اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَيَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَالۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ الَّذِىۡ جَعَلۡنٰهُ لِلنَّاسِ سَوَآءَ اۨلۡعَاكِفُ فِيۡهِ وَالۡبَادِ ؕ وَمَنۡ يُّرِدۡ فِيۡهِ بِاِلۡحَـادٍۢ بِظُلۡمٍ نُّذِقۡهُ مِنۡ عَذَابٍ اَ لِيۡمٍ۞- سورۃ نمبر 22 الحج آیت نمبر 25
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَيَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَالۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ الَّذِىۡ جَعَلۡنٰهُ لِلنَّاسِ سَوَآءَ اۨلۡعَاكِفُ فِيۡهِ وَالۡبَادِ ؕ وَمَنۡ يُّرِدۡ فِيۡهِ بِاِلۡحَـادٍۢ بِظُلۡمٍ نُّذِقۡهُ مِنۡ عَذَابٍ اَ لِيۡمٍ۞
ترجمہ:
بیشک جن لوگوں نے کفر کیا اور وہ اللہ کے راستہ سے روکنے لگے اور اس مسجد حرام سے جس کو ہم نے لوگوں کے لئے مساوی بنایا ہے خواہ وہ اس مسجد میں معتکف ہوں یا باہر سے آئیں، اور جو اس مسجد میں ظلم کے ساتھ زیادتی کا ارادہ کرے گا، ہم اس کو درد ناک عذاب چکھائیں گے ؏
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک جن لوگوں نے کفر کیا اور وہ اللہ کے راستہ سے روکنے لگے اور اس مسجد حرام سے جس کو ہم نے لوگوں کے لئے مساوی بنایا ہے وہ اس مجسد میں معتکف (مقیم) ہوں یا باہر سے آئیں اور جو اس مسجد میں ظلم کے ساتھ زیادتی کا ارادہ کرے گا ہم اس کو درد ناک عذاب چکھائیں گے (الحج :25)
مسجد حرام سے روکنے والوں کی مذمت کا شان نزول
اس آیت پر یہ اعتراض ہے کہ ” بیشک جن لوگوں نے کفر کیا ‘ یہ ماضی کا صیغہ ہے اور وہ اللہ کے راستے سے روکنے لگے یہ حال کا صیغہ ہے اور حال کا ماضی پر عطف کرنا مستحسن نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب دوام اور استمرار مقصود ہو تو حال کا ماضی پر عطف کردیا جاتا ہے جیسا کہ اس آیت میں ہے :
الذین امنوا وتطمئن قلوبھم بذکر اللہ (الرعد :28) جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہیں۔
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت ابوسفیان بن حرب اور اس کے اصحاب کے متعلق نازل ہوئی ہے، جب انہوں نے حیدبیہ کے سال صچھ ہجری میں) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کو عمرہ کرنے سے روک دیا تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت ان سے جنگ کرنے کو ناپسند کیا تھا آپ اس وقت عمرہ کا احرام باندھے ہوئے تھے، پھر آپ نے ان سے اس شرط پر صلح کی کہ آپ اگلے سال آ کر عمرہ کریں گے۔ (تکملہ تفسیر کبیرج ج 8 ص 216 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، 1415 ھ)
مکہ کی زمین اور اس کے مکانوں کو فروخت کرنے اور کرائے پر دینے کی ممانعت میں مذاہب فقہاء
مسجد حرام، صفا اور مردہ کی پہاڑیاں، منیٰ مزدلفہ، عرفات اور موضع جمرات مکہ مکرمہ کی سر زمین کے حصہ، تمام فقہاء کے نزدیک وقف عام ہیں اور مکہ کے رہنے والے اور باہر سے مکہ مکرمہ آنے والے سب وہاں عبادت اور مناسب کحج ادا کرسکتے ہیں اور یہ جگہ کسی کی ملکیت نہیں ہے یہاں پر کوئی کسی مسلمان کو عبادت کرنے اور ٹھہرنے سے منع نہیں کرسکتا اور نہ مکہ کے ان حصوں کو فروخت کرنا یا کرائے پر دینا جائز ہے۔ (المغنی لابن قدامہ ج ٤ ص 178، روح المعانی جز 17 ص 206-207)
