وَعُرِضُوۡاعَلٰى رَبِّكَ صَفًّا ؕ لَقَدۡ جِئۡتُمُوۡنَا كَمَا خَلَقۡنٰكُمۡ اَوَّلَ مَرَّةٍ ۢ بَلۡ زَعَمۡتُمۡ اَ لَّنۡ نَّجۡعَلَ لَـكُمۡ مَّوۡعِدًا۞- سورۃ نمبر 18 الكهف آیت نمبر 48
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَعُرِضُوۡاعَلٰى رَبِّكَ صَفًّا ؕ لَقَدۡ جِئۡتُمُوۡنَا كَمَا خَلَقۡنٰكُمۡ اَوَّلَ مَرَّةٍ ۢ بَلۡ زَعَمۡتُمۡ اَ لَّنۡ نَّجۡعَلَ لَـكُمۡ مَّوۡعِدًا۞
ترجمہ:
اور سب آپ کے رب کی بارگاہ میں صف بہ صف پیش کئے جائیں گے، بیشک تم ہمارے پاس اسی حالت میں آگئے جس طرح ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا بلکہ تمہارا زعم یہ تھا کہ ہم تم سے ملاقات کا وقت مقرر ہی نہیں کریں گے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور سب آپ کے رب کی بارگاہ میں صف بہ صف پیش کئے جائیں گے، بیشک تم ہمارے پاس اسی حالت میں آگئے ہو جس طرح ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا بلکہ تمہارا زعم یہ تھا کہ ہم تم سے ملاقات کا وقت مقرر ہی نہیں کریں گے۔ (الکھف :48)
کفار کے پیش ہونے کی پانچ حالتیں
علامہ ابوعبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں :
جب لوگوں کو زندہ کیا جائے گا اور ان کو قبروں سے اٹھایا جائے گا تو وہ سب ایک حالت پر نہیں ہوں گے اور نہ ان کا موقف اور مقام ایک ہوگا، اور ان کے کئی مواقف اور احوال ہوں گے۔ اسی وجہ سے ان کے متعلق احادیث مختلف ہیں۔ ان کے مواقف اور ان کے احوال پانچ ہیں۔
-1 جس وقت ان کو قبروں سے اٹھایا جائے گا۔
-2 جس وقت ان کو حساب کی جگہ لے جایا جائے گا۔
-3 جس وقت ان سے حساب لیا جائے گا۔
-4 جس وقت ان کو دارالجزاء کی طرف لے جایا جائے گا۔
-5 جس مقام میں ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ٹھہرایا جائے گا۔
جس وقت ان کو قبروں سے اٹھایا جائے گا، اس وقت ان کے حوال اور اعضاء کامل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
ویوم یحشرھم کان لم یلبوآ الاساعۃ من الشھار یتعارفون بینھم (یونس :45) جس دن اللہ کو جمع کرے گا (ان کو یوں محسوس ہوگا) کہ گویا وہ دنیا میں دن کا ایک گھنٹہ رہے ہوں، وہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچانتے ہوں گے۔
یتخالفتون بینھم ان لبتم الاعشراً (طحہ 103) وہ آپس میں چپکے چپکے کہہ رہے ہوں گے ہم تو دنیا میں صرف دس دن رہے تھے۔
ثم نفخ فیواخری فاذاھم قیام ینظرون (الزمر :68) پھر جب دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو وہ قبروں سے اٹھ کر دیکھ رہے ہوں گے۔
دوسری حالت وہ ہے جب انہیں حساب کی جگہ لے جایا جائے گا، اس وقت بھی ان کے حوال کامل ہوں گے۔
احشروالذین ظلموا وازواجھم وما کانوا یعبدون من دون اللہ فاھدوھم الی صراط الجحیم وقفوھم انھم مسئولون (الصفت :22-24) ظالموں کو جمع کرو اور ان کی ازواج کو اور ان کو جس کی وہ عبادت کرتے تھے اللہ کے سوا پس ان کو دوزخ کا راستہ دکھائو اور ان کو ٹھہرائو ان سے سوالات کئے جائیں گے۔
اس آیت میں فرمایا کہ ان کو راستہ دکھائو، اس سے معلوم ہوا کہ وہ دیکھنے والے ہوں گے۔ نیز فرمایا ان سے سوالات کئے جائیں گے، اس سے معلوم ہوا کہ وہ سننے والے بھی ہوں گے اور بولنے والے بھی ہوں گے اور وہ چلنے پھرنے والے بھی ہوں گے۔
اور تیسرا حال وہ ہے جب ان سے حساب لیا جائے گا :
ویقولون مالھذا الکتاب لایغادر صغیرۃ ولا کبیرۃ الا احصھا : (الکھف :49) وہ کہیں گے یہ کیسی کتاب ہے جس نے نہ کسی چھوٹے گناہ کو چھوڑا نہ بڑے گناہ کو مگر اس کا احاطہ کرلیا۔
اور چوتھا حال وہ ہے جب کافروں کو جہنم کی طرف ہانک کرلے جایا جائے گا۔ اس وقت ان کی سماعت، بصارت اور قوت گویائی کو سلب کرلیا جائے گا۔ قرآن مجید میں ہے :
ونحشرھم یوم القیامۃ علی وجوھھم عمیاً وبکماً وصماً ط ماواھم جھنم (بنی اسرائیل :97) اور ہم ان کو قیامت کے دن چہروں کے بل اٹھائیں گے اس حال میں کہ وہ اندھے، گونگے اور بہرے ہوں گے اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہوگا۔
پانچواں حال وہ ہے جب کافر دوزخ میں ہوں گے اور اس حال کی بھی دو قسمیں ہیں ایک حال وہ ہے جب وہ ابتدائدوزخ میں ہوں گے اور دوسرا حال ان کے قیام کے اعتبار سے ہے۔ ابتدائی حال وہ ہے جب کفار موقف حاسب سے لے کر دوزخ کے کنارے تک کی مسافت قطع کریں گے اس وقت وہ اندھے، گونگے اور بہرے ہوں گے، اور یہ حال ان کی ذلت اور رسوائی کے اظہار کے لئے ہوگا اور ان کو دوسروں سے ممتاز کرنے کے لئے، پھر ان کی حواس لوٹا دیئے جائیں گے تاکہ وہ دوزخ رسوائی کے اظہار کے لئے ہوگا اور ان کو دوسروں سے ممتاز کرنے کے لئے، پھر ان کے حواس لوٹا دیئے جائیں گے تاکہ وہ دوزخ کا مشاہدہ کرسکیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جو عذاب تیار کیا ہے اس کو دیکھ سکیں، اور عذاب کے فرشتوں کا معائنہ کرسکیں اور ہر اس چیز کو دیکھ سکیں جس کا وہ دنیا میں انکار کرتے تھے پھر وہ اس حال میں دوزخ میں قیام کریں گے کہ وہ بولنے والے، سننے والے اور دیکھنے والے ہوں گے۔ قرآن مجید میں ہے :
وترھم یعرضون علیھا خشعین من الذل ینظرون من طرف خفی (الشوری :45) اور آپ ان کو دیکھیں گے کہ ان کو دوزخ کے سامنے پیش کردیا جائے گا، وہ ذلت سے جھکے جا رہے ہوں گے اور کنکھیوں سے دیکھ رہے ہوں گے۔
تکاد تمیز من الغیظ ط کلمآ القی فیھا فوج سالھم خزنتھا الم یاتکم نذیر قالوا بلی قد جآء نا نذیر فکذبنا و قلنا مانزل اللہ من شیء ط ان انتم الا فی ضلل کبیر (المک :8-9)
قریب تھا کہ غصہ کے مارے دوزخ پھٹ جاتی، جب اس میں کوئی جماعت ڈالی جائے گی اس سے دوزخ کے محافظ پوچھیں گے کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا وہ کہیں گے بیشک آیا تھا لیکن ہم نے اس کو جھٹلایا اور ہم نے کہا اللہ نے کوئی چیز نازل نہیں کی، تم شخص بہت بڑی گمراہی میں ہو۔
پہلی آیت میں ہے کہ کافر کنکھیوں سے دوزخ کی آگ کی طرف دیکھیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ دوزخ کو دیکھنے والے ہوں گے اور دوسری آیت میں ہے کہ دوزخ کے محافظ فرشتوں سے ان کا مکالمہ ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ دوزخ میں عذاب کے دوران سننے والے اور بولنے والے بھی ہوں گے۔
قبروں سے اٹھنے سے لے کر قیام دوزخ تک کفار کے ان پانچ احوال سے یہ معلوم ہوگیا کہ بعض احوال میں کفار کے حواس اور اعضاء سلامت ہوں گے اور بعض احوال میں ان کے حواس سلب کر لئے جائیں گے اور اس سلسلہ میں جو آیات ہیں ان میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ (التذکرۃ ج ١ ص 316-319، مطبوعہ دارالبخاری بیروت، 1417 ھ)
