أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاَ لۡقِ مَا فِىۡ يَمِيۡنِكَ تَلۡقَفۡ مَا صَنَعُوۡا‌ ؕاِنَّمَا صَنَعُوۡا كَيۡدُ سٰحِرٍ‌ ؕ وَلَا يُفۡلِحُ السّٰحِرُ حَيۡثُ اَتٰى‏ ۞

ترجمہ:

اور جو آپ کے دائیں ہاتھ میں ہے اس کو ڈال دیجیے وہ ان کی تمام کاری گری کو نگل جائے گا، انہوں نے جو کچھ بنایا ہے وہ جادو کا فریب ہے اور جادوگر جہاں بھی جائے کامیاب نہیں ہوتا

حضرت موسیٰ کی لاٹھی کا جادوگروں کی لاٹھیوں پر غالب آنا 

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور جو آپ کے دائیں ہاتھ میں ہے اس کو ڈال دیجیے وہ ان کی تمام کاری گری کو نگل جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اپنی لاٹھی کو زمین پر ڈال دیجیے ہوسکتا ہے اس کی وجہ اس لاٹھی کی تصغیر ہو۔ یعنی ہرچند کہ ان جادوگروں کی لاٹھیاں بہت بڑی بڑی اور تعداد میں میں بہت زیادہ ہیں، آپ اس کی پرواہ نہ کریں۔ آپ کے ہاتھ میں چھوٹی سی ایک لاٹھی ہے اس کو زمین پر ڈال دیجیے وہ ان کی اس سب بڑی لاٹھیوں کو نگل جائے گی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ اس عصا کی تعظیم کے لئے ہو کہ آپ ان بہت بڑی بڑی لاٹھیوں سے خوف زدہ نہ ہوں آپ کے ہاتھ میں بہت عظیم عصا ہے اور یہ سب لاٹھیاں اس کے مقابلہ میں حقیر ہیں۔

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا جادوگروں کی تمام لاٹھیوں اور رسیوں کو نگل گیا تھا اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب اس عصا کا بہت بڑا جسم ہو اور اس میں بہت شدید قوت ہو، اور یہ نقل کیا گیا ہے کہ جب اس وقت جادوگروں نے یہ دیکھا کہ اس عصا نے ان کی تمام لاٹھیوں اور رسیوں کو نگل لیا تو ان کی یقین ہوگیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو معجزہ پیش کیا ہے وہ کسی بشر کی طاقت میں نہیں ہے اور اس کی حسب ذیل وجوہ ہیں :

(١) عصا کا اس قدر تیزی سے دوڑنا کسی حیلہ، یا کسی شعبدہ اور کسی تکنیکی کی وجہ سے نہیں تھا۔

(٢) کسی تکنیکی اور کسی تدبیر کی وجہ سے ایک چھٹوی سی لاٹھی کو اتنے عظیم جسم کا نہیں بنایا جاسکتا تھا۔

(٣) یہ عصا اژدھے کی صورت اختیار کر گیا تھا اس کی آنکھیں بھی تھیں، اس کے نتھنے بھی تھے اور اس کا دہانہ تھی تھا اور چشم زدن میں اس کا لاٹھی سے اس اژدھے کی صورت بن جانا اور پلک جھپکنے سے پہلے لاٹھی بن جانا کسی تدبیر اور حیلہ کے ذریعہ ممکن نہ تھا۔

(٤) اس اژدھے نے ان کی تمام لاٹھیوں اور رسویں کو نگل لیا تھا اور اس کے باوجود وہ ایک چھوٹی سی لاٹھی ہوگیا یہ بھی عادۃ ممکن نہ تھا۔

اس کے بعد فرمایا : انہوں نے جو کچھ بنایا وہ جادو کا فریب ہے اور جادوگر جہاں بھی جائے کامیاب نہیں ہوات۔ یعنی جادو سے جادوگر کی غرض کہیں پوری نہیں ہوتی دنیا میں نہ آخرت میں، یا دنیاوی امور میں اس کا مطلبو حاصل ہوتا ہے نہ اخروی امور میں۔

