أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ خَلۡفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ‌ ۖ فَسَوۡفَ يَلۡقَوۡنَ غَيًّا ۞

ترجمہ:

پھر ان کے بعد ایسے ناخلف آئے جنہوں نے نمازیں ضائع کیں اور خواہشات کی پیروی کی تو عنقیرب و غی (ہلاکت) میں جاگریں گے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : پھر ان کے بعد ایسے ناخلف آئے جنہوں نے نمازیں ضائع کیں اور خواہشات کی پر یوی کی تو عنقریب وہ غی (ہلاکت) میں جا گریں گے (مریم :59)

تعدیل ارکان میں کمی کی وجہ سے نمازوں کو ضائع کرنا 

نیک اولاد کو خلف (لام کی زبر) کہتے ہیں اور بری اولاد کو خلف (لام کی جزم) کہتے ہیں۔ (المحکم والمحیط الاعظم ج ٥ ص 197، قاموس ج ٣ ص 199)

نمازوں کو ضائع کنے کا ایک معنی یہ ہے کہ نماز کے حقوق اور اس کے واجبات کی رعایت نہ کی جائے، مثلاً انسان نماز میں تعدیل ارکان نہ کرے جیسا کہ اس حدیث میں اس کی تصریح ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض)  بیان  کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں داخل ہوئے آپ کے بعد ایک اور شخص مسجد میں داخل ہوا اور اس نے نماز پڑھی، پھر اس نے آ کر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا آپ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا واپس جائو اور پھر نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ واپس گیا اور پہلے کی طرح نماز پڑھی، پھر آیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا آپ نے پھر فرمایا واپس جائو اور (دوبارہ) نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی، تین بار اس طرح ہوا، پھر اس نے کہا اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اس سے زیادہ اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا، آپ مجھے تعلیم دیجیے آپ نے فرمایا : جب تم نماز پڑھنے کھڑے ہو تو اللہ اکبر کہو، پھر تم جتنا قرآن آسانی کے ساتھ پڑھ سکتے ہو اتنا قرآن پڑھو، پھر رکوع کرو حتیٰ کہ اطمینان سے رکوع کرو، پھر رکوع سے اٹھ کھڑے ہو حتیٰ کہ سدیھے کھڑے ہو جائو، پھر سجدہ کرو حتیٰ کہ اطمینان سے سجدہ کرو، پھر سجدہ سے سر اٹھا کر بیٹھو حتی کہ اطمینان سے بیٹھ جائو اور پانی تمام نمازیں اس طرح پڑھو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :757، صحیح مسلم رقم الحدیث :397، سنن ابودائود رقم الحدیث :856 سنن الترمذی رقم الحدیث :303، سنن النسائی رقم الحدیث :884)

ابو وائل بیان کرتے ہیں کہ حضرت حذیفہ (رض) نے دیکھا ایک شخص نماز میں رکوع اور سجدہ کامل طریقہ سے نہیں کر رہا تھا، جب وہ نماز پڑھ چکا تو انہوں نے اس شخص سے کہا تم نے نماز نہیں پڑھی اور اگر تم مرگئے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے خلاف کرتے ہوئے مرو گے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :389، 791، 808)

زید بن وھب بیان کرتے ہیں کہ حضرت حذیفہ نے ایک شخص کو دیکھا وہ ارکان نماز میں کمی کرتے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا، حضرت حذیفہ نے اس سے پوچھا تم کتنے عرصہ سے اس طرح نما زپڑھ رہے ہو اس نے کہا چالیس سال سے، حضرت حذیفہ نے کہا تم نے چالیس سال سے نماز نہیں پڑھی اور اگر تم اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے مرگئے تو سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے خلاف پر عمل کرتے ہوئے مرو گے، پھر فرمایا ایک آدمی نماز تخفیف سے پڑھتا ہے، لیکن رکوع و سجود مکمل کرتا ہے اور اچھی طرح نماز پڑھتا ہے۔ (مطلب یہ ہے کہ لمبی نمازیں پڑھنا مقصود نہیں ہے بلکہ تعدیل ارکان کے ساتھ نماز پھڑنا مقصود ہے۔ ) (سنن النسائی رقم الحدیث :1311)

