زکوٰۃ کا پس منظر اور چند اہم مسائل
sulemansubhani نے Sunday، 17 May 2020 کو شائع کیا.
زکوٰۃ کا پس منظر اور چند اہم مسائل
تحریر: محمد ہاشم اعظمی مصباحی
زکوٰۃ نماز کے بعد اسلام کا اہم ترین رکن ہے جو ہر مسلمان، عاقل، بالغ ،آزاد ایسا مالک نصاب جس کے مال پر پورا سال گذر جائے تو اس پر زکوٰة فرض ہے، نصاب سے مراد یہ ہے کہ ساڑھے سات تولہ سونا ہو یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا دونوں کی مالیت کے برابر یا ایک کی مالیت کے برابر نقدی ہو یا سامانِ تجارت ہو سب ملا کر یا ان میں سے بعض ملا کر مجموعی مالیت چاندی کے نصاب کے برابر بنتی ہو۔ (ہندیہ ص 171-172 ج1)
*زکوٰۃ کا معنی ومفہوم*:
لغوی اعتبار سے زکوٰۃ کا لفظ دو معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔(1) پاکیزگی، طہارت اور پاک ہونا یا کرنا(2)نشوونما اور ترقی (المعجم الوسيط، 1 : 396) زکوٰۃ کے اول الذکر معنی کی وضاحت قرآن مجید یوں کرتا ہے :قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَا ( الشمس،9) بے شک وہ مراد کو پہونچا جس نے اسے ستھرا کیا ( کنزالایمان )
اس آیۂ کریمہ کی روشنی میں دنیوی و اخروی کامیابی کے لئے طہارت و تزکیۂ نفس کا جو تصور پیش کیا گیا ہے اسے مدِ نظر رکھنے سے زکوٰۃ کا اطلاق راہِ خدا میں خرچ کیے جانے والے اس مال پر ہوتا ہے جو دولت کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک کرتا ہے اور جس طرح نفس کو آلائشوں سے پاک کیا جاتا ہے اسی طرح کھیتی کو فالتو جڑی بوٹیوں سے پاک صاف کرنے پر بھی لفظ زکوٰۃ کا اطلاق ہوتا ہے۔ زکوٰۃ کا دوسرا مفہوم نشوونما پانے، بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا ہے۔اس مفہوم کی رو سے زکوٰۃ کا اطلاق اس مال پر ہوتا ہے جسے خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے اس میں کمی نہیں آتی بلکہ وہ مال خدا کا فضل اور برکت شامل ہونے کی وجہ سے بڑھتا ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ہے :خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ(التوبۃ 103)’’اے محبوب ان کے اموال میں سے زکوٰۃ تحصیل کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو اور ان کے حق میں دعاۓ خیر کرو بے شک تمھاری دعا ان کے دلوں کا چین ہے اور اللہ سنتا جانتا ہے(کنزالایمان)
زکوٰۃ سال کے جمع شدہ مال پر اڑھائی فیصد کی شرح سے مقرر کی گئی ہے۔ یہ مال کی کم سے کم مقدار ہے زکوٰۃ سے انکاردائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے اور اس سے پہلو تہی کرنا مسلمان کے ایمان و عقیدے کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے.(نور الإيضاح،ج1ص 147)
*زکوٰۃ کب فرض ہوئی*:
زکاة کی فرضیت سن 2 ہجری میں ہوئی جیسا کہ در مختار میں مرقوم ہے :فُرض بعد صرف القبلة إلی الکعبة لعشر في شعبان بعد الہجرة بسنة ونصف إلخ وفُرضت في السنة الثانیة قبل فرض رمضان? (درمختار)یعنی تحویل قبلہ الی الکعبة کے بعد 10 شعبان کو ہجرت کے دوسرے سال رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے زکوٰۃ فرض ہوئی.
