أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ اللّٰهَ يُدۡخِلُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ يُحَلَّوۡنَ فِيۡهَا مِنۡ اَسَاوِرَ مِنۡ ذَهَبٍ وَّلُـؤۡلُـؤًا ‌ؕ وَلِبَاسُهُمۡ فِيۡهَا حَرِيۡرٌ ۞

ترجمہ:

بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے ان کو اللہ ان جنتوں میں داخل کر دے گا جن کے نیچے سے دریا بہتے ہیں، ان جنتوں میں ان کو سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور وہاں ان کا لباس ریشم ہوگا

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے ان کو اللہ ان جنتوں میں داخل کر دے گا جن کے نیچے سے دریا بہتے ہیں ان جنتوں میں ان کو سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور وہاں ان کا لباس ریشم ہوگا اور ان کو پاکیزہ باتوں کی طرف ہدایت کی جائے گی اور حمد کرنے والوں کے راستہ کی طرف ان کو ہدیات کی جائے گی (الحج :23-24)

آخرت میں مومنوں کے چار قسم کے انعامات 

اس سے پہلی آیتوں میں آخرت میں کفار کی تین قسم کی سزائوں کا بیان فرمایا تھا اور ان آیتوں میں آخرت میں مومنوں کے چار قسم کے انعامات کا بیان فرمایا ہے، 

(١) پہلا انعام ان کے مسکن کا ذکر ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ ان کو ان جنتوں میں رکھے گا جن کے نیچے سے دریا بہتے ہیں۔ 

(٢) دوسران انعام یہ ہے کہ ان کا لباس ریشم کا ہوگا، دنیا میں ریشم مردوں پر حرام کردیا تھا اور آخرت میں ان پر ریشم حلال فرما دیا۔ 

ابن ابی لیلیٰ بیان کرتے ہیں کہ حضرت حذیفہ (رض) مدائن میں تھے، انہوں نے پانی مانگا ایک دہقان ان کے لئے چاندی کے برتن میں پانی لایا۔ حضرت حذیفہ نے اس برتن کو پھینک دیا پھر کہا میں نے یہ چاندی کا برتن اس لئے پھینکا ہے کہ میں نے اس کو چاندی کے برتن میں پانی دینے سے منع کیا تھا مگر یہ باز نہیں آیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سونا اور چاندی اور ریشم اور دیباج (ریشم کی ایک قسم) کفار کے لئے دنیا میں ہیں اور یہ تمہارے لئے آخرت میں ہوں گے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :5831 صحیح مسلم رقم الحدیث :2028 سنن النسائی رقم الحدیث :5301) 

(۳) تیسرا انعام یہ ہے کہ مومنوں کو جنت میں زیورات پہنائے جائیں گے۔ اس سلسلہ میں یہ حدیث ہے :

ابو حازم بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) کے پیچھے کھڑا ہوا تھا اور وہ نماز کا وضو کر رہے تھے، وہ اپنا ہاتھ بغل تک دھو رہے تھے میں نے کہا اے ابوہریرہ ! یہ کیسا وضو ہے ؟ انہوں نے کہا اے چوز کے بچے ! تو یہاں کھڑا ہوا ہے ! ! اگر مجھے پہلے معلوم ہوتا کہ تو یہاں کھڑا ہے تو میں اس طرح وضو نہ کرتام۔ میں نے اپنے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ جہاں تک مومن کا وضو پہنچے گا، وہاں تک اس کا زیور پہنچے گا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :250، سنن النسائی رقم الحدیث :149)

اس حدیث میں مومن کو جنت میں زیورات پہنانے کا بھی ثبوت ہے اور ناسمجھ لوگوں کو ڈانٹنے کا بھی ثبوت ہے اور یہ بھی ثبوت ہے کہ خاصاں دی گل عاماں اگے نہیں مناسب کرنی۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا لوگوں کے سامنے ایسی احادیث بیان کرو جو ان کے درمیان معروف ہیں (یعنی ان کے سامنے کوئی نئی بات نہ بیان کرو) کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی جائے۔ (صحیح البخاری کتاب العلم باب :49)

اس آیت میں فرمایا ہے : ان جنتوں میں ان کو سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور ایک اور آیت میں ہے :

علیھم ثیاب سندس خضر واستبرق وخلوا اساور من فض ١ (الدھر :21) ان کے جسموں پر سبز باریک اور دبیز ریشمی کپڑے ہوں گے اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ انہیں جنت میں سونے، چاندی اور موتیوں کے کنگن پہنائے جائیں گے۔

مردوں کے لئے سونے اور چاندی کے زیورات کی جنت میں تخصیص کی وجہ 

علامہ ابو عبداللہ قرطبی مالکی متوفی 668 ھ نے لکھا ہے کہ مفسرین نے کہا ہے کہ جب کہ دنیا کے بادشاہ کنگن اور تاج پہنتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے جنت میں ان کا پہننا حلال کردیا۔ (الجامع لا حکام القرآن جز ١٢ ص 28)

حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ لکھتے ہیں :

