قَالَ يَابۡنَؤُمَّ لَا تَاۡخُذۡ بِلِحۡيَتِىۡ وَلَا بِرَاۡسِىۡۚ اِنِّىۡ خَشِيۡتُ اَنۡ تَقُوۡلَ فَرَّقۡتَ بَيۡنَ بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ وَلَمۡ تَرۡقُبۡ قَوۡلِىْ ۞- سورۃ نمبر 20 طه آیت نمبر 94
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قَالَ يَابۡنَؤُمَّ لَا تَاۡخُذۡ بِلِحۡيَتِىۡ وَلَا بِرَاۡسِىۡۚ اِنِّىۡ خَشِيۡتُ اَنۡ تَقُوۡلَ فَرَّقۡتَ بَيۡنَ بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ وَلَمۡ تَرۡقُبۡ قَوۡلِىْ ۞
ترجمہ:
ہارون نے کہا، اے میری ماں کے بیٹ، آپ میری ڈاڑھی نہ پکڑیں اور نہ میرے سر کو، بیشک مجھے یہ خطرہ تھا کہ آپ کہیں گے کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میرے حکم کا انتظار نہیں کیا
حضرت ہارون کے سر کے بال اور داڑھی پکڑنے کے اعتراض کے جوابات
حضرت ہارون (علیہ السلام) نے کہا اے میری ماں جائے ! میری داڑھی اور میرے سر کے بالوں کو نہ پکڑیں۔ حضرت ابن عباس نے کہا حضرت موسیٰ نے اپنے دائیں ہاتھ سے حضرت ہارون کے سر کے بال پکڑ لئے تھے اور بائیں ہاتھ سے ان کی داڑھی پکڑ لی تھی۔ حضرت ہارون نے یہ اس لئے کہا تھا کہ لوگ یہ وہم کریں گے کہ حضرت موسیٰ ان کی توہین کر رہے ہیں اور ان کو سزا دے رہے ہیں۔
عصمت انبیاء کے منکرین نے اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) اللہ کے نبی اور رسول تھے اور ان کے سر کے بالوں اور ان کی داڑھی کو پکڑنا اور جوش غضب کے ساتھ ان سے کلام کرنا ان کی توہین ہے اور اللہ کے نبی کی توہین کرنا کفر ہے ورنہ کم از کم گناہ کبیرہ ضرور ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ابیناء (علیہم السلام) معصوم نہیں ہوتے اور ان سے گناہ صادر ہوجاتے ہیں۔ اس اعتراض کے حسب ذیل جوابات ہیں :
(١) کسی کے سر کو پکڑ کر کھینچنا ان کے زمانہ میں معتارف تھا جیسا کہ اب عرب کسی شخص کے اکرام اور اس کی تعظیم کے لئے اس کی داڑھی پکڑتے ہیں، سو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ان کے سر کو پکڑ کر کھینچنا بطور اہانت نہ تھا۔
(٢) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کو قریب کر کے ان سے راز دارانہ بات کرنا چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر تورات کی الواح نازل کی ہیں اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مناجات کی ہے اور ان کو اللہ تعالیٰ س۔ ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے کہا میرے سر اور میری داڑھی کو نہ پکڑ و ورنہ آپ کے اس طرح بات کرنے سے بنی اسرائیل کو یہ غلط فہمی ہوگی کہ آپ میری اہانت کر رہے ہیں۔
(٣) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے شدت غضب سے حضرت ہارون (علیہ السلام) کا سر پکڑ کر اپنی طرف کھینچا کیونکہ ان کا گمان یہ تھا کہ حضرت ہارون نے بنو اسرائیل کو گو سالہ پرستی سے روکنے میں قرار واقعی سختی نہیں کی اور چونکہ ان کا غضب اللہ کے لئے تھا اس لئے اس پر کئیو اعتراض نہیں ہے۔
(٤) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے احوال سنانے کے لئے ان کو اپنے قریب کیا تھا۔ حضرت ہارون کو یہ ناگوار ہوا کیونکہ اس سے بنو اسرائیل کو یہ غلط فہمی ہوسکتی تھی کہ حضرت موسیٰ حضرت ہارون سے مواخذہ کر رہے ہیں، اس لئے انہوں نے اس سلسلہ میں اپنی معذرت پیش کی۔
(٥) حضرت ہارون (علیہ السلام) نے کہا تھا اے میری ماں جائے ! میرے سر کے بالوں اور داڑھی کو نہ پکڑیں۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت ہارون (علیہ السلام) کے سر کے بالوں اور داڑھی کو پکڑا ہو کیونکہ کسی شخص کو کسی فعل سے منع کرنا اس کو لازم نہیں کرتا کہ اس شخص نے اس فعل کو کیا ہو، دیکھیے اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کئی کاموں سے منع فرمایا تھا حالانکہ آپ نے ان کاموں کو پہلے نہیں کیا تھا، قرآن مجید میں ہے :
ولا یطع الکافرین والمنافقین، (الاحزاب :48) اور آپ کافروں اور منافقوں کی اطاعت نہ کریں۔
ولا تمنن تستکتر (المدثر : ٦) اور زیادہ لینے کے لئے کسی پر احسان نہ کیجیے۔
فاما الیتیم فلا تقھر واما السآئل فلا سو آپ یتیم پر سختی نہ کریں اور سوال کرنے والے کو جھڑکانہ کریں۔