سرزمین مکہ کے ان حصوں کے علاوہ باقی سر زمین مکہ میں اختلاف ہے کہ آیا ان کو بیچنا اور کرائے پر دینا جائز ہے یا نہیں۔ امام شافعی اور امام احمد کا یہ مذہب ہے کہ مکہ کی زمن کو اور اس کے مکانتا کو فروخت کرنا اور کرائے پر دینا جائز ہے۔ (المغنی لابن قدامہ ج ٤ ص 177 تفسیر کبیرج ٨ ص 217 فتح الباری ج ٤ ص 245) امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ مکہ کی تمام زمین وقف ہے، اس کو بیچنا اور کر ئاے پر دینا جائز نہیں ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٢ ص 31-32)
اور امام ابوحنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ مکہ کی سر زمین کے جو حصے مناسب کے حج کے لئے وقف ہیں، ان کے علاوہ مکہ کی باقی زمینوں اور مکانوں کو فروخت کرنا اور کرائے پر دینا جائز ہے۔ البتہ حج کے ایام میں مکہ کے مکانوں کو کرائے پر دینا مکروہ ہے۔ کیونکہ اس سے زائرین حرم اور حجاج کو زحمت اور تکلیف ہوگی۔ (در مختارد ردا المختارج ٩ ص 476-480)
امام مالک اور ان کے موافقین یہ کہتے ہیں کہ مکہ کی تمام زمین وقف ہے اور کسی جگہ کو فروخت کرنا اور اس کو کرائے پر دینا جائز نہیں ہے۔ ان کا استدلال اس آیت سے ہے اس میں فرمایا ہے والمسجد الحرام الذی جعلنہ للناس سواء العاکف فیہ والباد۔ (الحج : ٢٥) وہ اس آیت میں المسجد الحرام سے مراد ارض حرم لیتے ہیں یعنی سر زمین میں مکہ، اور العاکف کا معنی کرتے ہیں مکہ میں رہنے والا، الباد کا معنی کرتے ہیں مسافر۔ ان کے نزدیک اس آیت کا معنی اس طرح ہے کہ تمام سر زمین مکہ میں مکہ میں رہنے والوں اور مسافروں کا برابر کا حق ہے اور مکہ کی زمین اور اس سے بنے ہوئے مکانوں کا کوئی مالک نہیں ہے، ہر جگہ اور ہر مکان میں ہر شخص رہ سکتا ہے۔
مکہ کی زمین اور مکانوں کو فروخت کرنے اور کرائے پر دینے کی ممانعت کے دلائل اور ان کا ضعف
علامہ ابوعبداللہ مالکی قرطبی متوفی 668 ھ اپنے مسلک کی وضاحت میں لکھتے ہیں :
مساوات مکہ کی حویلیوں اور مکانوں میں رہنے والوں میں ہے اور ان مکانوں میں رہنے والا مسافر سے زیادہ حق دار نہیں ہے اور یہ اس بناء پر ہے کہ اس آیت میں مسجد حرام سے مراد پورا حرم ہے اور یہ مجاہد اور امام مالک کا قول ہے اور حضرت عمر اور حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ جو شخص مکہ میں آئے وہ جس مکان میں چایہ ٹھہر جائے اور مکان والے پر اس کو ٹھہرانا لازم ہے، وہ چاہے یا نہ چ ہے اور سفیان ثوری وغیرہ نے کہ ہے کہ ابتدائی دور میں مکہ کے مکانوں کے دروازے نہیں بنائے جاتے تھیتا کہ جب کوئی مسافر جہاں چاہے ٹھہر جائے) حتیٰ کہ جب چوریاں بہت ہونے لگیں تو ایک شخص نے اپنے مکان کا دروازہ بنا لیا تو حضرت عمر (رض) نے اس پر انکار کیا اور کہا تم بیت اللہ کا حج کرنے والے پر دروازہ بند کرتے ہو ؟ اس نے کہا میں نے اپنے سامان کو چوری سے محفوظ رکھنے کا ارادہ کیا ہے پھر حضرت عمر نے اس کو چھوڑ دی، پھر لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازے بنانے شروع کردیئے اور حضرت عمر (رض) نہ سے یہ مروی ہے کہ وہ حج کے ایام میں مکہ کے گھروں کے دروازوں کو توڑنے کا حکم دیتے تھے تاکہ مکہ آنے والے مسافر جس گھر میں چاہیں، آ کر ٹھہر جائیں اور امام مالک سے یہ بھی مروی ہے کہ گھر مسجد کی طرح نہیں ہیں اور گر والوں کے لئے یہ جائز ہے کہ ہو اپنے گھروں میں آنے والوں کو منع کریں۔
