يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ اِنۡ كُنۡـتُمۡ فِىۡ رَيۡبٍ مِّنَ الۡبَـعۡثِ فَاِنَّـا خَلَقۡنٰكُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّـطۡفَةٍ ثُمَّ مِنۡ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنۡ مُّضۡغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّغَيۡرِ مُخَلَّقَةٍ لِّـنُبَيِّنَ لَـكُمۡ ؕ وَنُقِرُّ فِى الۡاَرۡحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخۡرِجُكُمۡ طِفۡلًا ثُمَّ لِتَبۡلُغُوۡۤا اَشُدَّكُمۡ ۚ وَمِنۡكُمۡ مَّنۡ يُّتَوَفّٰى وَمِنۡكُمۡ مَّنۡ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرۡذَلِ الۡعُمُرِ لِكَيۡلَا يَعۡلَمَ مِنۡۢ بَعۡدِ عِلۡمٍ شَيۡـئًـا ؕ وَتَرَى الۡاَرۡضَ هَامِدَةً فَاِذَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَيۡهَا الۡمَآءَ اهۡتَزَّتۡ وَرَبَتۡ وَاَنۡۢبَـتَتۡ مِنۡ كُلِّ زَوۡجٍۢ بَهِيۡجٍ ۞- سورۃ نمبر 22 الحج آیت نمبر 5
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ اِنۡ كُنۡـتُمۡ فِىۡ رَيۡبٍ مِّنَ الۡبَـعۡثِ فَاِنَّـا خَلَقۡنٰكُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّـطۡفَةٍ ثُمَّ مِنۡ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنۡ مُّضۡغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّغَيۡرِ مُخَلَّقَةٍ لِّـنُبَيِّنَ لَـكُمۡ ؕ وَنُقِرُّ فِى الۡاَرۡحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخۡرِجُكُمۡ طِفۡلًا ثُمَّ لِتَبۡلُغُوۡۤا اَشُدَّكُمۡ ۚ وَمِنۡكُمۡ مَّنۡ يُّتَوَفّٰى وَمِنۡكُمۡ مَّنۡ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرۡذَلِ الۡعُمُرِ لِكَيۡلَا يَعۡلَمَ مِنۡۢ بَعۡدِ عِلۡمٍ شَيۡـئًـا ؕ وَتَرَى الۡاَرۡضَ هَامِدَةً فَاِذَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَيۡهَا الۡمَآءَ اهۡتَزَّتۡ وَرَبَتۡ وَاَنۡۢبَـتَتۡ مِنۡ كُلِّ زَوۡجٍۢ بَهِيۡجٍ ۞
ترجمہ:
لوگو ! اگر تمہیں موت کے بعد زندگی میں شک ہے تو (غور کرو کہ) ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے، پھر جمے ہوئے خون سے، پھر گوشت کے لوتھڑے سے جو مکمل شکل کا ہوتا ہے اور ادھوری شکل کا بھی، تاکہ ہم تمہارے لئے اپنی قدرت کو ظاہر کردیں، اور ہم جسے چاہتے ہیں ایک مقرر مدت تک رحم مادر میں رکھتے ہیں، پھر ہم بچے کی صورت میں تمہیں نکالتے ہیں تاکہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچ جائو اور تم میں سے بعض لوگ اس سے پہلے وفات پاجاتے ہیں اور تم میں سے بعض ناکارہ عمر کی طرف لوٹا دیئے جاتے ہیں تاکہ وہ علم کے بعد کسی چیز کو نہ جان سکیں اور تم زمین کو خشک حالت میں دیکھتے ہو پس جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ ترو تازہ اور ہری بھری ہوجاتی ہے اور وہ ہر قسم کا خوش نما سبزہ اگاتی ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے لوگو ! اگر تمہیں موت کے بعد زندگی میں شک ہے تو (غور کرو کہ) ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر جمے ہوئے خون سے، پھر گوشت کے لوتھڑے سے، جو مکمل شکل کا ہوتا ہے اور ادھوری شکل کا بھی، تاکہ ہم تمہارے لئے (اپنی قدرت کو) ظاہر کردیں اور ہم جسے چاہتے ہیں ایک مقرر مدت تک رحم مادر میں رکھتے ہیں، پھر ہم بچے کی صورت میں تمہیں نکالتے ہیں تاکہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچ جائو اور تم میں سے بعض لوگ (اس سے پہلے) وفات پا جاتے ہیں اور تم میں سے بعض ناکارہ عمر کی طرف لوٹا دیئے جاتے ہیں تاکہ وہ علم کے بعد کسی چیز کو نہ جان سکیں اور تم زمین کو خشک حالت میں دیکھتے ہو پس جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ تروتازہ اور ہری بھیر ہوجاتی ہے اور وہ ہر قسم کا خوش نما سبزہ اگاتی ہے (الحج : ٥)
انسان کی تخلیق کے مراحل اور زمین کی پیداوار سے حشر و نشر پر استدلال
اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ وہ بغیر علم کے حشر اور نشر کے وقوع میں جدال اور جھگڑا کرتے ہیں اور ان کی اس پر مذمت کی تھی، اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حشر اور نش رکی صحت اور امکان پر دلائل قائم کئے ہیں۔ گویا کہ یوں فرمایا اگر تمہیں مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے پر شک ہے تو تم اپنی تخلیق پر غور کرو جب وہ تم کو پہلی بار عدم سے وجود میں لاسکتا ہے تو تمہارے مرنے کے بعد دوبارہ تم کو کیوں پیدا نہیں کرسکتا، پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کی خلقت کے سات مرتاب بیان فرمائے ہیں :