مستحب وقت کے بعد نماز پڑھ کر نمازوں کو ضائع کرنا 

نماز کو بہت تاخیر سے پڑھنا یہ بھی نماز کو ضائع کرنا ہے۔

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ منفاق کی نماز ہے وہ بیٹھ کر سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے حتی کہ جب سورج دو سینگوں کے درمیان ہوتا ہے تو وہ کھڑا ہو کر چار ٹھونگیں مار لیتا ہے اور اس میں وہ اللہ کا بہت کم ذکر کرتا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :622، سنن ابو دائود رقم الحدیث :413 سنن الترمذی رقم الحدیث :160، سنن النسائی رقم الحدیث :511)

حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تم پر ایسے حاکم ہوں گے جو نماز کو اس کے وقت سے مئوخر کر کے پڑھیں گے یا نماز کو اس وقت ضائع کر کے پڑھیں گے۔ میں نے عرض کیا پھر آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : تم نماز کو اس کے وقت پر پڑھ لو، پھر اگر تم ان کے ساتھ نماز کو پائو تو پڑھ لو وہ تمہاری نفلی نماز ہوگی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :431، صحیح مسلم رقم الحدیث :648، سنن الترمذی رقم الحدیث :176، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :1357) 

علامہ ابوسلیمان خطابی متوفی 388 ھ لکھتے ہیں :

اکثر وہ لوگ جو جلدی جلدی چند ٹھونگیں مار کر نماز پڑھتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو سستی کے ساتھ نما زپڑھتے ہیں ان کو نماز پڑھنے میں کوئی ذوق آتا ہے نہ خوشی ہوتی ہے، یہ لوگ جب کسی دنیا دار رئیس یا کسی مقتدر شخصیت کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو یہ خواہ کتنی دیر کھڑے رہیں ان کو تھکاوٹ اور اکتاہٹ نہیں ہوتی، لیکن اگر انہیں با جماعت نماز میں امام کے پیچھے کچھ دیر کھڑا ہونا پڑے تو ان کو سخت تھجاوٹ، اکتاہٹ اور بدمزگی ہوتی ہے اور یہ امام کو بہت برا کہتے ہیں۔ (معالم السنن ج ١ ص 416 مع مختصر سنن ابودائود، مطبوعہ دارالمعرفت بیروت) 

نوافل سے فرائض میں کمی کی تلافی اور تدارک 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن بندہ کے اعمال سے جس چیز کا سب سے پہلے حساب لیا جائے گا وہ اس کی نماز ہے، اگر نماز صحیح ہے تو وہ کامیاب اور کامران ہوگیا اور اگر نماز فاسد ہے تو وہ ناکام اور نقصان زدہ ہوگیا۔ اگر اس کے فریضہ میں کوئی کمی ہو تو رب تبارک و تعالیٰ فرمائے گا دیکھو میرے بندہ کا کوئی نفل ہے، پھر فریضہ میں جو کمی ہوگی اس کو نفل سے پورا کیا جائے گا۔ پھر اس کے باقی اعمال کا حساب بھی اسی طرح ہوگا۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث، 864، سنن الترمذی رقم الحدیث 413، سنن النسائی رقم الحدیث :465، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :1425، مسند احمد ج ٢ ص 290، مصنف ابن ابی شیبہ ج 14 ص 146، السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث :317، المستدرک ج ١ ص 262)

علامہ محمد بن عبداللہ ابن العربی متوفی 543 ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

اس حدیث میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس کے فرائض کی تعداد میں جو کمی رہ گئی ہے وہ نوافل سے پوری کردی جائے گی اور یہ بھی احتمال ہے کہ فرئاض کے خضوع اور خشوع میں جو کمی رہ گئی ہے وہ نوافل سے پوری کردی جائے گی اور میرے نزدیک پہلا احتمال راجح ہے۔ (عارضہ الاحوذی ج ٢ ص 175، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1418 ھ)

شیخ محمد عبدالرحمٰن مبارک پوری متوفی 1353 ھ لکھتے ہیں :

علامہ عراقی نے شرح ترمذی میں کہا ہے کہ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ نماز کی سنن، اس کے آداب، خشوع اذکار اور دعائوں میں جو کمی رہ گئی ہے اس کو نوافل سے پورا کردیا جائے اور اس کو فریضہ میں اس کا ثواب مل جائے۔ خواہ اس نے یہ امور فرض میں نہ کئے ہوں بلکہ نفل میں کئے ہوں اور یہ بھی احتمال ہے کہ نماز کے فرائض اور اس کی شروط میں جو کمی رہ گئی ہو اس کو نوافل سے پورا کردیا جائے اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس نے جو فرض نمازیں بالکل نہ پڑھی ہوں اس کی تلافی نفل نمازوں سے ہوجائے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرض نمازوں کے عوض نوافل صحیحہ کو قبول فرمالے گا۔ (تحفہ الاحوذی ج ٢ ص 477، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، 1419 ھ)