اس کے بعد علامہ قرطبی لکھتے ہیں صحیح وہی ہے جو امام مالک کا قول ہے اور اس کی تائید میں احادیث ہیں : علقمہ بن نضلہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر فوت ہوگئے اور اس وقت تک مکہ کی زمین کو وقف کہا جاتا تھا، جس کو ضرورت ہو وہ اس میں خود رہے اور جو مستغنی ہے، وہ کسی اور کو ٹھہرائے۔ (سنن دار قطنی رقم الحدیث : 30003، یہ حدیث ضعیف ہے اس کی سند میں ارسال اور انقطاع ہے) اور علقمہ بن نضلہ سے ایک اور حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے عہد میں مکہ کے گھر وقف کئے جاتے تھے، ان کو فروخت نہیں کیا جاتا تھا۔ جس کو ضرورت ہوتی وہ ان گھروں میں خود رہتا اور جس کو ضرورت نہ ہوتی، وہ کسی اور کو ٹھہرا لیتا۔ (سنن دار قطنی رقم الحدیث :3002، یہ حدیث بھی حسب سابق ہے) اور حضرت عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مکہ حرم ہے، اس کی حویلیوں کو فروخت کرنا حرام ہے اور ان کو کرائے پر دینا حرام ہے۔ (سنن دار قطنی رقم الحدیث :2995 یہ حدیث بھی ضعیف ہے) (الجامع لا حکام القرآن جز 12 ص 31-32 مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1415 ھ)
امام مالک اور ان کے موافقین نے اس آیت سے جو استدلال کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ انہوں نے المسجد الحرام کا معنی پوری سر زمین حرم کیا ہے اور یہ مجاز ہے اور بغیر قرینہ صارفہ کے مجاز کو اختیار کرنا صحیح نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ انہوں نے العاکف کا معنی مکہ میں رہنے والا کیا ہے حالانکہ العاکف کا شرعی معنی المعتکف ہے اور جن احادیث سے علامہ قرطبی نے استدلال کیا ہے، ہم نے ان کا ضعف قوسین میں ذکر کردیا ہے۔
جو احادیث علامہ قرطبی نے ذکر کی ہیں، ان کے علاوہ بھی کچھ احادیث ہیں جن سے امام مالک کے موقف پر استدلال کیا جاتا ہے، وہ یہ ہیں :
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا بیان کرتے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مکہ اونٹوں کے بٹھانے کی جگہ ہے، اس کی حویلیاں فروخت کی جائیں نہ اس کے مکان کرائے پر دیئے جائیں۔ (المستدرک ج ٢ ص 53، طبع قدیم، دارالباز مکہ مکرمہ)
علامہ ذہبی متوفی 448 ھ فرماتے ہیں اس کی سند میں ایک راوی، ” اسماعیل “ ضعیف ہے۔ (تلخیص المستدرک ج ٢ ص 53)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) نے کہا جو شخص مکہ کے مکانوں کا کرایہ کھاتا ہے، وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتا ہے۔ (سنن دار قطنی رقم الحدیث :2997، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1417 ھ)
اس حدیث کا ایک راوی عبید اللہ بن ابی زیاد ہے۔ حافظ عسقلانی متوفی 852 ھ اس کے متعلق لکھتے ہیں ابن معین نے کہا یہ ضعیف ہے۔ ابوحاتم نے کہا یہ قوی اور متین نہیں ہے اور اس کی احادیث لکھنے کے لائق نہیں ہیں۔ آجری نے کہا اس کی احادیث منکر ہیں۔ امام نسائی نے کہا یہ قوی اور ثقہ نہیں ہے۔ حاکم ابو احمد نے کہا یہ قوی نہیں ہے۔ (تہذیب التہذیب ج ٧ ص 14 مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدر آباد دکن، 1346 ھ)
