أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً لِّيَكُوۡنُوۡا لَهُمۡ عِزًّا ۞

ترجمہ:

اور انہوں نے اللہ کے سوا معبود بنا رکھے ہیں تاکہ وہ ان کے مددگار ہوں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور انہوں نے اللہ کے سوا معبود بنا رکھے ہیں تاکہ وہ ان کے مددگار ہوں ہرگز نہیں ! عنقریب وہ ان کی عبادتوں کا انکار کردیں گے اور وہ ان کے خلاف ہوجائیں گے (مریم :81-82)

بت پرستی کا رد 

مشرکین قریش حشر اور دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرتے تھے اور بتوں کی عبادت کرتے تھے، اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے حشر کے ثبوت میں دلائل دیئے اور اب بت پرستی کے رد میں آیات نازل فرمائیں۔

مشرکین بتوں کی اس لئے بادت کرتے تھے تاکہ وہ بت ان کے لئے باعث عزت اور مددگار ہوں کیونکہ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ قیامت کے دن بت ان کی اللہ تعالیٰ سے شفاعت کریں گے اور ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے چھڑا لیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا رد فرمایا : کلا ! ایسا ہرگز نہیں ہوگا، بلکہ وہ بت خود اپنی عبادت کرنے والوں کا رد کریں گے۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان بتوں کو زندہ کر دے گا، حتیٰ کہ وہ ان لوگوں کو زجر و توبیخ کریں گے جو دنیا میں ان کی عبادت کرتے رہے تھے جس سے مشرکین کی حسرت اور ان کی مایوسی اور زیادہ ہوگی۔ ایک تفسیر یہ ہے کہ مشرکین قیامت کے دن خود ان بتوں سے بےزاری کا اظہار کریں گے اور بتوں کی عبادت کی مذمت کریں گے۔

ضد کا معنی 

نیز فرمایا وہ بت ان کی ضد (ان کے خلاف) ہوجائیں گے، علامہ راغب اصفہانی ضد کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

دو ضدیں وہ چیزیں ہیں جو ایک جنس کے تحت ہوتی ہیں اور ہر ضد اپنے اوصاف خاصہ میں دوسری ضد کے خلاف ہوتی ہے اور دونوں کے درمیان سب سے زیادہ بعد ہوتا ہے، جیسے سیاہ اور سفید اور شر اور خیر اور جب تک وہ ایک جنس کے تحت نہ ہوں تو ان کو ایک دوسرے کی ضد نہیں کہا جاتا۔ مثلاً مٹھاس اور حرکت ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں۔ مٹھاس کی ضد کڑواہٹ ہے اور حرکت کی ضد سکون ہے۔ علماء نے کہا ہے کہ ضد ان متقابلات میں سے ایک ہے، جو دو چیزیں اپنی ذات میں مختلف ہوں اور ہر ایک دوسرے کے متقابل ہو اور ایک چیز میں بیک وقت وہ دونوں جمع نہ ہوں وہ اپٓس میں متقابل ہوتی ہیں۔ مثلاً دو ضدیں جیسے سیاہ اور سفید اور دو نقیضیں جیسے وجود اور عدم اور عدم اور ملکہ جیسے عمی اور بصر، اور متضایف جیسے نصف اور ضعف اور بہت سے متکلمین اور اہل لغت ہر متقابل کو ضد کہتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ دو ضدیں وہ ہیں جن کا ایک محل میں جمع ہونا صحیح نہ ہو۔

کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نہ کوئی ” ند “ ہے اور نہ کوئی ’ دضد “ ہے کیونکہ ” ند “ اس کو کہتے ہیں جو جوہر اور ذات میں مشترک ہو اور ” ضد “ اس کو ہتے ہیں کہ ایک جنس کے تحت دو منافی چیزیں ہوں اور اللہ تعالیٰ جوہر ہونے سے منزہ ہے پس اللہ تعالیٰ کی کوئی ’ دضد “ ہے اور نہ کوئی ” ند “ ہے۔

اور اس آیت میں جو فرمایا ہے وہ ان کی ضد ہوجائیں گے اس کا معنی ہے وہ ان کے مخالف ہوجائیں گے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 19 مريم آیت نمبر 81