وَدَاوٗدَ وَسُلَيۡمٰنَ اِذۡ يَحۡكُمٰنِ فِى الۡحَـرۡثِ اِذۡ نَفَشَتۡ فِيۡهِ غَنَمُ الۡقَوۡمِۚ وَكُنَّا لِحُكۡمِهِمۡ شٰهِدِيۡنَ ۞- سورۃ نمبر 21 الأنبياء آیت نمبر 78
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَدَاوٗدَ وَسُلَيۡمٰنَ اِذۡ يَحۡكُمٰنِ فِى الۡحَـرۡثِ اِذۡ نَفَشَتۡ فِيۡهِ غَنَمُ الۡقَوۡمِۚ وَكُنَّا لِحُكۡمِهِمۡ شٰهِدِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اور دائود اور سلیمان کو یاد کیجیے جب وہ ایک کھیت کا فیصلہ کر رہے تھے جب کچھ لوگوں کی بکریوں نے رات میں اس کھیت کو چر لیا تھا اور ہم ان کے فیصلہ کو دیکھ رہے تھے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور دائود اور سلیمان کو یاد کیجیے جب وہ ایک کھیت کا فیصلہ کر رہے تھے، جب کچھ لوگوں کی بکریوں نے رات میں اس کھیت کو چر لیا تھا اور ہم ان کے فیصلہ کو دیکھ رہے تھے سو ہم نے اس کا صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا اور ہم نے دونوں کو قوت فیصلہ اور علم عطا کیا تھا اور ہم نے پہاڑوں کو دائود کے تابع کردیا تھا جو دائود کے ساتھ تسبیح کرتے تھے اور پرندے بھی اور ہم صہی ہر) کام کرنے والے ہیں اور ہم نے دائود کو تمہارے لئے خا لباس (زرہ) بنانا سکھایا تاکہ وہ تم کو جنگوں میں محفوظ رکھے، پس کیا تم شکر ادا کرو گے اور ہم نے تیا ہوا کو سلیمان کے تابع کردیا جو ان کے حکم سے اس زمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکت رکھی تھی اور ہم ہر چیز کو خوب جاننے والے ہیں اور کچھ جنات بھی ان کے تابع کردیئے تھے جو ان کے حکم سے غوطے لگاتے تھے اور اس کے سوا بھی کام کرتے تھے اور ہم صرف) ان کی نگرانی کرنے والے تھے (الانبیاء :78-82)
حضرت دائود (علیہ السلام) کا نام و نسب
حافظ ابن کثیر متوفی 774 ھ نے حضرت دائود (علیہ السلام) کا نام اور نسب اس طرح بیان کیا ہے :
دائود بن ایشا بن عوید بن عابر بن سلمون بن نحشون بن عوینا ذب بن ارم بن حضرون بن فارس بن یہوذ ابن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم الخلیل النبی (علیہ السلام)
وہب بن منبہ نے کہا ہے کہ حضرت دائود لعیہ السلام کا قد چھوٹا تھا، آنکھیں نلی تھیں، بال کم تھے اور وہ بہت پاکیزہ شخص تھے۔ جب انہوں نے جالوت کو قتل کردیا تو بنو اسرائیل ان سے محبتک رنے لگے اور ان کو اپنا بادشاہ بنا لیا۔ حضرت دائود (علیہ السلام) میں اللہ تعالیٰ نے نبوت اور بادشاہت کو جمع کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لفسدت الارض (البقرہ :251) یعنی اگر بادشاہوں کو لوگوں پر حاکم مقرر نہ کیا جاتا تو طاقت ور لوگ کمزور لوگوں کو کھا جاتے۔
اور بعض آثار میں ہے کہ سلطان زمین پر اللہ کا سایہ ہے۔ امام ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) رات کو قیام کرتے تھے۔ (البدایہ والنہایہ ج ١ ص 455)
حضرت دائود (علیہ السلام) کی فضیلت میں احادیث
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ پسندیدہ روزے حضرت دائود (علیہ السلام) کے ہیں۔ وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ پسندیدہ نماز حضرت دائود (علیہ السلام) کی نماز ہے وہ نصف شب نیند کرتے تھے اور ایک تہائی رات قیام کرتے تھے اور رات کے چھٹے حصے میں پھر نیند کرتے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :3420، صحیح مسلم رقم الحدیث :1159، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث، 11500 سنن الترمذی رقم الحدیث :412 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :1419 ھ)
حضرت دائود (علیہ السلام) کو بہت دلکش آواز عطا کی گی تھی جب وہ زبور کی تلاوت کرتے تھے تو پرندے ہوا میں ٹھہر جاتے تھے اور ان کے سر کے ساتھ سر ملاتے تھے اور ان کی تسبیح کے ساتھ تسبیح کرتے تھے۔
عبداللہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کی آواز کو ایسا عطا کیا گیا تھا جو کسی کو عطا نہیں کیا گیا حتیٰ کہ ان کا ترنم سن کر پرندے ان کے پاس آ کر بیٹھ جاتے اور یونہی بیٹھے بیٹھے بھوکے پیاسے مرجاتے حتیٰ کہ دریا چلتے چلتے رک جاتا تھا۔ (مختصر تاریخ دمشق ج ٨ ص 114 مطبوعہ دارالفکر بیروت)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) کو قرآن پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا ابو موسیٰ کو آل دائود کے مزا میر (بانسریاں) عطا کئے گئے ہیں۔ (مسند احمد رقم الحدیث :25398، دارالفکر بیروت) ہیں۔ (مسند حمد ج ٣ رقم الحدیث :8654 مطبوعہ دارالفکر بیروت)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت دائود (علیہ السلام) پر قرأت آسان کردی گئی تھی۔ وہ گھوڑے پر زین ڈالنے کا حکم دیتے اور زین ڈالنے جانے سے پہلے زبور ختم کرلیتے تھے اور حضرت دائود (علیہ السلام) صرف اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔ (مسند احمد ج ٣ رقم الحدیث :8166، مطبوعہ دارالفکر بیروت)
حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے روسل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کاش تم مجھے گزشتہ رات اس وقت دیکھتے جب میں تمہاری قرأت سن رہا تھا۔ بیشک تمہیں آل دئود کی بانسریوں میں سے ایک بانسری دی گئی ہے۔ حضرت ابوموسیٰ نے کہا اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ سن رہے ہیں تو میں اور مزید پڑھتا۔ (سنن کبریٰ للبیہقی ج ١٠ ص 230 تفسیر ابن کثیر ج ٣ ص 207، معارف القرآن ج ٦ ص 211)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دکھانے اور سنانے کے لئے اعمال کو مزین کرنا ریا اور گناہ نہیں ہے کیونکہ آپ کی خوشی اللہ کی خوشی ہے۔
حضرت دائود (علیہ السلام) کی وفات
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حضرت دائود (علیہ السلام) میں بہت شدید غیرت تھی، وہ جب گھر سے باہر جاتے تھے تو دروازے بند کردیتے تھے اور جب تک وہ واپس نہ آتے، ان کے گھر میں کوئی نہیں آتا تھا۔ ایک دن وہ دروازہ بند کر کے گئے ان کی بیوی گھر کو دیکھ رہی تھی۔ انہوں نے دیکھا ایک شخص گھر کے وسط میں کھڑا ہوجائیں گے۔ جب حضرت دائود (علیہ السلام) آئے تب بھی وہ شخص گھر کے وسط میں کھڑا ہوا تھا۔ حضرت دائود (علیہ السلام) نے فرمایا تم کون ہو ؟ اس نے کہا میں وہ ہوں جو نہ بادشاہ سے ڈرتا ہوں اور نہ کوئی چیز اس کے لئے راستہ کی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ حضرت دائود (علیہ السلام) نے کہا پھر تم بیشک ملک الموت ہو۔ میں اللہ تعالیٰ کے حکم کو خوش آمدید کہتا ہوں پھر وہ تھوڑی دیر ٹھہرے تھے کہ ان کی روح قبض کرلی گئی پھر جب ان کو غسل دیا گیا اور کفن پہنایا گیا اور ان کے امور سے فراغت حاصل کی گئی تو سورج طلوع ہوگیا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے پرندوں سے کہا حضرت دائود (علیہ السلام) پر سایہ کرو پھر پرندوں نے آپ پر سایہ کیا حتیٰ کہ تمام زمین پر اندھیرا اچھا گیا پھر حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے پرندوں سے فرمایا تم اپنے پر سمیٹ لو۔ (مسند احمد ج ٣ رقم الحدیث :9432 البدایہ والنہایہ ج ١ ص 464، دارالفکر 1418 ھ)
قتادہ حسن سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت دائود (علیہ السلام) سو سال کی عمر گزار کر فوت ہوئے، وہ بدھ کا دن تھا اور آپ کو صورۃ اچانک موت آئی تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خلیل اللہ کو بھی صورۃ اچانک موت آئی تھی اور حضرت سلیمان بن دائود (علیہما السلام) کو بھی صورۃ اچانک موت آئی تھی۔ (مختصر تاریخ دمشق ج ٨ ص 140 مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1415 ھ)
ھل اتک نبوالخصم اذتسوروا المحراب، (ص 21-25) میں حضرت حضرت دائود (علیہ السلام) کے ایک قصہ کا ذکر ہے۔ اس کو انشاء اللہ ہم اس آیت کی تفسیر میں بیان کریں گے۔
حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا نام و نسب
حافظ ابن کثیر متوفی 774 ھ لکھتے ہیں : سلیمان بن دائود بن ایشا بن عوید بن عابر بن سلمون بن نحشون بن عوینا ذب بن ارم بن حصرون بن فارص بن یہوذ ابن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم خلیل النبی۔
ضحرت سلیمان علیہا لسلام کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا وورث سلیمان دائود، الایۃ (النمل : 16) اس کی تفسیر انشاء اللہ ہم سورة النمل میں کریں گے۔ نیز فرمایا وحشر لسلیمان جنودہ من الجن ولانس۔ (النمل :19) اس کی تفسیم بھی انشاء اللہ ہم وہیں کریں گے۔
حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے احوال اور فضائل