خلاصہ یہ ہے کہ جو فقہاء مکہ کی زمین کو فروخت کرنے اور اسکے مکانوں کو کرائے پر دینے کو حرام کہتے ہیں، ان کا قرآن مجید سے استدلال صحیح نہیں ہے اور جن احادیث سے انہوں نے استدلال کیا ہے ان سب کی سندیں ضعیف ہیں۔
مکہ کی زمین اور اس کے مکانوں کو فروخت کرنے اور کرائے پر دنیے کے جواز میں قرآن مجید اور احادیث و آثار سے استدلال
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الذین اخرجوا من دیارھم بغیر حق : (الحج :40) یہ وہ لوگ ہیں جن کو ناحق اپنے گھروں سے نکالا گیا۔
امام ابن جریر نے کہا۔ کفار قریش نے مومنین کو مکہ سے نکال دیا تھا۔ (جامع البیان جز 17 ص 229 مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1415 ھ)
حضرت ابن عباس (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب کو مکہ سے نکال دیا یا تھا۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :13966، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، 1417 ھ)
حضرت عثمان بن عفان (رض) نے فرمایا یہ آیت ہمارے متعلق نازل ہوئی ہے، ہمیں ہمارے گھروں سے ناحق نکال دیا گیا تھا۔ الحدیث (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :13967)
مکہ کے مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکالنا ناحق اسی وقت ہوگا جب ان کا ان کے گھروں پر حق ہو اور وہ گھر وقف عام نہ ہوں اور مسلمانوں کا ان گھروں کو فروخت کرنا اور کرائے پر دینا جائز ہو۔
اس آیت کے بد اس موقف پر یہ حدیث بہت قوی دلیل ہے :
حضرت اسامہ بن زید (رض) بیا ان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ مکہ کے کون سے گھر میں ٹھہریں گے ؟ آپ نے فرمایا : کیا عقیل نے ہمارے لئے حویلیاں اور مکانات چھوڑے ہیں ؟ عقیل ابوطالب کے وارث ہوئے تھے اور حضرت جعفر اور حضرت علی (رض) ابو طالب کے وارث نہیں ہوئے تھے کیونکہ یہ دونوں مسلمان تھے۔ (اور مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا) اور عقیل اور طالب کافر تھے سو حضرت عمر بن الخطاب یہ کہتے تھے کہ مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا۔ (صحیح البخاریرقم الحدیث :1588، صحیح مسلم رقم الحدیث :1351، سنن ابو دائود رقم الحدیث :2010، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :2942 السنن الکبری للنسائیرقم الحدیث :4255)
عقیل ابو طالب کے مکان کے وارث ہوگئے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ ابو طالب اور عقیل دونوں مکہ میں اپنے مکانوں کے مالک تھے اور انکے مکان وقف عام نہیں تھے اور ان کا ان مکانوں کو فروخت کرنا اور ان میں تصرف کرنا صحیح تھا۔
علامہ عبداللہ بن احمد بن قدامہ حنبلی متوفی 620 ھ لکھتے ہیں :
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کے مکہ میں مکانات تھے۔ حضرت ابوبکر، حضرت زبیر، حضرت حکیم بن حزام، حضرت ابوسفیان اور بایق اہل مکہ کے مکانات تھے۔ بعض نے اپنے مکانوں کو فروخت کردیا اور بعض نے اپنے مکانوں کو اپنی ملک میں رہنے دیا۔ حضرت حکیم بن حزام نے دارالندوہ کو فروخت کردیا تو حضرت ابن الزبیر نے کہا آپ نے قریش کی عزت کو بیچ دیا تو حضرت حکیم بن حزام نے کہا اے بھتجییچ عزت تو صرف تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے اور حضرت معاویہ نے دو مکان خریدے۔ حضرت عمر نے حضرت صفوان بن ایم ہ سے چار ہزار درہم میں ایک قید خانہ خریدا اور ہمیشہ سے اہل مکہ اپنے مکانوں میں مالکانہ تصرف کرتے رہے ہیں اور خریدو فروخت کرتے رہے ہیں اور اس پر کسی نے اعتراض نہیں کیا تو یہ اجماع ہوگیا، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ کے مکانوں کی ان کی طف نسبت کو برقرار رکھا۔ آپ نے فرمایا : جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوگیا اس کو امان ہے، اور جس نے اپنے گھر کا دروازہ بند کردیا اس کو امان ہے، اور ان کے مکانوں اور ان کی حویلیوں کو برقرار رکھا اور کسی شخص کو اسکے گھر سے منتقل نہیں کیا گیا اور نہ کوئی ایسی حدیث پای گئی جو ان کے مکانوں سے ان کی ملکیت زائل ہونے پر دلالت کرے، اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء کا بھی یہی معمول رہا حتیٰ کہ حضرت عمر (رض) کو قید خانے بنانے کے لئے مکان کی سخت ضرورت تھی مگر انہوں نے خریدنے کے سوا اس کو نہیں لیا اور اس کے خلاف جو احادیث مروی ہیں وہ سبضعیف ہیں اور صحیح یہ ہے کہ مکہ جنگ سے فتح ہوا ہے لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ کو ان کی املاک اور حویلیوں پر برقرار رکھا اور آپ نے ان کے مکانوں کو ان کے لئے اس طرح چھڑو دیا جس طرح ہوازن کے لئے ان کی عورتوں اور بیٹوں کو چھوڑ دیا تھا۔ ابن عقیل نے کہا ہے کہ مکہ کی زمینوں کا یہ اختلاف افعال حج کی ادائیگی کے مقامات کے عالوہ میں ہے لیکن زمین کے جن حصوں میں افعال حج کی ادائیگی کی جاتی ہے جیسے صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنے کی جگہ اور شیطان کو کنکریاں مارنے کی جگہیں، ان جگہوں کا حکم مساجد کا حکم ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ (المغنی لابن قدامہ ج ٤ ص 178، مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1405 ھ)
مکہ کی زمین اور مکانوں کو فروخت کرنے اور کرائے پر دینے کے متعلق فقہاء احناف کا مذہب
علامہ محمد بن علی بن محمد الحصکفی المتوفی 1088 ھ لکھتے ہیں :
مکہ کے مکانوں اور اس کی زمین کو فروخت کرنا بلا کراہت جائز ہے۔ امام شافعی کا بھی یہی قول ہے اور اسی پر فتویٰ ہے۔ صاحب ہدایہ کی مختارات النوازل میں مذکور ہے کہ مکہ کے مکانوں کو فروخت کرنے اور ان کو کرائے پر دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن زیلعی وغیرہ میں مذکور ہے کہ ان کا کرائے پر دینا مکروہ ہے اور التاتارخانیہ کی آخری فصل الوہبانیہ کے باب اجارہ میں لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ نے فرمایا میں حج کے ایام میں مکہ کے مکانوں کو کرائے پر دینا مکروہ قرار دیتا ہوں اور آپ یہ فتویٰ دیتے تھے کہ حجاج ایام حج میں مکہ والوں کے گھروں میں رہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : سواء العاکف فیہ والباد (الحج :25) مسجد حرام میں مقیم اور مسافر برابر ہیں، اور ایام حج کے لاوہ کرایا لینے کی رخصت دی ہے، اس سے فرق اور تطبیق کا علم ہوگیا۔ حضرت عمر ایام حج میں فرماتے تھے اے مکہ والو ! اپنے گھروں میں دروازے نہ بنائو تاکہ آنے والے ہاں چاہیں، ٹھہر سکیں پھر یہ آیت پڑھتے تھے۔
علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252 اس عبارت کی شرح میں لکھتے ہیں :