حضرت معاذ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بلند آواز سے ندا فرمائے گا میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، میں سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہوں اور میں سب سے بڑا حاکم ہوں اور سب سے جلد حساب لینے والا ہوں۔ اے میرے بندو ! آج تم پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ تم غمگین ہو گے، تم اپنی حجت لے آئو اور اپنا جواب آسان بنا لو کیونکہ تم سے سوال کیا جائے گا اور تم سے حساب لیا جائے گا۔ اے میرے فرشتو ! میرے بندوں کو پیروں کے پوروں پر صف بہ صف کھڑا کردو تاکہ ان کا حساب لیا جائے۔ (جمع الجوامع رقم الحدیث :6956، کنز العمال رقم الحدیث :38992، الجامع لاحکام القرآن جز 10 ص 372، الدالمنشور ج ٥ ص 4000، روح المعانی جز 15 ص 417)
قیامت کے دن برہنہ حشر کرنا
اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک تم ہمارے پاس اسی حالت میں آگئے ہو جس طرح ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا۔ یہ تشبیہ بعض صفات میں ہے ورنہ جس وقت انسان پیدا ہوا تھا اس وقت وہ نہ چل سکتا تھا، نہ بیٹھ سکتا تھا نہ باتیں کرسکتا تھا اور نہ کسی کام کاج پر قادر تھا۔
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ وہ ننگے پیر، ننگے بدن اور غیر مختون ہوں گے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! عورتیں اور مرد سب ہوں گے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : اے عائشہ ! وہاں پر معاملہ اس سے کہیں سخت ہوگا کہ لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :6527: صحیح مسلم رقم الحدیث :2859، سنن النسائی رقم الحدیث :6084، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث، 4276)
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں ایک نصیحت کا خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے : آپ نے فرمایا : اے لوگو ! تم سب اس حال میں اللہ کی طرف جمع کئے جائو گے کہ تم ننگے پیر، ننگے بدن غیر مختون ہو گے :
کمابداناً اول خلق تعبدہ، وعداً علینا ط انا کنا فعلین (الانبیاء :104) جس طرح ہم نے پہلی بار پیدا کیا تھا اسی طرح دوبارہ پیدا کریں گے یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے اور ہم اس کو ضرور پورا کرنے والے ہیں۔
سنو قیامت کے دن سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو لباس پہنایا جائے گا۔ سنو ! عنقریب میری امت کے کچھ لوگوں کو لایا جائے گا ان کو بائیں طرف سے پکڑا جائے گا۔ پس میں کہوں گا اے میرے رب ! میرے اصحاب ! پس کہا جائے (کیا) آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا نئی چیزیں داخل کرلی تھیں ؟ تو میں اسی طرح کہوں گا جس طرح عبدصالح نے کہا تھا : اور میں ان پر اسی وقت تک نگہبان تھا جب تک میں ان میں رہا پھر جب تو نے مجھے (آسمان پر) اٹھا لیا تو تو ہی ان پر نگہبان تھا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے اگر تو ان کو عذاب دے تو بیشک یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو بخش دے تو تو بہت غالب، بڑی حکمت والا ہے پھر مجھ سے یہ کہا جائے گا جب سے آپ ان سے جدا ہوئے تھے یہ اس وقت سے اپنی ایڑیوں پر پھرگئے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :6526، صحیح مسلم رقم الحدیث :286، سنن الترمذی رقم الحدیث :2443، سنن النسائی رقم الحدیث :2087)
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو سب سے پہلے لباس پہنانے اور مرتدین کو میرے اصحاب فرمانے کی توجیہہ
اس حدیث میں ہے کہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو لباس پہنایا جائے گا۔ یہ اولیت اضافی ہے کیونکہ قائل عموم کلام سے خارج ہوتا ہے۔ نیز اس حدیث میں ہے کہ آپ نے کچھ لوگوں کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ میرے اصحاب ہیں، یہ عدم توجہ کی بناء پر ہے ورنہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تو اس دنیا میں بھی علم تھا کہ وہ لوگ مرتد ہوچکے تھے۔ نیز قبر مبارک میں آپ پر امت کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں، اس لئے ان کے مرتد ہوجانے کا آپ کو ق بر میں بھی علم تھا۔ نیز قیامت کے دن کفار اور مرتدین کے چہرے سیاہ ہوں گے، ان کی آنکھیں نیلی ہوں گی، اعمال نامہ ان کے بائیں ہاتھ میں ہوگا، اس ہیئت کذائی میں دیکھ کر ہر شخص کو علم ہوجائے گا کہ یہ آپ کے امتی نہیں ہیں کیونکہ آپ کے امتی غرمجحل ہوں گے عینی آثار وضو سے ان کا چہرہ اور ان کے ہاتھ پیر چمک رہے ہوں گے، ان کا چہرہ سفید ہوگا اور ان کا اعمال نامہ ان کے دائیں ہاتھ میں ہوگا۔ ان کے ایمان اور ان کی نمازوں کا نوران کے آگے آگے چل رہا ہوگا۔ ان حالات میں آپ کا ان مرتدین کو میر اصحاب فرمانا بےتوجہی پر محمول ہے۔ اس سے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم کی نفی کرنا درست نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ ہے : اور نامہ اعمال رکھ دیا جائے گا پھر آپ دیکھیں گے کہ مجرم اس میں لکھے ہوئے سے خوفزدہ ہوں گے اور کہیں گے : ہائے افسوس ! اس نامہ اعمال کو کیا ہوا اس نے نہ کوئی صغیرہ گناہ چھوڑا ہے نہ کبیرہ مگر سب کا احاطہ کرلیا ہے اور انہوں نے جو بھی عمل کیا تھا سب کو لکھا ہوا اپنے سامنے پائیں گے، اور آپ کا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ (الکھف :49)
قیامت کے دن اعمال نامہ پیش کیا جانا
قرآن مجید میں الکتاب کا لفظ ہے۔ مقاتل نے کہا اس سے مراد ہے بندوں کے ہاتھ میں ان کا اعمال نامہ دیا جائے گا۔ کعب احبار نے کہا جب قیامت کا دن ہوگا تو لح محفوظ کو بلند کیا جائے گا اور مخلوق میں سے ہر شخص اپنے عمل کو دیکھ لے گا۔
امام رازی نے کہا اس سے مراد یہ ہے کہ اس دن ہر انسان کے ہاتھ میں اس کا اعمال نامہ دیا جائے گا یا اس کے دائیں ہاتھ میں یا بائیں ہاتھ میں، اور اس دن کفار اور مشرکین اپنے صحائف اعمال میں اپنے برے اعمال کو دیکھ کر خوفزدہ ہوں گے کہ تمام اہل محشر کے سامنے ان کے برے اعمال کھل جائیں گے اور وہ رسوا ہوں گے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان کو اپنے گناہوں کی وجہ سے عذاب کا خوف بھی ہوگا اور مخلوق کے سامنے شرمندہ اور رسوا ہونے کا بھی خوف ہوگا۔ اس وقت وہ افسوس سے کہیں گے ہائے افسوس ! یہ کتاب تو نہ کسی صغیرہ گناہ کو چھوڑتی ہے نہ کبیرہ گناہ کو۔
گناہ صغیرہ اور گناہ کبیرہ کے متعلق مذاہب
گناہ صغیرہ اور کبیرہ میں اختلاف ہے۔ جمہور کا مسلک یہ ہے کہ بعض گناہ کبائر ہیں اور بعض گناہ صغائر ہیں۔ استاذ ابو اسحاق اسفرائنی نے کہا کہ گناہوں میں کوئی گناہ صغیرہ نہیں ہے بلکہ ہر جس کام سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا اس کا ارتکاب گناہ کبیرہ ہے اور ان کی دلیل یہ ہے کہ ہر جس کام سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے وہ اس کی جلال ذات کے اعتبار سے گناہ کبیرہ ہے۔ علامہ ابن ابطال نے کہا کہ اشاعرہ کہتے ہیں کہ تمام معاصی کبائر ہیں اور بغض معاصی کو صغیرہ ان سے بڑے کبائر کے لحاظ سے کہا جاتا ہے، جیسے امرد اور اجنبی عورت کا بوسہ لینا حرام ہے لیکن اس کو زنا کے اعتبار سے صغیرہ کہا جاتا ہے اور ہمارے نزدیک تمام گناہ کی مغفرت واجب نہیں ہے۔ (فتح الباری ج 12 ص 14-15 ملحضاً مطبوعہ دارالفکر بیروت 1420 ھ)