ساحر کے کہیں کامیاب نہ ہونے کی توجیہ 

اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے اور جادوگر جہاں بھی جائے کامیاب نہیں ہوتا (طہ :69) اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جادو پر کوئی اثر مترب نہیں ہوتا دنیا میں نہ آخرت میں، لیکن ایسا نہیں ہے قرآن مجید کی دوسری آیات اور احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جادو کا اثر ہوتا ہے۔

قال القوا فلما الفواسحروا اعین الناس واسترھبوھم وجآء و بسحر عظیم۔ (الاعراف :116) موسیٰ نے کہا تم ڈالو، سو جب انہوں نے (لاٹھیاں) ڈالیں تو انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر سحر کردیا اور انپر ہیبت طاری کردی اور انہوں نے سحر عظیم پیش کیا۔

اس لیء یہ کہنا صحیح نہیں ہے اور ہمارے نزدیک طہ 69 کا محمل یہ ہے کہ معجزہ کے مقابلہ میں سحر کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا ہرچند کہ ہم سورة بقرہ 102 سورة بنی اسرائیل 47 اور الاعراف :109 میں سحر پر گفتگو کرچکے ہیں لیکن یہاں پر بھی مختصراً سحر پر گفتگو کر رہے ہیں :

سحر کی تعریف 

سحر کی حقیقت مختل خیلوں اور تدبیروں سے ملمع کاری اور شعبدہ بازی اور نظر بندی ہے یعنی ساحر اپنی قوت مخیلہ کو لوگوں کے ذہنوں پر اثر ادناز کردیتا ہے اور جو کچھ وہ لوگوں کے دماغوں پر اثر ڈالتا ہے ان کو ویہ نظر آنے لگتا ہے جیسے سراب، کوئی شخص دور سے چمکتی ہوئی ریت کو دیکھے تو وہ اس کو پانی دکھائی دیتا ہے یا کسی تیز رفتار گاڑی میں بیٹھے ہئے شخص کو درخت دوڑتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

اس میں اختلاف ہے کہ سحر کی کوئی حقیقت ہے یا نہیں۔ معتزلہ کے نزدیک یہ محض ایک دھوکا ہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ امام شافعی کے نزدیک یہ وسوسہ اور مرض ہے۔ علامہ غزنوی حنفی نے کہا یہ ایک طلسم ہے اور یہ ستاروں کے خواص اور ان کی تاثیرات پر مبنی ہے۔ جیسے فرعون کی لاٹھیوں میں پارے کی تاثیر ہوئی تھی یا شیطان کی تعظیم کرنے سے ان کے لئے کوئی مشکل کام آسان ہوجاتا ہے۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں سحر برحق ہے اور اس کی حقیقت ہے اللہ تعالیٰ جس کے پاس چاہتا ہے اس کو پیدا کردیتا ہے، سحر کی بعض اقسام شعبدہ اور ملع کاری پر مبنی ہیں اور بعض اقسام وہ ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے اسماء سے دم کیا جاتا ہے اور بعض اقسام وہ ہیں جو شیطان کے عہود سے حاصل ہوتی ہیں اور بعض اقسام دوائوں اور دھوئیں وغیرہ سے حاصل ہوتی ہیں۔

سحرکا شرعی حکم 

سحر کی بعض انواع وہ ہیں جن کا فاعل کافر ہوجائے گا۔ مثلاً جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ وہ جادو سے انسان کو جانور بنا دے گا یا ایک رات میں ایک ماہ کی مسافت کو طے کرے گا یا ہوا میں اڑے گا۔ سو جس شخص نے یہ افعال کئے تاکہ اپنے آپ کو برحق ثابت کرے تو یہ اس کا کفر ہے، ابوعمرو نے کہا جس شخص نے یہ گمان کیا کہ جادوگر ایک صورت کو دوسری صورت میں بدل دیتا ہے۔ مثلاً انسان کو گدھا بنا دیتا ہے تو وہ انبیاء علہیم السلام کے معجزات کی طرح کا دعویٰ کرتا ہے سو ایسے شخص کو قتل کردینا چاہیے اور جس نے یہ زعم کیا کہ سحر میں دھوا، شعبدہ بازی اور نظر بندی ہے وہ درست ہے۔