زہری بیان کرتے ہیں کہ سلیمان بن دائود (علیہما السلام) اور ان کے اصحاب بارش کے لئے دعا کرنے گئے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے ساتھ ایک چیونٹی بھی ایک ٹانگ پر کھڑی ہوئی دعا کر رہی ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے اصحاب سے کہا واپس چلو، تم پر بارش ہوگی، اس چیوٹنی نے بارش کی دعا کی ہے سو اس کی دعا قبول کرلی گئی۔ (مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث :4921، البدایہ والنہایہ ج ١ ص 468)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہئے سنا ہے انبیاء سابقین میں سے ایک نبی لوگوں کو لے کر بارش کی دعا کرنے گئے، اس وقت ایک چیونٹی بھی اپنی ٹانگوں کو آسمان کی طرف کئے ہوئے کھڑی تھی۔ اس نبی نے کہا واپس چلو، تمہاری دعا اس چیونٹی کی وجہ سے قبول ہوگئی ہے۔ (دار قطنی ج ۃ ص 66، المستدرک رقم الحدیث :1215 ھ مختصر تاریخ دمشق ج ١٠ ص 148)
حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زیادہ احوال سورة سبا، سورة نمل اور سورة ص میں ہیں۔ وہیں ہم انشاء اللہ ان کا ذکر کریں گے۔
حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے مزید فضائل ہم انشاء اللہ اس سورت (الانبیاء :81-82) میں بیان کریں گے۔
حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات
اللہ عزو جل ارشاد فرماتا ہے :
(سبا : ١٤) پھر جب ہم نے ان کی موت کا حکم بھیج دیا تو جنات کو کسی نے اس کی خبر نہ دی سوائے دیمک کے جو ان کے عصا کو کھا رہی تھی، سو جب سلیمان گرپڑے تو جنات پر یہ منکشف ہوگیا کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو (تعمیر کی) مشقت کی ذلت میں مبتلا نہ رہتے۔
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کے نبی حضرت سلیمان (علیہ السلام) جب نماز پڑھتے تو اپنے آگے ایک درخت اگا ہوا دیکھتے۔ حضرت سلیمان درخت سے پوچھتے تیرا نام کیا ہے ؟ وہ بتاتا میرا فلاں نام ہے۔ پوچھتے تم کس لئے ہو ؟ اگر تم بہ طور درخت ہو تو تم کو اگادوں اور اگر تم دوا کے لئے ہو تو بھی میں گائوں سو اسی طرح ہوتا رہتا۔ ایک دن انہوں نے نماز پڑھی تو اپنے سامنے ایک درخت دیکھا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے پوچھا تیرا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا ویرانی۔ آپ نے پوچھا تم کس لئے ہو ؟ اس نے کہا اس گھر کو ویران کرنے کے لئے، پھر حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے دعا کی اے اللہ ! جنات کو میری موت سے اندھا (غافل) کر دے حتیٰ کہ تمام انسانوں کو معلوم ہوجائے کہ جنات غیب نہیں جانتے۔ انہوں نے ایک عصا تراشا اور اس پر ٹیک لگا کر ایک سال تک کھڑے رہے اور جنات ان کے سامنے تعمیر کا کام کرتے رہے (وہ پہاڑوں سے پتھر توڑ کر لاتے تھے اور محل بناتے تھے) پھر اس لاٹھی کو دیمک نے کھانا شروع کردیا (وہ لاٹھی ٹوٹ گئی اور حضرت سلیمان گرگئے) تب انسانوں کو پتا چلا کہ اگر جنات کو غیب کا علم ہوتا اور وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کو جان چکے ہوتے تو اس مشقت والے کام کو کب کا چھوڑ چکے ہوتے (وہ یہی سمجھتے رہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) زندہ ہیں اور ان کے کام کی نگرانی کر رہے ہیں، وہ ان کے خوف سے بہ دستور کام کرتے رہے) پھر جنات نے اس دیمک کا شکر ادا کیا۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث :12281، مسند البیزار 2355، مختصر تاریخ ومشق ج ١٠ ص 155 البدایہ، ولنہایہ ج ١ ص 481)
امام ابن اسحاق وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) باون سال زند رہے اور ان کی حکومت چالی سال رہی۔ (مختصر تاریخ دمشق ج ١٠ ص ١٥٥ البدایہ والنہایہ جۃ ص 483)
مویشیوں کے کھیت کا نقصان کرنے کی تلافی میں حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کا اجتہادی اختلاف
نفش کا معنی ہے بغیر چرواہے کے رات کو بکریوں کا کھیت کو چرا لینا۔ (مختصار الصحاح ص 387، ص 387 المفردات ج ٢ ص 649)
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی 310 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ دو آدمی حضرت دائود (علیہ السلام) کے پاس آئے، ان میں سے ایک کھیت کا مالک تھا اور دوسرا بکریوں کا مالک تھا۔ کھیت کے مالک نے کہا اس آدمی نے اپنی بکریاں میرے کھیت میں ہانک دیں اور میرے کھیت میں سے کوئی چیز باقی نہیں بچی۔ حضرت دائود (علیہ السلام) نے فرمایا جائو یہ ساری بکریاں تمہاری ہیں۔ یہ حضرت حضرت دائود (علیہ السلام) کا فیصلہ تھا، پھر بکریوں والا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس گیا اور ان کو حضرت دائود (علیہ السلام) کا کیا ہوا فیصلہ بتایا پھر حضرت سلیمان، حضرت دائود (علیہ السلام) کے پاس گئے اور کہا اے اللہ کے نبی ! آپ نے جو فیصلہ کیا ہے، اس کے سوا ایک اور فیصلہ ہے۔ حضرت دائود (علیہ السلام) نے فرمایا وہ کیا ہے ؟ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کھیت والے کو معلوم ہے کہ ہر سال اس کی کتنی فصل ہوتی ہے، وہ اس فصل کی قیمت بکریوں والے سے لے لے اور بکریوں والا بکریوں کے بال، ان کا اون اور ان کے بچوں کو بیچ کر وہ قیمت ادا کر دے اور بکریوں کی نسل تو ہر سال چلتی رہتی ہے۔ حضرت دائود (علیہ السلام) نے کہ کا تم نے صحیح فیصلہ کیا ہے اور فیصلہ یہی ہے، یہ محمد بن سعد کی روایت ہے اور خلیفہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے اس طرح روایت کیا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا بکریاں کھیت والے کو دے دیں، وہ ان کے دودھ، ان کے بچوں اور ان کے دیگر منافع سے استفادہ کرے اور اس عرصہ میں بریوں والا کھیت میں دوبارہ فصل اگائے حتیٰ کہ جب پہلے جتنی فصل ہوجائے تو کھیت کھیت والے کے حوالے کر کے اپنی بکریاں لے لے۔ (جامع البیان رقم الحدیث :18656 مصنف ابن ابی شیبہ ج ٥ رقم الحدیث :27969، ج ٧ رقم الحدیث :36291، زاد المسیرج ٥ ص 371-372
مویشیوں کے کھیت کا نقصان کرنے کی تلافی میں ائمہ ثلاثہ کا نظریہ اور ان کے دلائل
امام عبدالرحمٰن بن علی بن محمد جوزی حنبلی متوفی 597 ھ لکھتے ہیں :
علامہ ابوسلیمان الدمشقی نے کہا ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) دونوں نے یہ فیصلہ اپنے اپنے اجتہاد سے کیا تھا اگر اس مسئلہ میں کوئی نص ہوتی تو وہ اس کی مخالفت نہ کرتے۔ قاضی ابو یعلی نے کہ کا اس مسئلہ میں فقفہاء کا اختلاف ہے کہ اگر کسی کی بکریاں کسی دوسرے کے کھیت میں داخل ہو کر اس کو چر لیں تو اس کا یا حکم ہے ؟ ہمارے اصحاب (حنبلیہ) کا مذہب یہ ہے کہ بکریوں والا اس نقصان کا ضامن ہوگا اور یہی امام شافعی کا قول ہے۔ (زاد المسیر ج ٥ ص 372، مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت، 1407 ھ)
علامہ محمد بن حمد مالکی قرطبی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں :
باغات اور کھیتوں کے مالکوں پر لازم ہے کہ وہ دن کے وقت اپنے کھیتوں اور باغات کی حفاظت کریں، اور رات کے وقت بکریوں نے کھیت کا جو نقصان کردیا تو بکریوں والا اس نقصان کا ضامن ہوگا اور اس کی دلیل یہ حدیث ہے امام مالک نے حرام بن سعد بن محیصہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت البراء بن عازب کی اونٹنی ایک شخص کے باغ میں داخل ہوگئی اور اس باغ کو خراب کردیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فیصلہ کیا کہ باغ والوں پر رات کو باغ کی حفاظت کرنا لازم ہے اور مویشی (پھر بھی) اگر باغات کو خراب کردیں تو مویشی والوں پر اس نقصان کا تاوان بھرنا لازم ہے۔ (مئوطا امام مالک کتاب القضاء باب :28 رقم الحدیث :1500)
علامہ قرطبی فرماتے ہیں یہ حدیث ہرچند کہ مرسل ہے لیکن اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ فقہاء حجاز نے اس حدیث پر عمل کیا ہے اور اس کو قبول کیا ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١١ ص ٢٢٢، مطبوعہ دارالفکر یروت، 1415 ھ)
علامہ ابوالحسن علی بن محمد الماوری الشافعی المتویف 450 ھ لکھتے ہیں :
حضرت البراء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہماری ایک اونٹنی تھی، وہ ایک باغ میں داخل ہوئی اور اس کو خراب کردیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس یہ مقدمہ پیش کیا گیا۔ آپ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ باغ والوں پر واجب ہے کہ وہ دن میں اپنے باغات کی حفاظت کریں اور مویشی رکھنے والوں پر واجب ہے کہ وہ رات کو اپنے مویشیوں کی حفاظت کریں اور رات کو مویشی اگر کسی کے باغ کا نقصان کردیں تو مویشی رکھنے والوں پر اس نقصان کا پورا کرنا لازم ہے۔ (سنن ابودائود رقم الحدی :3570، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :2332، مسند حمد ج ٤ ص 295)
