وَلَـقَدۡ جَآءَهُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡهُمۡ فَكَذَّبُوۡهُ فَاَخَذَهُمُ الۡعَذَابُ وَهُمۡ ظٰلِمُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 16 النحل آیت نمبر 113
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَلَـقَدۡ جَآءَهُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡهُمۡ فَكَذَّبُوۡهُ فَاَخَذَهُمُ الۡعَذَابُ وَهُمۡ ظٰلِمُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اور ان کے پاس ان ہی میں سے ایک رسول آیا تو انہوں نے اس کی تکذیب کی سو ان کو عذاب نے آپکڑا درآنحالیکہ وہ ظلم کرنے والے تھے۔
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ان کے پاس ان ہی میں سے ایک رسول آیا تو انہوں نے اس کیتکذیب کی سو ان کو عذاب نے آپکڑا درآنحالیکہ وہ ظلم کرنے والے تھے۔ سو اللہ کے دیئے ہوئے حلال طیب رزق میں سے کھاؤ اور اللہ کی نعمت کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی عبادت کرتے ہو۔ (النحل : ١١٣، ١١٤)
اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کے لیے مثال دی تھی کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے نعمتیں دی ہوں اور وہ ان نعمتوں کی ناشکری کریں تو اللہ ان لوگوں پر بھوک اور خوف مسلط کردیتا ہے اور اس آیت میں ان لوگوں یعنی اہل مکہ سے خطاب فرمایا ہے جس کے لیے یہ مثال دی تھی فرمایا : اے اہل مکہ ! تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے جو تمہاری ہی قوم کا ایک عظیم اور کامل فرد ہے جس کے حسب و نسب کو تم پہچانتے ہو اور اس کی گزاری ہوئی زندگی سے تم واقف ہو۔ پھر مکہ والوں نے اس رسول کی تکذیب کی تو اللہ کے عذاب نے ان کو گرفت میں لے لیا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا اس سے مراد بھوک کا عذاب ہے، یعنی تم پر جو قحط اور بھوک کا عذاب آیا ہے وہ تمہارے کفر کے سبب سے ہے، تم کفر کو ترک کردو تو تم سے قحط کے اس عذاب کو دور کردیا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تم اللہ کے دیئے ہوئے حلال طیب رزق سے کھاؤ۔
امام عبدالرحمن جوزی نے فرمایا اس کی دو تفسیریں ہیں : جمہور مفسرین نے کہا اس آیت کے مخاطب مسلمان ہیں۔ اور فرا وغیرہ نے کہا اس آیت کے مخاطب اہل مکہ اور مشرکین ہیں۔ جب اہل مکہ کی بھوک بہت بڑھ گئی تو ان کے سرداروں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا اگر آپ کو مردوں سے دشمنی ہے تو عورتوں اور بچوں کا کیا قصور ہے ؟ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو اجازت دی کہ ان کے پاس غلہ لے جائیں۔ (زاد المسیر ج ٤ ص ٥٠١، مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت، ١٤٠٧ ھ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل آیت نمبر 113