صحیح قول جمہور کا ہے۔ ہم قرآن مجید اور احادیث سے اس پر دلائل پیش کریں گے کہ بعض گناہ صغیرہ ہیں اور بعض گناہ کبیرہ ہیں۔ اس کے بعد صغیرہ اور گناہ کبیرہ کی تعریفیں پیش کریں گے۔
صغائر اور کبائر کی تقسیم کے متعلق قرآن مجید کی آیات
الذین یجتنبون کبئر الاثم والفواحش الا اللمم ان ربک واسع المغفرۃ (النجم :32) جو لوگ کبیرہ گناہوں اور بےحیائی کے کاموں سے بچتے ہیں ماسوا صغیرہ گناہوں کے، بیشک آپ کا رب وسیع مغفرت والا ہے۔
ان تجتنبوا کبآئر ماتنھون عنہ نکفر عنکم سیاتکم ونذخلکم ملاخلاً کریما (انلساء 31) اگر تم کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرو جس سے تمہیں من کیا گیا ہے تو ہم تمہارے (صغیرہ) گناہوں کو معاف کردیں گے اور تم کو عزت کی جگہ میں داخل کردیں گے۔
ان الحسنات یدھبن السینا (ھود 114) بیشک نیکیاں گناہوں کو دور کردیتی ہیں۔
صغائر اور کبائر کے متعلق احادیث
حضرت ابوہریرہ (رض) باین کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پانچ نمازیں اور ایک جمعہ سے دوسرا جمعہ، ان کے درمیان ہونے والے گناہوں کا کفارہ ہیں جب تک کہ کبائر کا ارتکاب نہ کیا جائے۔
(صحیح مسلم رقم الحدیث :233، سنن الترمذی الحدیث :214، مسند احمد ج ٢ ص 484 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث 1086 صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث 314 صحیح ابن حیان رقم الحدیث :1733 سنن کبری للبیہقی ج ٢ ص 427، شرح السنتہ رقم الحدیث :345)
اس حدیث میں کبائر اور صغائر دونوں کا ثبوت ہے۔
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے از خود کبائر کا ذکر فرمایا آپ سے کبائر کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : اللہ کا شریک قرار دینا، کسی شخص کو قتل کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، پھر فرمایا کیا میں تم کو سب سے بڑے کبیرہ کی خبر نہ دوں ۔ فرمایا : جھوٹی بات کہنا یا جھوٹی گواہی دینا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث 5977 صحیح مسلم رقم الحدیث 88، سنن الترمذی رقم الحدیث 1207 السنن الکبری، للنسائی رقم الحدیث 1077
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سات ہلاک کرنے والے کاموں سے بچو، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ کیا ہیں ؟ فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، جس کے قتل کو اللہ نے حرام کردیا ہے اس کو ناحق قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، میدان جہاد سے پیٹھ موڑ کر بھاگنا، پاک دامن مومنات پر بدکاری کی تہمت لگانا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث، 6857، سنن ابودائود رقم الحدیث 2864 صحیح مسلم رقم الحدیث 89 سنن النسائی رقم الحدیث 3671 السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث 3671)
اس حدیث میں سات ہلاک کرنے والے کاموں سے مراد سات کبائر ہیں اور اس کی دلیل یہ حدیث ہے۔ :
حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں خطبہ دیا اور تین بار فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، پھر سر جھکا لیا پھر ہم میں سے ہر شخص سر جھکا کرو رونے لگا، ہم نہیں جانتے تھے کہ آپ نے کس چیز کی قسم کھائی ہے، پھر آپ نے سر اٹھا یا تو آپ کے چہرے پر بشاشت تھی اور وہ ہمیں سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب تھی۔ آپ نے فرمایا : ہر جو بندہ پانچ نمازیں پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، زکوۃ ادا کرے اور سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب تھی۔ آپ نے فرمایا : ہر جو بندہ پانچ نمازیں پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، زکوۃ ادا کرے اور سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب تھی۔ آپ نے فرمایا : ہر جو بندہ پانچ نمازیں پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، زکوۃ ادا کرے اور سات کبیرہ گناہوں سے بچے اس کے لئے جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اس سے کہا جائے گا سلامتی کے ساتھ داخل ہوجا۔ (سنن النسائی رقم الحدیث :2437، صحیح ابن حبان رقم الحدیث :1745، المستدرک ج ۃ ص 200)
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے غیر اللہ کے لئے ذبح کیا اس پر اللہ تعالیٰ لعنت فرماتا ہے اور جو شخص زمین میں علامتیں اور حدود قائم نہیں کرتا، اللہ اس پر لعنت فرماتا ہے اور جو شخص راستہ دکھانے سے اندھا بن جاتا ہے اللہ اس پر لعنت فرماتا ہے اور جو شخص اپنے والدین کو گالی دیتا ہے اللہ اس پر لعنت فرماتا ہے اور جو شخص اپنے مالکوں کے غیر کی طرف منسوب ہوتا ہے اللہ اس پر لعنت فرماتا ہے۔ (مسند احمد رقم الحدیث :1875، المعجم الکبیر رقم الحدیث :11526، مسند ابویعلی رقم الحدیث :2581)
حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ باتئو کہ تم زانی، چور اور شرابی کے متعلق کیا کہتے ہوڈ صحابہ نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا : یہ بہت بےحیائی کے کام ہیں اور ان کی سزا ہے۔ کیا میں تم کو بہت بڑا کبیرہ نہ بتائوں ؟ آپ نے فرمایا : وہ اللہ کا شریک قرار دینا ہے، اور ماں باپ کی نافرمانی کرنا ہے۔ آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے پھر آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا اور سنو جھوٹ بولنا۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : ہر وہ کام جس سے اللہ نے منع فرمایا اس کو کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث :2633)
حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا کبائر یہ ہیں : اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، اللہ کے عذاب سے بےخوف ہونا، اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث :8775)
حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب سے فرمایا : میں تم کو اس پر بیعت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں قرار دو گے، اور اس شخص کو ناحق قتل نہیں کرو گے جس کے قتل کو اللہ نے حرام فرما دیا ہے اور زنا نہیں کرو گے اور چوری نہیں کرو گے اور کسی نشہ آور مشروب کو نہیں پیو گے، تم میں سے کسی نے ان میں سے کوئی کام کیا پھر اس پر حد نافذ ہوگی تو وہ اس کا کفارہ ہے اور جس شخص پر اللہ نے ستر کرلیا تو اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے اور جس نے ان میں سے کوئی کام نہیں کیا تو میں اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں۔ (المعجم الاوسط رقم الحدیث :927) ان تمام احادیث میں کبائر کا ثبوت ہے۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، یہ بتائو کہ تم میں سے کسی ایک کے دروازہ پر اگر دریا ہو اور وہ اس میں ہر روز پانچ مرتبہ غسل کرے تو کیا اس کے بدن پر میل رہے گاڈ مسلمانوں نے کہا اس کے بدن پر بالکل میل نہیں رہے گا۔ آپ نے فرمایا : پانچ نمازوں کی یہی مثال ہے، ان سے لاگہ گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :528، صحیح مسلم رقم الحدیث :667، سنن الترمذی رقم الحدیث :2868، سنن النسائی رقم الحدیث :461)
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر عرض کیا یا رسول اللہ ! مدینہ کے آخری کنارے میں، میں ایک عورت کے ساتھ بغل گیر ہوگیا اور دخول کرنے کے سوا میں نے اس سے سب کچھ کیا۔ اب میں یہاں حاضر ہوں آپ جو چاہیں میرے متعلق فیصلہ فرمائیں۔ حضرت عمر نے کہا اللہ تعالیٰ نے تیرا پردہ رکھ لیا تھا کاش تو بھی اپنا پردہ رکھتا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ شخص اٹھ کر چل دیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے پیچھے کسی شخص کو بھیج کر اس کو بلوایا اور یہ آیت پڑھی :
اقم الصلوۃ طرفی النھار وزلفا من اللیل ان الحسنات یذھبن السیات ذلک ذکری للذاکرین (ھود :114) دن کے دونوں کناروں اور رات کے کچھ حصہ میں نماز قائم رکھو، بیشک نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں۔ یہ نصیحت قبول کرنے والوں کے لئے نصیحت ہے۔
مسلمانوں میں سے ایک شکص نے کھڑے ہو کر پوچھا یا رسول اللہ ! کیا یہ آیت اس کے لئے خاص ہے آپ نے فرمایا : تمام لوگوں کے لئے ہے۔
(صحیح مسلم، التوبۃ : 42، (2763) الرقم المسلًسل، 6872، سنن ابودائود رقم الحدیث :4468 سنن الترمذی رقم الحدیث :3112، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث :7324) ان حدیثوں میں گناہ صغیرہ پر دلالت ہے اور اس پر کہ نیک کام کرنے سے صغائر معاف ہوجاتے ہیں۔
گناہ کبیرہ کی تعداد
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : کبائر سات ہیں اور ان سے ایک روایت ہے کہ کبائر ستر ہیں اور ایک روایت ہے کہ کبائر سات سو ہیں۔ (فتح الباری ج 14 ص 6857، مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1420 ھ)
حافظ محمد بن احمد ذہبی متوفی 748 ھ نے الکبار کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں قرآن مجید کی آیات اور احادیث کے حوالہ جات سے ستر گناہ کبیرہ لکھے ہیں ہم ان کے دلائل کو ترک کر کے صرف ان کبائر کے عنوانات لکھ رہے ہیں۔
(١) جس کام سے اللہ تعالیٰ اس کے رسول اور صحابہ نے منع کیا ہو۔
(٢) قتل ناحق
(٣) جادو
(٤) ترک نماز
(٥) ترک زکوۃ
(٦) بلاعذر رمضان کا روزہ نہ رکھنا
(٧) باوجود قدرت کے حج نہ کرنا
(٨) ماں باپ کی نافرمانی کرنا
(٩) رشتہ داروں سے ترک تعلق کرنا
(10) زنا
(١١) قوم لوط کا عمل
(12) سود کھانا
(13) ظلماً یتیم کا مال کھانا
(14) اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھنا
(١٥) میدان جہاد سے بھاگنا
(١٦) سربراہ مسلمین کا عوام پر ظلم کرنا یا عوام کا اس پر ظلم کرنا
(١٧) فخر وتکبر کرنا اور اترانا
(١٨) جھوٹی گواہی دینا
(١٩) خمر (شراب) پینا
(٢٠) جواء کھیلنا
(٢١) مسلمان پاک دامن عورتوں کو بدکاری کی تہمت لگانا
(٢٢) مال غنیمت میں خیانت کرنا
(٢٣) چویر کرنا
(٢٤) ڈاکا ڈالنا
(٢٥) جھوٹی قسم کھانا
(٢٦) ظلم کرنا
(٢٧) سلطان کے حکم کے بغیر ٹیکس جمع کرنا
(٢٨) حرام کھانا یا کسی طریقہ سے بھی حرام کو استعمال کرنا
(٢٩) خود کشی کرنا
(٣٠) باتوں میں بہ کثرت جھوٹ بولنا
(٣١) ناجائز فیصلے کرنا
(٣٢) رشوت لینا
(٣٣) عورتوں کا مردوں کی اور مردوں کا عورت کی مشابہت کرنا
(٣۴) دیوثی کرنا
(٣۵)طلاق دینے کی شرط سے حلالہ کرنا
(٣۶)پیشاب کے قطروں سے نہ بچنا
(٣۷)علم کو چھپانا
(٣۸) دنیا کے لئے علم دین حاصل کرنا
(٣٩) خیانت کرنا
(٤٠) احسان جتانا
(٤١) تقدیر کو جھٹلانا
(٤٢) لوگوں کو سنانے کے لئے نیک کام کرنا
(٤٣) چغلی کرنا
(٤٤) ض ایک دوسرے پر لعنت کرنا
(٤٥) عہد شکنی کرنا
(٤٦) نجومی کی تصدیق کرنا
(٤٧) بیوی کا خاوند کی نافرمانی کرنا
(٤٨) تصویر بنانا
(٤٩) نوحہ اور ماتم کرنا، اپنے آپ کو پیٹنا
(٥٠) مسلمانوں کو ایذا دینا اور ان کو گالی دینا
(٥۱)کمزوروں ، باندیوں ،نوکروں اور بیویوں پر تشدد کرنا
(٥۲)پڑوسی کو اذیت پہنچانا
(٥۳)مسلمانوں کو ایذا دینا اور ان کو گالی دینا
(٥٤) اللہ کے بندوں کو اذیت پہنچانا اور ان پر سختی کرنا
(٥٥) قدموں کے نیچے گھسٹتے ہوئے کپڑے پہننا یا تکبر سے ٹخنوں کے نیچے کپڑوں کو لٹکانا
(٥٦) مردوں کا سونے اور ریشم کا لباس پہننا
(٥٧) غلام کا بھگانا
(٥٨) غیر اللہ کے لئے ذبح کرنا
(٥٩) اپنے باپ کے علاوہ کسی اور سے نسب قائم کرنا
(٦٠) شرعی جواز کے بغیر جھگڑا کرنا
(٦١) فاضل پانی دینے سے منع کرنا
(٦٢) ناپ تول میں کمی کرنا
(٦٣) اللہ کے عذاب سے بےخوف ہونا
(٦٤) اولیاء اللہ کو اذیت دینا
(٦٥) اولیاء اللہ سے عداوت رکھنا
(٦٦) بغیر عذر شرعی کے جماعت کو ترک کرنا
(٦٧) بغیر عذر شرعی کے جماعت اور جمعہ کو ترک کرنا
(٦٨) دھوکا اور فریب دینا
(٦٩) مسلمانوں کے عیوب تلاش کرنا اور ان کو بیان کرنا
(٧٠) صحابہ (رض) میں سے کسی کو سب وشتم کرنا۔ (الکبائر، دارلغدا العربی قاہرہ مصر)
گناہ کبیرہ کی متعدد تعریفیں
امام رافعی نے الشرح الکبیر میں لکھا ہے کبیرہ وہ گناہ ہے جو حد کا موجب ہو، یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس کے مرتکب پر کتاب یا سنت میں وعید کی تصریح ہو۔ امام بغوی نے بھی یہی تعریف کی ہے۔
علامہ الماوردی نے کہا ہے کبیرہ وہ گناہ ہے جس پر حد واجب ہو یا اس کے مرتکب پر وعید ہو۔ علامہ عسقلانی نے اس تعریف کو معتمد کہا ہے۔ علامہ عبدالسلام نے کہا جس معصیت کو معملوی سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا جائے، وہ کبیرہ ہے۔ اسی طرح اگر گناہ صغیرہ کا ارتکاب یہ سمجھ کر کیا جائے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے تو وہ بھی کبیرہ ہے اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ صغیرہ پر عذاب نہیں ہوتا، یہ اس وقت ہے جب شامت نفس سے انسان کوئی صغیرہ گناہ کر بیٹھے پھر اس پر نادم اور تائب ہو، اور جب بےخوفی اور دیدہ دلیری سے کوئی معصیت کرے خواہ وہ مصعیت صغیرہ ہو تو پھر وہ کبیرہ گناہ ہے۔ اسی طرح ہر وہ معصیت جس پر وعید ہو یا لعنت ہو، وہ گناہ کبیرہ ہے۔ اس تعریف میں واجبات کو ترک کرنا بھی داخل ہے، خواہ اس فعل کو علی الفور کرنا واجب ہو یا اس کے وجوب میں وسعت ہو۔
علامہ ابن الصلاح نے کہا کبیرہ گناہ کی علامتیں ہیں، ان میں سے بعض یہ ہیں کہ اس فعل پر حد واجب ہو یا کتاب و سنت میں اس پر عذاب کی وعید ہو یا اس کو فاسق فرمایا ہو یا اس پر لعنت فرمائی ہو، یہ زیادہ جامع تعریف ہے۔
