أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلۡ مَنۡ كَانَ فِى الضَّلٰلَةِ فَلۡيَمۡدُدۡ لَهُ الرَّحۡمٰنُ مَدًّا ۚ‌ حَتّٰٓى اِذَا رَاَوۡا مَا يُوۡعَدُوۡنَ اِمَّا الۡعَذَابَ وَاِمَّا السَّاعَةَ ؕ فَسَيَـعۡلَمُوۡنَ مَنۡ هُوَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّاَضۡعَفُ جُنۡدًا ۞

ترجمہ:

آپ کہیے جو لوگ گمراہی میں مبتلا ہں، پھر ان کو رحمٰن نے خوب ڈھیل بھی دی ہو، حتی کہ وہ اس چیز کو دیکھ لیں جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے یا عذاب یا قیامت ؟ پھر وہ عنقریب جان لیں گے کہ کس کا مقام زیادہ برا تھا اور کس کا لشکر زیادہ کمزور تھا

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آپ کہئے کہ جو لوگ گم راہی میں مبتلا ہوں پھر ان کو رحمٰن نے خوب ڈھیل بھی دی ہو، حتیٰ کہ وہ اس چیز کو دیکھ لیں۔ جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے یا عذاب یا قیامت ! پھر وہ عنقریب جان لیں گے کہ کس کا مقام زیادہ برا تھا اور کس کا لشکر زیادہ کمزور تھا اور اللہ ہدایت یافتہ لوگوں کی ہدایت کو زیادہ کرتا ہے اور باقی رہنے والی نیکیاں آپ کے رب کے نزدیک ثواب کے لحاظ سے زیادہ بہتر ہیں اور انجام کے لحاظ سے (بھی) زیادہ اچھی ہیں (مریم :75-76)

کفار کے مقام کا زیادہ برا ہونا اور ان کے لشکر کا زیادہ کمزور ہونا 

ان آیتوں میں کفار کے شبہ کا دوسرا جواب ہے اس کی تقریر یہ ہے کہ چلو مان لیا کہ کفار کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں زیادہ ڈھیل دی ہوئی ہے، لیکن دنیا کی زندگی فانی اور متناہی ہے آخر یہ زندگی ایک دن ختم ہوگی۔ پھر پہلے ان کو موت کی سختیوں کا سامنا ہوگا، پھر عذاب قبر کا پھر حشر کا عذاب ہوگا اور بالآخر دوزخ کا عذاب ہوگا تو پھر ان دنیاوی زندگی کی نعمتوں پر فخر اور خوشی کا کیا موقع ہے !

کفار مومنوں سے کہتے تھے کہ کس کا مقام زیادہ اچھا ہے اور کس کی مجلس زیادہ بہتر ہے۔ سو جب وہ دیکھ لیں گے کہ ان کا مقام دوزخ ہے اور دنیا میں وہ اپنی جس جمعیت اور مددگاروں پر مان رکھتے تھے جب قیامت کے دن ان میں سے کوئی ان کے کام نہیں آسکے گا تو پھر وہ جان لیں گے کہ کس کا مقام زیادہ برا تھا اور کس کا لشکر زیادہ کمزور تھا۔

اور سب دن ایک سے نہیں رہتے جس قوت اور طاقت اور عیش و عشرت پر یہ فخر کر رہے ہیں، یہ دنیا میں بھی زائل ہوجاتی ہے اور قوت اور طاقت کے بجائے ضعف اور لاچاری، صحت کے بعد مرض اور عیش و عشرت کے بعد تنگی اور فقر کے ایام آجاتے ہیں اور جب مسلمان جنگوں میں فتح یاب ہوں اور کفار شکست سے دوچار ہوں تو پھر ان کا فخر و غرور دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے اور ایسے وقتوں میں ان پر منکشف ہوگا کہ کس کا مقام زیادہ برا ہے اور کس کا لشکر زیادہ کمزور ہے۔