ہمارے علماء نے یہ کہا ہے کہ اس کا انکار نہیں کیا جائے گا کہ جادوگر کے ہاتھ سے خلاف عادت کام ظاہر ہوجاتے ہیں جن پر عام لوگ قادر نہیں ہوتے مثلاً وہ کسی کو بیماری میں مبتلا کردیتے ہیں، لوگوں میں تفرقہ ڈال دیتے ہیں، کسی کی عقل زائل کردیتے ہیں کسی کا عضو ٹیڑھا کردیتے ہیں۔ جادوگر اپنا جسم پتلا کر کے کھڑکیوں اور روشن دانوں سے گزر سکتا ہے۔ ہوا میں اڑ سکتا ہے اور پانی پر چل سکتا ہے لیکن جادوگران افعال میں مستقل موثر نہیں ہوتا۔ البتہ ان کے جادو کے وقت اللہ تعالیٰ ان افعال کو پیدا کردیتا ہے جیسے کھانے پینے کے بعد اللہ تعالیٰ سیر ہونے کو پیدا کردیتا ہے۔

اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جو کام اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کے لئے بطور معجزہ ظاہر فرمائے ہیں ان پر جادوگروں کو قدرت نہیں ہوتی۔ مثلاً ٹڈیوں، جو ئوں اور مینڈکوں کو نازل کرنا اور سمندر کو چیرنا اور لاٹھی کو اژدھا بنادینا اور مردوں کو زندہ کرنا اور اس قسم کے دیگر اور معجزات جو اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کو عطا فرمائے تھے۔ قاضی ابوبکر بن الطیب نے کہا ہم نے ان افعال کے صدور کو اجماع کی وجہ سے منع کیا ہے اور اگر اجماع نہ ہوتا تو جادوگر سے ان افعال کا صدور بھی جائز تھا۔

سحر اور معجزہ میں یہ فرق ہے کہ جو کام سحر سے ہوا ہے وہ ساحر کے علاوہ کسی شخص سے بھی ہوسکتا ہے اور ساحر کے سحر کا معارضہ کیا جاسکتا ہے اور نبی جس فعل کو بطور معجزہ کرتا ہے کوئی اور شخص اس پر قادر نہیں ہوتا اور نہ کوئی شخص اس کا معارضہ کرسکتا ہے۔

سحر کے حکم میں فقہاء کا اختلاف ہے امام مالک کا یہ مذہب ہے کہ جب کوئی مسلمان یا ذمی اپنے کلام سے جادو کرے تو یہ کفر ہے اس کو قتل کردیا جائے گا اور اس سے توبہ طلب نہیں کی جائے گی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جادو کو کفر فرمایا ہے :

(البقرہ :102) اور وہ دونوں بھی اس وقت تک کسی کو (جادو) نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہیں کہتے تھے ہم تو ایک آزمائش ہیں تم کفر نہ کرو۔

امام احمد بن حنبل، امام شافعی اور امام ابوحنیفہ کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت ابن عمر، حضرت حفصہ اور حضرت ابو موسیٰ وغیرہم (رض) سے مروی ہے کہ ساحر کو قتل کردیا جائے۔

حضرت جندب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سحر کی حد یہ ہے کہ اس کو تلوار سے مار دیا جائے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیبث :1460، المعجم الکبیر رقم الحدیث :1665، الکامل لا بن عدی ج ١ ص 282، سنن الدار قطنی ج ٣ ص 114، المستدرک ج ٤ ص 360 السنن الکبری ج ٨ ص 136)

امام ترمذی اس حدیث کو درج کر کے لکھتے ہیں کہ امام شافعی نے فرمایا ساحر کو اس وقت قتل کیا جائے گا جب اس کے سحر میں کوئی ایسی چیز ہو جو اس کو کفر تک پہنچا دے۔