علامہ ابوالعباس قرطبی مالکی نے المفھم میں کبیرہ کی جو تعریف کی ہے وہ سب سے احسن تعریف ہوے۔
ہر وہ معصیت جس کے متعلق کتاب، سنت یا اجماع میں یہ تصریح ہو کہ یہ کبیرہ ہے یا عظیم ہے یا اس کے متعلق فرمایا ہو کہ اس کے مرتکب کو عذاب ہوگا یا اس پر حد معلق کی ہو یا اس معصیت کی شدید مذمت کی ہو، وہ کبیرہ ہے۔
علامہ الحلیمی نے المنہاج میں لکھا ہے ہر گناہ صغیرہ یا کبیرہ ہے اور کبھی کسی قرینہ کی بناء پر صغیرہ بھی کبیرہ ہوجاتا ہے۔ (مثلاً صغیرہ کا ارتکاب معمولی سمجھ کر کرے اور اس پر نادم اور تائب ہوئے بغیر دوبارہ صغیرہ کرے، اس کو صغیرہ پر اصرار کہتے ہیں، اور اگر شامت نفس سے صغیرہ کا ارتکاب کیا پھر نادم ہوا اور اس پر توبہ کرلی پھر دوبارہ شامت نفس سے صغیرہ کرلیا اور اس پر پھر نادم اور تائب ہوا تو یہ تکرار معصیت ہے اصرار نہیں ہے، اور اس صورت میں وہ صغیرہ ہی رہے گا، بعض علماء نے کہا ہے کہ فرض کا رتک اور حرام کا ارتکاب کبیرہ ہے اور واجب کا ترک اور مکروہ تحریمی کا ارتکاب صغیرہ ہے)
علامہ الحلیمی نے لکھا ہے کہ کبیرہ کی دو قسمیں ہیں ایک فاحش اور دوسرا فحش۔ مثلاً ناحق قتلک رنا کبیرہ ہے لیکن اگر کسی شخص نے اپنی اولاد کو قتل کیا یا باپ دادا کو قتل کیا یا کسی نواسے یا نواسی کو قتل کیا یا حرم میں قتل کیا یا حرمت والے مہینوں میں قتل کیا یا رمضان میں قتل کیا تو یہ کبیرہ فاحشہ ہے۔ اسی طرح زنا کرنا گناہ کبیرہ ہے اور اگر اس نے پڑوسی کی بیوی سے زنا کیا یا کسی رشتہ دار سے زنا کیا یا ماہ رمضان میں یا حرم میں زنا کیا تو یہ کبیرہ فاحشہ ہے۔ اسی طرح شراب پینا کبیرہ ہے اور اگر ماہ رمضان میں دن کے وقت شراب پی یا حرم میں شراب پی یا علی الاعان شراب پی تو یہ کبیرہ فاحشہ ہے، اگر کسی اجنبی عورت کی رانوں سے لذت حاصل کی تو یہ صغیرہ اور اگر اپنے باپ کی بیوی یا بہو یا کسی نواسی یا بھانجی، بھتیجی کی رانوں سے لذت حاصل کی تو یہ گناہ کبیرہ ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ (فتح الباس ج ١٤ ص 159-160، مطبوعہ دارالفکر بیروت، 2000 ھ)
مکس کا لغوی اور اصطلاحی معنی
ہم نے علامہ ذہبی کی الکبائر سے ستائیسواں کبیرہ نقل کیا ہے کہ سلطان کی اجازت کے بغیر ٹیکس لینا بھی کبیرہ ہے۔ عربی میں اس کے لئے مکس کا لفظ ہے اور فقہاء اس کے لئے جبایۃ کا لفظ اسعتمال کرتے ہیں۔ المنجد میں ان دونوں لفظوں کا معنی ٹیکس لینا لکھا ہے۔
علامہ ابن اثیر جزری متوفی 606 ھ نے مکس کا معنی لکھا ہے، عشر لینے والا جو حصہ وصول کرتا ہے۔ (النہایہ ج ٤ ص 297) اسی طرح علامہ محمد بن محمد زبیدی متوفی 1205 ھ نے لکھا ہے۔ (تاج العروس ج ٤ ص 249)
علامہ شمس الدین ذہبی متوفی 748 ھ نے مکس کے کبیرہ ہونے پر حسب ذیل دلائل دیئے ہیں :
انما السبیل علی الذین یظلمون الناس ویغون فی الارض بغیر الحق اولئک لھم عذاب الیم (الشوریٰ : ٤٢) مواخذہ کی راہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق فساد کرتے ہیں، انہیں لوگوں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔
اور مکاس (ٹیکس لینے والا) ظالموں کا سب سے بڑا مددگار ہے بلکہ وہ خود ظالموں میں سے ہے کیونکہ وہ اس چیز کو لیتا ہے جس کا وہ مستحق نہیں ہے اور اس کو دیتا ہے جو اس کا مستحق نہیں ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مک اس جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث :2937، سنن دارمی رقم الحدیث :1666، مسند احمد ج ٤ ص 143) (الکبائر ص 126، مطبوعہ دارالغدا لعربی مصر)
علامہ ابو سلیمان خطابی متوفی 388 ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
صاحب مکس وہ شخص ہے جو مسلمانوں سے عشر وصول کرتا ہے اور آنے جانے والے تاجروں سے چونگی وصول کرتا ہے، اس کو مکس سے تعبیر کیا ہے جو عشر لینے والے کا نام ہے۔ صاحب مکس سے مراد وہ عامل نہیں ہے جو صدقات وصول کرتا ہے کیونکہ صدقات وصول کرنے کا منصب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں اور آپ کے بعد بھی افاضل اور اکابر صحابہ کے پاس تھا۔ مکس کی اصل نقس ہے اسی لئے خریدار سو دے کی قیمت جو کم کراتا ہے، اس کو مک اس کہتے ہیں۔ رہا وہ عشر جو طے شدہ شرائط کے مطابق مسلمان شہروں میں آنے والے تاجروں سے لیا جاتا ہے (یعنی کسٹم ڈیوٹی) تو وہ مکس نہیں ہے اور نہ اس کا لینے والا وعید کا مستحق ہے سوا اس کے کہ وہ تجاوز اور ظلم کرے تو اس پر گناہ اور عذاب کا خطرہ ہے۔ (معالم السنن مع مختصر سنن ابودائود ج ٤ ص 197، مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت، 1400 ھ)
مکس کا اصطلاحی معنی یہ ہے : شہر میں داخل ہونے والے تاجروں سے جو حصہ (چونگی) لیا جائے، وہ مکس ہے اور اس کو لینے والا ماکس ہے اور مکس کا غالب استعمال اس مال پر کیا جاتا ہے جس کو خریدو فروخت کے وقت بادشاہ کے کارندے ظلماً وصول کرتے ہیں۔ علامہ ذہبی نے مکس کو جو گناہ کبیرہ لکھا ہے، وہ اسی معنی کے اعتبار سے لکھا ہے۔
بینک سے کاٹی ہوئی زکوۃ کا شرعی حکم
علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252 ھ لکھتے ہیں :
تجنیس اور الولوالجیہ میں مذکور ہے کہ ظالم بادشاہ نے جب صدقات وصول کرلیے تو ایک قول یہ ہے کہ جب دینے والے نے صدقات کی ادائیگی کی نیت کرلی تھی تو اس کو دوبارہ زکوۃ ادا کرنے کا حکم نہیں دیا جائے گا کیونکہ ظالم سلطان کے اوپر لوگوں کے اس قدر حقوق ہیں کہ اس کے پاس جتنا بھی مال ہے، وہ لوگوں کا ہے اور وہ حقیقت میں فقیر ہے اور بعض فقہاء نے کہا ہے کہ زیادہ احتیاط اس میں ہے کہ وہ دوبارہ زکوۃ ادا کرے۔ امام ابو جعفر طحاوی نے کہا ہے کہ سلطان کو صدقات وصول کرنے کی ولایت حاصل ہے لہٰذا صدقہ دینے والوں سے زکوۃ ساقط ہوجائے گی۔ خواہ سلطان ان صدقات کو اپنے عمل میں نہ رکھے، اس کا وصول کرنا باطل نہیں ہوگا۔ اس پر فتویٰ دیا گیا ہے لیکن یہ حکم اموال ظاہرہ کے صدقات میں ہے اگر سلطان نے سخت مطالبہ کر کے اموال باطنہ سے زکوۃ وصول کی ہے اور دینے والے نے زکوۃ کی نیت کرلی، مشائخ متاخرین کے نزدیک پھر بھی جائز ہے، کے اموال باطنہ سے زکوۃ وصول کی ہے اور دینے والے نے زکوۃ کی نیت کرلی، مشائخ متاخرین کے نزدیک پھر بھی جائز ہے۔ لیکن صحیح قول یہ ہے کہ یہ جائز نہیں ہے کیونکہ ظالم سلطان کے لئے اموال باطنہ سے زکوۃ وصول کرنا جائز نہیں ہے، اس لئے اس کو دوبارہ زکوۃ دینی ہوگی۔ (ردالامختارج ٣ ص 199-200، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، 1419 ھ)