ملا علی بن سلطان محمد القاری متوفی 1014 ھ لکھتے ہیں :

اس کے فرائض کی مقدار اور اس کی تعداد میں جو کمی ہوگئی اس کو نوافل سے پورا کرلیا جائے گا اور جس حدیث میں یہ ہے کہ بندہ کے نوافل اس وقت تک قبول نہیں ہوتے جب تک فرائض ادا نہ کر لئے جائیں وہ حدیث ضعیف ہے۔ (المرقات ج و ص 218، مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان، 1390 ھ) 

فرض نہ پڑھنے سے نفل نامقبول ہونے کی حدیث ضعیف ہے 

ملا علی قاری نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ حضرت ابوبکر (رض) کا قول ہے اس کو حافظ ابونعیم متوفی 430 ھ نے روایت کیا ہے۔ حلیتہ الاولیاء ج ١ ص 36، مطبوعہ دارالکتاب العربی 1407 ھ حلیتہ الاولیاء ج ١ رقم الحدیث :83 مطبوعہ دارالکتب العربیہ بیروت، 1418 ھ جامع الاحادیث الکبیرج 13 صج 53 جمع الجوامع ج ١ ۃ ص 43 مسند ابوبکر رقم 189 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1420 ھ 

اس حدیث کی سند میں ایک راوی ہے فطر بن خلیفہ، یہ 153 ھ یا 155 ھ میں فوت ہوگیا تھا ہرچند کہ بعض لوگوں نے اس کی تعدیل کی ہے لیکن اکثر ائمہ حیدث نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے، امام دارقطنی نے کہا اس کی حدیث سے استدلال نہیں کیا جاتا امام ابن سعد نے کہا لوگ اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔ ابوبکر بن عیاش نے کہا میں نے اس کے بدمذہب ہونے کی وجہ سے اس سے حدیث کی روایت رتک کردی۔ احمد بن یونس نے کہا میں اس کے پاس سے گزرتا تو اس کو کتے کی مثل ترک کردیتا، ابن معین نے کہا یہ ثقہ شیعی ہے، عبداللہ بن احمد نے کہا یہ متشیع ہے، جو زجانی نے کہا یہ گمراہ غیر ثقہ ہے۔

(میزان الاعتدال ج ٥ ص 441، رقم 6784 تہذیب الکمال ج ٥ ص 123 طبع جدید ج ٢ ص 1105 اطبع قدیم، تہذیب التہذیب ج ٨ ص 262، رقم : 5657 طبع جدید، ج ٨ ص 301 طبع قدیم، التاریخ الکبیرج ٧ ص 139 رقم :625)

نوافل سے تدارک نہ ہونے کا رد قرآن، حدیث اور تصریحات علماء سے 

خلاصہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے فرائض پورے نہ ہوں تو اس کے نوافل باطل نہیں ہوتے اور جس اثر میں یہ مذکور ہے کہ بندہ کے نوافل قبول نہیں ہوتے حتیٰ کہ فرائض ادا کر لئے جائیں اس کی سند ضعیف ہے اور درایت کا بھی یہی تقاضا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرایرہ (الزلزال :7-8) پس جس نے ایک ذرہ کے برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ اس کی جزا پائے گا اور جس نے ایک ذرہ کے برابر بھی برائی کی ہوگی وہ اس کی سزا پائے گا 

سو اس آیت کے موافق جس شخص کے جس قدر فرائض رہ گئے ہیں وہ ان کی سزا کا مستحق ہوگا اور جس شخص نے جتنے نوافل ادا کیے ہیں وہ ان کی جزا کا مستحق ہوگا، اللہ تعالیٰ کسی کی ایک ذرہ کے برابر نیکی کو بھی ضائع نہیں فرماتا وہ فرئاض میں کمی کی وجہ سے کسی شخص کے ساری عمر کے پڑھے ہوئے نوافل کو کب ضائع فرمائے گا۔ علاوہ ازیں سنن اربعہ کی اس صحیح حدیث میں یہ تصریح یہ یہ کہ جس شخص کے فرئاض میں کمی ہو اس کے نوافل سے وہ کمی پوری ہوجاتی ہے، خواہ فرئاض میں کمی خضوع اور خشوعچ کے اعتبار سے ہو یا اس نے کچھ فرائض بالکل پڑھے ہی نہ ہوں اور علامہ ابن العربی، علامہ عرقای اور ملا علی قاری کا یہی نظریہ ہے کہ اگر اس کے فرائض کی عتداد اور مقدار میں کمی ہو تو وہ کمی نوافل کے پڑھنے سے پوری ہوجاتی ہے اور یہ اسی وقت ہوگا جب فرائض میں کمی ہونے کے باوجود اس کے نوافل مقبول ہوں۔

