أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

الَّذِيۡنَ هُمۡ فِىۡ صَلَاتِهِمۡ خَاشِعُوۡنَ ۞

ترجمہ:

جو اپنی نمازوں میں خشوع کرتے ہیں

الخشوع کا لغوی معنی 

ابن فارس نے کہا خشوع کا صرف ایک معنی ہے جھکنا اور پست ہونا، جب کوئی شخص جھک جائے اور سرکو جھکالے تو کہا جاتا ہے : خشع فلان، اور یہ لفظ خضوع کے قریب المعنی ہے مگر بدن کے ساتھ عاجزی اور ذلت کے ساتھ اطاعت اور فرمانبرداری کرنے کو خضوع کہتے ہیں اور خشوع، بدن، آواز اور بصر سب میں عام ہے، بدن کو جھکانا، پست آواز سے بات کرنا، نظریں جھکانا یہ سب خشوع ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : خاشعۃ ابصارھم (القلم : ٤٣) اور ٓں حالیکہ ان کی نظریں جھکی ہوئی ہیں اور قرآن مجید میں ہے وخشعت الاصوات للرحمن (طہ : ١٠٨) رحمٰن کے لئے آوازیں پست ہوگئیں۔ ابن درید نے کہا رکوع کرنے والے کو الخاشع کہتے ہیں، علامہ راغب نے کہا الخشوع کا معنی ہے عاجزی اور انکسار کرنا اس کا اطلاق زیادہ تر ظاہری اعضاء سے عاجزی اور انکسار پر ہوتا ہے اور ضراعت کا اطلاق دل کی عاجزی اور انکسار پر ہوتا ہے اس لئے کہا جاتا ہے کہ جب دل میں عاجزی ہو تو ظاہری اعضاء میں خشوع ہوتا ہے، زجاج نے کہا جو بستی اجڑی ہوئی ہو اور اس میں کوئی ٹھہرتا نہ ہوا اس کو الخاشعہ کہتے ہیں اور جو زمین میں خشک ہو اور اس پر بارش نہ ہو اس کو بھی الخاشعہ کہتے ہیں : قرآن مجید میں ہے : 

ومن ایتیہ انک تری الارض خاشعۃ فاذا انزلنا علیھا المآء اھترت وربت (حم السجدہ : ٣٩) اللہ کی نشانیوں میں سے یہ ہے تم زمین کو سوھا اور خشک دیکھتے ہو، پھر جب ہم اس پر بارش نازل کرتے ہیں تو وہ ترو تازہ ہو کر بڑھنے لگتی ہے (یعنی سرسبز ہوجاتی ہے۔ ) مقاپیس اللغہ لابن فارس ج ٢ ص ١٨٢ المفردات ج ١ ص ١٩٧ الصحاح للجوھری ج ٣ ص ١٢٠٤ النہایہ لابن الاثیرج ٢ ص ٣٣، لسان العرب لابن منظور ج ٨ ص ٧١)

الخشوع کا اصطلاحی معنی 

علامہ ابو القاسم عبدالکریم بن ہوازن القشیری المتوفی ٤٦٥ ھ لکھتے ہیں :

الخشوع کا معنی ہے حق کی اطاعت کرنا اور التواضع کا معنی ہے حق کو ماننا اور اس کو تسلیم کرنا اور کسی حکم پر اعتراض نہ کرنا۔ 

حضرت حذیفہ نے کہا تمہارے دین سے جو چیز سب سے پہلے گم ہوگی وہ خشوع ہے۔ 

محمد بن علی الترمذی نے کہا الخاشع وہ شخص ہے جس کیشہوت کی آگبجھ گئی ہو اور اس کی سینہ میں غضب کا دھواں ٹھنڈا ہوچکا ہو، اس کے دل میں اللہ کی تعظیم کا نور روشن ہو اور اس کے اعضاء سے تواضح ظاہر ہو۔

حسن بصری نے کہا الخشوع اس خوف کو کہتے ہیں جو دل میں ہمیشہ لازم رہے۔

جنید بغدادی سے الخشوع کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا علام الغیوب کے لئے دلوں کا نرم اور ذلیل ہونا۔

روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو نماز میں اپنی ڈاڑھی سے کھیلتے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے اعضاء میں بھی خشوع ہوتا۔ 

ایک قول یہ ہے کہ نماز میں خشوع یہ ہے کہ اس کو نماز میں یہ پتا نہ چلے کہ اس کے دائیں جانب کون ہے اور بائیں جانب کون ہے۔ (الرسالۃ التفسیر یہ ص ١٨٢-١٨١ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ)

علامہ ابن قیم جوزیہ متوفی ٧٥١ٌ لکھتے ہیں :

حق یہ ہے کہ الخشوع ایسا معنی ہے جو اللہ کی تعظیم، اس کی محبت اور اس کی جناب میں ذلت اور انکسار کے مجموعہ سے مرکب ہے۔ (مدارج السالکین ج ١ ص ٥٥٩-٥٥٨ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤٠٨ ھ)

الخشوع کے درجات 

علامہ ابن قیم جوزیہ متوفی ٧٥١ ھ لکھتے ہیں : الخشوع کے حسب ذیل تین درجات ہیں :

(١) حکم کے سامنے سرنگوں ہونا، حکم کو تسلیم کرنا اور نظر حق کے لئے عاجزی کرنا، حکم کے سامنے سرنگوں ہونے کا معنی ہے عاجزی کے ساتھ حکم کی اطاعت اور فرماں برداری کرنا اور اپنے ضعف اور ہدایت کی احتیاج کو ظاہر کرتے ہوئے اپنے ظاہر اور باطن کے ساتھ حکم کی موافقت کرنا اور حکم کو تسلیم کرنے کا معنی یہ ہے کہ حکم شرعی کے بالمقابل اپنی رائے اور خواہش کا اظہار نہ کرنا اور اس پر غضب اور کراہت کا اظہار نہ کرنا اور اس پر کسی قسم کا اعتراض نہ کرنا اور نظر حق کے لئے عاجزی کرنے کا معنی یہ ہے کہ دل کو اور اعضاء کو نظر حق کے جھکا دینا۔