*زکوٰۃ کی شرطیں*
زکوٰۃ فرض ہونے کی چند شرائط ہیں جو درج ذیل ہیں (1) مسلمان ہونا : زکوٰۃ مسلمان پر فرض ہے، کافر اور مرتد پر نہیں۔(2) بالغ ہونا : زکوٰۃ بالغ مسلمان پر فرض ہے، نابالغ زکوٰۃ کی فرضیت کے حکم سے مستثنیٰ ہے۔(3) عاقل ہونا : زکوٰۃ عاقل مسلمان پر فرض ہے، دیوانے پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔ (4) آزاد ہونا : زکوٰۃ آزاد و خود مختار پر فرض ہے، غلام پر نہیں۔(5)مالک نصاب ہونا : شریعت کے مقرر کردہ نصاب سے کم مال کے مالک پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔(6) مال کا صاحبِ نصاب کے تصرف میں ہونا : مال صاحبِ نصاب کے تصرف میں ہو تو تب ہی اس پر زکوٰۃ فرض ہے مثلاً کسی نے اپنا مال زمین میں دفن کر دیا اور جگہ بھول گیا اور پھر برسوں بعد وہ جگہ یاد آئی اور مال مل گیا، تو جب تک مال نہ ملا تھا اس زمانہ کی زکوٰۃ واجب نہیں کیونکہ وہ اس عرصہ میں نصاب کا مالک تو تھا مگر قبضہ نہ ہونے کی وجہ سے پورے طور پر مالک نہ تھا۔(7) صاحبِ نصاب کا قرض سے فارغ ہونا : مثلاً کسی کے پاس مقررہ نصاب کے برابر مال تو ہے مگر وہ اتنے مال کا مقروض بھی ہے تو اس کا مال قرض سے فارغ نہیں ہے لہٰذا اس پر زکوٰۃ فرض نہیں۔(8)نصاب کا حاجتِ اصلیہ سے فارغ ہونا : حاجتِ اصلیہ سے مراد یہ ہے کہ آدمی کو زندگی بسر کرنے میں بعض بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جیسے رہنے کیلئے مکان، پہننے کیلئے بلحاظ موسم کپڑے اور دیگر گھریلو اشیائے ضرورت جیسے برتن، وغیرہ۔ اگرچہ یہ سب سامان زکوٰۃ کے مقررہ نصاب سے زائد مالیت کا ہی ہو مگر اس پر زکوٰۃ نہیں ہوگی کیونکہ یہ سب مال و سامان حاجتِ اصلیہ میں آتا ہے۔(9)مالِ نامی ہونا : یعنی مال بڑھنے والا ہو خواہ حقیقتاً بڑھنے والا مال ہو جیسے مال تجارت اور چرائی پر چھوڑے ہوئے جانور یا حکماً بڑھنے والا مال ہو جیسے سونا چاندی۔ یہ ایسا مال ہے جس کی قیمت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اس کے بدلے دیگر اشیاء خریدی جاسکتی ہیں۔ لہٰذا سونا چاندی جس حال میں بھی ہو خواہ زیورات اور برتنوں کی شکل میں ہو یا زمین میں دفن ہو ہر حال میں یہ مالِ نامی یعنی بڑھنے والا مال ہے اور ان پر زکوٰۃواجب ہے۔(10)مالِ نصاب کی مدت : نصاب کا مال پورا ہوتے ہی زکوٰۃ فرض نہیں ہو گی بلکہ ایک سال تک وہ نصاب مِلک میں باقی رہے تو سال پورا ہونے کے بعد اس پرزکوٰۃ نکالی جائے گی (نورالايضاح، 141)
*سونا چاندی دونوں نصاب سے کم ہوں؟*
اگر سونا اور چاندی دونوں کے زیورات یا اشیاء ملکیت میں ہوں لیکن کسی ایک کا نصاب بھی پورا نہ ہو تو دونوں کو ملا کر قیمت لگائی جائے گی اگر دونوں کی قیمت مل کر سونے یا چاندی کے کسی نصاب کو پہنچ جائے تو زکوٰۃ واجب ہوجائے گی۔ (مثلاً آج کل سونے اور چاندی کی قیمتوں میں بڑا فرق ہوگیا ہے، اب اگر کسی کے پاس ڈیڑھ تولہ سونا ہے اور چند گرام چاندی ہے تو دونوں کی جب قیمت لگائی جائے گی تو چاندی کے اعتبار سے نصاب تک پہنچ جائے گی لہٰذا زکوٰۃ واجب ہوگی) صاحب ہدایہ رقمطراز ہیں:ویضم الذہب الی الفضۃ وعکسہ بجامع الثمنیۃ قیمۃ ای من جہۃ القیمۃ فمن لہ مائۃ درہم وخمسۃ مثاقیل قیمتہا مائۃ علیہ زکوٰتہا۔ (ہدایۃ ۱؍۲۱۳)
*اگر زیور کے ساتھ روپیہ بھی ہو؟*