امام محمد بن محمد غزالی متوفی 505 ھ نے اس بحث میں تفصیل سے لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو نوافل بہت اخلاص سے پڑھنے چاہئیں کیونکہ اگر کسی وجہ سے اس کے فرائض ضائع ہوگئے تو نوافل سے فرائض کی کمی پوری ہوجائے گی، لیکن اگر اس نے نوافل دکھاوے اور ریاکاری سے پڑھے ہیں تو پھر اس کی نجات کی کوئی صورت نہیں ہے اور انہوں نے انہی احادیث سے استدلال کیا ہے۔ (احیاء العلوم ج ٣ ص 293، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1419 ھ)

علامہ محمد بن محمد زبیدی متوفی 1205 ھ اس کی شرح میں لکھتے ہیں :

امام حاکم نے الکنیٰ میں حضرت ابن عمر (رض) سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت پر جو چیز سب سے پہلے فرض کی ہے وہ پانچ نمازیں ہیں اور میری امت کے جو اعمال سب سے پہلے بلند کئے جائیں گے وہ پانچ نمازیں ہیں اور سب سے پہلے میری امت سے جس چیز کا سوال کیا جائے گا وہ پانچ نمازیں ہیں پس جس نے ان میں سے کوئی نماز ضائع کردی تو اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا، دیکھو میرے بندے کی کوئی نفلی نماز ہے جس کے ساتھ تم اس کے فرض کی کمی کو پورا کردو اور میرے بندے کے رمضان کے روزے دیکھو اگر اس نے ان میں سے کوئی روزہ ضائع کردیا تو دیکھو میرے بندہ کا کوئی نفلی روزہ ہے جس سے تم اس کے روزے کی کمی کو پورا کردو، اور میرے بندہ کی زکوۃ کو دیکھو اگر اس میں سے کوئی زکوۃ ضائع ہوگئی ہے تو دیکھو میرے بندہ کا کوئی نفلی صدقہ ہے جس کے ساتھ تم زکوۃ کی کمی کو پورا کردو، سو اس طرح اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے عدل سے اس کے فرئاض قبول ہوں گے اگر اس کے زائد عمل مل گئے تو ان کو میزان میں رکھ دیا جائے گا اور اس بندہ سے کہ کا جائے گا تم خوشی خوشی جنت میں داخل ہو جائو اور اگر اس کا کوئی زائد عمل نہیں ملے گا تو دوزخ کے فرشتوں سے کہا جائے گا کہ اس کے ہاتھ پائوں کو بادنھ کر دوزخ میں پھینک دو ۔ (اتحاف السادۃ المتقین ج ٨ ص 328، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)

آیا نوافل سے فرائض کی مقدار میں کمی کا تدارک ہوتا ہے یا اس کی کیفیت میں کمی کا 

فرائض میں کمی ہو تو اس کا تدارک نوافل سے ہوجاتا ہے، حدیث میں صرف اتنا ہے، لیکن اس سے کیا مراد ہے آیا فرائض کے خضوع اور خشوع اور الخصا کی کیفیت میں کمی ہو تو اس کا تدارک نوافل سے ہوتا ہے یا فرئاض کی تعداد اور مقدار میں کمی ہو تو اس کا تدارک نوافل سے ہوجاتا ہے، اس بحث میں سب سے عمدہ تقریر حافظ ابو عمر یوسف بن عبداللہ ابن عبدالبر مالکی متوفی 463 ھ نے کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