امام ابن المنذر نے کہا یہ حدیث ہم نے روایت کی ہے کہ ایک ساحرہ نے جادو کیا تو حضرت عائشہ (رض) نے اس کو بیچ دیا اور اس کی قیمت غلاموں کے آزاد کرنے میں صرف کردی۔ امام ابن المنذر نے کہا ان میں تطیق اس طرح ہے کہ اگر ساحر کا سحر کفر تک پہنچ جائے تو اس کو قتل کردیا جائے جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے اور اگر اس کا سحر کفر تک نہ پہنچے تو پھر اس کو قتل نہ کیا جائے گا جیسا حضرت عائشہ (رض) کا فعل ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٢ ص 42-47 ملحضاً مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1415 ھ)

آیا جادو سے کسی چیز کی حقیقت بدل سکتی ہے یا نہیں ؟

علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252 ھ لکھتے ہیں :

علامہ ابن حجر مکی نے کتاب الحتفہ کے باب الانجاس میں لکھا ہے کہ اس میں اختلا ہے کہ کسی شے کی حقیقت مختلف ہوجاتی ہے جیسے پیتل سونا بن جائے یا نہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ ہاں ۔ کیونکہ حضرت موسیٰ کا عصا حقیقت میں اژدھا بن گیا تھا ورنہ معجزہ باطل ہوجاتا اور ایک قول یہ ہے کہ نہیں کیونکہ حقائق کا منقلب ہونا محال ہے اور حق پہلا قول ہے پھر انہوں نے کہا کہ علم کیمیا کے متعلق اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ آیا اس کا سیکھنا جائز ہے یا نہیں اور ہم نے نہیں دیکھا کہ کسی نے اس مسئلہ پر بحث کی ہو، اور جو چیز ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ وہ بھی اسی اختلاف پر مبنی ہے اور پہلے قول کی بناء پر جس نے ایسے علم کو سیکھا جس سے یقینی طور پر حقائق کے منقلب ہونے کا علم ہوجاتا ہے تو اس کے لئے اس علم کو سیکھنا اور اس کی تعلیم دینا جائز ہے، کیونکہ اس میں کسی وجہ سے کوئی خرابی نہیں ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ حقائق کا منقلب ہونا محال ہے یا انسان کو اس کا یقینی علم حاصل نہ ہو اور یہ محض دھوکا دینے کا وسیلہ ہو تو پھر اس علم کا حاصل کرنا حرام ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ جب ہم کہیں کہ حقائق منقلب ہوجاتے ہیں اور یہی حق ہے تو اس کا عمل کرنا اور اس کا سیکھنا جائز ہے کیونکہ یہ دھوکا نہیں ہے، کیونکہ پیتل حقیقہ، سونا یا چاندی بن جاتا ہے اور اگر ہم یہ کہیں کہ حقائق کا منقلب ہونا ثابت نہیں ہے تو پھر یہ جائز نہیں ہے۔ جیسا کہ یہ عمل اس کے لئے جائز نہیں ہے جو اس کی حقیقت کو نہ جانتا ہو کیونکہ پھر یہ مال کو ضائع کرنا ہے اور مسلمانوں کو دھوکا دینا ہے اور زیادہ ظاہر یہ ہے کہ ہمارا مذہب یہ ہے کہ حقائق کا منقلب ہونا ثابت ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ نجاست منقلب ہوجاتی ہے مثلاً شراب سرکہ بن جاتی ہے اور خون مشک بن جاتا ہے۔ (ردا المختارج ١ ص 126-127، مبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت 1419 ھ) 

فقہاء احناف کے نزدیک سحر کی تعریف اور اس کا شرعی حکم 

عالمہ شامی سحر کی تعریف میں لکھتے ہیں :

یہ وہ علم ہے جس سے کسی شخص کو ایسی مہارت حاصل ہوجاتی ہے جس سے وہ ایسے عجیب یو غریب افعال پر قادر ہوجاتا ہے جس کے اسباب مخفی ہوتے ہیں۔