زیور کے ساتھ اگر روپیہ یا سامانِ تجارت موجود ہو تو اگرچہ زیور کا وزن نصاب تک نہ پہنچتا ہو لیکن سب ملاکر قیمت چاندی کے نصاب تک پہنچ گئی تو زکوٰۃ واجب ہوجائے گی (مثلاً ۲-۳؍تولہ سونا ہے اور ساتھ میں پانچ ہزار روپیہ ہے یا مالِ تجارت ہے تو کل کی قیمت اگر چاندی کے نصاب تک پہنچ رہی ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی) فتاویٰ ہندیہ میں ہے: وتضم قیمۃ العروض الی الثمنین۔ (ہندیۃ ۱؍۱۷۹) در مختار میں یوں ہے:ویضم الذہب الی الفضۃ وعکسہ بجامع الثمنیۃ قیمۃ۔ (درمختار ۳؍۲۳۴)علامہ شامی رقمطراز ہیں:وفائدتہ تظہر فیمن لہ حنطۃ للتجارۃ قیمتہا مائۃ درہم ولہ خمسۃ دنانیر قیمتہا مائۃ تجب الزکوٰۃ عندہ خلافاً لہما۔ (شامی ۳؍۲۳۴)
*تجارت سے متعلق مسائل*
(1)اگر کوئی مال تجارت کی نیت سے خریدا تھا پھر ارادہ بدل گیا اور اس کو ذاتی استعمال میں لے آیا تو اس کی زکوٰۃ ساقط ہوجائے گی۔فتاویٰ عالمگیر ی میں ہے:ومن اشتری جاریۃ للتجارۃ ونواہا للخدمۃ بطلت عنہا الزکاۃ۔ (عالمگیری ۱؍۱۷۴، شامی ۳؍۱۹۲) ایک دوسری کتاب میں یوں ہے:لو نوی بمال التجارۃ الخدمۃ کان للخدمۃ بالنیۃ۔ (الاشباہ والنظائر ۲۰۶) (2)اگر کسی شخص نے کوئی فلیٹ وغیرہ تجارت کی نیت سے خریدا تھا، پھر اس کو کرایہ پر اٹھادیا تو اب وہ مالِ تجارت میں داخل نہ رہے گا، یعنی سال گذرنے پر اس کی قیمت لگا کر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی البتہ کرایہ کی آمدنی اگر نصاب کے بقدر ہو تو حسبِ شرائط اس پر زکوٰۃ کا وجوب ہوگا۔إذا اشتریٰ داراً أو عبداً للتجارۃ فاٰجرہ خرج من أن یکون للتجارۃ؛ لأنہ لما آجرہ فقد قصد الغلۃ فخرج عن حکم التجارۃ۔ (تاتارخانیۃ ۳؍۱۶۷) (3)اگر کوئی چیز استعمال کے لئے خریدی، ساتھ میں یہ نیت تھی کہ نفع ملے گا تو بیچ دوںگا ورنہ رکھے رہوں گا تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں۔أو اشتریٰ شیئاً للقنیۃ ناویاً أنہ إن وجد ربحاً باعہ لازکاۃ علیہ۔ (فتح القدیر ۲؍۲۱۸)(4)اگر کسی نے کوئی سامان تجارت کی نیت سے خریدامگر ابھی قبضہ نہیں کیا تو اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی وخرج بہ أیضا کمافی البحر المشتری للتجارۃ قبل القبض۔ (شامی۲؍۲۶۰) ولا فیما اشتراہ لتجارۃ قبل قبضہ۔(درمختار ۳؍۱۸۰،)(5)جو پلاٹ یا زمین فروخت کی نیت سے خریدے گئے ہیں تو ان کی موجودہ قیمت پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔الزکوٰۃ واجبۃ فی عروض التجارۃ کائنۃ ما کانت اذا بلغت قیمتہا نصاباً من الذہب والورق۔(ہدایۃ،عالمگیر ی)
*خریدے ہوئے شیئرز پر زکوٰۃ*
کسی کمپنی کے شیئرز اگر خرید کر رکھے ہوئے ہیں تو ان کی موجودہ قیمت پر زکوٰۃ فرض ہوگی، یعنی یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ انہیں کس قیمت پر خریدا تھا؛ بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ آج ان کی کیا قیمت ہے، اور اسی حساب سے زکوٰۃ نکالی جائے گی۔ (مسائل زکوٰۃ ۳۹) وان ادی القیمۃ تعتبر قیمتہا یوم الوجوب۔ (عالمگیری ۱؍۱۸۰) ولو ازدادت قیمتہا قبل الحول تعتبر قیمتہا وقت الوجوب بالاجماع۔ (البدائع الصنائع ۲؍۱۱۵)
*انشورنس پر زکوٰۃ*