نفل سے فرض کی تلافی اس صورت میں ہوگی کہ ایک شخص پر فرض میں سجدہ سہو تھا اور اس نے اس کو ادا نہیں کیا، یا اس نے رکوع اچھی طرح نہیں کیا اور اس کو اس کا پتا نہیں چلا، لیکن جس شخص نے عمداً نماز کو ترک کیا، یا جو نماز پڑھنا بھول گیا پھر اس کو یاد آیا اس کے باوجود اس نے عمداً نماز نہیں پڑھی، اور وہ فرض ادا کرنے کے بجائے نوافل میں مشغول رہا حالانکہ اس کو یاد تھا کہ اس کے ذمہ فرض پڑھنا ہے تو اب نوافل اس کے فرائض کا تدارک نہیں ہوں گے۔ (التمہید ج 10 ص 331، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1419 ھ)

حافظ ابن عبدالبر نے یہ لکھا ہے کہ موخر الذکر صورت میں نوافل فرائض کا تدارک نہیں ہوں گے یہ نہیں لکھا کہ فرض نہ پڑھنے سے نفل قبول ہی نہیں ہوں گے۔ کیونکہ فرض نہ پڑھنے سے بندہ سزا کا مستحق ہوگا اور نفل پڑھنے سے بندہ اس کی جزا کا مستحق ہوگا صرف کفر اور ارتد اور ایسا جرم ہے جس کی وجہ سے بندہ کے نیک اعمال ضائع ہوجاتے ہیں یا نیک اعمال قبول نہیں ہوتے اس کے علاوہ اور کسی کام سے بندہ کے نیک اعمال ضائع نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

اس نظریہ کا بطلان کہ فرض نہ پڑھنے سے نفل قبول نہیں ہوتے 

(آل عمران :195) پس ان (صالحین) کے رب نے ان کی دعا قبول فرالی کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کرتا خواہ وہ مرد ہو یا عورت، تم آپس میں ایک دور سے کے ہم جنس ہو۔

نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

(النساء 40) بیشک اللہ ایک ذرہ برابر (بھی) ظلم نہیں کرتا اور اگر کوئی نیکی ہو تو وہ اس کو دگنا کردیتا ہے اور خاص اپنے پاس سے اجر عظیم عطا فرماتا ہے۔

مومن کا نفل نماز پڑھنا بہرحال ایک نیک کام ہے سو اس آیت کی رو سے اللہ تعالیٰ اس کو دگنا کر دے گا اور اپنے پاس سے اس پر اجر عظیم عطا فرمائے گا اور یہ نہیں ہوسکتا کہ بغیر کفر اور ارتداد کے اس کے نوافل کو قبول نہ فرمائے یا ان کو ضائع فرما دے اور سستی یا غفلت سے بعض فرائض کو ترک کردینا کفر یا ارتداد نہیں ہے۔ ترک فرض کو کفر یا ارتداد قرار دینا خوارج کا مذہب ہے اہل سنت کا مذہب نہیں ہے۔

فرض اور نذرانے کی مثال کا جواب اور تحقیق مزید 

بعض علمائ نے لکھا ہے کہ پھر اس سے بڑھ کر احمق کون کہ اپنا مال جھوٹے سچے نام کی خیرات میں صرف کرے اور اللہ عزوجل کا فرض اور اس بادشاہ قہار کا وہ بھاری قرض گردن پر رہنے دے، شیطان کا بڑا دھوکا ہے کہ آدمی کو نیکی کے پردے میں ہلاک کرتا ہے، نادان سرسمجھتا ہی نہیں نیک کام کر رہا ہوں اور یہ نہ جانا کہ نفل بےفرض نرے دھوکے کی ٹٹی ہے، اس کے قبول کی امید تو مفقود اور اس کے ترک کا عذاب گردن پر موجود۔ اے عزیز ! فرض خاص سلطانی قرض ہے اور نفل گویا تحفہ و نذرانہ، قرض نہ دیجیے اور بالائی بےکار تحفے بھیجے وہ قابل قبول ہوں گے ! یوں یقین نہ آئے تو دنیا یک جھوٹے حاکموں کو ہی آزمائے۔

