أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَللّٰهُ يَصۡطَفِىۡ مِنَ الۡمَلٰٓئِكَةِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيۡعٌۢ بَصِيۡرٌ۞

ترجمہ:

اللہ فرشتوں میں سے رسولوں کو چن لیتا ہے اور انسانوں میں سے، بیشک اللہ بہت سننے والا بہت دیکھنے والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اللہ فرشتوں میں سے رسولوں کو چن لیتا ہے اور انسانوں میں بیشک اللہ بہت سننے الا بہت دیکھنے والا ہے۔ وہ جانتا ہے جو کچھ لوگوں کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور اللہ ہی کی طرف تمام کام لوٹائے جائیں گے۔ (الحج :75-76)

فرشتوں کو رسول بنانے کی آیتوں میں تعارض کا جواب 

اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے الٰہیات کا ذکر فرمایا تھا اور الحج :75 میں نبوات کا ذکر فرمایا : مقاتل نے یہ کہا کہ ولید بن مغیرہ نے یہ کہا تھا کہ ہمارے ہوتے ہوئے ان پر ذکر نازل کیا گیا تو یہ آیت نازل ہوئی (زاد المسیر ج ٥ ص 453)

اس مقام پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اس سورت میں فرمایا اللہ فرشتوں میں سے رسولوں کو چن لیتا ہے اس کا تقاضا ی ہے کہ بعض فرشتوں کو رسول بناتا ہے، سب فرشتوں کو رسول نہیں بناتا اور ایک اور سورت میں فرمایا ہے جاعل الملائکۃ رسلا (فاطر : ١) فرشتوں کو رسول بنانے والا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ سب فرشتوں کو رسول بنایا گیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں پر ان فرشتوں کو رسول بنانے کا ذکر ہے جن کو بنو آدم کی طرف رسول بنایا گیا ہے اور وہ اکابر ملائکہ ہیں جیسے حضرت جبریل، حضرت میکائل، حضرت اسرافیل اور حضرت عزرائیل علیہم الصلوۃ والسلام اور یہ بعض رسول ہیں اور باقی تمام فرشتے ایک دوسرے کی طرف رسول ہیں۔ لہٰذا سورة الحج : ٧٥ میں ان فرشتوں کے رسول بنانے کا ذکر ہے جو بنو آدم کی طرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور فاطر : ١ میں ان فرشتوں کو رسول بنانے کا ذکر ہے جو ایک دوسرے کی طرف رسول ہیں، پس ان آیتوں میں تعارض نہ رہا۔

بعض فرشتوں اور بعض انسانوں کو بیٹا بنانے کا اعتراض اور اس کا جواب 

اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر فرمایا ہے :

لو اراد اللہ ان یتخذ ولد لاصطفی مما یخلق مایشآء (الزمر : ٤) اور اگر اللہ بٹا بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا ہے چن لیتا۔

اور سورة حج : ٧٥ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض فرشتے اور بعض انسان چنے ہوئے ہیں اور جب اللہ چنے ہوئے کو بیٹا بناتا ہے تو اس سے لازم آئے گا کہ اللہ نے بعض فرشتوں اور بعض انسانوں کو بیٹا بنایا ہو، اس کا جواب یہ ہے کہ سورة زمر میں جو فرمایا ہے اور اگر اللہ بٹا بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا چن لیتا۔ یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس کا بیٹا چنا ہوا ہونا چاہیے لیکن اس پر دلات نہیں کرتا کہ ہر چنا ہوا اس کا بیٹا ہو حتیٰ کہ یہ لازم آئے کہ پھر بعض فرشتوں اور بعض انسانوں کو اس کا بٹا ہونا چاہیے۔

دوسری تقریر یہ ہے کہ زمر میں فرمایا ہے اگر اللہ بیٹا بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا بیٹا بنا لیتا اس سے مقصود ان لوگوں کی مذمت کرنا ہے جو حضرت عیسیٰ اور حضرت عزیز کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے یعنی وہ اللہ کے بیٹے نہیں ہیں، اگر اللہ بیٹابنانا چاہتا تو حضرت عیسیٰ اور حضرت عزیز کی کیا خصوصیت تھی وہ جس کو چاہتا اپنا بیٹا بنا لیتا اور سورة الحج : ٧٥ میں ان مشرکین کی مذمت کی ہے جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے اور ان کی عبادت کرتے تھے، یعنی فرشتوں کا بلند درجہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ اللہ کی جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے اور ان کی عبادت کرتے تھے، یعنی فرشتوں کا بنلد درجہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ اللہ کی جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے اور ان کی عبادت کرتے تھے، یعنی فرشتوں کا بلند درجہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ اللہ کی جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے اور ان کی عبادت کرتے تھے، یعنی فرشتوں کا بلند درجہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ اللہ کی بیٹایں ہیں یا وہ معبود ہیں بلکہ ان کا بلند درجہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پانی عبادت کرنے اور اپنی پیغام رسانی کے لئے چن لیا ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ بہت سننے والا بہت دیکھنے والا ہے، یعنی وہ جو کچھ باتیں کرتے ہیں اور جو کچھ کام کرتے ہیں وہ سب اس کے علم میں ہیں،

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 22 الحج آیت نمبر 75