فَرَجَعَ مُوۡسَىٰۤ اِلٰى قَوۡمِهٖ غَضۡبَانَ اَسِفًا ۙ قَالَ يٰقَوۡمِ اَلَمۡ يَعِدۡكُمۡ رَبُّكُمۡ وَعۡدًا حَسَنًا ۙ اَفَطَالَ عَلَيۡكُمُ الۡعَهۡدُ اَمۡ اَرَدْتُّمۡ اَنۡ يَّحِلَّ عَلَيۡكُمۡ غَضَبٌ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ فَاَخۡلَفۡتُمۡ مَّوۡعِدِىْ ۞- سورۃ نمبر 20 طه آیت نمبر 86
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَرَجَعَ مُوۡسَىٰۤ اِلٰى قَوۡمِهٖ غَضۡبَانَ اَسِفًا ۙ قَالَ يٰقَوۡمِ اَلَمۡ يَعِدۡكُمۡ رَبُّكُمۡ وَعۡدًا حَسَنًا ۙ اَفَطَالَ عَلَيۡكُمُ الۡعَهۡدُ اَمۡ اَرَدْتُّمۡ اَنۡ يَّحِلَّ عَلَيۡكُمۡ غَضَبٌ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ فَاَخۡلَفۡتُمۡ مَّوۡعِدِىْ ۞
ترجمہ:
پس موسیٰ غم اور غصہ کے ساتھ اپنی قوم کی طرف لوٹے، موسیٰ نے کہا اے میری قوم ! کیا تم سے تمہارے رب نے اچھا وعدہ نہیں کیا تھا ؟ پھر کیا تم پر بہت مدت گزر گئی تھی ! یا تمہارا یہ ارادہ تھا کہ تم پر تمہارے رب کا غضب نازل ہو، سو اس لئے تم نے مجھ سے کیے ہوئے وعدہ کی خلاف ورزی کی
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : پس موسیٰ غم اور غصہ کے ساتھ اپنی قوم کی طرف لوٹے، موسیٰ نے کہا اے میری قوم ! کیا تم سے تمہارے رب نے اچھا وعدہ نہیں کیا تھا پھر کیا تم پر بہت مدت گزر گئی تھی ! یا تمہارا یہ ارادہ تھا کہ تم پر تمہارے رب کا غضب نازل ہو، سو اس لئے تم نے مجھ سے کئے ہوئے وعدہ کی خلاف ورزی کی انہوں نے کہا ہم نے دانستہ آپ سے کئے ہوئے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کی، لیکن قوم (رفعون) کے زیورات کا بوجھ ہم پر لاد دیا گیا تھا تو ہم نے ان کو (آگ میں) ڈال دیا سو اسی طرح سامری نے (ان کو آگ میں) ڈالا تھا پس اس نے ان کے لئے چھڑے کا مجسمہ بنایا جس کی بیل کی (طرح) آواز تھی تو لوگوں نے کہا یہ ہے تمہارا معبود اور موسیٰ کا معبود، موسیٰ تو بھولا رہا تھا تو کیا یہ لوگ یہ بھی نہیں دیکھ سکتے تھے کہ وہ ان کی کسی بات کا جواب نہیں دے سکتا تھا اور نہ ان کے کسی نقصان اور نفع کا مالک تھا (طہ :86-89)
حضرت موسیٰ کا اپنی قوم کو بچھڑے کی عبادت پر زجر و توبیخ کرنا
طہ :86 میں ” غضبان “ اور ” اسف “ کے الفاظ ہیں۔ غضب کے معنی غصہ ہیں اور اسف کے معنی غم اور افسوس ہیں۔ غیظ اور غضب میں فرق ہے اللہ تعالیٰ غضب کے ساتھ متصف ہوتا ہے اور غیظ کے ساتھ متصف نہیں ہوتا۔ غضب کا معنی ہے جس پر غصہ ہو اس کو ضرر پہنچانا اور غیظ کا معنی ہے غصہ میں شکل متغیر ہوجائے مثلا ً چہرہ سرخ ہو اور اس پر کرختگی کے آثار ہوں۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے جس وعدہ کا ذکر فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان پر تورات نازل فرمائے گا، تاکہ انہیں احکام شرعیہ کا علم ہو اور وہ ان احکام پر عمل کر کے دنیا اور آخرت کی سرفرازی حاصل کریں اور اس کا ذکر اس آیت میں ہے : ووعدنکم جانب الطور الایمن (طہ :80) دوسرا قول یہ ہے کہ اس وعدہ سے مراد ہے عبادات پر اجر وثواب کا وعدہ۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : پھر کیا تم پر بہت مدت گزر گئی تھی ؟ اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابھی ابھی تو تم کو اتنی نعمتیں عطا فرمائی تھیں تم کو فرعون سے نجات دی ہے جس نے تم کو غلام بنا رکھا تھا، اور تم پر ظلم کرنے والے فرعون کو تمہاری آنکھوں کے سامنے غرق کردیا اور اس کے تمام حواریوں کو بھی غرق کیا۔ تمہارے لئے سمندر میں خشکی کا راستہ بنادیا۔ بارہ قبیلوں کے لئے بارہ راستے بنائی اور تمہاری فرمائش پر ان میں کھڑکیاں اور روشن دان بنائے تاکہ تم کو ایک دوسرے کو گزرتے ہوئے دیکھ سکو اور باتیں کرسکو۔ ابھی ان نعمتوں کو دیئے ہوئے کوئی زیادہ عصرہ تو نہیں گزرا کہ تم اللہ کی ان نعمتوں کو بھول جاتے اور اس کی ناشکری پر اتر آتے اور اس کے ساتھ شرک کرنے لگتے !
نیز حضرت موسیٰ نے فرمایا تم نے میرے ساتھ کئے ہوئے وعدہ کی خلاف ورزی کی ہے، اس وعدہ کے دو محمل ہیں ایک یہ کہ انہوں نے حضرت موسیٰ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ بھی ان کے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں اور ان کے ساتھ مل جائیں گے مگر انہوں نے حضرت موسیٰ کے پیچھے بچھڑے کی پرستش کرنی شروع کردی، دوسرا محمل یہ ہے کہ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ حضرت موسیٰ کے واپس آنے تک دین کے ان احکام پر عمل کرتے رہیں گے جو حضرت موسیٰ نے انہیں بتائے تھے۔ نیز ان کو معلوم تھا کہ فرعون کے ساتھ حضرت موسیٰ کا یہی اختلاف تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت کے بجائے اپنی خدائی کا دعویٰ دار تھا۔ پھر انہوں نے قبیطیوں سے بھی بدرتر عمل کیا کیونکہ وہ فرعون کو خدا مانتے تھے جو بولتا تھا، سنتا تھا، ہاتھ پیروں سے تصرف کرسکتا تھا، صاحب اقتدار تھا لوگوں کو نفع نقصان پہنچانے پر قادر تھا اور انہوں نے تو سونے کا ایک بچھڑا بنا کر اس کی پرستش شروع کردی جو ان میں سے کسی چیز پر بھی قادر نہ تھا بلکہ خود ان کے ہاتھوں سے بنایا ہوا تھا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 20 طه آیت نمبر 86