اموال ظاہرہ یہ ہیں گائے، بکری اور اونٹ، مال تجارت اور زمین کی پیداوار، اور اموال باطنہ یہ ہیں سونا، چاندی اور کرنسی نوٹ : پاکستان کے بینکوں میں جو مسلمانوں کا روپیہ رکھا ہوا ہے حکومت ہر سال اس سے زکوۃ کاٹ لیتی ہے اور یہ اموال باطنہ سے جبراً زکوۃ وصول کرنا ہے۔ علامہ شامی کی اس تحقیق کے اعتبار سے یہ زکوۃ ادا نہیں ہوئی کیونکہ اموال باطنہ سے جبراً زکوۃ وصول کرنے کا ظالم حکومت کو اختیار نہیں ہے۔ اموال ظاہرہ سے حکومت جبراً زکوۃ وصول کرلے تو اس کے ادا ہونے میں تو اختلاف ہے لیکن اموال باطنہ میں اتفاق ہے کہ ظالم حکومت اگر جبراً زکوۃ وصول کرلے تو وہ ادا نہیں ہوگی۔ کیونکہ ظالم سلطان کے متعلق تو یہ کہا جاتا ہے کہ اس پر لوگوں کے اتنے حقوق ہیں کہ اس کے پاس جو بھی مال ہے وہ دوسروں کا ہے اور وہ حقیقت میں فقیر ہے۔ اس لئے اس کو زکوۃ ادا کرنے کی نیت کرلی تو زکوۃ ادا ہوجائے گی لیکن حکومت تو فقیر نہیں ہے، اس لئے اس کو زکوۃ ادا کرنے کی نیت صحیح نہیں ہے کیونکہ حکومت یا بینک فقیر نہیں ہے اور ثانیاً اس لئے کہ حکومت یا بینک کو اموال ظاہرہ سے زکوۃ وصول کرنے کا اختیار ہے اموال باطنہ سے زکوۃ وصول کرنے کا اختیار نہیں ہے، اس لئے بینک سے جو زکوۃ وضع کی جاتی ہے، اس سے دینے والے کی زکوۃ شرعاً ادا نہیں ہوتی اور اس پر واجب ہے کہ وہ دوبارہ زکوۃ ادا کرے۔
علامہ شامی فرماتے ہیں مک اس جو وصول کرتے ہیں، اس کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ مک اس اصل میں عاشر (عشر وصول کرنے والا) ہے جس کو امام نے مقرر کیا ہے لیکن آج کل مک اس کو امام صدقات وصول کرنے کے لئے مقرر نہیں کرتا بلکہ وہ لوگوں کا مال ظلماً چھیننے کے لئے ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر مک اس کو زکوۃ دی گی تو ادا نہیں ہوگی۔ ہاں اگر اس مک اس پر صدقہ کرنے کی نیت سے زکوۃ دی گئی تو وہ اسی اختلاف پر ہے بعض کے نزدیک زکوۃ ادا ہوجائے گی کیونکہ مک اس کے پاس اگرچہ مال بہت ہے لیکن وہ ظلماً لیا ہوا ہے۔ لہٰذا وہ اس مال کا حقیقتاً مالک نہیں ہے اور اس پر لوگوں کے اتنے حقوق ہیں کہ دراصل وہ فقیر ہے۔ لہٰذا اس پر صدقہ کرنے کی نیت سے زکوۃ دی گئی تو ادا ہوجائے گی اور بعض کے نزدیک زکوۃ ادا نہیں ہوگی اور اس پر دوبارہ زکوۃ دینا واجب ہے۔ (روالمختارج ٣ ص 200، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، 1419 ھ)
مکاس کی مذمت میں احادیث :
نیز علامہ شامی لکھتے ہیں :
امام طبرانی نے روایت کیا ہے کہ اللہ اپنی مخلوق کے قریب ہوگا اور جس کو چاہے گا بخش دے گا سوا طوائف کے اور ناجائز طریقہ سے عشر لینے والے کے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث :8372) اور حضرت عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : صاحب مکس جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث :2333، مسند احمد ج ٤ ص 105، المستدرک ج ١ 404، السنن الکبری للبیہقی ج ٧ ص 16، یہ حدیث صحیح ہے) امام بغوی نے کہا ہے صاحب مکس سے مراد وہ شخص ہے کہ جب اس کے پاس سے تاجر گزرتے ہیں تو وہ عشر کے نام سے ان سے مکس لیتا ہے۔ حافظ منذری نے کہا اب وہ زکوۃ کے نام سے مکس لیتے ہیں اور بغیر کسی عنوان کے بھی وصول کرتے ہیں بلکہ یہ وہ چیز ہے جس کو وہ رشوت کے طور پر لیتے ہیں اور وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں۔
یہ وہ عاشر نہیں ہے جس کو امام مقرر کرتا ہے، یہ تاجروں سے اس شرط کے ساتھ لیتے ہیں کہ وہ ان کو چوروں اور ڈاکوئوں سے محفوظ رکھیں گے اور وہ شہر کے دروازوں پر کھڑے ہوتے ہیں اور حقیقت میں ان کا ضرر چوروں اور ڈاکوئوں سے زیادہ ہے۔ صاحب بزازیہ نے کہا ہے کہ مک اس کو زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی ہاں اگر ان پر صدقہ کی نیت کرلی جائے تو پھر اس میں دو قول ہیں۔ (ردالمختارج و ص 223-224 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، 1419 ھ)
ٹیکس لگانے کی تحقیق
پہلے زمانہ میں ملکی اور قومی ضروریات اتنی زیادہ نہیں تھیں جن کی وجہ سے حکومت کو ٹیکس لگانا پڑے۔ بیت المال میں جو اموال ظاہرہ کی زکوۃ جمع کی جاتی تھی، اسی طرح عشر اور خراج کے ذریعہ جو رقوم جمع ہوتی تھیں ان سے ملکی اور قومی ضروریات پوری ہوجاتی تھیں، لیکن اب زمانہ کے تاقضے بدل گئے ہیں اور ملکی اور قومی ضروریات بہت بڑھ گئی ہیں۔ اب تلواروں، تیروں اور نیزوں سے دفاع نہیں کیا جاتا، نہ صرف بندوقوں اور توپوں سے کام چلتا ہے۔ اب ٹینک، طیاروں، میزائلوں اور آب دوزوں سے جنگ کا زمانہ ہے بلکہ اب ملک کی سالمیت کے تحفظ کے لئے ایٹمی ہتھیار بنانا ضروری ہیں۔ اب تعلیم پر حکومت کے اخراجات میں اضافہ ہوگیا ہے، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا بنانا اور چلانا، ان کے اساتذہ کو تنخواہیں دینا، اسی طرح عوام کے علاج کے لئے ہسپتال بنانا اور چلانا اور اس کے اسٹاف کو تنخواہیں دینا، اسی طرح فوج کو تنخواہیں دینا ان کو ضروریات اور مراعات فراہم کرنا، آمد و رفت کے لئے سڑکیں اور پل بنانا، اسی طرح وزیروں کو تنخواہیں دینا اور حکومت کے دیگر اخراجات، ان سب ضروریات کے لئے حکومت کو پیسہ چاہیے، زمانہ رسالت میں بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب مسلمانوں کی انفرادی یا اجتماعی ضرورت کے لئے روپیہ کی ضرورت ہوتی تو آپ مسلمانوں سے اپیل کرتے اور وہ آپ کو روپیہ فراہم کرتے تھے۔
انفرادی اور اجتماعی اور ملکی اور قومی ضروریات کے لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مدد کے لئے مسلمانوں سے اپیل کرنا
حضرت جریر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم دن کے اوائل حصہ میں روسل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اسی اثناء میں کچھ لوگ آئے جو ننگے پیر اور ننگے بدن تھے، گلے میں چمڑے کی عبائیں پہنے ہوئے تھے اور تلواریں لٹکائے ہوئے تھے۔ ان میں سے اکثر بلکہ سب قبیلہ مضر سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے فقر و فاقہ کو دیکھ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ انور متغیر ہوگیا، آپ اندر گئے پھر باہر آئے اور حضرت بلال (رض) کو اذان دینے کا حکم دیا۔ حضرت بلال (رض) نے اذان دی پھر اقامت کہی۔ آپ نے نماز پڑھائی پھر خطبہ دیا اور فرمایا : اے لوگوچ اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا ہے، آپ نے یہ پوری آیت پڑھی۔ (النساء : ١) اور یہ آیت پڑھی : انسان کو غور کرنا چاہیے کہ وہ کل آخرت کے لئے کیا بھیج رہا ہے۔ (الحشر :18) لوگ درہم، دینار، اپنے کپڑے، گیہوں اور جو کہ بہ مقدار چار کلو گرام صدقہ کریں یا پھر کھجور کا ایک ٹکڑا ہی ہو۔ منذر بن جریر کہتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص ایک تھیلا اٹھا کر لایا جس کے بوجھ سے اس کا ہاتھ تھکا جا رہا تھا اس کے بعد لوگوں کا تانتا بندھ گیا یہاں تک کہ میں نے کھانے کی چیزوں اور کپڑوں کے دو ڈھیر دیکھے۔ میں نے دیکھا کہ (خوشی سے) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عوام کی انفرادی ضروریات کے لئے لوگوں سے روپے پیسے کی اپیل کی اور مسلمانوں نے رضاکارانہ طور پر آپ کی اپیل پر عمل کیا۔