(٢) نفس اور عمل کی آفات کا اتنظار کرنا اور ہر صاحب فضل کی فضیلت کو دیکھنا اور یہ اس وقت ہوگا جب تم اپنے نفس اور عمل کے نقائص اور عیوب کے ظہور کا انتظار کرو اور جب تم اپنے نفس کے نقائص اور عیوب کے ظہور کا انتظار کرو گے اور اپنے فخر اور تکبر اور صدق کے ضعف اور یقین کی کمی اور نیت کے پختہ نہ ہنے کا مطالعہ کرو گے تو لامحالہ اس سے تمہارا دل خشوع کرنے والا ہوجائے گا اور رہا صاحب فضل کی فضیلت میں غور و فکر کرنا تو اس کی وجہ سے تم لوگوں کے حقوق کی رعایت کرو گے اور ان کو ادا کرو گے، اور اگر کوئی شخص تمہارے حق کی ادائیگی میں کمی کرتا ہے تو تم اس سے بدلہ نہ لیناکیون کہ یہ نفس کی رعونت اور اس کی حماقت ہے۔

(٣) جب کسی چیز کا شکف ہوجائے تو اس کی حفاظت کرنا اور دل کو مخلوق کے دکھاوے سے صاف رکھنا، اور عاجزی اور انکسار کے ساتھ دل کو مضنبط رکھنا۔ (مدارج السالکین ج ١ ص 559-560 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤٠٨ ھ)

قرآن مجید میں الخشوع کے اطلاقات 

قرآن مجید میں الخشوع کا اطلاق حسب ذیل معانی پر ہے :

(١) خشوع بہ معنی ذلت، عاجزی اور انکسار، اس کی مثال یہ آیت ہے :

وخشعت الاصوات للرحمنٰ (طہ : ١٠٨) اور رحمان کے سامنے تمام آوازیں پست ہوجائیں گی۔ 

(٢) اعضاء کا پرسکون اور مئودب رہنا، اس کی مثال یہ آیت ہے :

الذین ھم فی صلاتھم خشعون (المئومنون : ٢) اور جو لوگ سکون اور ادب کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں، (یعنی نماز میں اعضاء کو ادھر ادھر فضول حرکت نہیں دیتے، اپنے اعضاء سے صرف افعال نماز انجام دیتے ہیں۔ )

(٣) خشوع بہ معنی خوف، جیسے اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کے متعلق فرمایا :

ویدعوننا رغبا ورھباً ط وکانوا لنا خاشعین۔ (الانبیائ : ٩٠) وہ رغب اور خوف کے ساتھ ہماری عبادت کرتے ہیں اور وہ ہم سے ڈرنے والے ہیں۔

(٤) خشوع کا اطلاق قرآن مجید میں تواضع پر بھی ہے، اس کی مثال یہ آیت ہے :

وانھا لکبیرۃ الا علی الخشعین۔ (البقرہ : ٤٥) بیشک یہ نماز ضرور بھاری ہے سوا ان پر جو تواضح اور عاجزی کرنے والے ہیں۔

(٥) خشوع کا اطلاق سوکھی ہوئی اور خشک چیز پر بھی کیا گیا ہے اس کی مثال یہ آیت ہے : 

وتری الارض خاشعۃ (حم السجدہ : ٣٩) تم زمین کو سوکھی ہوئی اور خشک دیکھتے ہو۔

الخشوع کے متعلق لفظاً اور معنیاً  احادیث 

حضرت عثمان (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس مسلمان شخص پر فرض نماز کا وقت آئے وہ اس نماز کا اچھی طرح وضو کرے اور نماز میں اچھی طرح خشوع اور رکوع کرے تو وہ نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہے، جب تک کہ وہ کسی گناہ کبیرہ کا ارتکاب نہ کرے اور یہ سلسلہ تمام دہر تک رہے گا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٨، سنن بیہقی ج ١ ص ١٨٧ کنز اعلمال رقم الحدیث : ١٩٠٣٩)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مثال اس طرح ہے اور اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ کون اس کی راہ میں جہاد کرتا ہے، جس طرح روزہر کھنے والا نماز میں قیام کرنے والا، خشوع کرنے والا رکوع کرنے والا اور سجدے کرنے والا ہے۔ (سنن النسائی رقم الحدیث، ٣١٢٧ )

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ روسل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم یہ سجھتے ہو کہ میری توجہ صرف سامنے ہوتی ہے اللہ کی قسم مجھ پر نہ تمہارا رکوع مخفی ہوتا ہے اور نہ تمہارا خشوع مخفی ہوتا ہے اور بیشک میں تم کو ضرور اپنی پشت کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٤١ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٢٥، ٤٢٤، مسند احمد رقم الحدیث : ٨٠١١، ٥٧٦، ٨٨٦٤، عالم الکتب) 

حضرت عمرو بن عبسہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ روسل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب آدھی رات کو ہوتا ہے اگر تم اس وقت میں اللہ کا ذکر کرسکتے ہو تو کو۔ (یہ حدیث حسن صحیح، غریب ہے) (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٥٧٩ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٨٢ مسند احمد ج ٤ ص ١١١ صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ١١٤٧ )

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ روسل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک اللہ تمہاری صورتوں کو اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا لیکن وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث ٢٥٦٤ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤١٤٣ )

حضرت عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو مسلمان بھی اچھے طریقہ سے وضو کرتا ہے پھر اس طرح کھڑا ہو کر نماز پڑھتا ہے کہ وہ ان دو رکعتوں کی طرف اپنے دل اور چہرہ سے متوجہ ہوتا ہے اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٤، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٦٩، ٩٠٦ سنن النسائی رقم الحدیث : ١٥١ )

حضرت ابن عباس (رض) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز استقاء کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بغیر زینت کے عام لباس میں باہر آئے عاجزی کرتے ہوئے اور گڑ گڑاتے ہوئے حتیٰ کہ عید گاہ پہنچے پھر تمہارے خطبوں کی طرح خطبہ نہیں دیا، لیکن آپ دعا کرنے، آہ زاری کرنے اور اللہ کی بڑائی بیان کرنے میں مصروف رہے۔ وہ اس طرح نماز پڑھی جس طرح عید کی نماز پڑھی جاتی ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٥٥٨، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١١٦٥ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث، ١١٨٦ سنن النسائی رقم الحدیث، ١٥٠٥ مصنف ابن ابی شیبہ ج ٢ ص ٤٧٣، مسند احمد ج ١ ص ٢٣٠ صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ١٤٠٥، سنن الدارقطنی ج ٢ ص ٦٧ المستدرک ج ١ ص ٣٢٦ سنن بیہقی ج ٢ ص ٣٤٧ )