ابن عینیہ نے از اسرائیل از ابومسویٰ از حسن روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سراقہ بن مالک سے فرمایا، اس وقت تمہاری کیا شان ہوگی جب تم کسریٰ کے کنگن پہنو گے۔ (اتحاف الساد ١ المتقین ج ٧ ص 18)

انہوں نے کہا کہ جب حضرت عمر (رض) کے پاس کسریٰ کے کنگن اور اس کا مطنقہ (پٹکا) اور تاج لایا گیا تو حضرت عمر نے وہ کنگن حضرت سراقہ کو پہنا دیئے۔ حضرت سراقہ پست قد تھے اور ان کی کلائیوں پر بال بہت زیادہ تھے، حضرت عمرنے کہا اپنے ہاتھ اوپر اٹھائیں اور کہیں اللہ کے لئے سب تعریفیں ہیں جس نے یہ کنگن کسریٰ بن ہرمز یس اتار کر سراقہ اعربای کو پہنا دیئے۔ (الاصابہ ج و ص 35-36 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1415 ھ)

دنیا میں ریشم اور سونا چاندی پہننے اور شراب پینے والے کا شرعی حکم 

حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے دنیا میں ریشم پہنا وہ آخرت میں اس کو نہیں پہنے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :5834 صحیح مسلم رقم الحدیث :2073 سنن ابودائود رقم الحدیث :4042 سنن النسائی رقم الحدیث :5319، سنن ابن ملبہ رقم الحدیث :3588 السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث :9626، مسند احمد رقم الحدیث :2069، عالم الکتب بیروت)

ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ ٹھیک ہے مسلمان آخرت میں تو ریشم نہیں پہنے گا لیکن ہوسکتا ہے کہ اس کو جنت میں ریشم پہنا دیا جائے۔

علامہ قرطبی کہتے ہیں کہ اگر اس نے ریشم پہننے سے توبہ نہیں کی تو وہ جنت میں بھی ریشم پہننے سے محروم رہے گا اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اس پر ریشم اس وقت حرام ہوگا جب اس کو آگ میں عذاب دیا جائے گا یا اس کو محشر میں طول قیام کی سزا دی جائے گی لیکن جب وہ جنت میں داخل ہوجائے گا تو پھر محروم نہیں ہوگا کیونکہ جنت میں جنت کی لذات میں سے کسی لذت سے محروم ہونا بھی ایک قسم کی سزا ہے اور جنت سزا کی جگہ نہیں ہے بلکہ جزا اور انعام کی جگہ ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کلام بہت مستحکم تھا اگر اس کے خلاف احادیث نہ ہوتیں اور وہ یہ ہیں :

حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے دنیا میں ریشم پہنا وہ اس کو آخرت میں نہیں پہنے گا خواہ وہ جنت میں داخل ہوجائے۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ (مسند ابو دائود الطیالسی رقم الحدیث :294)

اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ جو شخص دنیا میں ریشم پہنے گا وہ آخرت میں ریشم پہننے سے محروم رہے گا خواہ وہ جنت میں داخل ہوجائے۔

اسی طرح جس نے دنیا میں سونے اور چاندی کے زیورات پہنے وہ جنت میں ان کو پہننے سے محروم رہے گا۔ اسی طرح دنیا میں شراب پینے والے کا حکم ہے اور اس کی تائید اس حدیث سے ہوی ہے :

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے دنیا میں خمر (انگور کے کچے شیرہ کی شراب) کو پیا اور اس سے توبہ نہیں کی، وہ آخرت میں اس سے محروم رہے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :5575 صحیح مسلم رقم الحدیث :2003) 

باقی رہا یہ کہ ان نعمتوں سے محروم ہونا تو ایک طرح کی سزا ہے اور جنت سزا کی جگہ نہیں ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ان چیزوں کی خواہش ہی پیدا نہیں کرے گا حتیٰ کہ اس کو محرومی کا احساس ہو۔

(٤) جنت میں چوتھا انعام یہ ہوگا کہ ان کو پاکیزہ باتوں کی طرف ہدایت کی جائے گی اور حمد کرنے والوں کے راستہ کی طرف ان کو ہدیات کی جائے گی۔

اس کا معنی یہ ہے کہ ان کو لا الہ الا اللہ پڑھنے اور الحمد للہ پڑھنے کی ہدایت دی جائے گی۔ ایک قول یہ ہے کہ وہ صبھ اٹھ کر یہ کہیں گے : الحمد للہ الذی ھدانا لھذا اللہ کی حمد ہے جس نے ہم کو اس کی ہدیات دی، اور کہیں گے : الحمد للہ الذی اذھب عنا الحزن اللہ کی حمد ہے جس نے ہم سے غم کو دور کردیا۔ پس جنت میں کوئی لغوت بات ہوگی نہ جھوٹ ہوگا اور وہ جو کچھ بھی کہیں گے وہ حق اور سچ بات ہوگی اور انہیں جنت میں اللہ کے راستہ کی طرف ہدایت دی جائے گی کیونکہ جنت میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی مخلافت پر مبنی ہو۔

اس آیت کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ انہیں دنیا میں پاکیزہ باتوں اور حمد کے راستہ کی ہدیات دی گئی ہے لیکن یہ تفسیر سیاق اور سباق کے مناسب نہیں ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 22 الحج آیت نمبر 23