علامہ ماوردی شافعی فرماتے ہیں کہ دن کے وقت مویشیوں نے کھیتوں یا باغات کو جو نقصان پہنچایا ہے، اس نقصان کو پورا حفاظت کرنا دشوار نہیں ہے (کیونکہ دن کے وقت وہ ان کو چرنے کے لئے کھلا چھوڑ دیتے ہیں اور رات کے وقت کو کسی کے مویشی نے کسی کے کھیت یا باغ کا نقصان کردیا تو اس کا پورا کرنا مویشی والوں پر واجب ہے اور دن کے وقت کھیتوں اور باغات والوں پر اپنے اموال کی حفاظت کرنا واجب ہے اس لئے دن کے وقت آپ نے ان کے نقصان کی تلافی کا حکم نہیں دیا کیونکہ یہ نقصان ان کی کوتاہی کی وجہ سے ہوا ہے اور یہ بہت بہترین قضاء ہے اور اس میں دونوں فریقوں کی رعایت ہے اور یہی امام شافعی کا مذہب ہے۔ (المنکت والیعون ج ٣ ص 459، مطبوعہ مئوسستہ الکتب الثقافیہ بیروت)
مویشیوں کے کھیت کا نقصان کرنے کی تلافی میں امام ابوحنیفہ کا نظریہ اور ان کے دلائل
امام ابوبکر احمد بن علی الرازی الحصاص الحنفی المتوفی 370 ھ لکھتے ہیں :
اس میں اہل علم کا کوئی اختلافن ہیں ہے بکریوں کے کئے ہوئے نقصان کی تلافی کے متعلق حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کا کیا ہوا حکم منسوخ ہوچکا ہے کیونکہ حضرت دائود (علیہ السلام) نے یہ حکم دیا تھا کہ بکریاں کھیت والے کو دے دی جائیں اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے یہ حکم دیا تھا کہ بکریوں کے بچے اور ان کا اون کھیت والے کو دیا جائے اور اس میں مسلمانوں کو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جس شخص کی بکریاں دوسرے شخص کے کھیت کو خراب کردیں، اس پر اپنی بکریوں یا ان کے بچے کھیت والے کو تاوان میں دینا واجب نہیں ہے اور نہ ان کا اون اور دودھ سپرد کرنا واجب ہے۔ پس واضح ہوگیا کہ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں یہ دونوں حکم منسوخ ہوچکے ہیں، اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ یہ قصہ دو حکموں کو شامل ہے، ایک یہ کہ بکریوں والے پر تاوان واجب ہے اور دوسرا اس تاوان کی کیفیت ہے، جو حکم منسوخ ہوا ہے وہ تاوان کی کیفیت ہے نفس تاوان تو منسوخ نہیں ہوا اس کا جواب یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے نفس تاوان بھی منسوخ ہوچکا ہے اور یہ وہ حدیث ہے جو تمام مسلمانوں کے نزدیک مقبول اور مسلم ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر مویشی کسی کو زخمی کردیں تو اس کا کوئی تاوان نہیں ہے، کنوئیں میں گرنے کا کوئی تاوان نہیں ہے، کان میں دب جانے کا کوئی تاوان نہیں ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :1499, 6912، صحیح مسلم رقم الحدیث :1710، سنن الترمذی رقم الحدیث :1377، سنن النسائی رقم الحدیث :1499، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث :18373، سنن الداری رقم الحدیث :1675، مسند الحمیدی رقم الحدیث :1079، مسند احمد ج ٤ ص 239)
امام بخاری نے اس حدیث کے تحت لکھا کہ مویشیوں کے زخمی کرنے کا کوئی تاوان نہیں ہے۔ امام ابن سیرین نے کہا کہ جانور کے لات مارنے پر علماء تاوان نہیں دلاتے لیکن اگر لگام موڑتے وقت جانور کسی کو زخمی کردیتا تو علماء سوار سے تاوان دلاتے تھے اور حماد نے کہا کہ لات مارنے پر تاوان نہیں ہوتا لیکن اگر کوئی شخص جانور کو اکسائے تو اکسانے والے پر تاوان ہوگا۔ شریح نے کہا اس صورت میں تاوان نہیں ہوگا جبکہ پہلے اس نے جانور کو مارا پھر جانور نے اس کو لات ماری۔ حکم نے کہا کہ اگر کوئی مزدور گدھے کو ہانک رہا ہو جس پر عورت سوار ہو پھر وہ عورت گرجائے تو مزدور پر کوئی تاوان نہیں۔ شعبی نے کہا اگر جانور اس کے پیچھے پیچھے آ رہا ہے تو وہ جانور کے کسی نقصان کا ضامن نہیں۔
علامہ جصاص حنفی فرماتے ہیں کہ فقہاء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مویشی اگر کسی انسا نکا یا اس کے مال کا کوئی نقصان کردیں تو اس مویشی کے مالک پر کوئی تاوان نہیں ہے، جبکہ اس نے خود اس جانور کو نہ چھوڑا ہو اور جب کہ صحیح بخاری کی اس حدیث پر تمام فقہاء کا عمل ہے تو اس کے عموم کا تقاضا یہ ہے کہ مویشی اگر کسی کے کھیت یا باغ کو نقصان پہنچائیں تو مویشی کے مالک پر کوئی تاوان نہیں ہے خواہ رات کا وقت ہو یا دن کا وقت ہو۔ (جب کہ اس نے مویشیوں کو نہ بھیجا ہو) اور اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت دائود (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کے قصہ سے جو حکم ثابت ہوا ہے، وہ منسوخ ہوچکا ہے اسی طرح حضرت البراء بن عازب (رض) کے قصہ سے جو حکم ثابت ہوا ہے وہ بھی منسوخ ہوچکا ہے، کیونکہ اس حدیث میں یہ ہے کہ دن کے وقت مویشیوں نے جو نقصان کیا ہے اس پر تاوان نہیں ہے اور رات کے وقت جو انہوں نے نقصان کیا ہے اس پر تاوان ہے، جب کہ صحیح بخاری کی اس حدیث میں یہ ہے کہ رات ہو یا دن مویشیوں کے از خود کئے ہوئے نقصان پر کوئی تاوان نہیں ہے۔ خواہ رات ہو یا دن اور حضرت البراء کی حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رات کے وقت کئے ہوئے نقصان پر جو تاوان واجب کیا ہے وہ اس پر محمول ہے کہ میوشی کے مالک نے مویشی کو خود کسی کے باغ یا کھیت میں چھوڑا ہو اور اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جب مویشی کا مالک سی کے باغ یا کھیت میں از خود مویشی چھوڑگے گا اور وہ باغ یا کھیت کا نقصان کردیں تو اس کو اس نقصان کا تاوان دینا ہوگا خواہ رات ہو یا دن اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت دائود اور حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کے قصہ کا بھی یہی محمل ہو کہ بکریوں کے مالک نے اپنی بکریوں کو رات کے وقت چھوڑ دیا اور وہ بکریاں کسی کا کھیت چر گئیں اور اس کو اس کا علم ہو۔ اس وجہ سے حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) نے بکریوں والے پر تاوان واجب کیا اور اب ان کا کیا ہوا فیصلہ ہماری شریعت کے بھی خلاف نہیں ہے۔ (احکام القرآن ج ٣ ص 223-224، مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور، 1400 ھ)
امام ابوبکر رازی جصاص حنفی متوفی 370 ھ لکھتے ہیں :
علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ جب کسی مسئلہ میں مجتہدین کا اختلاف ہو تو اس میں جانب حق، واحد ہے یا متعدد، بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ اس مسئلہ میں حق واحد ہوتا ہے۔ ففھمنھا سلیمان پس ہم نے اس کا صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا۔ پس حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو مسئلہ کی فہم کے ساتھ خاص کرنا اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس مسئلہ میں جانب حق تک صرف وہی پہنچے تھے نہ کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کیونکہ اگر دونوں جانب حق تک پہنچے ہوئے تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو فہم کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی اور جو یہ کہتے ہیں کہ ہر مجتہد کی رائے صحیح ہوتی ہے، وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود (علیہ السلام) کے فیصلہ کو غلط نہیں فرمایا اور ان کو اس فیصلہ پر ملامت نہیں کی اور یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ دونوں کی رائے صحیح تھی اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی فہم کے ساتھ اس لئے تخصیص کی کہ حضرت سلیمان حقیقت مطلوب تک پہنچ گئے تھے اور حضرت دائود (علیہ السلام) نہیں پہنچے تھے۔
بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) دونوں کا حکم وحی سے تھا، ان کے اجتہاد سے نہیں تھا لیکن حضرت دائود (علیہ السلام) نے اپنے حکم کو پختہ نہیں کیا تھا اور نہ اپنے فیصلہ کو جاری کیا تھا یا ان کا فیصلہ بہ طریق فتویٰ تھا یا ان کا یہ فیصلہ کسی شرط پر موقوف تھا جس کو بیان نہیں کیا گیا، پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف یہ وحی کی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے فیصلہ کو جاری کردیا ہے اور حضرت دائود (علیہ السلام) کے فیصلہ کو منسوخ کردیا ہے۔ (احکام القرآن ج ٣ ص 224، مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور، 1400 ھ)
علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں :
امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ مجتہدین کے مختلف اقوال میں حقصرف واحد ہوتا ہے۔ امام مالک سے اختلاف صحابہ کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ بعض صحابہ خطا پر ہوتے ہیں اور بعض صحابہ صواب پر ہوتے ہیں اور ان کے تمام اقوال صحیح نہیں ہتے اور یہ کہنا کہ کسی ایک مسئلہ میں ہر مجتہد کا قول صحیح ہوتا ہے، یہ قول اس کو واجب کرتا ہے کہ ایک چیز حلال بھی ہو اور حرام بھی ہو اور واجب بھی ہو اور مستحب بھی، اور جو یہ کہتے ہیں کہ ہر مجتہد کا قول صحیح ہوتا ہے، ان کا استدلال اس حیدث سے ہے :