ان آیتوں میں آپ کو کافروں اور منافقوں کی اطاعت سے زیادہ لینے کے لئے احسان کرنے سے، یتیم پر سختی کرنے اور سائل کو جھڑکنے سے منع فرمایا ہے حالانکہ آپ نے کبھی کافروں اور منافقوں کی اطاعت کی نہ ہی دوسرے منع کئے ہوئے کام کئے، ہارون (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو سر کے بال پکڑنے اور داڑھی پکڑنے سے منع کیا تھا اس سے یہ لازم نہیں آیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے سر کے بالوں اور داڑھی کو پکڑا ہو، رہا یہ کہ جب حضرت موسیٰ نے ان کے سر اور داڑھی کو پکڑا نہیں تھا پھر حضرت ہارون کو اس سے منع کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ حضرت موسیٰ سخت غیظ و غضب میں تھے اور یہ خطرہ تھا کہ وہ ان کے سر اور داڑھی کو بطریق اہانت پکڑیں گے اس لئے انہوں نے اس کا سدباب کرنے کے لئے پہلے ہی سر اور داڑھی کو پکڑنے سے منع کیا اور اپنا عذر بیان کردیا۔
حضرت ہارون کے جواب کی وضاحت
حضرت موسیٰ نے تو یہ کہا تھا کہ اے ہارون ! جب آپ نے دیکھا کہ یہ گمراہ ہوگئے تو آپ کو کس چیز نے منع کیا جو آپ نے میری پیروی نہ کی۔ کیا آپ نے میری حکم کی نافرمانی کی ؟ حضرت ہارون کو چاہیے تھا کہ یہ کہتے کہ میں نے آپ کی نافرمانی نہیں کی، لیکن انہوں نے جواب میں کہا : بیشک مجھے یہ خطرہ تھا کہ آپ کہیں گے تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میرے حکم کا انتظار نہیں کیا۔ بظاہر یہ جواب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اعتراض سے مربوط اور منطبق نہیں ہے اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ کہا تھا کہ میرے بعد میری نیابت کرنا اور قوم کی اصلاح کرنا اور ایسا کوئی کام نہ کرنا جس سے قوم میں تفرقہ ہو اور پھوٹ پڑجائے۔ قرآن مجید میں ہے :
(الاعراف :142) تم میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور اصلاح کرنا اور فریاد کرنے والوں کے طریقہ کی پیروی نہ کرنا۔
پس حضرت ہارون کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ نے مجھے قوم میں پھوٹ ڈالنے سے منع کیا تھا اور جب میں نے یہ دیکھا کہ ان کو شرک سے روکنے کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں ہے کہ ان سے قتال کیا جائے تو پھر میں ان سے الگ ہوگیا۔
ایمان دلائل سے نہیں اللہ کی توفیق اور عنایت سے ملتا ہے
معجزہ کی دلالت بھی ایمان لانے کا سبب ہے اور دین کی تبلیغ بھی لوگوں کے ایمان لانے کا سبب ہے، لیکن اصل اور حقیقی سبب اللہ تعالیٰ کی توفیق ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کے جادو گر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم سے نہ تھے وہ آپ کے مخالف تھے اور آپ سے مقابلہ کرنے کے لئے آئے تھے اور انہوں نے صرف ایک معجزہ دیکھا اور ایمان لے آئے۔ انہیں اس ایمان کی خاطر دنیا میں بہت سخت سزا بردشات کرنی پڑی جانب مخالف سے ان کے ہاتھ پیر کاٹے گئے۔ ان کو سولی پر لٹکایا گیا لیکن کوئی چیز ان کو ایمان سے متزلزل نہ کرسکی۔ اس کے برعکس یہ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم سے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا اژدھا بن گیا اور جادورگوں کی رسویں اور لاٹھیوں کو نگل گیا، پھر دوبارہ اسی طرح عصا بن گیا اور انہوں نے دیکھا کہ جادوگروں نے اعتراف کیا کہ یہ جادو نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نشانی ہے۔ پھر ایک بڑے عرصہ میں انہوں نے مزید نشانیاں دیکھیں۔ قبطیوں کے گھروں پر خون کی، مینڈکوں کی، اور ٹڈیوں کی بارش ہوتی پھر ایک بڑے عرصہ میں انہوں نے مزید نشانیاں دیکھیں۔ قبطیوں کے گھروں پر خون کی، مینڈکوں کی اور ٹڈیوں کی بارش ہوتی اور بنی اسرائیل کے گھر محفوظ رہتے۔ اسی طرح کی انہوں نے تو نشانیاں دیکھیں پھر انہوں نے دیکھا کہ ان کے لئے سمندر میں بارہ خشک راستے بنا دیئے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو غقر سے محفوظ رکھا اور ان کے دشمن کو غرق کردیا۔ انہوں نے اتنے کثیر معجزات دیکھے تھے پھر جیسے ہی وہ سمندر سے نکلے تو انہوں نے ساحل پر کچھ لوگوں کو بتوں کی عبادت کرتے ہوئے دیکھا، ابھی ان کے گیلے پائوں خشک بھی نہیں ہوئے تھے کہ انہوں نے حضرت موسیٰ سے کہا ہمارے لئے بھی ایسا خدا بنادیں جیسا ان کا خدا ہے۔ پھر جیسے ہی انہوں نے سونے کے مجسمہ سے بیل کی سی آواز سنی تو اس کی پوجا کے لئے آسن جما کر بیٹھ گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہدایت دلائل اور معجزات سے حال نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حاصل ہوتی ہے اور ایمان کی دولت اللہ تعالیٰ کی عنایت سے ملتی ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 20 طه آیت نمبر 94