اور سحر کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

ہمارے نزدیک سحر کا وجود، اس کا تصور اور اس کا اثر برحق ہے اور ذخیرہ الناظر میں مذکور ہے اہل حرب کے ساحر کا رد کرنے کے لئے سحر کا سیکھنا فرض ہے اور عورت اور اس کے خاوند کے درمیان تفرقہ ڈالنے کے لئے سحر کا سیکھنا حرام ہے اور ان میں موافقت پیدا کرنے کے لئے سحر کا سیکھنا جائز ہے۔ علامہ طحطاوی نے المحیط سے نقل کیا ہے کہ حدیث میں التولتہ سے منع کیا ہے اور یہ وہ عمل ہے جو عورت کو اس کے خاوند کے نزدیک محبوب بنانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ (ردا المختارج ١ ص 124، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت 1419 ھ)

تعویزات کے بعض احکام 

” التولہ ‘ اس وقت ممنوع ہے جب اس میں شرکیہ کلمات ہوں ورنہ وہ جائز ہے، کیونکہ علامی شامی لکھتے ہیں :

التمیمہ اس وقت مکروہ ہے جب اس میں غیر قرآن کے کلمات ہوں اور ایک قول یہ ہے کہ تمیمہ ان سیپیوں کو کہتے ہیں جو زمانہ جاہلیت میں لٹکائی جاتی تھیں۔ بعض لوگوں کا یہ وہم ہے کہ تعویزات بھی تمائم ہیں اور یہ غلط ہے کیونکہ تمیمہ سیپیوں کو کہتے ہیں اور تعویزات میں کوئی حرج نہیں ہے جب ان میں قرآن کو لکھا جائے یا اللہ تعالیٰ کے اسمئا لکھے جائیں اور تعویزات اس وقت مکروہ ہیں جب وہ عربی زبان میں نہ ہوں، یا پتا نہ ہو کہ اس میں کیا لکھا ہے اور ہوسکتا ہے کہ اس میں سحر ہو یا کفر ہو یا اور کوئی چیز ہو، اور جن تعویزات میں قرآن مجید لکھا ہو یا دعائیں لکھی ہوں تو ان میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ایک حدیث میں ہے جس نے تمیمہ (سیپی) کو لٹکایا اللہ اس کا کام پورا نہ کرے۔ (المستدرک ج ٤ ص 216-217)

کیونکہ ان کے اعتقاد میں تمیمہ مکمل دواء اور شفاء تھی بلکہ وہ اس میں شرک کے مرتکب ہوتے تھے کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ اس سے لکھی ہوئی تقدیر ٹل جائے گی اور وہ غیر اللہ سے مصیبت دور کرنے کا اعتقاد رکھتے تھے اور مجتبیٰ میں لکھا ہے کہ قرآن مجید سے شفا طلب کرنے میں اختلاف ہے، بایں طور کہ مریض پر قرآن پڑھا جائے یا ڈسے ہوئے پر سورة فاتحہ پڑھی جائے یا کسی ورق میں قرآن کی آیات کو لکھا جائے اور اس کو گلے میں لٹکایا جائے یا کسی طشتری میں لکھ کر اس کو دھویا جائے اور اس کا دھو ون پیا جائے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اوپر معوذات پڑھ کر دم فرماتے تھے (صحیح البخاری رقم الحدیث :6319) اور آج کل اس کے جو از پر لوگوں کا عمل ہے اور اس کے ثوبت میں آثار وارد ہیں۔ جب تعویز کسی چیز میں لپٹا ہوا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جبنی یا حائضہ اس کو اپنے بازو پر باندھ لے۔ (ردا المختارج ٩ ص 443، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، 1419 ھ)

التول، التمیمہ اور دم کرنے اور تعویز لٹکانے کے بحث ہم نے زیادہ تفصیل اور تحقیق سے یونس :57میں کی ہے، تبیان القرآن ج ٥ ص 387-408 مزید شرح صدر کے لئے اس بحث کو وہاں ملاحظہ فرمائیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 20 طه آیت نمبر 69