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ احزاب کے دن فرمایا تم میں سے کوئی شخص بنی قریظہ میں پہنچے بغیر نماز نہ پڑھے پھر بعض صحابہ کو راستہ میں عصر کی نماز کا وقت آگیا۔ بعض صحابہ نے کہا جب تک ہم بنو قریظہ میں نہیں پہنچ جائیں گے عصر کی نماز نہیں پڑھیں گے۔ بعض صحابہ نے کہا بلکہ ہم نماز پڑھیں گے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے اس کا ارادہ نہیں کیا تھا، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس واقعہ کا ذکر کیا گیا تو آپ نے کسی فریق کو اس پر ملامت نہیں کی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث 946, 4119 صحیح مسلم رقم الحدیث :1770)
جو رفیق یہ کہتے ہیں کہ ہر مجتہد کی رائے صحیح ہوتی ہے، وہ کہتے ہیں کہ اگر اس مسئلہ میں کسی فریق کی رائے غلط ہوتی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معین کردیتے اور دوسرا فریق اس کا یہ جواب دے سکتا ہے کہ آپ نے کسی ایک کی رائے کو اس لئے غلط نہیں فرمایا کیونکہ وہ گناہ گار نہیں تھا بلکہ ماجور تھا اس لئے وہ تعیین سے مستغنی تھا۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١١ ص 218-219 مطبوعہ دارالفکر بیروت 1415 ھ)
علامہ محمد بن احمد سرخسی حنفی متوفی 483 ھ لکھتے ہیں :
حضرت عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس دو شخص جھگڑتے ہوئے آئے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عمرو ! ان کے درمیان فاصلہ کرو۔ حضرت عمرو نے کہا یا رسول اللہ ! میری بہ نسبت فیصلہ کرنے کے آپ زیادہ مستحق ہیں۔ آپ نے فرمایا ہرچند کہ میں ہوں۔ انہوں نے کہا اگر میں نے فیصلہ کردیا تو مجھے کیا اجر ملے گا ؟ آپ نے فرمایا اگر تم نے ان کے درمیان درست فیصلہ کیا تو تم کو دس نیکیاں ملیں گی اور اگر تم نے اجتہاد کیا اور خط ا کی تو تم کو ایک نیکی ملے گی۔ (مسند احمد ج ٤ ص 205، مسند احمد رقم الحدیث :7978، عالم الکتب)
اس حدیث میں اہل سنت رحمہم اللہ کی دلیل ہے کہ مجتہد صواب کو بھی پہنچتا ہے اور خطا کو بھی، اور اس آیت میں بھی اس پر دلیل ہے۔ ففھمنھا سلیمن (الانبیاء :79) اور فہم کا معنی ہے، حق کو پہنچنا اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اس کے ساتھ خاص فرمایا اور مجتہد نے اگر خطا کی تو وہ معذور ہے یہ اس وقت ہے جب حق واضح نہ ہو تو اس کو اپنے اجتہاد کا ثواب ملے گا سو جو شخص اپنے اجتہاد سے مطلوب تک پہنچ گیا تو اس کو اجتہاد کرنے کا بھی ثواب ملے گا اور اپنی کوشش سے حق تک پہنچنے کا بھی ثواب ملے گا۔ اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارے لئے دس نیکیاں ہوں گی اور اگر اس نے خطا کی تو اجتہاد کرنے کی وجہ سے اس کو پھر بھی ایک نیکی ملے گی۔ (المبسوط ج ١٦ ص 87، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1421 ھ)
ایک اور مسئلہ میں حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کا اختلاف
احادیث میں حضرت دائود اور سلمیان (علیہما السلام) کے ایک اور فیصلہ کا بھی ذکر ہے جس میں ان دونوں کا اختلاف ھتا۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں ہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دو عورتیں تھیں اور ان کے ساتھ دو بچے تھے۔ بھیڑیا آیا اور ان میں سے ایک کے بچے کو کھا گیا۔ ایک نے دوسری سے کہا بھیڑیے نے تمہارے بچے کو کھایا ہے اور دوسری نے کہا بھیڑییے نے تمہارے بچے کو کھایا ہے پھر ان دونوں نے حضرت دائود (علیہ السلام) کے پاس مقدمہ پیش کیا حضرت حضرت دائود (علیہ السلام) نے بڑی عورت کے حق میں فیصلہ کردیا پھر وہ دونوں عورتیں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس گئیں اور اپنا مقدمہ پیش کیا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا : مجھے چھری لا کردو۔ میں اس بچہ کا و کٹ کر اس کے دو ٹکڑے کردیتا ہوں پھر اس کو تم دونوں کے درمیان تقسیم کر دوں گا۔ تب چھٹوی عورت نے کہا نہیں اللہ آپ پر رحم فرمائے یہ اسی کا بچہ ہے پھر حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اسی چھوٹی عورت کے حق میں بچے کا فیصلہ کردیا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :1720، سنن النسائی رقم الحدیث :5417، مسند احمد ج ٢ ص 322)
اس حدیث پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) نے بڑی عورت کے حق میں کیسے فصلہ کردیا تھا۔ علامہ ابو العباس احمد بن عمر قرطبی مالکی متوفی 656 ھ اس کے جواب میں لکھتے ہیں :
ہوسکتا ہے کہ کسی دلیل کی وجہ سے حضرت دائود (علیہ السلام) کے نزدیک بڑی عورت کا قول راجح ہوں اور حدیث میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ بچہ بڑی عورت کے ہاتھ میں ہو جو اس پر قرینہ تھا کہ بچہ اس کا ہے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ بچہ شکل و صورت میں بڑی عورت کے مشابہ ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی شریعت میں بڑے کے حق میں فیصلہ کیا جاتا ہو اور یہ کہ چھوٹی عورت اپنے حق میں کوئی دلیل پیش نہ کرسکی ہو۔
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ جب حضرت دائود (علیہ السلام) نے ایک فیصلہ کردیا تھا تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس فیصلہ کے خلاف کیوں کیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ان عورتوں نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو یہ نہیں بتایا تھا کہ حضرت دائود (علیہ السلام) نے کیا فیصلہ کیا ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) نے اپنے فیصلہ کو قطعی اور حتمی قرار نہیں دیا تھا۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ ان کی شریعت میں یہ جائز تھا کہ جب مقدمہ کا کوئی فریق دوسرے حاکم کے پاس مقدمہ لے جائے تو وہ کسی دلیل کی بناء پر پہلے فیصلہ کے خلاف فیصلہ دے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ایک لطیف حیلہ سے اس چھوٹی عورت کے صدق کو جان لیا۔ انہوں نے کہا میں اس بچے کے دو ٹکڑے کردیتا ہوں اگر بڑی عورت اس کی واقعی ماں ہوتی تو وہ حضرت سلیمان کو اس سے منع کرتی کیونکہ اس طرح وہ بچہ مرجاتا جبکہ منع چھوٹی عورت نے کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بچہ اسی کا ہے، بڑی عوت کا نہیں ہے کیونکہ وہ خاموش رہی تھی۔ (المنھم ج ٥ ص 176-177 شرح مسلم للنووی ج ٧ ص 4735, 4736)
انبیاء (علیہم السلام) کا اجتہاد
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے یہ بھی بحث کی ہے کہ آیا انبیاء (علیہم السلام) کے لئے اجتہاد کرنا جائز ہے یا نہیں۔ ہم نے اجتہاد کے متعلق شرح صحیح مسلم اور تبیان القرآن دونوں میں یہ بحث کی ہے۔ شرح صحیح مسلم کے عنون یہ ہیں :
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد کے بارے میں فقہاء مجتہدین کی آراء رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد کے بارے میں قفہاء اسلام کی آراء رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد پر قرآن مجید سے دلائل، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد پر احادیث سے دلائل، اجتہادی خطاء منصب نبوت کے خلاف نہیں ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اجتہاد اتباع وحی کے خلاف نہیں ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد پر اعتراضات کے جوابات۔ (شرح صحیح مسلم ج ٣ ص 268-277)
تبیان القرآن میں اس بحث کے عنوان یہ ہیں :
کیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع وحی کرنا آپ کے اجتہاد کے منافی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد پر دلائل، صحابہ کے متعلق علمائے اسلام کے مذاہب، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد کے عدم جواز کے قائلین، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد کے جواز کے قائلین، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد کے وقوع کے متعلق مذاہب علماء، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد کے وقوع کے ثبوت میں احادیث۔ (تبیان القرآن ج و ص 476-483)
عصر حاضر میں اجتہاد کی تحقیق
ابنیاء علیہم السلام، صحابہ کرام اور ائمہ اربعہ کے اجتہاد پر تو شرح صحیح مسلم جلد ثالث اور تبیان القرآن جلد ثالث میں بحث آگئی ہے۔ اب غور طلب امر یہ ہے کہ عصر حاضر میں بھی نئے پیش آمدہ حالات اور نئے اور تازہ مسائل میں اجتہاد کرنا جائز ہے یا نہیں، اس سلسلہ میں پہلے ہم ضرورت اجتہاد پر نظر ڈالیں گے پھر مجتہد کی تعریف ذکر کریں گے، اس کے بعد طبقات فقہاء کا بیان کریں گے اور اخیر میں بعض عصری مسائل میں متاخیر علماء کے اجتہاد کی مثالیں بیان کریں گے جن سے یہ واضح ہوجائے گا کہ جن عصری مسائل کا فقہ کی سابقہ کتب میں ذکر نہیں ہے، ان کا حکم معلوم کرنے کے لئے اب بھی اجتہاد کرنا جائز ہے اور یہ جو مشہور ہے کہ اب اجتہاد کا دروازہ بند ہوچکا ہے، یہ صحیح نہیں ہے۔
ضرورت اجتہاد
