أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

مَنۡ كَانَ يَظُنُّ اَنۡ لَّنۡ يَّـنۡصُرَهُ اللّٰهُ فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ فَلۡيَمۡدُدۡ بِسَبَبٍ اِلَى السَّمَآءِ ثُمَّ لۡيَـقۡطَعۡ فَلۡيَنۡظُرۡ هَلۡ يُذۡهِبَنَّ كَيۡدُهٗ مَا يَغِيۡظُ‏ ۞

ترجمہ:

جو یہ گمان کرتا تھا کہ اللہ اپنے رسول کی دنیا اور آخرت میں ہرگز مدد نہیں کرے گا تو اس کو چاہیے کہ وہ اونچی جگہ پر رسا باندھ کر( اپنے گلے میں ڈال لے) پھر اس رسے کو کاٹ لے پھر یہ دیکھے کہ آیا اس کی یہ تدبیر اس کے غضب اور غصہ کو دور کرتی ہے یا نہیں

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بغض رکھنے والے کو چاہیے کہ خود اپنے بغض میں جل کر مر جائے 

الحج :15 میں فرمایا : جو یہ گمان کرتا تھا کہ اللہ اس کی دنیا اور آخرت میں مدد نہیں کرے گا۔ ” اس کی “ یہ ضمیر کس کی طرف راجع ہے حضرت ابن عباس، مقاتل، ضحاک اور ابن زید وغیرہ کی رائے یہ ہے کہ یہ ضمیر سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف راجع ہے ہرچند کہ آپ کا اس سے پہلے صراحتاً ذکر نہیں ہے لیکن اشارتاً آپ کا ذکر پہلے مذکور ہے کیونکہ اس سے پہلی آیت میں ایمان لانے کا ذکر ہے اور ایمان لانے کا یہی معنی ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رسول مانا جائے اور اب جب ضمیر کا مرجع متعین ہوگیا تو اس آیت کا معنی یہ ہے : جو یہ گمان کرتا تھا کہ اللہ اپنے رسول کی دنیا اور آخرت میں مدد نہیں کرے گا تو اس کو چاہیے کہ وہ اونچی جگہ پر رسہ بادنھ کر (اپنے گلے میں لٹکا لے) پھر اس رسے کو کاٹ لے پھر یہ دیکھے کہ اس کی یہ تدبیر اس کے غضب اور غصہ کو دور کرتی ہے (یا نہیں ؟ )

رہا یہ سوال کہ کون یہ گمان کرتا تھا کہ اللہ اپنے رسول کی دنیا اور آخرت میں مدد نہیں کرے گا ؟ تو مقاتل نے کہا یہ آیت بنو اسد اور بنو غطفان کی ایک جماعت کے متعلق نازل ہوئی ہے وہ یہ کہتے تھے کہ ہمیں یہ خطرہ ہے کہ اللہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد نہیں کریگا پھر ہمارے اور ہمارے حلیف یہودیوں کے درمیان رابطہ منقطع ہوجائے گا پھر وہ ہم کو غلہ فراہم نہیں کریں گے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حاسدین اور آپ کے اعداء کو یہ توقع تھی کہ اللہ آپ کی مدد نہیں کرے گا اور آپ کو آپ کے دشمنوں پر غلبہ نہیں دے گا اور جب انہوں نے یہ دیکھ لیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی بہت بھاری مدد کی ہے تو وہ غیظ و غضب سے جل بھن گئے، ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا۔

اس آیت میں فرمایا ہے وہ السماء پر رسہ باندھ لے، السماء کا معنی آسمان بھی ہے اور اونچی اور بلند جگہ بھی ہے اگر اس کا معنی آسمان ہو تو پھر یہ معنی ہے کہ جس کا یہ گمان تھا کہ اللہ آپ کی مدد نہیں کرے گا پھر اس کا مطلوب پورا نہ ہونے سے وہ غصہ میں جل بھن گیا تو اگر وہ اپنے غیظ و غضب کو دور کرنے کے لئے آسمان تک پہنچ سکتا ہے اور آسمان میں رسہ باندھ کر اپنے آپ کو لٹکا سکا ہے تو اپنے گلے میں پھندہ باندھ کر لٹکا لے اور پھندہ کاٹ کر اپنا گلا گھونٹ لے اور اگر السماء کا معنی بلند جگہ ہو تو معنی یہ ہے کہ وہ کسی بلند جگہ رسہ باندھ کر اپنے گلے میں پھندہ ڈال لے پھر رسہ کاٹ دے تاکہ گلا گھٹنے سے وہ مرجائے۔ 

عطا کی روایت ہے کہ حضرت ابن عباس نے کہا یہ ضمیر ” من ‘ کی طرف لوٹتی ہے۔ مجاہد اور ابوعبیدہ کا بھی یہی قول ہے اور اب معنی اس طرح ہے اور جس شخص کا یہ گمان ہے کہ (سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین کو قبول کرنے سے) اللہ اس کی دنیا اور آخرت میں مدد نہیں کے گا یعنی اس کو رزق نہیں دے گا تو وہ آسمان میں رسی باندھ کر اپنا گلا گھونٹ لے۔ (زاد المسیر ج ٥ ص 413) (جامع البیان جز 17 ص 168، مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1415 ھ)

القرآن – سورۃ نمبر 22 الحج آیت نمبر 15