کار، دوکان اور کاروبار کے انشورنس میں جو رقم جمع کی جاتی ہے اس کی واپسی حتمی اور یقینی نہیں ہوتی، اس لئے اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی؛ البتہ لائف انشورنس (زندگی کا بیمہ) کی رقم بہرحال واپس ملتی ہے؛ اس لئے اس میں جمع شدہ اصل رقم پر ملنے کے بعد گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ واجب ہوگی، یہ دینِ قوی کے درجہ میں ہے، اور اصل رقم سے بڑھ کر جو رقم ملنے والی ہے وہ چوںکہ سود اور حرام ہے؛ اس لئے اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی۔ فتجب زکوتہا اذا تم نصاباً وحال الحول لکن لا فوراً بل عند قبض اربعین درہماً من الدین القوی کقرض۔ (درمختار زکریا ۳؍۲۳۶، ومثلہ فی الخانیۃ ۱؍۲۵۳، ہندیۃ ۱؍۱۷۵، بدائع الصنائع ۲؍۹۰)
*فکس ڈپازٹ( FD) پر زکوٰۃ*
بعض لوگ اپنی رقومات بنکوں میں کئی سالوں کے لئے فکس کرادیتے ہیں، تو چونکہ یہ دینِ قوی کے درجہ میں ہے جس کا بعد میں مقررہ وقت پر ملنا یقینی ہے اس لئے اس اصل جمع شدہ رقم پر ہر سال کی زکوٰۃ واجب ہوگی لیکن جو رقم بڑھ کر ملے گی اس پر زکوٰۃ واجب نہیں فتجب زکوتہا اذا تم نصاباً وحال الحول لکن لا فوراً بل عند قبض اربعین درہماً من الدین القوی کقرض الخ۔ (درمختار زکریا ۳؍۲۳۶، ومثلہ فی الخانیۃ ۱؍۲۵۳، ہندیۃ ۱؍۱۷۵، بدائع الصنائع ۲؍۹۰)
*پراویڈنٹ فنڈ(J.P.F.) پر زکاۃ* کا شرعی حکم یہ ہے کہ یہ فنڈ مالک کی ملک ہو تا ہے اس لئے اگر ملازم مالک نصاب ہے تو جب سے یہ رقم جمع ہو نا شروع ہوئی اسی وقت سے اس رقم کی زکاۃ ہر سال فرض ہوتی رہے گی لیکن ادا ئیگی اس وقت واجب ہو گی جب مقدار نصاب کا کم ازکم پانچواں حصہ وصول ہو جائے۔(فتاوی فیض الرسول ج۱ص۴۷۹)
*ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں پر زکوٰۃ* اگر کوئی شخص ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرتا ہے اور اس کی کاریں، بسیں یا ٹرک وغیرہ کرایہ پر چلتے ہیں تو ان بسوں یا ٹرکوں کی مالیت پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی بلکہ ان سے حاصل ہونے والے منافع پر حسبِ ضابطہ زکوٰۃ واجب ہوگی۔(جدید مسائل ۱۴۷)
*ایڈوانس پر زکوۃ*
کرائے پر دکان یا مکان لینے کے لئے ایڈوانس دیا ، نصاب میں شامل ہوگا کیونکہ دکان یا مکان کرائے پر لینے کے لئے دیا جانے والا ایڈوانس یا ڈپازٹ ہمارے عُرف میں قرض کی ایک صورت ہے ۔لہٰذا یہ بھی شامل ِ نصاب ہوگا ۔(وقارالفتاوٰی، ج۱، ص۲۳۹)
*متفرقات*
(1)اگر بیٹیوں کی شادی کے لئے رقم جمع کی اور ان کے بالغ ہو نے سے پہلے ان کی ملک کر دیا تو بچیوں کے بالغ ہو نے تک ان پر زکا ۃ فرض نہیں ہو گی کیوں کہ نابالغ بچی پر زکا ۃ فرض نہیں ہو تی اور بالغ ہو نے کے بعد اگر شرائط پائی گئیں تو ان پر زکاۃ واجب ہو جائے گی۔(فتاوی رضویہ مترجم ج۱۰ ص۱۴۴)
(2)سفر حج وزیارت مدینہ کے لئے جمع کی جانے والی رقم پر بھی وجوب زکاۃ کی شرائط پوری ہونے پر زکاۃ دینی ہو گی۔(فتاوی رضویہ مترجم ج۱۰ ص۱۴۰)
(3)بد مذہبوں کو زکا ۃ دینا حرام ہے۔ اور ان کو دینے سے زکا ۃ ادا بھی نہیں ہو گی۔(فتاوی رضویہ مترجم ج۱۰ ص۲۹۰)
(4)اگر شک ہے کہ زکاۃ ادا کی تھی یا نہیں تو ایسی صورت میں زکاۃ اداکرے۔(شامی ج۳ ص۲۲۸)
(5)کرنسی نوٹوں کی زکاۃ واجب ہے،جب تک ان کا رواج اور چلن ہو۔(بہار شریعت ح۵ ص۹۰۵)
(6)سو روپئے میں ڈھائی روپئے(2.50)ہزار روپئے میں25روپئے ۔دس ہزار روپئے میں250روپئے ۔ایک لاکھ روپئے میں2500روپئے ۔ د س لا کھ روپئے میں25000روپئے ۔ایک کروڑ روپئے میں2,50,000روپئے ۔دس کروڑ روپئے میں2500000روپئے۔ایک ارب میں2,50,00000روپئے زکاۃ فرض ہے۔(فیضان زکاۃ
ٹیگز:-
محمد ہاشم اعظمی مصباحی , زکوٰۃ