حضرت عبداللہ بن الشخیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہو نماز میں آپ کے رونے کی وجہ سے آپ کے سینہ سے ایسی آواز آرہی تھی جیسے چکی چلنے کی آواز آتی ہے۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث، ٩٠٤ سنن النسائی رقم الحدیث : ١٣١٢، شمائل الترمذی رقم الحدیث : ٣٠٥)

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے سامنے قرآن پڑھو میں نے عرض کیا میں آپ کے سامنے قرآن پڑھیں ! حالانکہ آپ پر تو خود قرآن مجید نازل کیا گیا ہے ! آپ نے فرمایا میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے علاوہ کسی اور سے قرآن سنوں، میں نے آپ کے سامنے سورة النساء پڑھی جب میں اس آیت پر پہنچا چاہتا ہوں کہ میں اپنے علاوہ کسی اور سے قرآن سنوں، میں نے آپ کے سامنے سورة انلساء پڑھی جب میں اس آیت پر پہنچا فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید وجئننا بک علی ھئولاء شھیدا تو آپ نے فرمایا رک جائو اس وقت آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہو رہے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٥٨٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨٠٠ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٣٦٦٨ سنن الترمذی رقم الحدیث ٣٠٢٥) 

الخشوع کے متعلق آثار صحابہ اور اقوال تابعین 

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا جس شخص نے اللہ کے لئے خشوع کرتے ہوئے عاجزی کی، اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن سربلند کرے گا اور جس شخص نے اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے تکبر کیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو سرنگوں کرے گا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ٢ ص ٢٦٢ المعجم الکبیر ج ٩ ص ١٦٣ ج ٩ ص ٩٥ مجمع الزوائد ج ١٠ ص ٢٢٣، ٢٣٥ کتاب الزھد للوکیع بن الجراح رقم الحدیث : ٢١٦ کتاب الزھد لاحمد بن حنبل رقم الحدیث : ١٤٢ مختصر تاریخ دمشق ج ١٣ ص ٣٧٧)

حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے دیکھا کہ ایک شخص گردن جھکا کر نماز پڑھ رہا تھا، حضرت عمر نے فرمایا اے گردن والے اپنی گردن اوپر اٹھائو، خشوع گردنوں میں نہیں ہونا خشوع دل میں ہوتا ہے۔ (مدارج السالکین ج ١ ص ٥٥٩ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤٠٥ ھ)

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے الذین ھم فی صلوتھم خاشعون کی تفسیر میں فرمایا جب صحابہ نماز پڑھتے تھے تو اپنی نماز کی طرف متوجہ رہتے تھے، اپنی نظریں جھکا کر سجدہ کی جگہ رکھتے تھے اور ان کو یہ یقین ہوتا تھا کہ اللہ ان کی طرف متوجہ ہے اور وہ دائیں بائیں التفات نہیں کرتے تھے۔ (الدالمنثور ج ٦ ص ٨٤ بہ حوالہ تفسیر ابن مردویہ، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٤ ھ)

حضرت ابن عمر (رض) نے ویل للمطففین کی چھ ابتدائی آیتیں پڑھیں جب وہ یوم یقوم الناس لرب العالمین پر پہنچے تو ان پر گریا طاری ہوا اور وہ زمین پر گرگئے اور آگے نہ پڑھ سکے۔ (کتاب الزھد للوکیع بن الجراح رقم الحدیث : ٢٧ کتاب الزھد لاحمد بن حنبل رقم الحدیث : ١٩٢ حلیتہ الاولیاء ج ١ ص ٣٠٥ المستدرک ج ٥ ص ٢١٧)

حضرت علی بن الحسین (زین العابدین) (رض) جب وضو کرتے تو ان کا چہرہ زرد پڑجاتا اور مغتیرہ جاتا، ان سے پوچھا جاتا آپ کو کیا ہوا وہ کہتے کیا تم کو معلوم ہے کہ میں کس کے سامنے کھڑے ہونے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ (مختصر منہاج القاصدین لابن قدامہ ص ٢٧٣ دارالتراث العربی بیروت، ١٩٨٢ ء )

قتادہ نے کہا دل میں جب خشوع ہو تو خدا کا خوف ہوتا ہے اور نماز میں نظریں نیچے ہوتی ہیں۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٩٢٣٩، الدرالمنثور ج ٦ ص ٨٤)

حضرت علی (رض) نے فرمایا دل میں خشوع یہ ہے کہ تم مسلمانوں کے لئے نرم ہو اور نماز میں ادھر ادھر التفات نہ کرو۔ (جامع البیان رقم الحدیبث : ١٩٢٣٦ المستدرک ج ٢ ص ٣٩٣ المستدرک ج ٢ ص ٣٩٣، حاکمنی اس حدیث کو صحیح کہا اور ذہبی نے اس کی موافقت کی)

حافظ جلال الدین سیوطی نے الخشوع کی تفسیر میں حسب ذیل احادیث اور آثار نقل کئے ہیں :

حکیم ترمذی اور امام بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے روایت کیا ہے کہ روسل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نفاق کے خشوع سے اللہ کی پناہ طلب کرو، صحابہ نے پوچھا : یا رسول اللہ نفاق کا خشوع کیسا ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا بدن میں خشوع ہوتا ہے اور دل میں نفاق ہوتا ہے۔ (نوادر الاصول ج ٢ ص ١٧٢)

امام ابن المبارک، امام ابن ابی شیبہ اور امام احمد نے کتاب الزھد میں حضرت ابوالدرداء (رض) سے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا نفاق کے خشوع سے اللہ کی پناہ طلب کرو ان سے پوچھا نفاق کا خشوع کس طرح ہوتا ہے انہوں نے کہا جسم خوف خدا سے کا نپ رہا ہو اور دل میں خوف خدا نہ ہو۔ (کتاب الزھد لامام احمد بن حنبل ص ١٨٢، مکتبہ دارالباز، ١٤١٤ ھ)