(١) ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، مٹی سے پیدا کرنے کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ تمہاری اصل اور تمہاری باپ آدم (علیہ السلام) کو ہم نے مٹی سے پیدا کیا۔ فرمایا : کمثل ادم خلقہ من تاب۔ (آل عمران :59) (عیسیٰ ) آدم کی مثل ہیں جن کو ہم نے مٹی سے پیدا کیا اور اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ انسان کو منی اور حیض کے خون سے پیدا کیا اور یہ دونوں چیزیں غذا سے بنتی ہیں اور غذا گوشت اور زمین کی پیداوار (غلہ اور سبزیوں) سے حاصل ہوتی ہے اور گوشت کا مآل بھی زمین کی پیداوار پر ہے، اور زین کی پیداوار زمین کی مٹی اور پانی سے حاصل ہوتی ہے پس منی اور خون مٹی سے حاصل ہوئے۔ لہٰذا یہ کہنا صحیح ہے کہ انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا۔
(٢) ہم نے تم کو نطفہ سے پیدا کیا، مرد کی صلب سے جو پانی نلکات ہے وہ نطفہ ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے ہی اس مٹی کو لطیف پانی بنادیا۔
امام ابن جریر اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس اور حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ جب نطفہ کو رحم میں چایس دن گزر جاتے ہیں پھر چالیس دن وہ جما ہوا خون بن جاتا ہے پھر چالیس دن وہ گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے پھر جب وہ تخلیق کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایک رفشتہ کو بھیجات ہے جس کی انگلیوں میں مٹی ہوتی ہے، وہ اس کو گوشت کے لوتھڑے میں ملا کر گوندھتا ہے اور پھر اس کی تصویر بناتا ہے، پھر پوچھتا ہے یہ مرد ہے یا عورت ؟ نیک ہے یا بد ہے، اس کا رزق کتنا ہے اس کی عمر کتنی ہے، اس کے مصائب کیا کیا ہیں ؟ پھر اللہ تعالیٰ ان چیزوں کے لکھنے کا حکم دیتا ہے اور فرشتہ لکھ دیتا ہے اور جب وہ شخص مرجاتا ہے تو اس کو اس جگہ دفن کردیا جاتا ہے جہاں سے اس کی مٹی لی گئی تھی۔ (الدرا المنثور ج ٣ ص 144، مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1414 ھ)
(٣) تخلیق کا تیسرا مرتبہ ہے العلقۃ یعنی جمے ہوئے خون کا ٹکڑا اور اس میں بھی اللہ کی قدرت کا اظہار ہے کیونکہ جما ہوا خون بھی نطفہ کے پانی سے بنتا ہے اور رقیق پانی اور جمے ہوئے خون میں کوئی مناسب نہیں ہے۔
(٤) گوشت کا لوتھڑا خواہ وہ مکمل ہو یا ناقص، مخلقہ سے مراد ہے جو نقصان اور عیب ہو۔ نیز فرمایا اور ہم جسے چاہتے ہیں ایک مقرر مدت تک رحم مادر میں رکھتے ہیں یعنی اس کو ولادت کے وقت تک رحم میں رکھتے ہیں، وہ وقت کم از کم چھ ماہ ہے اور اس کی عام معروفت مدت نو ماہ ہے اور بعض اوقات بچہ دو سال تک ماں کے رحم میں رہتا ہے۔ امام مالک کے نزدیک یہ مدت چار سال تک ہے۔
(٥) پھر ہم بچہ کی صورت میں تمہیں نکالتے ہیں۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ انسان کی نوع سے ہر فرد کو اسی طرح پیدا کرتے ہیں۔
(٦) تاکہ تم اشد عمر کو پہنچ جائو، اس سیم راد ہے قوت، عقل اور تمیز کا اپنے کمال کو پہنچنا۔ یعنی تمہارے پیدا ہونے کے بعد ہم بہ تدریج تمہاری پرورش کرتے رہے اور تمہاری غذا میں یہ اضافہ اور تبدلی کرتے رہے حتیٰ کہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچ گئے۔
(٧) پھر تم میں سے بعض لوگ (اس سے پہلے) وفات پا جاتے ہیں اور تم میں سے بعض ناکارہ عمر کی طرف لوٹا دیئے جاتے ہیں ات کہ وہ علم کے بعد کسی چیز کو نہ جان سکیں۔ یعنی بعض تو نوجوانی میں فوت ہوجاتے ہیں اور بعض بڑھاپے تک پہنچ جاتے ہیں اور اسی طرح نحیف اور کمزور ہوجاتے ہیں جیسے اپنی طغولیت کی ابتدا میں تھے۔ اس پر یہ اعتراض ہے کہ جو آدمی بوڑھا ہو و کچھ نہ کچھ چیزوں کو تو جانتا ہے پھر یہ کیسے فرمایا کہ وہ کسی چیز کو نہ جان سکے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ نفی مبالغتہ ہے۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق سے حشر و نشر اور بعث بعد الموت پر استدلال فرمایا ہے۔ اور دوسرا استدلال زمین کی روئیدگی سے کیا ہے کہ تم دیکھتے ہو کہ زمین بنجر اور خش کہوتی یہ اور اس میں فصل اور سبزہ کے کوئی آثار نہیں ہوتے پھر اللہ تعالیٰ اس مردہ زمین پر پانی برسا کر اس کو زندہ کردیتا ہے، تو جس طرح اللہ تعالیٰ بےجان نطفہ اور گوشت کے لوتھڑے سے جیتا جاگتا، چلتا پھرتا اور ہنستا بولتا، انسان کھڑا کردیتا ہے اور مردہ زمین کو زندہ کردیتا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے مرنے کے بعد دوبارہ تمہیں زندہ کر دے گا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 22 الحج آیت نمبر 5