الفصل الثالث

تیسری فصل

حدیث نمبر 350

روایت ہے حضرت عمرو بن سلمہ سے ۱؎ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ گھاٹ پر رہتے تھے ہم پر قافلے گزرتے تھے ہم ان سے پوچھتے رہتے تھے کہ لوگوں کے کیا حال ہیں اور ان صاحب کا کیا حال ہے ۲؎ وہ کہتے وہ فرماتے ہیں کہ اﷲ نے انہیں رسول بنایا انہیں فلاں فلاں وحی کی میں اس وحی کو یاد کرتا رہتا تھا گویا وہ میرے سینے میں پیوست ہوجاتی تھی۳؎ اہلِ عرب اسلام قبول کرنے میں فتح مکہ کے منتظر تھے کہتے تھے کہ انہیں ان کی قوم کے ساتھ چھوڑ دو اگر وہ ان پر غالب آجائیں تو سچے نبی ہیں ۴؎ جب فتح مکہ کا واقعہ ہوگیا تو ہر قوم اسلام لانے میں جلدی کرنے لگی میرے والد اپنی قوم کی طرف سے اسلام لانے جلدی پہنچے۵؎ جب آئے تو بولے خدا کی قسم میں سچے نبی کی طرف سے آرہا ہوں فرمایا کہ فلاں نماز فلاں وقت میں اور فلاں نماز فلاں وقت میں پڑھا کرو جب وقت نماز آئے تو تمہارا کوئی اذان دے اور امامت وہ کرے جسے قرآن زیادہ یا د ہو ۶؎ انہوں نے دیکھا تو مجھ سے زیادہ قرآن دان کوئی نہ تھا کیونکہ میں قافلوں سے یاد کرتا رہتا تھا انہوں نے مجھے ہی آگے کردیا حالانکہ میں چھ یا سات سال کا تھا۷؎ مجھ پر ایک چادر تھی کہ جب میں سجدہ کرتا تو چڑھ جاتی(کھل جاتی)قبیلہ کی ایک عورت بولی کہ اپنے قاری کے چوتڑ کیوں نہیں ڈھکتے تب انہوں نے میرے لیئے قمیص خرید کر کٹوائی مجھے جتنی خوشی اس قمیص سے ہوئی اتنی کسی سے نہ ہوئی تھی۸؎(بخاری)

شرح

۱؎  حق یہ ہےکہ آپ صحابی نہیں ہے،آپ کے والد تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرگئے ہیں لیکن آ پ کی ملاقات ثابت نہیں،آپ انصار میں سے ہیں۔

۲؎ یعنی ہمارا قبیلہ کسی دریا کے گھاٹ پر تھا جہاں سے دن رات قافلے گزرتے ہیں،چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام شریف سارے عرب میں پھیل چکا تھا ہم نے بھی سن لیا تھا اس لیئے جو قافلہ مدینہ طیبہ سے آتا ہم اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات اور لوگوں کے برتاوے پوچھا کرتے تھے۔

۳؎ یعنی بعض لوگ آیات قرآنیہ ہمیں سنایا کرتے تھے ہمارے بڑے تو سن کر بھول جاتے تھے مگر میں بچہ تھا مجھے ایک ایک لفظ یاد رہتا تھا کہ بچپن کا حفظ پتھر کی لکیر ہوتا ہے،نیز میرے قلب میں وہ کلام بہت ہی اثر کرتا تھا اس لیئے میں شوق سے بھی یاد کرتا تھا۔مثل مشہور ہے ہو نہار بروا کے چکنے چکنے پات۔

۴؎ یعنی ہمارے علاقے کے عرب لوگوں نے چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات دیکھے نہ تھے اس لیئے انہوں نے فتحِ مکہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کی دلیل سمجھ رکھا تھا کیونکہ ان حالات اور اس ماحول میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فتح مکہ فرمانا معجزہ ہی تھا لہذا اس جملہ پر کوئی اعتراض نہیں۔

۵؎ یہ اس آیت کی تفسیر ہے “وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدْخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللہِ اَفْوَاجًا” کہ ہر طرف سے فوج در فوج لوگ آکر مشرف باسلام ہوتے تھے،میرے والد حضرت سلمہ اپنی قوم کے نمایندے بن کر حاضرِ بارگاہ ہوئے۔

۶؎ معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حضرت کو نماز کے احکام بہت تفصیلی بتائے باقی زکوٰۃ وغیرہ کے اجمالی کیونکہ مسلمان ہوتے ہی نماز فرض ہوجاتی ہے زکوٰۃ سال بعد اس دوران میں وہ مسائل سیکھ سکتے ہیں اور چونکہ ابھی انکی قوم میں عالم ملے گا نہیں اس لیئے صرف حافظ آیات امام بنانے کا حکم دیا گیا اسی لیئے آگے یہ نہ فرمایا کہ اگر قرأت میں برابر ہوں تو عالم کو لو لہذا  اس حدیث سے یہ ہر گز ثابت نہیں ہوتا کہ قاری امامت میں عالم پر مقدم ہو۔

۷؎ یعنی اب انہوں نے امامت کے لیئے کسی کو منتخب کرنا چاہا تو میں انتخاب میں آیا کیونکہ مجھے پہلے ہی سے آیاتِ قرآنیہ یاد تھیں مجھے میرے والد نے نماز پڑھنے کا طریقہ(جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھ کر آئے تھے)بتا کر آگے کھڑا کردیا میں چھ یا سات برس کا تھا اور میرے پیچھے بوڑھے جوان سب تھے۔خیال رہے کہ یہ حضرات ابھی مسائلِ نماز سے خبردار نہ تھے اس لیئے انہوں نے ایسے بچے کو امام بنایا جسے سترکی بھی پوری خبر نہ تھی جیسا کہ آگے آرہا ہے۔اس سے بعض لوگ بچے کی امامت پر دلیل پکڑتے ہیں مگر یہ غلط ہے ورنہ انہیں چاہیئے کہ وہ ننگے امام کے پیچھے نماز پڑھا کریں ان حضرات کی یہ نمازیں لوٹانے کے قابل نہ تھیں کیونکہ ابھی قوانینِ اسلام شائع نہیں ہوئے تھے انکی بے علمی انکے لیئے عذر تھی۔

۸؎ کیونکہ مجھے امامت بھی ملی اور ساتھ ہی قوم کی طرف سے ایک قسم کا انعام بھی۔خیال رہے کہ امام اعظم کے نزدیک بچے کی امامت کسی نماز میں جائز نہیں نہ نفل میں نہ فرض میں۔حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ بچہ جس پر حدود جاری نہیں امامت نہ کرے۔حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ بلوغت سے پہلے بچے کی امامت جائز نہیں۔یہی قول حضرت عمر فاروق اور صدیق اکبر کا ہے۔بالغ کے نفل شروع کردینے سے واجب ہوجاتے ہیں،مگر بچے کے شروع کرنے کے بعد بھی نفل رہتے ہیں۔تعجب ہے ان بزرگوں پر جو ان صاحبزادے کی روایت پر تو عمل کرتے ہیں مگرفقہا صحابہ کے قول پر عمل نہیں کرتے۔(مرقاۃ)اس کی پوری بحث ہماری کتاب “جاءالحق”حصہ دوم میں دیکھو۔