غایتہ البیان میں مذکور ہے امام ابویوسف نے امام ابوحنیفہ سے روایت کیا ہے کہ وہ ایام حج میں مکہ کے مکانوں کو کرائے پر دینا مکروہ کہتے تھے اور غیر ایام حج میں اس کی اجازت دیتے تھے، امام ابویوسف کا بھی یہی قول ہے۔ امام محمد نے امام ابوحنیفہ سے روایت کیا ہے کہ وہ ایام حج میں مکہ کے مکانوں کو کر ئاے پر دینا مکروہ کہتے تھے اور وہ کہتے تھے کہ مکہ والوں کو چاہیے کہ اگر ان کے مکانوں میں زائد جگہ ہو تو وہ مسافروں کو اپنے مکانوں میں ٹھہرائیں ورنہ نہیں اور امام محمد کا بھی یہی قول ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کرائے پر دینے کی کراہت میں ہمارے ائمہ کا اتفاق ہے۔
علامہ حصکفی نے کہا ہے کہ اسی سے فرق اور تطبیق کا علم ہوگیا۔ اس کی شرح یہ ہے کہ ایام حج میں مکانوں کو کرائے پر دینا مکروہ ہے اور زیلعی کی نوازل میں جو اس کو مکروہ کہا ہے اس کا یہی معنی ہے اور مختارات النوازل میں جو کہا ہے اس میں کوئی حرج نہیں وہ ایام حج کے علاوہ دنوں پر محمول ہے اور امام اعظم کا بھی یہ فتویٰ ہے۔ (الدرا المختار و ردا المختارج ٩ ص 479، مطبوہ داراحیاء التراث العربی بیروت، 1419 ھ)
ہمارے فقہاء کی عبارات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایام حج میں مکانوں کو کرائے پر دینے کی کراہت تنز یہی ہے کیونکہ انہوں نے کہا ہے کہ اگر ان کے پاس زائد جگہ ہو تو آنے والے کو ٹھہرائیں ورنہ نہیں اور اسلام کے عام اصول سے یہ بات معلوم اور مقرر ہے کہ کوئی شخص مالک مکان کی مرضی اور اس کی اجازت کے بغیر اس کے گھر میں داخل نہیں ہوسکتا۔ قرآن مجید نے مسجد حرام میں مقیم اور مسافروں کا حق برابر قرار دیا ہے۔ ارض حرم میں یہ حق برابر نہیں فرمایا اور اگر بالفرض ارض حرم بھی مراد ہو تو بھی حرم کے مکانوں میں تو مقیم اور مسافر کا حق برابر نہیں فرمایا۔ ارض حرم میں مسافر جہاں چاہیں خیمہ ڈال کر رہیں، سی کے مکان میں اس کی اجازت اور اس کی مرضی کے بغیر رہنے کا انہیں کیا حق ہے ؟ اور ائمہ احناف نے ایام حج میں مکانوں کو کرائے پر دینے کو مکروہ کہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اخلاق اور مروت کے خلاف ہے کہ مسافروں، مہمانوں اور زائرین حرم سے ان کے ٹھہرنے کا کرایہ طلب کیا جائے، یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ شرعاً مکروہ یا حرام ہے۔
الحاد کا معنی اور اس کے مصداق کے تعین میں مختلف اقوال
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : من یردفیہ بالحاد بظلم، یہ لفظ ورود سے بھی مشتق ہوسکتا ہے یعنی جو شخص مکہ میں ظلم اور زیادتی کے ساتھ وارد (داخل) ہوگا، ہم اس کو درد ناک عذاب چکائیں گے اور یہ لفظ ادارہ سے بھی ماخوذ ہوسکتا ہے یعنی جو شخص مکہ میں ظلم اور زیادتی کا ارادہ کرے گا، ہم اس کو درد ناک عذاب چکھائیں گے۔
الحاد کا معنی ہے درمیان ہر وی سے انحراف یا تجاوز کرنا، اور مفسرین نے لاحاد کی حسب ذیل تفسیریں کی ہیں :
(١) حضرت ابن عباس، عطاء بن ابی رباح، سعید بن جبیر، قتادہ اور مقاتل نے کہا الحاد سے مراد شرک ہے یعنی جو شخص اللہ کے حرم میں شرک کرنے کے لئے آیا، اس کو اللہ عذاب دے گا۔ (جامع البیان رقم الحدیث :18914)