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اب اجتہد کا دروازہ بند ہوچکا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ تتبع اور استقراء سے یہ حقیقت ثابت شدہ ہے کہ علم و فضل میں اب اس پائے کے لوگ نہیں ہیں جو اجتہاد کے اصول کلیہ وضع کر کے مجتہد فی الشرع کا مقام پاسکیں یا فروع میں وہ مقام پاسکیں جو اصحاب ابی حنیفہ کا ہے، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس زمانہ میں ایسے پختہ اور ثقہ اصحاب فتویٰ علماء موجود ہیں جو دور حاضر میں پیدا ہونے والے نئے نئے مسائل کا اصول و فروغ میں اپنے امام کی اتباع کرتے ہوئے حل تلاش کرسکیں اور یہی لوگ مجتہد فی المسائل کہلانے کے مستحق ہیں، جس طرح امام ابو جعفر طحاوی اور امام قاضی خان نے اپنے اپنے دور میں پیش آنے والے مسائل کا اصول و فروع کی پابندی کرتے ہوئے استخراج اور استنباط کیا۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ آج کے ارباب حل و کشاد انفرادی طور پر یا علماء کا ایک بورڈ بنا کر موجودہ دور کے مسائل کے لئے فقہ اسلامی سے رہنمائی نہ مہیا کرسکیں۔ مثلاً لائوڈ اسپیکر پر نماز، ریل گاڑی اور طیارہ میں نماز، ریڈیو پر رویت ہلال کا اعلان، اعضاء کی پیوند کاری، انگریزی دوائوں سے علاج، مردے کا پوسٹمارٹم، قطبین میں نماز اور روزے کا مسئلہ، نئے اوزان کی اوزان شرعیہ سے تطبیق، غیر سودی بینکاری، چور کے کٹے ہوئے ہاتھ سے انتفاع، بیمہ کا جو ازیا عدم جواز، پراویڈنٹ فنڈ پر زکوۃ انعامی بانڈ لنیے کا جواز یا عدم جواز ایک شخص کسی شہر میں عید کر کے آیا اور دوسرے شہر میں رمضان پایا تو روزے رکھے یا نہیں۔ کسی شخصنے تیس سال پہلے ایک کے حساب سے زیادہ رقم نوٹوں پر زکوۃ کی ادائیگی کے لئے سونا معیار ہوگا یا چاندی، اس قسم کے سینکڑوں مسائل بیسویں صدی میں ایجادات زمانہ کی تیز رفتار ترقی اور بدلتے ہوئے حالات نے پیدا کردیئے ہیں اور ان کو حل کرنے کے لئے اجتہاد کی ضرورت ہے اور مجتہد فی المسائل قسم کے علماء ہی اس ضرورت کو پورا کرسکتے ہیں۔
مجتہد کی تعریف
علامہ محب اللہ بہاری نے ذکر کیا ہے کہ جمتہد وہ مسلمان فقیہ ہے جو حکم شرعی کا استخراج کرنے کے لئے اپنی تمام علمی صلاحیت کو بروئے کار لائے اور انہوں نے مجتمد کے لئے ضروری قرار دیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کے دلائل پر کم سے کم اجمالی نظر رکھتا ہو اور احکام سے متعقل قرآن کریم کی آیات کے معانی، فصاحت و بلاغت اور صرف و نحو اور قرأت کی باریکیوں اور اصول استخراج کے علم کا ماہر ہو۔
اسباب نزول اور ناسخ و منسوخ کا علم رکھتا ہو۔ اس طرح جو احادیث احجکام سے متعلق ہیں ان تمام احادیث پر اس کی نظر ہو، ان احادیث کی سند پر راویوں کے احوال سے بااعتبار قوت اور ضعف کے واقف ہو، تعداد اسانید کے اعتبار سے متواتر، مشہور مستفیض اور غریب کے فرق سے واقف ہ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعدد معمولات اور اقوال میں منشاء رسالت تلاش کر کے ان میں تطبیق دینے یا نسخ کا فہم رکھتا ہو، آثار صحابہ سے واقف ہو اور یہ جانتا ہو کہ صحابہ کرام نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کون سے عمل کو آخری عمل قرار دیا، کس عمل کو خصوصیت قرار دیا اور متعارض احادیث کی کس طرح توجیہہ کی، جس مسئلہ پر اہل علم کا اجماع ہوچکا ہو، اس پر مطلع ہو اور جس پیش آمدہ مسئلہ کا حل صراحتاً کتاب، سنت، آثار اور اجماع سے نہ صاصل ہو سکے، اس کو اس مسئلہ کے اشباہ و نظارء پر قیاس کر کے حاصل کرسکے۔ ایک مجتہد جب قرآن یا حدیث کے متن سے استدلال کرتا ہے تو عموماً اس کے استدلال کے چار طریقے ہوتے ہیں۔ کتاب، سنت، اجماع اور قیاس۔ (فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت ج ٢ ص 362، مطبوعہ مصر 1970 ء)
طبقات فقہاء :۔
علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252 ھ لکھتے ہیں :
فقہاء کے حسب ذیل چھ طبقات ہیں :
-1 مجتہد مطلق اس کو مجتہد فی الشرع بھی کہتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو قواعد و اصول مقرر فرماتے ہیں اور احکام فرعیہ کو اصول اربعہ سے مستبط کرتے ہیں اور اصول و فروغ میں کسی کے تابع نہیں ہوتے۔ جیسے ائمہ اربعہ۔
-2 مجتہد فی المذہب : یہ صرف اصول میں اپنے امام کے تابع ہوتے ہیں اور ادلہ اربعہ سے فرع کے استخراج پر قدرت رکھتے ہیں اور مسائل فرعیہ میں بعض جگہ اپنے امام سے اختلاف بھی کرتے ہیں۔ جیسے اصحاب ابی حنیفہ وغیرہ
-3 مجتہد فی المسائل : یہ اصول و فروع میں اپنے امام کے تابع ہوتے ہیں اور جن مسائل میں امام سے کوئی روایت نہیں ہوتی، ان میں امام کے اصول کے مطابق استخراج کرتے ہیں۔ جیسے ابوجعفر طحاوی۔
-4 اصحاب تخریج : انہیں اجتہاد پر قدرت نہیں ہوتی یکن اصول اور اس کے مآخذ پر انہیں مکمل عبور ہوتا ہے، اس لئے یہ قول مجمل کی تفصیل پر قدرت رکھتے ہیں۔ جیسے ابوبکر رازی، ابوبکر جصاص اور کرخی۔
-5 اصحاب ترجیح : یہ بعض رویاتوں کو بعض دوسری روایتوں پر ترجیح دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جیسے ابوالحسن قدوری اور صاحب ہدایہ۔
-6 ممیزین : یہ وہ لوگ ہیں جو روایات میں سے صحیح، اصح، قوی، ضعیف اور ظواہر و نوادر وغیرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں اور انہیں روایات کو باہم ممیز کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ جیسے صاحب کنز اور صاحب شرح وقایہ وغیرہا۔ (ردا المختارج ١ ص 165-166، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، 1419 ھ)
چلتی ٹرین میں نماز پڑھنے کے متعلق متاخرین علماء کا اجتہادی حکم
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی متوفی 1340 ھ چلتی ٹرین میں نماز پڑھنے کے متعلق لکھتے ہیں :
فرض و واجب جیسے و تر اور نذر اور ملحق بہ یعنی سنت فجر چلتی ریل میں نہیں ہوسکتے اگر ریل نہ ٹھہرے اور وقت نکلتا دیکھے پڑھ لے پھر بع داستقرار اعادہ کرے (الی قولہ) لیکن اگر ریل روک لی جائے تو زمین ہی پر ٹھہرے گی اور مثل تخت ہوجائے گی۔ انگریزوں کے کھانے غیرہ کے لئے روکی جاتی ہے اور نماز کے لئے نہیں تو منع من جہت العباد ہو اور اور ایسے منع کے متعلق حکم وہی ہے کہ نماز پڑھ لے اور بعد زوال مانع اعادہ کرے۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٣ ص 67، مطبوعہ سنی دارالاشاعت، لائل پور)
فقیہ العصر مولانا محمد نور اللہ نعیمی متوفی 1403 ھ اس مسئلے کے متعلق لکھتے ہیں :
چلتی ریل گاڑی، چلتی کشتی کے مشابہ ہے کہ دونوں کسی جانور کے کھینچنے سے نہیں بلکہ ہوا و بھاپ کے ذریعہ سے چلتی ہیں اور کشتی باوجودیکہ پانی پر چلتی ہے اور زمین یا کسی ایسی ٹھوس چیز پر نہیں چلتی جس پر بلاواسطہ سجدہ یا قیام ہو سکے مگر پھر بھی اس میں نماز فرض بھی جائز ہے۔ (فتاویٰ نوریہ ج ١ ص 208 مطبوعہ دارالعلوم حنفیہ فریدیہ بصیر پور) اس مسئلہ کی مکمل تحقیق ہم نے شرح صحیح مسلم ج ٢ ص 397-407 میں کردی ہے۔
لائوڈ اسپیکر کے مائک پر نماز پڑھنے کے متعلق اجتہادی حکم
لائوڈ اسپیکر کے مائیک پر نماز پڑھانے یا پڑھنے کے متعلق مولانا نور اللہ نعیمی لکھتے ہیں : بلاشک و شبہ و گنجائش ریب قرآن کریم اور احادیث طیبہ اور اجماع عملی و نقول مذہیبہ فقیہہ سے اس کا جواز آفتاب بےحجاب سے بھی زیادہ واضح و بےنقاب ہے۔ (فتاویٰ نوریہ ج ۃ ص 369، مطبوعہ بصیر پور)
روزہ کی حالت میں انجکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جانے کے متعلق اجتہادی حکم
روزہ کی حالت میں انجکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جانے کے متعلق مولانا نور اللہ نعیمی لکھتے ہیں :
ایسے عام ٹیکے جن میں دوائی جوف (پیٹ) و دماغ تک بذریعہ سوئی نہیں جاتی بلکہ سوئی رہتی ہی جوف سے بالائی یا زیریں حصوں میں ہے، رزہ فاسد نہیں کرتے۔ (فتاویٰ نوریہ ج ٢ ص 112 مطبوعہ بصیر پور)
مولانا محمد وقار الدین متوفی 1413 ھ اس مسئلہ میں لکھتے ہیں :
روزے کی حالت میں انجکشن لگوانا مختلف فیہ ہے یعنی اس میں اختلاف ہے۔ ہماری رائے کے مطابق اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔ لہٰذا روزہ دار کو انجکشن لگوانے سے بچنا چاہیے۔ انجکشن دن میں لگوانا ضروری نہیں، رات میں بھی لگوایا جاسکتا ہے۔ اس لئے رات میں لگوائیں۔ (وقار الفتاویٰ ج ٢ ص 429، مطبوعہ بزم وقار الدین کراچی :1419 ھ)
مفتی وقار الدین صاحب نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک بار بریلی میں طاعون پھیل گیا، اسکول میں انجکشن لگائے جا رہے تھے۔ لڑکوں نے کہا اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔ فتویٰ لیا جائے، وہ لڑکے بریلی شہر کے تھے۔ وہ فتویٰ لینے گئے اور فتویٰ لائے تو ہم نے پوچھا کہ کہاں سے فتویٰ لیا ہے تو کہا کہ بڑے مولوی صاحب سے لائے ہیں۔ اتنی بات طالبعلمی کے زمانہ میں سنی تھی چونکہ اس وقت اعلیٰ حضرت کو بڑے مولانا صاحب کہا جاتا تھا، اس فتویٰ کو ہیڈ ماسٹر نے دیکھ کر کہا جب بڑے مولوی صاحب نے لکھ دیا پھر تو نہیں لگ سکتا۔ یہ تذکرہ اعلیٰ حضرت کا میرے سامنے ہوا تھا۔ (حیات وقار الملت ص 23 ملحضاً محصلاً مطبوعہ بزم وقار الدین کراچی، 1993 ء) اس مسئلہ کی مفصل اور مکمل تحقیق ہم نے شرح صحیح مسلم ج ١ ص 358 میں کی ہے اور تبیان القرآن ج ١ ص 707-708 میں بھی اس کا ذکر ہے۔
