قَالَتۡ اِنِّىۡۤ اَعُوۡذُ بِالرَّحۡمٰنِ مِنۡكَ اِنۡ كُنۡتَ تَقِيًّا ۞- سورۃ نمبر 19 مريم آیت نمبر 18
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قَالَتۡ اِنِّىۡۤ اَعُوۡذُ بِالرَّحۡمٰنِ مِنۡكَ اِنۡ كُنۡتَ تَقِيًّا ۞
ترجمہ:
مریم نے کہا میں تجھ سے رحمٰن کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو اللہ سے ڈرنے والا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : مریم نے کہا میں تجھ سے رحمٰن کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو اللہ سے ڈرنے والا ہے فرشتہ نے کہا میں تو صرف تمہارے رب کا بھیجا ہوا ہوں تاکہ میں تمہیں ایک پاکیزہ بیٹا دوں (مریم :18-19)
فرشتہ سے ہم کلام ہونا حضرت مریم کی نبوت کی مستلزم نہیں
حضرت مریم کا منشا یہ تھا کہ اللہ کی پناہ میں آنا صرف اسی شخص کے متعلق متصور ہوسکتا ہے جو اللہ سے ڈرنے والا ہو اس لئے انہوں نے کہا میں تجھ سے رحمٰن کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو اللہ سے ڈرنے والا ہے۔ اس کا دوسرا محمل یہ ہے کہ تو متقی شخص نہیں ہے ورنہ ایک اجنبی خاتون کے پاس ہرگز نہ آتا ایسے مواقع پر آپ کے لئے یہی ممکن تھا کہ آپ اللہ کی پناہ طلب کریں۔
جب حضرت جبریل کو یہ علم ہوا کہ حضرت مریم انہیں اجنبی مرد سمجھ کر ان سے خوف زدہ ہیں تو انہوں نے کہا میں آپ کے رب کا بھیجا ہوا ہوں، امام رازی نے کہا صرف اتنا کہہ دینے سے حضرت مریم کا خوف زائل نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لئے لازم ہے کہ حضرت جبریل نے ان کو کوئی ایسی نشانی دکھائی ہو جس سے ان کو یقین آگای ہو کہ یہ فرشتہ ہیں اور حضرت مریم کو کوئی نشانی دکھانے اور فرشتے کے ساتھ ہم کلام ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ نبیہ ہوجائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
وما ارسلنا من قبلک الا رجالاً توحی الیھم من اھل القریٰ (یوسف 109) ہم نے آپ سے پہلے جتنی بستیوں میں بھی رسول بھیجے وہ سب مرد ہی تھے جن کی طرف ہم وحی نازل کرتے تھے۔
علامہ ابوعبداللہ قرطبی کا نظریہ ہے کہ حضرت مریم نبیہ تھیں کیونکہ ان کے پاس فرشتہ آیا اور ان سے ہم کلام ہوا اور اس نے اپنے فرشتہ ہونے پر ان کے سامنے کوئی نشانی بھی پیش کی، لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ مذکور الصدر آیت میں یہ تصریح ہے کہ نبی اور رسول صرف مرد ہی ہوتا ہے۔ حضرت مریم کا فرشتہ سے ہم کلام ہونا اسن کی کرامت تھی کیونکہ وہ دلیہ تھیں۔
حضرت جبریل نے کہا تاکہ میں تمہیں ایک غلام زکی دوں، زکی کا معنی ہے گناہوں سے اپک اور اس میں یہ دلیل ہے کہ اس لڑکے کو مقام نبوت پر فائز کیا جائے گا کیونکہ گناہوں سے پاک ہنا انبیاء (علیہم السلام) ہی کی شان ہے۔
اولیاء اللہ کے مزارات پر مرادیں مانگنا
بیٹا دینا حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، حضرت جبریل نے جو کہا تاکہ میں تمہیں ایک پاکیزہ بیٹا دوں یہ اسناد مجازی ہے، بعض لوگ اولیاء اللہ کے مزارات پر جا کر دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس ولی کے وسیلہ سے یا اس کی دعا سے ان کو بیٹا دے دے یا ان کا کوئی اور کام بنا دے اور جب ان کے ہاں بیٹا ہوجائے تو کہتے ہیں کہ یہ فلاں ولی نے بیٹا دیا ہے یہ بھی اسناد مجازی ہے اور حضرت جبریل کے قول کی طرح ہے البتہ مزار پر جا کر یہ کہنا جاء نہیں ہے کہ اے صاحب مزارچ آپ ہمیں بیٹا دے دیں اگرچہ اس میں بھی اسناد مجازی کی تاویل ہوسکتی ہے کہ آپ ہمارے لئے بیٹے کی دعا کردیں، لیکن یہ کلمات موہم شرک ہیں اس لئے صاف اور سیدھا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ اپنے اس مقرب بندہ کے وسیلہ سے ہماری دعا قبول کرے اور ہمارا فلاں کام کر دے، یہ دعا اپنے گھر میں بھی کی جاسکتی ہے، لیکن اللہ کے نیک بندوں کے پاس جا کر دعا کی جائے تو دعا کا قبول ہونا زیادہ متوقع ہے اور نیک بندوں پر جو برکتیں نازل ہوئی ہیں وہ بھی شامل حال ہوں گی، اور نذر صرف اللہ کی ہوتی ہے اولیاء اللہ کی نذر ماننا جائز نہیں ہے اور صدقہ و خیرات کر کے اس کا ثوابت انہیں پہنچنانا ایک الگ چیز ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 19 مريم آیت نمبر 18