امام عبدالرزاق، امام عبدبن حمید، امام ابن جریر اور امام ابن ابی حاتم نے زہری نے روایت کیا ہے کہ نماز کو سکون سے پڑھنا خشوع ہے۔ (مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٣٢٦٢، بیروت)

امام حکیم ترمذی نے حضرت ام رومان والدہ حضرت عائشہ سیروایت کیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے مجھے نماز میں آگے پیچھے جھولتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے مجھے اس قدر سختی کے ساتھ ڈانٹا کہ قریب تھا میری نماز ٹوٹ جاتی، پھر حضرت ابوبکر نے کہا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھ را ہو تو اپنے تمام اعضاء کو ساکن رکھے اور نماز میں یہودیوں کی طرح آگے پیچھے ہلے نہیں کیونکہ تمام اعضاء کو ساکن رکھنا نماز کی تکمیل سے ہے۔ (نوادر الاصول ج ٢ ص ١٧١)

امام حکیم ترمذی نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ روسل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو دیکھا وہ نماز میں اپنی ڈاڑھی سے کھیل رہا تھا آپ نے فرمایا اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے اعضاء میں بھی خشوع ہوتا۔ (نوادر الاصول ج ٢ ص ١٧٢)

امام ابن ابی شیبہ، امام بخاری، امام ابودائود اور امام نائی نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز میں ادھر، ادھر التفات (مڑنے) کے متعلق پوچھا آپ نے فرمایا یہ شیاطن کا اچکنا اور چھیننا ہے، بندہ کی نماز سے اتنا حصہ شیطان اچک لیتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٥١، سنن ابو دائودرقم الحدیث : ٩١٠، سنن الترمذیرقم الحدیث : ٥٩٠ سنن النسائی رقم الحدیث : ١١٩٥ )

امام ابن ابی شیبہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سیروایت کیا ہے انہوں نے اپنے ایام مرض میں کہا میرے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رکھی ہوئی ایک امانت ہے وہ میں تم تک پہنچا رہا ہوں آپ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص نماز میں الثقات نہ کرے (ادھر ادھر مڑ کر نہ دیکھے) اگر ضرور ایسا کرنا ہو تو فرائض کے غیر میں کرے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث، ٤٥٤٤ )

امام عبدالرزاق اور اماا ابن ابی شیبہ نے عطا کی سند سے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب تم نماز پڑھ رہے ہوتے ہو تو تمہارا رب تمہارے سامنے ہوتا ہے اور تم اس سے مناجات کر رہے ہوتے ہو، پس تم ادھر ادھر التفات نہ کرو اور عطا نے کہا مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ رب فرماتا ہے اے ابن آدم ! تو کس کی طرف التفات کر رہا ہے ؟ میں تیرے لئے اس سے بہتر ہوں جس کی طرف تو التفات کر رہا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٤٥٣٨)

امام ابن ابی شیبہ نے حضرت ابوالدرداء (رض) سے روایت کیا ہے کہ تم نماز میں ادھر ادھر التفات کرنے سے خود کو بچائو کیونکہ الثقات کرنے والے کی نماز (کامل) نہیں ہوتی اور اگر تم کو ایسا کرنا ہی ہو تو نوافل میں کرو فرئاض میں نہ کرو۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٤٥٣٥)

امام ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن معسود (رض) سے روایت کیا ہے، بیشک اللہ بندہ کی طرف اس وقت تک متوجہ رہتا ہے جب تک وہ اپنا وضو نہ توڑے یا جب تک ادھر ادھر التفات نہ کرے۔ (مصنف ابن ابیشیبہ رقم الحدیث : ٤٥٣٤)

امام ابن ابی شیبہ نے حضرت عبداللہ بن متقذ سے روایت کیا ہے کہ جب بندہ نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اللہ اپنے بندہ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور جب وہ ادھر ادھر التفات کرتا ہے تو اس سے اعراض کرلیتا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث ٤٥٤٠ )

امام ابن ابی شیبہ، امام مسلم اور امام ابن ماجہ نے حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو لوگ نماز میں اپنی نظریں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں وہ اس سے باز آجائیں ورنہ ان کی نظریں واپس نہیں آئیں ی۔ (مصنف ابی شیبہ رقم الحدیث، ٦٣١٨)

امام ابن ابی شیبہ، امام بخاری، امام ابودائود، امام نسائی اور امام ابن ماجہ نے حضرت انس بن مالک (رض) سیر وایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان لوگوں کا کیا حال ہے جو اپنی نمازوں میں آسمان کی طرف نظریں اٹھاتے ہیں پھر آپ نے اس میں بہت سختی کی اور فرمایا وہ لوگ اس سے باز آجائیں ورنہ ان کی آنکھیں چھین لی جائیں گی۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٥٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٠٤٤ سنن النسائی رقم الحدیث : ١١٩٢ مسند احمد رقم الحدیث : ١٢٠٨٨ عالم الکتب بیروت، مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٧٥٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٠٤٤ سنن النسائی رقم الحدیث : ١١٩٢ مسند احمد رقم الحدیث : ١٢٠٨٨، عالم الکتب بیروت، مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٦٣١٦ بیروت)

حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا جو لوگ نماز میں آسمان کی طرف نظریں اٹھاتے ہیں وہ اس سے باز آجائیں ورنہ ان کی نظریں واپس نہیں آئیں گی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٦٤١٥)

امام ابن ابی شیبہ اپنی سند کے ساتھ حضرت حذیفہ (رض) سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا جب تم میں سے کوئی شخص نماز میں آسمان کی طرف نظر اٹھاتا ہے تو کیا وہ اس سے نہیں ڈرتا کہ اس کی نظر واپس نہ آئے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث، ٦٣٧١ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٦ ھ)

امام ابن سعد امام ابن ابی شیبہ اور امام احمد نے کتاب الزھد میں مجاہد سے روایت کیا ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن الزبیر نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو یوں لگتا تھا جیسے کوئی لکڑی کا سوتن کھڑا ہو اور حضرت ابوبکر (رض) بھی اسی طرح نماز پڑھتے تھے مجاہد نے کہا یہ نماز میں ان کا خشوع تھا۔ (الدالمنثور ج ٦ ص 84-87 ملتقطاً مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٤ ھ)

امام فخرالدین حمد بن عمررازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :

خشوع کی تعریف میں اختلاف ہے، بعض علماء نے خشوع کو افعال قلوب سے قرار دیا ہے، جیسے خوف اور ڈر، بعض نے خشوع کو اعضاء ظاہرہ سے قرار دیا ہے مثلاً جسم کو ساکن رکھنا اور ادھر ادھر التفات نہ کرنا اور بعض نے کہا کہ خشوع ان دونوں چیزوں کو شامل ہے اور یہی تعریف راجح اور اولیٰ ہے۔ (تفسیر کبیرج ٨ ص ٢٥٩ مطبوعہ بیروت، ١٤١٥ ھ)

اگر یہ سوال کیا جائے کہ نماز میں خشوع کرنا آیا واجب ہے یا نہیں ؟ تو ہم کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک نماز میں خشوع کرنا واجب ہے اور اس کے حسب ذیل دلائل ہیں :

نماز میں خضوع اور خشوع کے وجوب پر قرآن مجید سے دلائل 

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

(١) افلا یتدبرون القران ام علی قلوب اففالھا (محمد : ٢٤) کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں ؟

قرآن میں تدبر اسی وقت متصور ہوگا جب نماز میں قرآن کے معانی پر غور کرے گا اور نماز میں قرآن کے معانی پر غور کرنا ہی خشوع ہے۔

(٢) واقم الصلوۃ للذکری (طہ : ١٤) اور مجھے یاد رکھنے کے لئے نماز قائم رکھو۔

نماز غفلت سے پڑھنا اللہ کو یاد کرنے کے منافی ہے اور یاد رکھنے کا امر ہے اور امر حقیقتاً وجوب کے لئے آتا ہے پس نماز میں اللہ کی یاد سے غافل نہ ہوناواجب ہے اور یہی خشوع ہے۔

(٣) ولا تکن من الغافلین (الاعراف : ٢٠٥) اور غفلت کرنے والوں میں سے نہ ہوجانا۔

اس آیت کا تقاضا ہے کہ نماز میں اللہ کی یاد سے غافل رہنا حرام ہے اور یہی خشوع کا معنی ہے۔

(٤) حتی تعلموا ماتقولون (النسائ : ٤٣) (تم اس وقت تک نماز کے قریب نہ جائو) حتیٰ کہ تم جان لو کہ تم نماز میں کیا پڑھ رہے ہو۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو آدمی دنیا کے افکار میں ڈوبا ہوا اور نماز میں قرآن کے معانی کی طرف متوجہ نہ ہو وہ اس وقت تک نماز نہ پڑھے جب تک دنیا کی مہمات اور افکار سے فارغ نہ ہو اور نماز کی طرف پوری طرح متوجہ نہ ہو اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں خشوع کرنا واجب ہے۔

نماز میں خضوع اور خشوع کے وجوب پر احادیث سے دلائل 

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :

من لم تنہ صلاتہ عن الفحشاء و المنکر لم یرزدد من اللہ الا بعدا۔ جس شخص کی نماز اس کو بےحیائی اور برائی کے کاموں سے من کرے وہ اللہ سے صرف دور ہی ہوتا ہے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١١٠٢٥ مجمع الزوائد ج ٢ ص ٢٥٨ )

اور حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا :

من لم تامرہ صلاتہ بالمعروف وتنھاہ عن المنکر لم یزد من اللہ الابعدا۔ جس شخص کی نماز اس کو نیکی کا حکم نہ دے اور اس کو برائی سے نہ روکے وہ اللہ تعالیٰ سے صرف دور ہی ہوتا ہے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث، ٨٥٤٣ )

اور جو شخص بغیر خشوع کے غفلت سے نماز پڑھتا ہے اس کو نماز نیکی کا حکم نہیں دیتی اور برائی سے نہیں روکتی اس سے معلوم ہوا کہ خشوع کے ساتھ نماز پڑھنا واجب ہے۔

امام غزالی متوفی ٥٠٥ ھ نے یہ احادیث ذکر کی ہیں :

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کممن قائم حظہ من صلوۃ التعب و النصب، (کتنے نماز پڑھنے والے ایسے ہیں جن کو نماز پڑھنے سے سوائے تھکاوٹ اور درد کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا) اس سے آپ کی مراد غافل کی نماز ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لیس للعبد من صلوتہ الا ماقعل منھا (نماز میں سے بندہ کا اتنا ہی حصہ ہے جو اس نے سمجھ کر پڑھا ہے) (احیاء العلوم ج ١ ص ١٥٣ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت۔ ١٤١٩ ھ)

امام غزالی نے یہ احادیث معنی روایت کی ہیں ان احادیث کے الفاظ اس طرح ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جس کو روزہ رکھنے سے سوائے ھبوک اور پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا، اور ہت سے رات کو نماز میں قیام کرنے والے ایس یہیں جن کو قیام سے سوائے جاگنے کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٦٩٠ (اس حدیث کی سند حسن ہے) مسند احمد ج ٢ ص ٤٤١، سنن الداری رقم الدیث : ٢٧٣٣ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣٤٨١ سنن کبری للبیہقی ج ٤ ص ٢٧٠ شرح السنتہ رقم الحدیث : ١٧٤٧ )

علامہ زین الدین عراقی متوفی ٨٠٦ ھ نے احیاء العلوم کی تخریج میں لکھا ہے :

لیس للعبدمن صلاتہ الاماقل اس حدیث مرفوع کو میں نے نہیں پایا اور محمد بن نصر مرویز نے کتاب الصلوۃ میں یہ حدیث مرسل لکھی ہے کہ اللہ بندہ کا وہ عمل قبول نہیں کرتا جس میں بدن کے ساتھ اس کا قلب حاضر نہ ہو، اور ابو منصور ویلمی نے مسند الفردوس میں حضرت ابی بن کعب سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ جو شخص غفلت سے نماز پڑھتا ہے اس کی نماز نہیں لکھی جاتی۔ (المغنی عن حمل الاسفارفی الاسفار مع احیاء العلوم ج ١٥٣ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٩ ھ)

حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس آدمی کی نماز میں خشوع نہیں ہوتا اس کی نماز (کامل) نہیں ہوتی۔ (الفردوس بماثور الخطاب رقم الحدیث : ٧٩٣٥ زھر الفردوس ج ٤ ص ٢٣٩ اتحاف السادۃ المتقین ج ٣ ص ١١٢)

حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو نماز کی اطاعت نہ کرے اور نمامز کی اطاعت یہ ہے کہ نماز اس کو بےحیائی اور برائی کے کاموں سے منع کرے۔ (الفردوس بماثور الخطاب رقم الحدیث، ٧٩٢٨ زھر الفردوس ج ٤ ص ٤٠ ہ اتحاف السادۃ المتقین ج ٣ ص ١١٢)

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبلہ کی جانب میں بلغم پڑا ہوا دیکھا یہ آپ پر بہت ناگوار گزرا حتیٰ کہ آپ کے چہرے پر ناگواری کے آثار دکھائی دیئے، آپ کھڑے ہوئے اور آپ نے اپنے ہاتھ سے اس کو کھرچ کر صاف کردیا پھر آپ نے فرمایا تم میں سے جب کوئی شخص نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے مناجات اس کو کھرچ کر صاف کردیا پھر آپ نے فرمایا تم میں سے جب کوئی شخص نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے مناجات (چپکے چپکے کلام) کرتا ہے اس کا رب اس کے اور قبلہ کے درمیان ہوتا ہے سو تم میں سے کوئی شخص قبلہ کیطرف نہ تھوکے لیکن بائیں جانب یا قدموں کے نیچے تھوکے (جب مسجد کا فرش کچا ہو) ورنہ اپنی چادر میں اس تھوک کو مل دے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٠٥ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٥١ سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٧٥٤ مسند احمد رقم الحدیث : ١٩١١٧، عالم الکتب)

اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ نمازی نماز میں اپنے رب سے چپکے چپکے باتیں کرتا ہے، یعنی اس کی حمد اور ثناء کرتا ہے اس سے صراط مستقیم کا سوال کرتا ہے اس کی پاکیزگی بیان کرتا ہے اس کی بارگاہ میں اپنی عبادات کے تحائف پیش کرتا ہے اس کے نبی پر سلام عرض کرتا ہے صلاۃ پڑھتا ہے اور اپنے لئے مغفرت کی دعا کرتا ہے اور آخر میں دائیں اور بائیں فرشتوں کو سلام کرتا ہے، یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب وہ خضوع اور خشوع سے نماز پڑھے اور جو کچھ زبان سے کہے دل اس کی طرف متوجہ ہو اور دل و دماغ حاضر ہو، اگر وہ غفلت، بےتوجہی اور غائب دماغی کے ساتھ نماز پڑھے اور جو کچھ زبان سے کہے دل اس کی طرف متوجہ ہو اور دل و دماغ حاضر ہو، اگر وہ غفت، بےتوجہی اور غائب دماغی کے ساتھ نماز پڑھے گا تو یہ مناجات اور رب کے ساتھ کلام حاصل نہیں ہو سکے گا، اس لئے ہم کہتے ہیں کہ غفلت اور بےتوجہی سے نماز پڑھنا منع ہے اور حضور قلب اور خضوع اور خشوع کے ساتھ نماز پڑھنا واجب ہے۔

نماز میں خشوع کے وجوب کا محمل 

ہم نے جو کہا ہے کہ نماز خشوع کے ساتھ پڑھنا واجب ہے یہ نماز کے ظاہری اجزاء کے اعتبار سے واجب نہیں ہے لہٰذا اس کے ترک سے سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا، یہ نماز کی صورت اور ظاہر کا متمم نہیں ہے بلکہ یہ نماز کے باطن کا متمم ہے، خشوع کو ترک کرنے سے نماز کے ظاہر میں نقص نہیں ہوگا بلکہ نماز کے باطن اور اس کی حقیقت میں نقص ہوگا اور جس طرح نماز کی قبولیت میں کمال ظاہر ضروری ہے اسی طرح اس کا کمال باطن بھی ضروری ہے، خشوع نہ کرنے سے نماز کی فرضیت ساقط ہوجائے گی، سجدہ سہو بھی واجب نہیں ہوگا، لیکن اس نماز پر کوئی ثمرہ مرتب نہیں ہوگا اور نماز پڑھنے سے جو نورانیت، للہیت، تقویٰ اور طہارت اور صالحیت پیدا ہوتی ہے وہ حاصل نہیں ہوگی، امام غزالی اور امام رازی دونوں نے نماز میں خشوع کو واجب کہا ہے (احیاء العلوم ج ١ ص ١٥٣ تفسیر کبیرج ٨ کبیرج ٨ ص ٢٥٩) لیکن دونوں نے وجوب فقہی اور ظاہری اور وجوب سری اور باطنی میں فرق نہیں کیا۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

ان اصلوۃ تنھی عن الفحشآء والمنکر (العنکبوت : ٤٥) بیشک نماز بےحیائی کے کاموں سے اور برائیوں سے روکتی ہے۔

اگر آپ نے نماز پڑھی اور اس کے باوجود آپ برے کام کر رہے ہیں اور نماز نے آپ کو بےحیائی اور برے کاموں سے نہیں روکا تو پھر اس کے دو ہی مطلب ہیں یا تو اللہ تعالیٰ کا یہ کلام غلط ہے اور یا پھر آپ نے نماز کی صورت میں جو کچھ پڑھا ہے وہ حقیقت میں نماز نہیں ہے اگر آپ نے حقیقت میں نماز پڑھی ہوتی تو پھر نماز آپ کو ضرور برے کاموں سے روکتی، اللہ تعالیٰ کا فرمان غلط نہیں ہے وہ سچا کلام ہے۔

نماز آپ کو بےحیائی اور برے کاموں سے ضرور روکے گی آپ خشوع اور خضوع سے نماز پڑھیں اس یقین کے ساتھ کہ آپ اللہ کے سامنے کھڑے ہیں اور وہ آپ کو دیکھ رہا ہے، پھر اس نماز پر تقویٰ اور صالحیت کا ثمرہ مرتب ہوگا۔ میں نے بہت محنت اور مشقت سے خشوع کی یہ بحث لکھی ہے اگر اس کو پڑھ کر ایک مسلمان بھی خشوع سے نماز پڑھنے لگاتو میری یہ محنت ٹھکانے لگ جائے گی !