الباقیات الصالحات کا معنی 

نیز فرمایا اللہ تعالیٰ ہدایت یافتہ لوگوں کی ہدایت کو زیادہ کرتا ہے، یعنی جو شخص اللہ پر ایمان لے آتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے اخلاص کے سبب سے اس کی ہدایت میں اور اضافہ فرماتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے درجات غیر متناہی ہیں۔ پہلے اسے معرفت کے ایک مرتبہ کی طرف ہدایت دیتا ہے پھر اس کے اخلاص کی وجہ سے دوسرے مرتبہ کی طرف ہدایت دیتا ہے اور علی ھذا القیاس یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے قرب کے درجات غیر متناہی ہیں، پہلے اسے ایک درجہ کا قرب عطا فرماتا ہے پھر دوسرے درجہ کا اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے۔

پھر فرمایا اور باقی رہنے والی نیکیاں ثواب کے لحاظ سے آپ کے رب کے نزدیک زیادہ اچھی اور زیادہ بہتر ہیں، کفار نے اپنے عیش و آرام اور قوت اور استحکام کا مقابلہ مسلمانوں کی تنگ دستی اور ان کے ضعف سے کیا تھا۔ سو مسلمانوں کی تنگی اور ان کا ضعف عارضی ہے اور اس کے بعد ان کو جو عظیم ثواب حاصل ہوگا وہ دائمی ہے اور کفار کو جو دنیا میں نفع حاصل ہے وہ عارضی ہے اس کے بعد ان کو آخرت میں جو ضرر لاحق ہوگا وہ دائمی اور غیر متناہی ہے اور باقیات صالحات سے مراد ایمان اور اعمال صالحہ ہیں کیونکہ ان کا نفع دائمی ہے اور بای رہنے والا ہے اور بعض علماء نے کہا باقیات صالحات سے مراد نمازیں ہیں اور بعض نے کہا اس سے مراد وہ نیک اعمال اور صدقہ و خیرات ہیں جس سے دوسرے مسلمانوں کو نفع پہنچے۔ قرآن مجید میں ہے :

واما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض (الرعد :17) اور جو چیز لوگوں کو نفع دیتی ہے وہ زمین میں برقرار رہی ہے۔

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے ایک بکری ذبح کی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا اس میں سے کچھ باقی ہے حضرت عائشہ نے کہا ایک شانہ باقی ہے، آپ نے فرمایا : اس شانہ کے علاوہ سب باقی ہے، یہ حدیث صحیح ہے (یعنی جو اللہ کی راہ میں دے دیا وہ باقی ہے جو اپنے لیے رکھ لیا وہ فانی ہے) (سنن الترمذی رقم الحدیث :2470، مسند احمد ج ٦ ص 50، المسند الجامع رقم الحدیث :17279)

بعض مخصوص تسبیحات کو بھی آپ نے باقیات صالحات فرمایا ہے :

حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے ایک لاٹھی سے ایک درخت کے پتے گرائے پھر فرمایا لا الہ الا اللہ واللہ اکبر والحمد للہ و سبحان اللہ کہنے سے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح اس درخت کے پتے جھڑ رہے ہیں، اے ابوالدرداء اس سے پہلے کہ تمہارے اور ان کلمات کے درمیان کوئی چیز (موت) حائل ہو ان کلمات کو یاد کرلو، یہ الباقیات الصالحات ہیں اور یہ جنت کے خزانوں میں سے ہیں۔ (جامع البیان رقم الحدیث :18011)

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ کفار تو اس وقت دنیا میں آرام اور مزے سے ہیں اور یہ عالم لوگ ہمیں آخرت کے وعدہ پر بہلا تے رہتے ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ ایمان نام ہی غیب پر یقین رکھنے اور اس کو ماننے کا ہے اور جس شخص کو جنت اور اس کی نعمتوں پر یقین نہیں اور وہ صرف ظاہر اور مادہ پرستی پر یقین رکھتا ہے اس سے ہمارا روئے سخن نہیں ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 19 مريم آیت نمبر 75