اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰهَ يَعۡلَمُ مَا فِى السَّمَآءِ وَالۡاَرۡضِؕ اِنَّ ذٰ لِكَ فِىۡ كِتٰبٍ ؕ اِنَّ ذٰ لِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيۡرٌ ۞- سورۃ نمبر 22 الحج آیت نمبر 70
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰهَ يَعۡلَمُ مَا فِى السَّمَآءِ وَالۡاَرۡضِؕ اِنَّ ذٰ لِكَ فِىۡ كِتٰبٍ ؕ اِنَّ ذٰ لِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيۡرٌ ۞
ترجمہ:
کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو آسمانوں اور زمینوں میں ہے، بیشک یہ سب ایک کتاب میں (مرقوم) ہے، بیشک یہ سب اللہ پر آسان ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو آسمانوں اور زمینوں میں ہے، بیشک یہ سب ایک کاتب میں (مرقوم) ہے، بیشک یہ سب اللہ پر آسان ہے۔ (الحج :70)
لوح محفوظ میں سب کچھ لکھے ہوئے ہونے کے متعلق احادیث
اس سے پہلی آیت میں فرمایا تھا اور اللہ قیامت کے دن تمہارے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں تم اختالف کرتے تھے اور قیامت کے دن فیصلہ کرنا اس چیز پر موقوف ہے کہ اللہ کو علم ہو کہ کون سزا کا مستحق ہے اور کون انعام کا مستحق ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کو ہر چیز کا علم ہے اور سب کچھ لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے اس لئے اللہ پر فیصلہ کرنا بہت آسان ہے، سب کچھ ایک کتاب میں لکھے ہوئے ہونے کے متعلق یہ احادیث ہیں :
عبدالواحد بن سلیم بیان کرتے ہیں کہ میری مکہ میں عطاء بن ابی رباح سے ملاقات ہوئی میں نے ان سے کہا اے ابو محد ! بیشک اہل بصر و تقدیر میں بحث کرتے ہیں، انہوں نے کہا اے میرے بیٹے کیا تم قرآن پڑھتے ہو ؟ میں نے کہا جی ہاں ! انہوں نے کہا سورة زخرف پڑھو، میں نے پڑھا :
حم۔ والکتب المبین۔ ان جعلنہ قرانا عربیاً لعلکم تعفلون۔ وانہ فی ام الکتب لدبنا لعلی حکیم۔ (الزخرف :1-4) حامیم۔ اس روشن کتاب کی قسم۔ ہم نے اس کو عربی زبان کا قرآن بنایا ہے تاکہ تم اس کو سجھ سکو۔ بیشک یہ لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے اور (وہ) ہمارے نزدیک بلند درجہ حکمت والی ہے۔
عطاء بن ابی رباح نے کہا تم جانتے ہو ام الکتب کیا ہے ؟ میں نے کہا اللہ اور اس کے رسول کو علم ہے، انہوں نے کہا یہ وہ کتاب ہے جس کو اللہ نے آسمان اور زمینوں کو پیدا کرنے سے پہلے لکھ دیا تھا، اس میں لکھا ہوا ہے کہ فرعون اہل دوزخ سے ہے اور اس میں لکھا ہوا ہے تبت یدا ابی لھب و تب ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ (خود) ہلاک ہوگیا۔ عطاء بن ابی رباح نے کہا پھر میری ولید بن عبادۃ بن الصامت سے ملاقات ہوئی میں نے ان سے پوچھا تمہارے والد نے مرتے وقت تمہیں کیا نصیحت کی تھی، انہوں نے کہا میرے والد نے مجھے بلا کر کہا اے میرے بیٹے اللہ سے ڈرنا اور یاد رکھو تم اس وقت تک ہگز اللہ سے نہیں ڈرو گے جب تک تم اللہ پر ایمان نہ لے آئو اور ہر اچھی اور بری چیز اللہ کی تقدیر کے ساتھ وابستہ ہونے پر ایمان نہ لے آئ، اگر تم اس کے خلاف عقیدہ پر مرگئے تو دوزخ میں داخل ہو گے اور میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا اور فرمایا لکھ اس نے کہا کیا لکھوں فرمایا تقدیر کو لکھو جو کچھ ہوچکا ہے اور جو کچھ ابد تک ہونے والا ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :2155، سنن ابو دائود رقم الحدیث :4700 مسند احمد ج ٥ ص 317)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اس کے کہ آپ ہمیں بتائیں جو کتاب آپ کے دائیں ہاتھ میں تھی اس کے متعق آپ نے فرمایا یہ رب العالمین کی طرف سے کتاب ہے اس میں جنت والوں کے نام ہیں اور ان کے باپ دادا کے نام ہیں اور ان کے قبائل کے نام ہیں، پھر ان کے آخر میں میزان کر دا گیا ہے اور اس میں نہ کبھی اضافہ کیا جائے گا اور نہ کبھی کمی کی جائے گی، پھر آپ کے بائیں ہاتھ میں جو کتاب تھی اس کے متعلق فرمایا یہ رب العالمین کی طرف سے کتاب ہے اس میں دوزخ والوں کے نام ہیں اور ان کے باپ دادا کے نام ہیں اور ان کے قبائل کے نام ہیں پھر ان کے آخر میں میزان کردیا گیا ہے نہ ان میں کبھی کوئی اضافہ ہوگا نہ ان میں کبھی کوئی کمی ہوگی آپ کے اصحاب نے کہا یا رسول اللہ ! جب سب کاموں سے فراغت ہوچکی ہے تو پھر عمل کس میں ہوگا ؟ آپ نے فرمایا تم ٹھیک ٹھیک اور صحت کے قریب کام کرتے رہو کیونکہ جو شخص جنتی ہے اس کا خاتمہ جنت والوں کے اعمال پر ہوگا خواہ وہ کوئی عم کرتا رہے اور جو دوزخی ہے اس کا خاتمہ دوزخیوں کے اعمال پر ہوگا خاہ وہ کوئی عمل کرتا رہے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دونوں ہاتھوں سے ان کتابوں کو گرا دیا پھر فرمایا تمہارا رب اپنے بندوں سے فارغ ہوچکا ہے ایک فریق جنت میں ہے اور ایک فریق دوزخ میں ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :2141 مسند احمد ج ٢ ص 167 السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث :8825)
حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے تمام مخلوقات کی تقدیر کو لکھ دیا تھا اور اس وقت اس کا عرش پانی پر تھا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :2663 مشکوۃ رقم الحدیث :79)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں جو ان شخص ہوں اور مجھے اپنے نفس پر زنا کا خطرہ ہے اور عورتوں سے شادی کرنے کے لئے میرے پاس مال نہیں ہے، گویا کہ وہ خصی ہونے کی اجازت طلب کرتے تھے آپ میری بات پر خاموش رہے، میں نے پھر اسی طرح کہا آپ پھر خاموش رہے، جب میں نے تیسری بار دہرایا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ابوہریرہ جو کچھ تمہارے ساتھ ہونے والا ہے اس کو لکھ کر قلم خشک ہوچکا ہے، اب تم خصی ہو یا نہ ہو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :5076 مشکوۃ رقم الحدیث :88)
حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ نے بکری کا جو زہر آلود گوشت کھایا تھا اس کی وجہ سے ہر سال آپ کے جسم میں درد ہوتا ہے آپ نے فرمایا مجھے صرف وہی مصیبت پہنچتی ہے جو میرے لئے اس وقت لکھ دی گئی تھی جب حضرت آدم ہنوز مٹی اور گارے میں تھے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :3546 مشکوۃ رقم الحدیث :124)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 22 الحج آیت نمبر 70