حضرت عمر (رض) باین کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم کو صدقہ کرنے کا حکم دیا، اتفاق سے میرے پاس اس وقت کافی مال تھا، میں نے دل میں سوچا کہ اگر میں کبھی حضرت ابوبکر سے بڑھ سکتا ہوں تو اس کا آج موقع ہے۔ میں آپ کے پاس اپنا آدھا مال لے کر آیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نے اپنے اہل کے لئے کیا رکھا ہے میں نے کہا اتنا ہی مال ان کے لئے چھوڑا ہے اور حضرت ابوبکر اپنا تمام مال لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اپس آگئے۔ آپ نے فرمایا : اے ابوبکرچ تم نے اپنے اہل کے لئے کیا چھوڑا ہے ؟ حضرت ابوبکر نے کہا میں نے ان کے لئے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑا ہے، پھر میں نے سوچا کہ میں حضرت ابوبکر (رض) سے کبھی نہیں بڑھ سکتا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 3675، سنن ابودائود رقم الحدیث :1678)
حضرت عبدالرحمان بن خباب (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ غزوہ تبوک میں امداد کے لئے مسلمانوں کو ترغیب دے رہے تھے۔ حضرت عثمان (رض) نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی راہ میں میرے ذمہ سو اونٹ ہیں، اس کے پالان اور کپڑے کے ساتھ۔ آپ نے پھر لوگوں کو لشکر کی امداد پر ترغیب دی پھر حضرت عثمان نے کھڑے ہو کر کہا اللہ کی راہ میں میرے ذمہ دو سواونٹ ہیں، ان کے پالان اور ان کے کپڑوں کے ساتھ آپ نے پھر مسلمانوں کو برانگیختہ کیا تو حضرت عثمان نے کہا میرے ذمہ تین سو اونٹ ہیں، ان کے پالانوں اور ان پر ڈالنے والے کپڑوں کے ساتھ پھر میں نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر سے اترے اور آپ یہ فرما رہے تھے کہ آج کے بعد عثمان جو عمل بھی کریں گے اس سے ان کو ضرور نہیں ہوگا۔ (یعنی اللہ ان کو گناہوں سے محفوظ رکھے گا۔ ) (سنن الترمذی رقم الحدیث :3700 المعجم الاوسط رقم الحدیث :5911، حلیتہ الاولیاء ج ١ ص 59، دلائل النبوۃ ج ٥ ص 214)
ثمامہ بن حزن قشیری (رض) بیان کرتے ہیں میں اس حویلی کے پاس گیا جس کے اوپر سے حضرت عثمان (رض) جھانک رہے تھے۔ آپ نے باغیوں سے فرمایا میں تم کو اللہ اور اسلام کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں کیا تم کو معلوم ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں آئے تو مسلمانوں کے پینے کے لئے میٹھے پانی کا کوئی کنواں نہیں تھا ؟ رومہ نام کا صرف ایک میٹھے پانی کا کنواں تھا۔ آپ نے فرمایا تم میں سے کون شخص رومہ نام کے کنوئیں کو خریدے گا اور اس کے ڈول کر مسلمانوں کے ڈولوں کے لئے کردے گا اور اس کی نیکی اس کو جنت میں ملے گی ؟ تو میں نے اس کنوئیں کو اپنے ذاتی مال سے خرید اور آج تم مجھ کو اس کنوئیں سے پانی پینے کا منع کرتے ہو حتی کہ میں سمندر کا کھاری پانی پیتا ہوں، باغیوں نے کہا ہاں، اے اللہ ! حضرت عثمان نے فرمایا میں تم کو اللہ کی اور اسلام کی قسم دیتا ہوں کیا تم کو معلوم ہے کہ مسجد (نبوی) میں نمازوں کی گنجائش کم تھی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے کون شخص آل فلاں کی زمین کا قطعہ خرید کر اس مسجد میں اضافہ کرے گا اور اس کے بدلہ میں اس کو جنت میں خیر ملے گی، پھر میں نے زمین کے اس قطعہ کو اپنے ذاتی مال سے خریدا اور تم اب مجھے اس مسجد میں دو رکعت نماز بھی نہیں پڑھنے دیتے۔ انہوں نے کہا اے اللہ ! ہاں، حضرت عثمان نے فرمایا میں تم کو اللہ کی اور اسلام کی قسم دیتا ہوں کیا تم کو معلوم ہے کہ میں نے غزوہ تبوک کے لشکر کی اپنے ذاتی مال سے مدد کی تھی ؟ انہوں نے کہا اے اللہ ! ہاں حضرت عثمان نے کہا میں تم کو اللہ کی اور اسلام کی قسم دیتا ہوں کیا تم کو معلوم ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ کے حمیر نامی پہاڑ پر تھے اور آپ نے اپنے پیر سے اس پہاڑ پر ٹھوکر ماری اور فرمایا اے اے شبیر ! ساکن ہوجا ! تجھ پر ایک نبی ہے، ایک صدیق ہے اور دو شہید ہیں۔ انہوں نے کہا اے اللہ ! ہاں، آپ نے تین بار فرمایا اللہ اکبر ! تم گواہ رہنا رب کعبہ کی قسم تم گواہ رہنا میں شہید ہوں۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :3704، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١١ صحیح ابن خزیر، رقم الحدیث 2493 سنن دارقطنی ج ٤ ص 196 سنن کبری للبیہقی ج ٦ ص 168، سنن النسائی رقم الحدیث :3610)
ٹیکس لگانے کے وجوب پر عقلی دلیل
ان تمام احادیث میں یہ تصریح ہے کہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ملکی اور قومی ضروریتا کے لئے مسلمانوں سے مدد کرنے کی اپیل کی اور مسلمانوں نے رضا کارانہ طور پر آپ کی اس اپیل پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، لیکن آج کے دور میں مسلمانوں میں ایثار کرنے اور اجتماعی ضروریات کے لئے کھلے دل سے مال خرچ کرنے کا جذبہ نہیں ہے اور ملک کے دفاع فوجوں کی تخواہوں اسلحہ خریدنے اور ایٹمی ہتھیار بنانے کے لئے سرمایہ کا حصول واجب ہے اور آمد و رفت کے ذرائع کے لئے سڑکیں اور پل وغیرہ بنانا بھی واجب ہے، اسی طرح صحت اور علم کے فروغ کے لئے ہسپتال اور تعلیمی دارے بنانا اور چلانا بھی واجب ہے۔ لہٰذا ان امور کے لئے سرمایہ کو فراہم کرنا واجب ہے اور یہ قاعدہ ہے کہ فرض کا مقدمہ فرض اور واجب کا مقدمہ واجب ہوتا ہے یعنی جس کام پر جب کوئی واجب کام موقوف ہو، وہ بھی واجب ہوتا ہے اور آج کی مہذب دنیا میں ملکی اور قومی ضروریات کو پورا کے لئے حکومت ٹیکس لگاتی ہے اور اس کو وصول کرتی ہے۔ اس لئے حکومت پر ان امور کے لئے ٹیکس لگانا واجب ہے اور عام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ان امور میں ٹکس ادا کریں، ملکی اور قومی ضروریات کا پورا ہونا جب ٹیکس لگانے اور ٹیکس دینے پر موقوف ہے اور ان ضروریات کا پورا کرنا واجب ہے۔ لہٰذا ٹیکس ادا کریں، ملکی اور قومی ضروریات کا پورا ہونا جب ٹیکس لگانے اور ٹیکس دینے پر موقوف ہے اور ان ضروریات کا پورا کرنا واجب ہے۔ لہٰذا ٹیکس دینا واجب ہے اور اس کی دوسری دلیل یہ ہے کہ سربراہ مملکت اور مسلمانوں کے امیر کی جائز اور صحیح کاموں میں اطاعت کرنا واجب ہے۔
حاکم کی اطاعت کے وجوب پر قرآن مجید سے استدلال
قرآن کریم میں ہے :
یایھا الذین امنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم : (النساء :59) اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اساعت کرو اور جو تم میں سے صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔
حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہا اولی الامر منکم سے مراد امراء اور حکام ہیں۔ ابن وہب نے کہا اس سے مراد سلاطین ہیں۔ مجاہد نے کہا اس سے مراد اصحاب فقہ ہیں۔ حضرت ابن عباس کا بھی یہی قول ہے۔ امام ابن جریر متوفی 310 ھ نے فرمایا : ان اقوال میں اولیٰ یہ ہے کہ اولی الامر سے مراد ائمہ اور حکام ہیں کیونکہ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عنقریب میرے بعد حکام ہوں گے۔ (ان میں) نیک حکام بھی ہوں گے اور فاسق بھی۔ تم ان کے احکام سننا اور ان کا جو حکم حق کے موافق ہو اس میں ان کی اطاعت کرنا اور ان کی اقتداء میں نماز پڑھنا اگر وہ نیک کام کریں گے تو اس میں تمہارا اور ان کا نفع ہے اور اگر وہ برے کام کریں گے تو تم کو نفع ہوگا اور ان کو ضرر، اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسلمان شخص پر حکم کی اطاعت لازم ہے، خواہ اس کو وہ حکم پسند ہو یا ناپسند، ہاں اگر اس کو اللہ تعالیٰ کی معصیت کا حکم دیا جائے تو خالق کی معصیت میں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں ہے۔ (جامع البیان جز ٥ ص 207، ملحضاً مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1415 ھ)
حاکم کی اطاعت کے وجوب پر احادیث سے استدلال
حاکم کے احکام کی اطاعت میں حسب ذیل احادیث ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث :4584 صحیح مسلم رقم الحدیث :1835، سنن ابودائود رقم الحدیث :2624، سنن الترمذی رقم الحدیث : 1672، سنن النسائی رقم الحدیث 4194 السنن الکبریٰ رقم الحدیث :1109 مسند الحمیدی رقم الحدیث :1123، المسند الجامع رقم الحدیث :14669)
ام الحصین (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تم پر سیاہ فام نکٹے غلام کو بھی حاکم بنادیا جائے اور وہ تم کو کتاب اللہ کے مطاق حکم دے تو تم اس کا حکم سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :1838، سنن الترمذی رقم الحدیث :1707، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :2864 السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث :2864)
حضرت عبادہ بن الصامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم کو بلایا ہم نے آپ کی بیعت کی۔ آپ نے ہم سے اس پر بیعت لی تھی کہ ہم احکام سنیں گے اور ان کی اطاعت کریں گے، خواہ ہماری خوشی ہو یا نا خوشی۔ خواہ ہمارے لئے آسانی ہو یا مشکل اور خواہ ہم پر کسی کو ترجیح دی جائے اور ہم سربراہ مملکت سے حکومت میں مناقشہ نہیں کریں گے سوا اس صورت کے تم کھلم کھلا کفرو دیکھو۔ جس کے کفر ہونے پر تمہارے پاس کتاب اللہ سے دلیل قائم ہو۔ (پھر تم اس کی حکومت کے خلاف تحریک چلائو) ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :7055 صحیح مسلم رقم الحدیث :1709، الرقم المسلسل :4689)
حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ مسلمان شخص پر حاکم کے احکام سننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے، خواہ وہ ان احکام کو سننا پسند کرے یا ناپسند۔ ہاں اگر وہ معصیت کا حکم دے تو نہ اس کے احکام سنے اور نہ اس کی اطاعت کرے۔
ان احادیث میں یہ تصریح ہے کہ جائز امور میں حاکم کے احکام کو سننا اور ان پر عمل کرنا واجب ہے اور قومی اور ملکی ضروریات اور ان کے استحکام اور فلاح کے لئے ٹیکس لینا جائز ہے۔ لہٰذا جب حکومت ٹیکس مانگے تو اس کو ٹیکس دینا واجب ہے اور ہم تا چکے ہیں کہ واجب جس پر موقوف ہو وہ بھی واجب ہوتا ہے، حدود کو قائم کرنا اور سرحدوں کا تحفظ کرنا واجب ہے اور یہ اس پر موقوف ہے کہ مسلمانوں کا کوئی امیر اور سربراہ ہو، اس لئے صحابہ کرام نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز جنازہ کو مئوخر کردیا تھا انہوں نے پہلے امیر المومنین کا انتخاب کیا، اس کے بعد آپ کی نماز جنازہ پڑھی اسی طرح ملک کا دفاع کرنا واجب ہے اور وہ اس دور میں ٹیکسوں کی آمدنی پر موقوف ہے، اس لئے ٹیکس ادا کرنا بھی واجب ہے۔
حاکم کی اطاعت کے وجوب پر فقہاء سے استدلال
ہدایہ میں مذکور ہے کہ ہمارا مذہب یہ ہے کہ عیدین میں چھ زائد تکبیریں ہیں اور حضرت ابن عباس کا مذہب یہ ہے کہ عیدین میں بارہ زائد تکبیریں ہیں اور عام لوگوں کا اسی پر عمل ہے کیونکہ خلفاء بنی عباس اسی کا حکم دیتے تھے۔ امام ابویوسف اور امام محمد کا بھی اسی پر عمل تھا کیونکہ ہارون نے ان کو حکم دیا تھا کہ وہ ان کے دادا یعنی حضرت ابن عباس کے قول پر عمل کریں۔ معراج میں مذکور ہے کیونکہ جو کام معصیت نہ ہو اس میں امام کی اطاعت واجب ہے۔ سو امام ابو یوسف اور امام محمد ہارن کے حکم پر اپنے مذہب کے خلاف عمل کرتے تھے، اسی طرح بعد کے لوگ بھی خلفاء عباسیہ کے حکم پر عمل کرتے تھے۔ (ردا المختارج ٣ ص ٥٠، داراحیاء التراث العربی بیروت، 1419 ھ)
جب خلیفہ اور امیر کے حکم سے جائز امور میں اپنے مذہب کے خلاف بھی عمل کرنا واجب ہے تو خارج نماز میں اس کے احکام پر عمل کرنا بہ طریق اولیٰ واجب ہوگا بہ شرطی کہ وہ کام معصیت نہ ہو۔ لہٰذا واضح ہوگیا کہ حکومت کے احکام کے مطابق ٹیکس ادا کرنا واجب ہے۔
حکومت کا ٹیکس کی آمدنی کو ذاتی تصرف میں لانا، ناجائز اور ظلم ہے۔
یہاں تک ہم نے یہ بیان کیا ہے کہ ملکی ضروریات کے حصول کے لئے ٹیکس لگانا جائز ہے لیکن ٹیکس اتنے ہی لگانے چاہئیں جتنے ٹیکسوں کی ضرورت ہو۔ فوجی افسروں اور بیورو کریٹس کی بہت بڑی بڑی تنخواہوں اور ان کے شاہانہ اخراجات پورے کرنے کے لئے غریب عوام سے بھاری ٹیکس لینا، اسی طرح گورنروں، وزیروں، صدر اور وزیر اعظم کی بڑی بڑی تنخواہوں، بےتحاشا اخراجات اور غیر ملکی دوروں میں بےدریغ زرمبادلہ لٹانے کو محنت کش اور غریب عوام کے ٹیکسوں سے پورا کرنا انتہائی ظالمانہ اقدام ہے۔
پاکستان کے ایک وزیر اعظم اپنے دوسرے دور حکومت میں جب امریکہ کے دورہ پر گئے تو اس زمانہ میں برطانیہ کے وزیر اعظم جان میجر اور مصر کے صدر حسنی مبارک بھی امریکہ کے دورے پر گئے ہوئے تھے۔ جان میجر کے ہمراہ آٹھ آدمی تھے، حسنی مبارک کے ہمراہ بارہ آدمی تھے اور پاکستان کے وزیر اعظم کے ہمراہ ایک سو چالیس آدمی تھے۔ وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ جانے والے وہاں کے بہت مہنگے ہوٹلوں میں ٹھہرے اور قیمتی کاریں مہنگے کر ایوں پر حاصل کیں۔ ان سب کو شاپنگ کرنے کے لئے کثیر مقدار میں زرمبادلہ دیا گیا اور ان کے تعارف اور ان کے پروگرام کے بارے میں وہاں کے اخباروں میں پورے پورے صفحات شائع ہوئے تھے اور یہ تمام اخراجات غریب عوام کے ٹیکسوں سے پورے کئے جاتے رہے۔
اس لئے ہم فی نفسہ ٹیکس کو جائز کہتے ہیں لیکن ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کو صرف قومی ضروریات اور ترقی کے منصوبوں پر خرچ کرنا چاہیے اس کو اپنی ذاتی آسائشوں اور عیاشیوں پر خرچ کرنا جائز نہیں ہے اور یہ محض اسراف اور ظلم ہے۔ ایک خرابی یہ بھی ہے کہ مختلف منصوبوں کو پورا کرنے کے لئے عالمی بینک سے قرضے لئے جاتے ہیں اور وہ رقم اس منصوبہ پر خرچ ہونے کے بجائے حکمرانوں کے اللوں تللوں پر خرچ ہوجاتی ہے اور ملک سود در سود قرضوں تلے دبتا چلا جاتا ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 18 الكهف آیت نمبر 48