(٢) حضرت ابن عباس سے دوسری روایت یہ ہے کہ یہ آیت عبداللہ بن سعد کے متعلق نازل ہوئی ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اسلام لانے کے بعد مشرک ہوگیا تھا اور قیس بن ضبابہ کے متعق نازل ہوئی ہے اور مقاتل نے کہا یہ آیت عبداللہ بن خطل کے متعلق نازل ہوئی ہے جو ایک انصاری کو قتل کر کے مکہ بھاگ گیا تھا اور کافر ہوگیا تھا اور فتح مکہ کے دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو قتل کرنے کا حکم دیا اور اس کو حالت کفر میں قتل کیا گیا۔ (تفسیر کبیرج ج ٨ ص 217)
(٣) مکہ میں شکار کو قتل کرنا۔
(٤) مکہ میں بغیر احرام کے داخل ہونا اور مکہ میں جن کاموں سے منع کیا گیا ہے ان کاموں کو کرنا۔ (جامع البیان رقم الحدیث :18918)
(٥) مجاہد اور سعید بن جبیر سے روایت ہے ذخیرہ اندوزی کرنا۔ (جامع البیان رقم الحدیث :18924)
(٦) حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے دو خیمے تھے، ایک حرم میں تھا اور ایک حل میں تھا۔ انہوں نے جب کسی کو ڈانٹنا ہوتا تھا تو حل میں ڈانٹتے تھے۔ (جامع البیان رقم الحدیث :18925)
(٧) محققین نے کہا ظلم کے ساتھ الحاد کرنا تمام قسموں کے گناہوں کو شامل ہے کیونکہ کوئی گناہ خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو، حرم میں اس کا عذاب بہت سخت ہے۔ مجاہد نے کہا جس طرح حرم میں نیکیوں کا ثواب زیادہ ہوتا ہے، اسی طرح حرم میں برائیوں کا عذاب بھی زیادہ ہوتا ہے۔ (زاد المسیر ج ٥ ص 421)
آیا مکہ میں گناہ کا عذاب بھی دگنا ہوتا ہے یا نہیں ؟
علامہ عبدالرحمٰن بن علی بن محمد جوزی متوفی 597 ھ لکھتے ہیں :
اگر یہ سوال کیا جائے کہ کوئی شخص مکہ میں ظلم کرنے کا ارادہ کرے پھر ظلم نہ کرے تو آیا اس پر گرفت ہوگی ؟ اس کے دو جواب ہیں ایک یہ ہے کہ یہ حرم شریف کی خصوصیت ہے کہ حرم میں برائی کا ” ھم “ کرنے پر بھی گرفت ہوتی ہے۔ (غالب جانب کام کے کرنے کی ہو اور مغلوب جانب کام کے نہ کرنے کی ہو تو اس کو ” ھم “ کہتے ہیں) یہ حضرت ابن مسعود (رض) کا مذہب ہے۔ انہوں نے کہا اگر کوئی شخص برے کام کا ” ھم “ کرے اور وہ برا کام نہ کرے تو اس کو لکھا نہیں جاتا جب تک اس کام کو نہ لے اور اگر کوئی شخص بیت اللہ کے پاس کسی شخص کو قتل کرنے کا ” ھم “ کر تو اللہ تعالیٰ اس کو دنیا میں عذاب الم چکھائے گا۔ ضحاک نے کہا اگر کوئی شخص غیر حرم میں ہو اور یہ ” ھم “ کرے کہ وہ حرم میں کوئی گناہ کرے گا پھر بھی اس کا گناہ لکھا جائے گا خواہ وہ حرم میں وہ گناہ نہ کرے۔ مجاہد نے کہا مکہ میں برائیوں کو اسی طرح دگنا کیا جاتا ہے جس طرح مکہ میں نیکیوں کو دگنا کیا جاتا ہے۔ امام احمد سے یہ سوال کیا گیا کیا ایک برائی کو ایک سے زیادہ بار لکھا جاتا ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں ! ماسوا مکہ مکرمہ کے اس شہر کی تعظیم کی وجہ سے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ جو ارادہ کرے اس کا معنی ہے جو عمل کرے۔ (زاد المسیرج ٥ ص 422، مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت، 1407 ھ)
اس کی تحقیق یہ ہے کہ حرم میں ایک گناہ درحقیقت دو گناہ ہیں ایک تو اللہ اور اس کے رسول کی نفس مخالفت اور دوسرا مکہ کی حرمت اور تعظیم کے خلاف کرنا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 22 الحج آیت نمبر 25