ہمارے نزدیک یہ عبارت وعظ اور نصیحت کے اعتبار سے تو درست ہے اور جو شخص سرے سے فرائض پڑھتا ہی نہ ہو اور نوافل پڑھنے پر کمر بستہ ہو یا جیسے ان پڑھ عوام فرض نمازیں نہیں پڑھتے اور میلاد شریف اور گیارہویں شریف کی محافل کو قضا نہیں کرتے ان کو زاجر و توبیخ کے لئے اس طرح کہنا صحیح ہوسکتا ہے لیکن تحقیق کے اعتبار سے یہ عبارت درست نہیں ہے کیونکہ فرض نہ پڑھنے کا بہرحال گناہ ہوگا اور نوافل پڑھنے اور میلاد شریف اور گیارہویں شریف کے صدقات کا ثواب ہوگا۔ قرآن مجید میں ہے فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ اللہ تعالیٰ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرایرہ (زلزال :7-8) اور یہ کہنا کہ نفل بےفرض کے قوبل کی امید مفقود اس آیت کریمہ کے مقابل ہمیں درست نہیں ہے اور قرض اور تحفہ کی مثال بھی درست نہیں ہے کیونکہ جو قرض خواہ شریف النفس اور کریم ہو وہ مقروض کے نذرانہ کو اصل قرض سے منہا کرلے گا اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کون کریم ہے ! مثلاً ایک شخص نے کسی سے ایک ہزار روپے لینے ہیں مقروض اس کو سو روپے نذر کرتا ہے تو اگر قرض خواہ بدمزاج اور مغلوب الغضب ہو تو وہ سو روپے اس کے منہ پر مار دے گا اور کہے گا پہلے قرض ادا کرو تحفے بعد میں دینا اور اگر قرض خواہ شریف اور کریم ہو تو اس کے سو روپے بھی قبول کرلے گا اور کہے گا میاں میں نے یہ سو روپے تمہارے قرض میں کاٹ لئے اب تمہارا قرض نو سو روپے ہے اور اللہ تعالیٰ تو سب کریموں سے بڑھ کر کریم ہے اس لئے وہ فرائض کی تعداد میں کمی کی تلافی بندہ کے نوافل سے کرلیتا ہے اور چونکہ وہ نیکی کو دگنا چوگنا کردیتا ہے اس لئے کچھ عجب نہیں کہ کسی شخص کے ذمہ فرئاض بہت زیادہ ہوں اور اس کے نوافل ان کے مقابلہ میں بہت کم ہوں تو وہ ان کم نوافل ہی کو دگنا چوگنا کر کے اس کے فرئاض کا تدارک کر دے، آخر اسی نے تو فرمایا ہے :

(النساء :40) اور اگر کوئی نیکی ہو تو وہ اس کو دگنا کردیتا ہے اور خاص اپنے پاس سے اجر عظیم عطا فرماتا ہے۔ سو اس کریموں کے کریم کا قیاس بدمزاج اور مغلوب الغضب لوگوں پر نہ کیجیے !

غی کا معنی 

مریم :59 میں فرمایا ہے پھر انکے بعد ایسے ناخلف آئے جنہوں نے نمازیں ضائع کیں اور خواہشات کی پیروی کی تو عنقریب وہ غی (ہلاکت) میں جاگریں گے۔

نمازیں ضائع کرنے کی تفسیر ابھی ہم کرچکے ہیں، غی کا لغوی معنی ہے گم راہی اور ناکامی (مختار الصحاح ص 287) اور یہاں اسی سے مراد تین چیزیں ہیں (ۃ) وہ عنقریب گم راہی کی سزا پائیں گے جیسے قرآن مجید میں ہے یلق اثاما (الفرقان :68) یعنی وہ گناہوں کی سزا پائیں گے (٢) وہ جنت کے راستہ سے گمراہ ہوجائیں گے۔ (٣) جہنم کی ایک وادی ہے جس کا نام غی ہے وہ اس وادی میں جاگریں گے۔

لقمان بن عامر خزاعی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابوامامہ صدی بن عجلان باہلی (رض) کے پاس گیا اور میں نے کہا آپ مجھے کوئی حدیث سنائیں جو آپ نے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہو، انہوں نے کہا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر دس اوراق وزنی پتھر جہنم کے کنارے سے جہنم کی گہرائی میں پھینکا جائے تو وہ پچاس سال بعد غی اور اثام تک پہنچے گا۔ میں نے پوچھا غی اور اثام کیا چیزیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا : وہ جہنم کے نیچے دو کنوئیں ہیں جن میں دوزخیوں کی پیپ بہہ کر آتی ہے اور ان دونوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کیا ہے (غی کا ذکر اس آیت میں ہے) اضاعوا الصلوۃ و اتبعوا الشھوات فوق یلقون غیا، اور اثام کا ذکر اس آیت میں ہے : ومن یفعل ذالک یلق اثاما (الفرقان :68) جو زنا کریں گے ان کو اثام میں ڈال دیا جائے گا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 19 مريم آیت نمبر 59