ریڈیو اور ٹی وی کی مرمت کی اجرت لینے کا اجتہادی حکم
ریڈیو اور ٹیوی کی مرمت کی اجرت کے متعلق مفتی وقار الدین مرحوم سے سوال کیا گیا تو انہوں نے لکھا :
ریڈیو اور ٹیوی مشینی آلات ہیں، ان سے جائز کام بھی لئے جاتے ہیں اور ناجائز کام بھی۔ یہ صرف حرام کام کے لئے استعمال نہیں ہوتے اور نہ محض غلط کاموں کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ جس طرح چھری اور بندوق وغیرہ جیسے الٓات سے جاد بھی کیا جاتا ہے اور اپنے ذاتی کاموں اور شکار میں بھی اسعتمال کئے جاتے ہیں اور ان ہی سے انسان کو قتلک رنے والا فعل قبیع بھی کیا جاتا ہے۔ لہٰذا جو آلات صرف معصیت کے لئے متعین نہ ہوں، ان کا بنانا اور مرمت کرنا جائز ہے تو ریڈیو اور ٹیوی کی مرمت کرنا بھی جائز ہے۔ اسی طرح اس کی مرمت کی اجرت بھی حلال ہے۔ (وقار الفتاویٰ ج ١ ص 219، مطبوعہ کراچی)
حالت اضطرار میں مریض کو خون دینے کے متعلق اجتہادی حکم
جان بچانے کے لئے مریض کو خون دینے کے مسئلہ میں مفتی وقار الدین لکھتے ہیں :
خون کی حرمت و نجاست قطعی ہے۔ قرآن پاک نے اسے ناپاک قرار دیا ہے۔ (المائدہ :< ) اس لئے اس کی خریدو فروخت اور اس کا استعمال سب ناجائز ہے۔ لہٰذا مریض زندہ رہے یا ہلاک ہوجائے دونوں صورتوں میں ایسا کرنے والے گناہ گار ہوں گے۔ (وقار الفتاویٰ ج ١ ص 266 مطبوعہ کراچی)
مفتی نور اللہ نعیمی اس مسئلہ کے متعلق لکھتے ہیں :
ایسی ضرورت شدیدہ کے وقت کہ زخمی مجاہد کی زندگی خطرہ میں ہو اور کوئی نافع دوائی خون کے بغیر نہ ملے تو استعمال خون بقدر ضرورت شرعاً جائز ہوگا۔ (الی قولہ) بہرحال روز روشن کی طرح واضح ہوا کہ ایسے مریض کے لئے ایسی ضرورت کے وقت انسانی خون کا استعمال جائز ہے اور جب استعمال خون جائز ہے تو خون کے عطیات پیش کرنے بھی جائز ہوں گے۔ (فتاوی نوریہ ج ٣ ص 452-455 ملحضاً مطبوعہ بصیر پور، 1983 ء) ہم نے اس مسئلہ کی مکمل تحقیق شرح صحیح مسلم ج ٢ ص 830-832 اور تبیان القرآن ج ١ ص 667 میں کی ہے۔
ایلوپیتھک اور ہومیوپیتھک دو ائوں کے اسعتمال کے متعلق اجتہادی حکم
امام احمد رضا قادری متوفی 1340 ھ لکھتے ہیں :
انگریزی رقیق دوائیں جو ٹچر کہلاتی ہیں، ان میں عموماً اسپرٹ پڑتی ہے اور اسپرٹ یقیناً شراب بلکہ شراب کی نہایت بدتر قسموں سے ہے وہ نجس ہے، ان کا کھانا حرام، لگانا حرم، بدن یا کپڑے یا دونوں کی مجموع پر ملا کر اگر روپیہ بھر جگہ سے زیادہ میں ایسی شے لگی ہوئی ہو نماز نہ ہو ی۔ (فتاویٰ رضویہ ج ١١ ص ٨٨ مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی)
مفتی محمد مظہر اللہ دہلوی متوفی 1966 ء لکھتے ہیں :
لیکن ہم نے جہاں تک ڈاکٹروں کی زبانی سنا، یہ معلوم ہوا کہ یہ (اسپرٹ) بھی اس شربا سے نہیں بنائی جاتی جس کو شرعاً خمر کہا جا ات ہے بلکہ یہ (اسپرٹ) ایسی شرب کا جوہر ہے جو گنے وغیرہ سے بنائی گئی ہے۔ پس اگر یہ صحیح ہے تو اس کا استعمال بغرض صحیح (اس مقدار میں جو مکسر نہیں ہے) حرام نہیں اور اس کی بیع و شراء بھی جائز ہے۔ (فتاویٰ مظہر یہ صح 298، مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی)
مفتی وقار الدین اس مسئلہ کے متعلق لکھتے ہیں :
ہومیوپیتھک کی کوئی دوا بغیر الکحل کے نہیں بنتی۔ الکحل شراب ہے لہٰذا ہومیوپیتھک کی دوا کھانا جائز ہے۔ (الی قولہ) ایلوپیتھک کی ہر دوا میں الکحل نہیں ہوتا۔ ٹیبلیٹ اور کیپسول میں الکحل نہیں ہوتا، پتلی دوائیوں میں سے کچھ میں شامل ہے، کچھ میں نہیں۔ لہٰذا جس دوا میں الکحل ہوگا، اس کا کھانا اور اس کی خریدو فروخت ناجائز ہوگی اور جس میں الکحل شامل نہیں، وہ جائز ہے۔ (وقار الفتاویٰ ج ١ ص 264-265 ملحضاً مطبوعہ کراچی)
مفتی نور اللہ نعیمی اس مسئلہ کے متعلق لکھتے ہیں :
ہاں اس میں شک نہیں کہ انگریزی ادویہ کا استعمال شرقاً غرباً عرباً عجماً عام ہوچکا ہے اور یہ بھی متیقن و متعین کہ تمام دوائوں میں عموماً شراب کی ملاوٹ نہیں ہوتی بلکہ صرف تر اور سیال دوائوں میں سے بعض میں ہوتی ہے اور وہ بھی یقین نہیں کہ انگوری ہوتی ہے تو اندریں حالات غیر مسکر دوائوں کا اسعتمال جائز و حلال ہونا چاہیے کہ ایک دوائی کے متعلق شراب کی آمیزش یقینین ہیں ہے حالانکہ یہ امر محقق ہے کہ اشیاء میں اصل اباحت ہے وذا ثابت کا لشمس ولامس من الایات المتکائرۃ والاحادیث، المتوافرۃ ونصوص الائمۃ الکرام والمشائخ العظام علی کثرتھا بلکہ فتاویٰ امام قاضی خان فقیہ النفس ص 779 میں ہے :
لیس زماننا زمان الشبھات فعلی المسلم ان یتقی الحرام المعاین
بلکہ فتاویٰ عالمگیری ج ٤ ص 105 میں ہے :
قال محمد وبہ ناخذ مالم نعرف شیئاً حراما بعینہ وھو قول ابنی حنیفۃ و اصحابہ کذافی الظھیریۃ
تو واضح ہوا کہ حرمت و نجات عارضی ہیں لیکن ان کے ثبوت کے لئے ضروری ہے کہ خصوصی دلیل ہو اور محض شکوک و ظنون سے ان کا اثبات ممکن نہیں اور یہ بھی واضح کہ احتیاط یہ نہیں کہ بےتحقیق بالغ و ثبوت کامل کسی شے کو حرام و مکرہو کہہہ کر افتراء کیا جائے اور بازاری افواہ بھی قابل اعتبار نہیں کہ احکام شرع کی مناط و مدار بن سکے۔ نیز کسی شے کا محل احتیاط سے دور یا کسی قوم کا بےاحتیاط و شعور اور پروائے نجاست و حرمت سے مہجور ہونا اس یمستلزم نہیں کہ وہ شے یا اس قوم کی استعمالی یا بنائی ہوئی اشیا مطلقاً ناپاک یا حرام و ممنوع قرار پائیں۔ چناچہ مسائل کثیرہ فقیہہ سے یہ چیز روز روشن کی طرح ثابت ہے۔ مثلاً وہ کنوئیں جن سے کفار، فجار، جہال، گنوارنا، نادان بچے، بےتمیز عورتیں سب طرح کے لوگ پانی بھرتے ہیں، شرع مطہر ان کی طہارت کا حکم دیتی ہے، ان سے شرب و وضو روا فرماتی ہے اور یونہی گلی کوچوں میں پھرنے والے جوتوں سے کوئی جوتا کنوئیں سے نکلے اور اس پر کوئی نجاست ظاہر نہ ہو تو کنواں طاہر ہے اور اس قسم کے کبثرت اور مسئال ہیں جن کی فتاویٰ عالمگیری، البحرالرائق، شامی، قاضی خان وغیرہا کتب معتمدہ میں تصریح ہے اور فتاویٰ رضویہ شریفہ جلد ٢ میں نہایت تشریح ہے۔ سائل فاضل نے یہ درست فرمایا کہ انگریزی ادویہ میں عموم بلویٰ اور ابتلاء کا اعتبار ہونا چاہیے اور ایسی صورت میں ضرورت کے لئے روایت ضعیفہ کا سہارا بھی لیا جاسکتا ہے۔ چہ جائیکہ حضرت امام عالی مقام اول اور حضرت امام ثانی (رض) کا مذہب شریف معاذ و ملاذ بن جائے حالانکہ ہمارے پیارے ارحم الراحمین رب تبارک و تعالیٰ اور سراپائے رحم و کرم محبوب اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک تیسیر پسند اور حرج و تعسیر مرفوع ہے۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے : یرید اللہ بکم الیسرو لایرید یکم العسر۔ (پ ٢ ع ٧) نیز فرمایا : وما جعل علیکم فی الذین من حرج (پ ١٧ ع ١٧) الی غیر ذلک من الایات والاحادیث الصحیحۃ الصریحۃ
البتہ ایلوپیتھک ادویہ کی طرح ہومیوپیتھک ادویہ کا استعمال فقیر کی نظر میں حد ابتلاء تک نہیں پہنچ سکا تو ان میں اباحث اصلیہ اور عدم تفین نجاست سے ہی جواز ثابت ہوسکتا ہے۔ (فتاویٰ نوریہ ج ٣ ص 458-460 مطبوعہ بصیر پور)
ہم نے اس مسئلہ کی مکمل تحقیق اور تفصیل شرح صحیح مسلم ج ٢ 830-843 میں کی اور تبیان القرآن ج ١ ص 667-676 میں بھی اس مسئلہ پر بحث کی ہے۔
بعض دیگر مسائل اجتہادیہ
جن اجتہادی مسائل کا ذکر کیا گیا ہے ان کے علاوہ بھی کچھ تازہ اور نئے مسائل ہیں جن پر ہم نے گفتگو کی ہے۔ ثملاً ریڈیو اور ٹیوی کے اعلان پر رمضان، عید اور قربانی کرنا۔ اس مسئلہ پر ہم نے شرح صحیح مسلم ج ٣ ص 57-74 میں بحث کی ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی اور ضبط تولید بھی ایک نیا مسئلہ ہے۔ اس پر ہم نے مفصل بحث شرح صحیح مسلم ج ٣ ص 878-887 میں کی ہے۔ اسقاط حمل پر شرح صحیح مسلم ج ٣ ص 891-898 میں تفصیل ہے۔ تازہ ترین مسئلہ ٹیسٹ ٹیوب بےبی کا ہے۔ شرح صحیح مسلم ج ٣ 935-947 میں اس کی بحث ہے۔ ٹیلی فون پر نکاح بھی ایک نیا مسئلہ ہے، اس کا ذکر شرح صحیح مسلم ج ٣ ص 828-829 میں ہے۔ اعضاء کی پیوند کاری بھی اجتہادی مسئلہ ہے۔ اس پر ہم نے شرح صحیح مسلم ج ٣ 843-862 میں گفتگو کی ہے۔ انعامی بانڈز کے جواز کی بحث ہم نے شرح صحیح مسلم ج ٤ ص 111-124 میں کی ہے اور بیمہ کے متعلق شرح صحیح مسلم ج ٥ ص 846-867 میں لکھا ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے نئے تازہ مسائل ہیں، یہ سب جدید مسائل ہیں اور سائنس کی تیز رفتار ترقی اور نئی نئی ایجادات کے نتیجے میں ظہور میں آئے ہیں۔ اس لئے ان پر از سر نو غور و فکر اور اجتہاد کی ضرورت ہے۔
ائمہ اربعہ کے بعد اجتہاد کا دروازہ بند ہونے کا معنی