خشوع کے فوائد 

(١) خشوع سے اللہ عزوجل کا ڈر اور خوف پیدا ہوتا ہے۔ (٢) خشوع ایمان اور حسن اسلام کے مظاہر میں سے ایک مظہر ہے۔ (٣) خشوع بندے کی نیکی اور استقامت کی دلیل ہے۔ (٤) اللہ کی عبودیت کا اعلان اور اس کے ماسوا کو ترک کرنا ہے۔ (٥) خشوع سے گناہ مٹ جاتے ہیں اور ثواب زیادہ ملتا ہے۔ (٦) عذاب اور سزا سے نجات ملتی ہے۔ (٧) جنت کی کامیابی ملتی ہے۔ (٨) قیامت کے دن خشوع کرنے والوں کا مرتبہ بلند ہوگا۔ (٩) خشوع انسان کی نظروں اور اس کے کندھوں کو جھکا کر رکھتا ہے۔ (١٠) خشوع دل کی سختی کو دور کرتا ہے۔ (١١) نماز میں خشوع اخروی فلاح تک پہنچاتا ہے، (١٢) جس شخص کے دل میں خشوع ہو شیطان اس کے پاس نہیں پھٹکتا۔

نماز میں خشوع کرنے والوں کی چند مثالیں 

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ ذات الرقاع میں گنے، مسلمانوں میں سے کسی شخص نے کسی مشرک کی بیوی کو قتل کردیا، اس مشرک نے قسم کھائی وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے کسی کا خون نہیں بہائے گا، وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیچھا کرتے ہوئے نکلا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جگہ پر قیام کیا آپ نے پوچھا رات کو کون شخص ہمارا پہرہ دے گا، ایک شخص مہاجرین میں سے اور ایک شخص انصار میں سے اٹھا اور انہوں نے رات کو پہرہ دینے کی ذمہ داری قبول کی، آپ نے فرمایا تم دونوں گھاٹی کے منہ پر پہرہ دینا جب وہ دونوں گھاٹی کے منہ پر پہنچے تو مہاجر لیٹ گیا اور انصاری کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا جو شخص صحابہ کا پیچھا کر رہا تھا وہ بھی پہنچ گیا۔ جب اس نے انصاری کو دیکھا تو وہ سمجھ گیا کہ یہ قوم کا پہرہ دار ہے اس نے اس انصاری کو تاک کر تیر مارا اور لگاتار تین تیر مارے وہ اسی طرح رکوع اور سجدہ کرتے رہے، پھر ان کا مہاجر ساتھی بیدار ہوگیا، جب اس مشرک نے دیکھا کہ یہ خبردار ہوگئے ہیں تو وہ بھاگ گیا جب مہاجر نے انصاری کے جسم سے خون بہتے ہوئے دیکھا تو کہا جب تمہیں پہلا تیر لگا تو تم نے مجھے اٹھایا کیوں نہیں ! اس نے کہا میں نماز میں جس سورت کی تلاوت کر رہا تھا اس کو منقطع کرنا نہیں چاہتا تھا۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٩٨، دارالفکر بیروت : ١٤١٤ ھ)

سبحان اللہ ! یہ ہے نماز میں خشوع کا عالم جسم پر پیہم تیر لگ رہے ہیں خون بہہ رہا ہے اور صحابی رسول اسی طرح نماز پڑھ رہے ہیں۔ 

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :

عبادت میں مشغول ہونا جہان غرور سے جہان سرور کی طرف منتقل ہونا ہے اور مخلوق کو چھوڑ کر خالق کے دربار میں پہنچنا ہے اور اس سے لذت اور خوشی کا کمال پیدا ہوتا ہے، امام ابوحنیفہ (رض) مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے ایک سانپ چھت سے گرگیا لوگ ادھر ادھر بھاگ گئے اور امام ابوحنیفہ نماز میں مشغول تھے انہیں کچھ پتا نہیں چلا اور حضرت عروہ بن الزبیر کے کسی عضو میں زخم ہوگیا اس زخم کے زہر کو پھیلنے سے روکنے کے لئے اس عضو کو کاٹنا ضروری تھا جب حضرت عروہ نے نماز پڑھنی شروع کی تو لوگوں نے اس عضو کو کاٹ دیا اور عروہ کو اس عضو کے کٹنے کا مطلقاً پاتن ہیں چلا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز پڑھتے تھے تو آپ کے سینہ سے ایسی آواز تھی جیسے ہنڈیا کے ابنلے کی آواز آتی ہے۔ اور جو شخص ان مثالوں کو مستبعد سمجھتا ہو اسے اس آیت کی تلاوت کرنی چاہیے :

فلما رآئنہ اکبرلہ وقطعن ایدیھن (یوسف : ٣١) جب مصر کی عورتوں نے یوسف کو دیکھا تو ان کو بہت بڑا جانا اور (پھل کے بجائے) اپنے اتھ کاٹ ڈالے۔

جب مصر کی عورتوں کے دلوں پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حسن و جمال کا غلبہ ہوا اور یہ غلبہ اس حد کو پہنچا کہ انہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے اور ان کو پتا نہ چلا تو جب بشر کے حق میں یہ بےخودی اور سرشاری ممکن ہے تو جس کے دل پر اللہ تعالیٰ کے حسن و جمال اور اس کی عظمتوں کا غلبہ ہو اس کا اس طرح بےخود، سرشار اور مستغرق ہونا توبہ درجہ اولیٰ ممکن ہے۔ (تفسیر کبیرج ١ ص 213-214 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٥ ھ)

حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ لکھت یہیں :

ابوبکر بن منیر بیان کرتے ہیں کہ ایک دن امام محمد بن اسماعیل بخاری نے نماز پڑھی، زنبور (تتیہ یا بھڑ) نے ان کی پیٹھ پر سترہ جگہ ڈنک لگائے اور انہوں نے اپنی نماز منقطع نہیں کی، نماز پوری کرنے کے بعد انہوں نے شاگردوں سے کہا ذرا دیکھو تو یہ کیا چیز ہے جو نماز میں مجھے اذیت پہنچا رہی تھی انہوں نے دیکھا تو ان کی پیٹھ سترہ جگہ سے سوجی ہوئی تھی اور انہوں نے نماز منقطع نہیں کی۔ محمد بن ابی حاتم وراق نے بھی اس واقعہ کو بیان کیا ہے انہوں نے اس واقع ہ کے آخر میں کہا امام بخاری نے نماز نہ توڑنے کے متعلق باتای میں جس آیت کی تلاوت کر رہا تھا، میں چاہتا تھا کہ میں اس آیت کو پورا کرلوں۔ (ھدی الساری ص ٦٦٧ مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤٣١ ھ)

