سعد بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ حضرت نوح نے جب بھی کوئی نیا کپڑا پہنا یا کوئی کھانا کھایا تو اللہ تعالیٰ کی حمد کی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو عبد شکور فرمایا۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٦٦٣٧)

عمران بن سلیم بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کو اس لیے عبد شکور فرمایا کہ جب وہ کھانا کھاتے تو یہ دعا کرتے : تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے طعام کھلایا اور اگر وہ چاہتا تو مجھے بھوکا رکھتا، اور جب لباس پہنتے تو یہ دعا کرتے : تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے مجھے لباس پہنایا اور اگر وہ چاہتا تو مجھے برہنہ رکھتا، اور جب جوتی پہنتے تو دعا کرتے تمام تعریفیں اللہ عزوجل کے لیے ہیں جس نے مجھے جوتی پہنائی اور اگر چاہتا تو مجھے ننگے پیر رکھتا، اور قضا حاجت کرتے تو یہ دعا کرتے کہ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے ہے ہیں جس نے مجھ سے یہ گھن والی چیز دور کی اور اگر وہ چاہتا تو اس کو روک لیتا۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٦٦٣٩)

حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حضرت نوح (علیہ السلام) جب بھی بیت الخلا سے فارغ ہوتے تو یہ دعا کرتے : تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے جس نے مجھے کھانے کی لذت چکھائی اور اس کی افادیت میرے جسم میں باقی رکھی اور اس کا فضلہ مجھ سے نکال باہر کیا۔ (کتاب الشکر لابن ابی الدنیا، رقم الحدیث : ١٢٤، کتاب الخراطی، باب الشکر رقم الحدیث : ٢١، لا اتحاف ج ٢، ص ٣٤٠ )

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء آیت نمبر 2