یہ جو کہا جاتا ہے ائمہ اربعہ کے بعد اجتہاد کا دروازہ بند ہوگیا ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ ائمہ اربعہ نے اصول کلیہ وضع کئے، جن کے تحت مسائل کا استنباط اور استخراج کیا جاتا ہے اور بعد کے لوگ اصول کلیہ وضع کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے لیکن ان اصول کے تحت متقدمین فقہاء نے اجتہاد کیا اور اب بھی ان ہی قواعد کی روشنی میں اجتہاد کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً امام اعظم کا اصول ہے کہ وہ قرآن مجید کو احادیث پر مقدم کرتے ہیں اور متعارض احادیث میں حتیالامکان تطبیق دیتے ہیں اور اگر احادیث قرآن مجید سے متصادم ہوں تو قرآن مجید کے مقابلہ میں احادیث کو ترک کردیتے ہیں اور احادیث کو اقوال صحابہ پر مقدم رکھتے ہیں اور اقوال صحابہ کو اقوال تابعین پر مقدم رکھتے ہیں۔ مطلق کو مقید پر محمول نہیں کرتے، فرض قطعی اور فرض ظنی اور اسی طرح حرام قطعی اور حرام ظنی میں فرق کرتے ہیں، اسی طرح باقی ائمہ کے بھی اصول ہیں جن کی تفصیل کتب فقہ میں ہے۔ سوا اگر کوئی ایسا نیا مسئلہ ہو جس کا حل سابقہ فقہ کی کتابوں میں نہ ہو تو اس کی دوسری نظائر پر قیاس کر کے اس کا حکم معلوم کیا جائے اور اگر اس کی نظائر بھی نہ مل سکیں تو اپنے اپنے امام کیا صول اور قواعد کے مطابق کتاب، سنت اور آثار صحابہ کی روشنی میں اجتہاد کیا جائے۔
مویشیوں میں اللہ کے حقوق
اس آیت میں مویشیوں کا ذکر ہے جب کچھ لوگوں کی بکریوں نے رات میں اس کھیت کو چر لیا تھا۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ مویشیوں کے احکام سے متعلق بھی چند احادیث ذکر کردیں۔ مویشیوں کے کچھ احکام حقوق اللہ سے متعلق ہیں اور کچھ حقوق العباد سے۔ اللہ کے حقوق میں سے اہم حق مویشیوں کی زکوۃ ادا کرنا ہے، یاد رہے کہ ان مویشیوں پر زکوۃ واجب ہوتی ہے جو قدرتی چراگاہوں میں گھاس چرتی ہیں اور جن مویشیوں کو خرید کر چارہ کھلایا جاتا ہے، ان پر زکوۃ نہیں ہے۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرت ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص سونا چاندی رکھتا ہو اور اس کا حق (زکوۃ) نہ ادا کرے، قیامت کے دن اس کے لئے آگ کے پرت بنائے جائیں گے اور دوزخ کی آگ سے اس کو تپایا جائے گا اور اس کے پہلو، پیشانی اور پیٹھ کو اس کے ساتھ داغا جائے گا۔ ایک بار یہ عمل کرنے کے بعد دوبارہ پھر کیا جائے گا جب ایک دن پچاس ہزار سال کا ہوگا اس دن یہ عمل مسلسل کیا جائے گا۔ بالآخر جب تمام لوگوں کے فیصلے کردیئے جائیں گے تو اس کو جنت یا دوزخ کا راستہ دکھا دیا جائے گا۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! اونٹ والوں کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا ؟ فرمایا جو اونٹ والا اونٹوں کا حق (ان کی زکوۃ) ادا نہیں کرے گا اور اونٹوں کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ پانی پلانے کے دن اونٹنیوں کا دودھ دھو کر غریبوں کو پلایا جائے۔ (ان کی زکوۃ ادا نہ کرنے والوں کو) قیامت کے دن چٹیل زمین پر اوندھا لٹا دیا جائے گا اس وقت اونٹ آئیں گے درآں حالیکہ وہ بہت فربہ ہوں گے اور ان کا کوئی بچہ تک گم نہیں ہوگا، وہ اس شخص کو اپنے کھروں سے روندیں گے اور اپنے مونہوں سے کاٹیں گے، ان کا ایک ریوڑ گزر جائے گا تو پھر دوسرا آجائے گا، پچاس ہزار سال کے برابر دن میں یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا حتیٰ کہ جب لوگوں کے فیصلے ہوجائیں گے تو اس کو جنت یا دوزخ کا راستہ دکھایا گیا جائے گا۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! گائے اور بکریوں والوں کا کیا حال ہوگا ؟ فرمایا جو گائے اور بکریوں والا ان کا حق (زکوۃ) ادا نہیں کرے گا قیامت کے دن چٹیل زمین میں اسے منہ کے بل گرایا جائے گا تمام گائیں اور بکریاں اس کو کھروں سے روندیں گی اور اس کو سینگوں سے ماریں گی۔ اس روز ان میں کوئی الٹے سینگوں والی ہوگی نہ بغیر سینگوں والی، نہ ٹوٹے ہوئے سینگوں والی، ایک ریوڑ گزرنے کے فوراً بعد دورسا ریوڑ آجائے گا اور پچاس ہزار سال کے برابر دن میں یونہی ہوتا رہے گا حتیٰ کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا پھر اسے جنت یا دوزخ کا راستہ دکھا دیا جائے گا۔ الحدیث (صحیح مسلم رقم الحدیث :987)
مویشیوں میں بندوں کے حقوق
کسی اونٹنی گائے یا بکری کا دودھ اس کے مالک کی اجازت کے بغیر دوہنا جائز نہیں ہے۔
حضرت سمرہ بن جندب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم میں سے کسی شخص کا مویشیوں کے پاس سے گزر ہوا اگر مویشیوں کے پاس ان کا مالک موجود ہے تو اس سے اجازت طلب کرلے، اگر وہ اجازت دے دے تو ان کا دودھ دوھ کر پی لے اور اگر وہاں کوئی نہ ہو تو تین بار آواز دے اگر کوئی شخص اس کی آواز کا جواب دے تو اس سے اجازت حاصل کرے اور اگر کوئی جواب نہ دے تو دودھ دھو کر پی لے لیکن دودھ ساتھ لے کر نہ جائے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :1296، سنن ابو دائود رقم الحدیث :2619، المعجم الکبیر رقم الحدیث :6877، سنن بیہقی ج ٩ ص 359، المسند الجامع رقم الحدیث 5010) تین بار آواز کا جواب نہ آنے پر دودھ پینے کی اجازت حالت اضطرار پر محمول ہے۔ یعنی جب اس کو شدید بھوک لگی ہو اور اگر اس نے دودھ نہ پیا تو وہ مرجائے گا۔
مویشیوں کو گیا بھن کرنے کی اجرت کی تحقیق
لوگوں کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ مادہ کو گیا بھن کرنے کی اجرت نہ لی جائے۔
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نر کو مادہ کے گیا بھن کرنے کے لئے دینے کی اجرت سے منع فرمایا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :2284، سنن النسائی رقم الحدیث :4685)
علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی متوفی 855 ھ اس حدیث کی شرح میں لکھت یہیں :
اس حدیث سے ان فقفہاء نے استدلا کیا ہے جو نر کی جفتی کی بیع یا اس کے کرایہ کو حرام کہتے ہیں۔ صحابہ کی ایک جماعت کا بھی یہی قول ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام شافعی اور امم احمد کا بھی یہی مذہب ہے کیونکہ نر کے مادہ منویہ کی عرف میں کوئی قیمت ہے اور نہ اسکی مقدار معلوم ہے اور نہ اس کو سپرد کرنا قدرت میں ہے اور اس کو کرائے پر دنیے کے متعلق دو قول ہیں زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ وہ بھی ممنوع ہے۔ امام مالک کے نزدیک اگر نر کو جفتی کے لئے کرائے پر لیا جائے تو جائز ہے بشرطیکہ پہلے یہ طے کرلیا جائے کہ نر مادہ کو اتنی بار ضرب لگائے گئے اور اتنی مدت کے لئے یہ عمل کیا جائے گا اور اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت تک نر کو کرائے پر لیا جائے حتیٰ کہ مادہ گابھن ہوجائے تو یہ صحیح نہیں ہے۔ حسن بصری، ابن سیرین اور عطا نے اس کو بھی جائز کہا ہے جب کہ مادہ کو گابھن کرنے کی اور کوئی صورت نہ ہو۔ علامہ ابن بطال نے کہا بعض علماء نے حسب ذیل حیدث سے اس کے کرائے کے جواز پر استدلا کیا ہے۔
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں بنو کلاب کے ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نر کی جفتی کے کرائے کے متعلق سوال کیا آپ نے منع فرمایا۔ اس شخص نے کہا ہم نر کو جفتی کے لئے دیتے ہیں پھر ہماری تکریم کی جاتی ہے۔ (ہم کو ہدیہ دیا جاتا ہے) آپ نے تکریم (ہدیہ قبول کرنے) کی اجازت دی۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :1274، سنن النسائی رقم الحدی :4686 المسند الجامع رقم الحدیث :777)
اس حدیث میں جفتی پر دنیے کے بعد ہدیہ قبول کرنے کی اجازت ہے، ہرچند کہ اس کی بیع اور اس کو کرائے پر دینا حرام ہے۔ (عمدہ القاری جز ١٢ ص 106، مصر، 1348 ھ فتح الباری ج ٥ ص 225، دارالفکر، 1420 ھ)
کرائے پر دینے اور بعد میں ہدیہ قبول کرنے میں یہ فرق ہے کہ کرائے میں پہلے یہ مقرر کیا جائے گا کہ نر کو اتنے وقت اور اتنی بار ضرب لگانے کے لئے اتنے پیسوں کے عوض دیا جائے گا جب کہ تکریماً اور ہدیتہ کا معنی یہ ہے کہ بغیر کچھ طے کئے نر کو جفتی کے لئے دے دیا جائے اور بعد میں نر یا نر کو دینے والے کی تکریم کے لئے کچھ ہدیہ دے دیا جائے۔ اس زمانے میں نر جانور کا نطفہ بیرون ملک سے درآمد کیا جاتا ہے اور اس کی مقدار متعین اور معلوم ہوتی ہے اور اس کو انجکشن کے ذریعہ مادہ کے رحم میں پہنچا دیا جاتا ہے، لہٰذا عرف میں جو اس کی قیمت ہو وہ لینی جائز ہے۔
رہن رکھے ہوئے مویشیوں سے استفادہ کی تحقیق
جن مویشیوں کو رہن رکھا جائے ان کے متعقل یہ حکم شرعی ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس سواری کو رہن رکھا جائے، اس پر اس کے چارہ اور دیگر اخراجات کے عوض سواری کی جائے گی، جب کہ اس کو رہن رکھا ہو اور جس مویشی کو رہن رکھا ہو، اس کے اخراجات کے عوض اس کا دودھ پیا جائے گا جب کہ اس کو رہن رکھا ہو، اور اس مویشی پر خرچ کرنا اس کے ذمہ ہے جو اس پر سواری کرتا ہو اور اس کا دودھ پیتا ہو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :2512)
علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی حفنی متوفی 855 ھ لکھتے ہیں :
اس حدیث سے امام شافعی اور ظاہریہ کی ایک جماعت (غیر مقلدین) نے استدلال کیا ہے کہ رہن شدہ سواری سے استفادہ کرنا یعنی اس پر سواری کرنا اور اس کا دودھ پینا جائز ہے اور امام ابوحنیفہ، امام مالک اور امام احمد کے ایک قول کے مطابق یہ ناجائز ہے کیونکہ مرتہن (جس نے قرض دے کر مقروض کی چیز کو رہن رکھا ہے) اگر رہن شدہ چیز سے فائدہ اٹھئاے گا تو یہ قرض سے فائدہ حاصل کرنا ہے اور قرض سے فائدہ حاصل کرنا سود ہے اور سود حرام ہے اور یہ ائمہ کرام اس حدیث کا یہ جواب دیتے ہیں کہ یہ سود کو حرام قرار دینے سے پہلے کا واقعہ ہے اور جب سود حرام ہوگیا تو رہن شدہ چیز سے فائدہ حاصل کرنا بھی حرام ہوگیا۔ (عمدۃ القاری جز ١١ ص 73، ملحضاً مطبوعہ مصر، 1348 ھ)
رہن شدہ چیز سے فائدہ اٹھانے کے لئے بیع الوفا کا حیلہ
لوگوں نے رہن سے فائدہ اٹھانے کے لئے ایک حیلہ نکالا ہے، اس کو بیع الوفا کہتے ہیں۔
صدر الشریعت مولانا امجد علی متوفی 1376 ھ اس کے متعلق لکھتے ہیں :
مسئلہ : بیع الامانہ اور بیع الاطاعتہ اور بیع المعاملہ بھی کہتے ہیں۔ اس کی صورت یہ ہے کہ اس طور پر بیع کی جائے کہ بائع جب ثمن مشتری کو واپس دے گا تو مشتری مبیع کو واپس کر دے گا یا یوں کہ مدیون نے دائن کے ہاتھ دین کے عوض میں کوئی چیز بیع کردی اور یہ طے ہوگیا کہ جب میں دین ادا کر دوں گا تو اپنی چیز لے لوں گا، یا یوں کہ میں نے یہ چیز تمہایر ہاتھ اتنے میں بیع کردی ہے اس طور پر کہ جب ثمن لائوں گا تو تم میرے ہاتھ بیع کردینا۔ آج کل جو بیع اولفاء لوگوں میں جاری ہے، اس میں مدت بھی ہوتی ہے کہ اگر اس مدت کے اندر یہ رقم میں نے ادا کردی تو چیز میری ورنہ تمہاری۔
مسئلہ، بیع اولفاء حقیقت میں رہنے ہے۔ لوگوں نے رہن کے منافع کھانے کے لئے یہ ترکیب نکالی ہے کہ بیع کی صورت میں رہن رکھتے ہیں ات کہ مرتہن اس کے منافع سے مستفید ہو۔ لہٰذا رہن کے تمام احکام اس میں جاری ہوں گے اور جو کچھ منافع حاصل ہوں گے سب واپس کرنے ہوں گے اور جو کچھ منافع اپنے صرف میں لا چکا ہے یا ہلاک کرچکا ہے، سب کا تاوان دینا ہوگا اور اگر مبیع ہلاک ہوگئی تو دین کا روپیہ بھی ساقط ہوجائے گا بشرطیکہ وہ دین کی رقم کے برابر ہو اور اگر اس کے پڑوس میں کوئی مکان یا زمین فروخت ہو تو شفعہ بائع کا ہوگا کہ وہی مالک ہے، مشتری کا نہیں کہ وہ مرتہن ہے۔ (ردا المختار) (بہار شریعت حصہ ١١ ص 128 مطبوعہ یائالقرآن پبلی کیشنز لاہور)
علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی 1252 ھ لکھتے ہیں :
ایک قول یہ ہے کہ یہ ایسی بیع ہے جس میں خریدار، خریدی ہوئی چیز سے فائدہ تو اٹھا سکتا ہے لیکن اس کو فرخت نہیں کرسکتا۔ علامہ ازیلعی نے کہا اسی قول پر فتویٰ ہے۔ (ردا المختارج ٧ ص 425، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیرت، 1419 ھ)
اس کی آسان عبارت یہ ہے کہ جب مثلاً زید نے اپنی گائے یا اپنا گھوڑا عمرو کے پاس رکھ کر اس سے دس ہزار روپے قرض لئے تو یہ رہن ہے اور عمرو اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا تو اس کا حل یہ ہے کہ زید رہن رکھنے کے بجائے اپنی گائے یا گھوڑے کو عمرو کے ہاتھ فروخت کر دے اب وہ گھوڑے پر سواری کرسکتا ہے اور گائے اکا دودھ پی سکتا ہے لیکن وہ اس گائے یا گھوڑے کو کسی اور کے ہاتھ فروخت نہیں کرسکتا اور جب زید اس کو رقم ادا کر دے گا تو عمرو سے اپنے گھوڑے یا اپنی گائے کو واپس لے لے گا۔ اس بیع کو بیع الوفاء کہتے ہیں۔
علامہ شامی نے اس کو بیع الوفاء کہنے کی حسب ذیل وجوہ بیان کی ہیں :
اس بیع کا نام بیع اولفاء رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ خریدار وفاء کرنے کا عہد کرتا ہے کہ جب فروخت کرنے والا خریدار کو قیمت واپس دے گا تو وہ اس چیز کو واپس کر دے گا اور بعض فقہاء اس کو ” البیع الجائز “ کہتے ہیں اور یہ اس پر مبنی ہے کہ سود سے بچنے کے لئے یہ بیع صحیح ہے حتیٰ کہ خریدار کے لئے اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے اور بعض اس کو بیع المعاملہ کہتے ہیں کیونکہ یہ قرض سے نفع حاصل کرنے کا معاملہ ہے اور قرض دینے والا اس چیز کو خریدتا ہے تاکہ اس سے نفع حاصل کرے اور یہ نفع اس کے قرض کے مقابلہ میں ہے اور اس کی صورت یہ ہے کہ فروخت کرنے والا خریدار سے یہ کہے کہ میں نے تم کو یہ چیز اس کے عوض میں فروخت کی ہے جو میرے ذمہ تمہارا قرض ہے اس شرط کے ساتھ کہ جب میں تمہارا قرض ادا کر دوں گا تو پھر یہ چیز میری ہوجائے گی۔ (علامہ شامی نے کہا ہے کہ علامہ زیلعی نے اس بیع کو جائز کہا ہے اور اسی قول پر فتویٰ ہے) ردا المختارج ٧ ص ٤٢٤ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، 1419 ھ)
مویشیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا
شداد بن اوس (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دو حدیثیں یاد رکھی ہیں۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ اچھے سلوک کو فرض کردیا ہے جب تم کسی (دشمن دین) کو قتل کرو تو اچھے طریقہ سے قتل کرو (جس میں اس کو زیادہ ایذاء نہ پہنچے) اور جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقہ سے ذبح کرو اور تم اپنی چھری کو تیز کرلو اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائو۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :1955، سنن ابودائود رقم الحدیث :2815، سنن الترمذی رقم الحدیث، 1409، سنن النسائی رقم الحدیث :4405، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :3170)
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مویشیوں کو باندھ کر قتل کرنے سے منع فرمایا (صحیح البخاری رقم الحدیث، 5513، صحیح مسلم رقم الحدیث :1956، سنن ابودائود رقم الحدیث :2816 سنن النسائی رقم الحدیث :3186، مسند احمد رقم الحدیث 12185 عالم الکتب بیروت)
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جانوروں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے اور لڑانے سے منع فرمایا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :1708 سنن ابودائود رقم الحدیث :2562، مسند ابویعلی رقم الحدیث :2509 المعجم الکبیر رقم الحدیث :11123)
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے ایک گدھا گزرا جس کے چہرے پر (جلا کر) دغ لگایا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا اللہ اس شخص پر لعنت کرے جس نے اس کے چہرے کو جلا کر داغ لگایا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :2117)
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چہرے پر مارنے اور داغ لگانے سے منع فرمایا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : 2116 سنن الترمذی رقم الحدیث :1710، مسند احمد ج ٣ ص 318، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث :2551، مسند ابویعلی رقم الحدیث 2235 سنن کبری للبیہقی ج ٥ ص 255)
حضرت اسماء (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلوۃ کسوف پڑھانے کے بعد فرمایا اور دوزخ کی آگ میرے قریب کی گئی حتیٰ کہ میں نے کہا اے میرے رب ! جس وقت میں دوزخیوں کے پاس تھا، اچانک ایک عورت تھی جس کو بلی نوچ رہی تھی۔ میں نے کہا یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا اس عورت نے بلی کو باندھ کر رکھا حتی کہ وہ بھوک سے مرگئی نہ اس نے بلی کو کچھ کھلایا اور نہ اس کو آزاد کیا حتیٰ کہ وہ کچھ گھاس پھوس کھا لیتی۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :1265، سنن نسائی رقم الحدیث :1497، مسند احمد رقم الحدیث :27503، عالم الکتب بیروت)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک آدمی راستہ میں جا رہا تھا، اس کو بہت شدید پیاس لگی۔ وہ کنوئیں میں اترا اور اس نے پانی پیا پھر اس نے دیکھا کہ ایک کتا پیاس کی شدت سے کیچڑ چاٹ رہا تھا۔ اس نے کہا اس کتے کو بھی ایسی ہی پیاس لگی ہوئی ہے جیسیی پیاس مجھے لگی تھی۔ وہ پھر کنوئیں میں اترا اور اس نے اپنے (چمڑے کے) موزہ میں پانی بھرا پھر اس موزہ کے منہ کو بند کیا اور کنوئیں سے باہر آیا اور کتے کو سپر کر کے پانی پلایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس عمل کی جزا دی اور اس کو بخش دیا۔ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ان جانوروں کی وج ہ سے بھی ہمیں اجر ملتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہر تر جگر کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی وجہ سے اجر ملتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :2263، صحیح مسلم رقم الحدیث :2244، سنن ابودائود رقم الحدیث :2550)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 21 الأنبياء آیت نمبر 78