ہم لوگ جو نماز میں چہرے سے مکھیوں کو اڑاتے رہتے ہیں جو جسم پر رکھی کو بردشات نہیں کرتے وہ امام بخاری کے اس خشوع کا کب انداز ہکر سکتے جن کی پیٹھ پر زنبور نے سترہ جگہ ڈنک لگائے اور وہ اسی طرح نماز پڑھتے رہے۔

علامہ محمد بن یحییٰ حلبی المتوفی ٩٦٣ ھ لکھتے ہیں :

احمد بن صالح الجیلی بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا الشیخ عبدالقادر کے ساتھ مدرسہ نظامیہ میں تھا، آپ کے پاس فقراء اور فقہاء بیٹھے ہوئے تھے آپ ان کے سامنے قضاء اور قدر کے موضوع پر خطاب فرما رہے تھے اچانک ایک بہت بڑا سانپ چھت سے گرا تو آپ کی مجلس میں جتنے لوگ بیٹھے ہوئے تھے وہ سب بھاگ گئے اور سوائے حضرت شیخ کے اور کوئی بیٹھا نہ رہا وہ سانپ آپ کے کپڑوں کے نیچے داخل ہوگیا اور آپ کے جسم میں پھرتا رہا، پھر وہ آپ کی گردن میں لپٹ گیا اس کے باوجود آپ نے اپنا خطاب منقطع نہیں کیا اور نہ اپنی نشست میں کوئی تغیر تبدیل کیا وہ سانپ پھر زمین پر اترا اور آپ کے سامنے اپنی دم پر کھڑا ہوگیا اور بلند آواز سے کچھ کلام کیا جس کو ہم سمجھ نہیں سکے پھر وہ سانپ چلا گیا اور پھر لوگ آپ کے پاس حجرہ میں آگئے اور آپ سے پوچھا کہ سانپ نے آپ سے کیا کہا تھا اور آپ نے اس کا کیا جواب دیا تھا۔ آپ نے فرمایا سانپ نے مجھ سے کہا میں نے بہت سے اولیاء اللہ کو آزمایا لیکن آپ ایسا استقامت والا اور عالی ہمت کسی کو نہیں پایا، میں نے اس سانپ سے کہا جس وقت تم چھت سے مجھ پر گرے تھے میں اس وقت قضاء قدر کے مسئلہ پر خطاب کر رہا تھا اور تم تو صرف ایک سانپ ہو اور تم کو وقت تم چھت سے مجھ پر گرے تھے میں اس وقت قضاء قدر کے مسئلہ پر خطاب کر رہا تھا اور تم تو صرف ایک سانپ ہو اور تم کو حرکت دینے الی اور ٹھہرانے والی چیز تو تقدیر پر ہے تقدیر سے کوئی شخص بھاگ نہیں سکتا تو میں نے یہ چاہا کہ میرا فعل میرے قول کے خلاف نہ ہو۔

اور سیدی عبدالرزاق ابن سیدنا الشیخ عبدالقادر رضیا للہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد سے سنا انہوں نے فرمایا میں ایک رات جامع المنصوری میں نماز پڑھ رہا تھا میں نے کسی چیز کے چلنے کی آہٹ سنی پس اچانک ایک بہت زہریلا سانپ آیا وہ میرے سجدہ کی جگہ پر اپنا پھن کھول کر بیٹھ گیا جب میں نے سجدہ کا ارادہ کیا تو اس کو اپنے ہاتھ سے ہٹا دیا اور سجدہ کرلیا، جب میں تشہد میں بیٹھا تو وہ میرے زانو پر سے چلتا ہوا میری گردن تک پہنچا پھر گردن میں لپٹ گیا، جب میں نے سلام پھیرا تو وہ نظر نہیں آیا دوسرے روز میں ظاہر الجامع کے کھنڈر میں گیا وہاں میں نے ایک شخص کو دیکھا اس کی آنکھیں طول میں پھٹی ہوئی تھیں (یعنی اس کی آنکھیں رض میں نہیں طول میں تھیں) میں نے جان لیا کہ وہ جن ہے اس نے مجھ سے کہا میں ہی وہ زہریلا سانپ ہوں جس کو تم نے گزشتہ کل دیکھا تھا اور میں نے جس طرح آپ کو آزمایا ہے اس طرح میں نے بہت سے اولیاء اللہ کو آزمایا سو ان میں سے کوئی بھی آپ کی طرح ثابت قدم نہیں رہا، بعض وہ تھے جن کا ظاہر اور باطن دونوں مضطرب ہوگئے اور بعض وہ تھے جن کا ظاہر ثابت قدم رہا اور ان کا باطن مضطرب رہا اور میں نے آپ کو دیکھا کہ میری وجہ سے نماز میں آپ کا ظاہر (قلائد الجواہر ص ٣٤ مطبوعہ شرکتہ مکتبہ و مطبعہ مصطفیٰ البابی الحلمی واولادہ بمصر، ١٣٧٥ ھ)

یہ وہ نفوس قدسیہ ہیں جو نماز میں اس طرح خشوع کرتے تھے کہ نماز میں ان کے جسم پر تیر لگے خون بہے، ان کا عضو کاٹ دیا جائے مسجد میں چھت سے سانپ گرجائے، زنبور جگہ جگہ جگہ ڈنک مارے اور نماز میں سانپ ان کی گردن سے لپٹ جائے تب بھی ان کی نماز کے خشوع میں کوئی فرق نہیں آتا تھا، اللہ تعالیٰ ان خاشعین کے تصدق اور توسل سے ہماری نمازوں میں بھی خشوع عطا فرمائے آمین۔

میں نے خشوع کی تحقیق میں بہت طویل گفتگو کی ہے اور یہ تحقیق ہماری اس کتاب کے خصائص میں سے ہے اور شاید کہ خشوع کی ایسی تحقیق قارئین کو اور کسی کتاب میں نہیں ملے گی فالحمد للہ رب العلمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ محمد و علی آلہ و اصحابہ وازواجہ اجمعین 

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 2