حضرت ابوبکر صدیق نماز پڑھاتے
الفصل الثالث
تیسری فصل
حدیث نمبر 371
روایت ہے حضرت عبیداﷲ ابن عبداﷲ سے فرماتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ کیا آپ مجھے حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض کی بابت کچھ نہ بتائیں گی فرمایا ہاں ضرور ۱؎ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم بہت بیمار ہوگئے تو فرمایا کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہم نے کہا یارسول اﷲ نہیں وہ آپ کے منتظر ہیں فرمایا ہمارے لیئے لگن میں پانی رکھو فرماتی ہیں ہم نے کردیا ۲؎ آپ نے غسل کیا پھر اٹھنے لگے تو بے ہوش ہوگئے ۳؎ پھر افاقہ ہوا تو فرمایا کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہم نے کہا یارسو ل اﷲ نہیں وہ آپ کا انتظار کررہے ہیں فرمایا ہمارے لیئے لگن میں پانی رکھو فرماتی ہیں پھر حضور بیٹھے پھر غسل کیا پھر اٹھنے لگے تو آپ پر بے ہوشی طاری ہوگئی ۴؎ پھر کچھ افاقہ ہوا تو فرمایا کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہم نے عرض کیا یارسول اﷲ نہیں وہ لوگ آپ کے منتظر ہیں فرمایا ہمارے لیے لگن میں پانی رکھو پھر بیٹھے پھر غسل کیا پھر اٹھنے لگے تو بے ہوش ہوگئے ۵؎ پھر افاقہ ہوا تو فرمایا کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہم نے عرض نہیں یارسول اﷲ وہ آپ کے منتظر ہیں اور لوگ مسجد میں ٹھہرے ہوئے آخری عشاء کے لیئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتے تھے ۶؎ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر صدیق کو پیغام بھیجا کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں آپ کے پاس قاصد آیا ۷؎ عرض کیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو حکم دیتے ہیں کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۸؎ ابوبکر صدیق نرم دل تھے فرمایا اے عمر تم لوگوں کو نماز پڑھاؤ ۹؎ عمر فاروق نے عرض کیا کہ اس کے حقدار آپ ہی ہیں ۱۰؎ چنانچہ اس زمانے میں ابوبکر صدیق نماز پڑھاتے رہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نفس میں ہلکا پن پایا اور دو شخصوں کے درمیان نماز ظہر کے لیئے نکلے جن میں سے ایک عباس تھے ۱۱؎ اور ابوبکر لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے جب ابوبکر صدیق نے آپ کو دیکھا تو پیچھے جانے لگے ۱۲؎ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ پیچھے نہ جاؤ فرمایا کہ ابوبکر کے برابر بٹھا دو ان دونوں نے آپ کو ابوبکر کے برابر بٹھاد یا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے۱۳؎ عبید اﷲ کہتے ہیں کہ پھر میں حضرت عبداﷲ ابن عباس کے پاس گیا اور ان سے عرض کیا کہ میں آپ پر وہ حدیث پیش نہ کروں جو مجھے حضرت عائشہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے متعلق سنائی فرمایا لاؤ میں نے ان پر ان کی پوری حدیث پیش کردی آپ نے اس کا کچھ بھی انکار نہ کیا بجز اس کے فرمایا کیا حضرت عائشہ نے تمہیں ان صاحب کا نام بھی بتایا جو حضرت عباس کے ساتھ تھے میں نے کہا نہیں فرمایا وہ علی تھے ۱۴؎(مسلم،بخاری)
شرح
۱؎ مرض سے مراد مرض وفات شریف ہے،چونکہ اس زمانہ میں ام المؤمنین ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تیمار دار ہی ہیں۔اس لیئے صحابہ کرام آپ ہی سے اس مرض کے حالات پوچھا کرتے تھے۔خیال رہے کہ یہ سائل حضرت عبید ا ﷲ ابن عبداﷲ ابن عتبہ ابن مسعود ہذلی ہیں۔یعنی عبداﷲ ابن مسعود کے بھتیجے اور عمر بن عبدالعزیز کے استاد،فقہائے مدینہ میں سے تھے،تابعی تھے،نابینا تھے، ۹۲ھ میں وفات پائی۔حق یہ ہے کہ ان کے والد بھی تابعی ہیں،ان کی وفات ۷۴ھ میں ہوئی۔
۲؎ مخضب اور مرکن قریبًا ہم معنی ہیں۔یعنی کپڑے دھونے کا برتن۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز جماعت سے کتنی محبت تھی کہ ایسی سخت تکلیف میں بھی جماعت ہی کی فکر ہے۔صحابہ کرام کا یہ عشق تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر نماز نہ پڑھتے تھے اگرچہ قضا ہی ہوجائے۔
۳؎ شاید یہ غسل سے مراد وضو یا وضو کے لیئے ہاتھ دھونا ہے۔ورنہ ہر بار غسل کرنے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی،نیز جب ضعف کا یہ حال ہے کہ جنبش پر غشی طاری ہوجاتی ہے تو غسل کیسے ہوسکتا ہے۔
۴؎ بے ہوشی ایک قسم کی بیماری ہے لہذا انبیائے کرام پر طاری ہوسکتی ہے،رب تعالٰی فرماتا ہے:”فَخَرَّ مَوْسٰی صَعِقًا”۔جنون خرابی عقل ہے اور عیب اس سے انبیاء کرام محفوظ ہیں۔بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ حضرات انبیاء پر غشی بھی گھڑی دو گھڑی کی آسکتی ہے نہ کہ مہینہ دو مہینہ کی کہ وہ غشی جنون کی مثل ہے۔
۵؎ بعض کا خیال ہے کہ یہ باربار غسل علاج کے لیئے تھا کہ بخار کا علاج غسل تھا مگر یہ صحیح نہیں کیونکہ عرب میں بعض بخاروں کا علاج سورج نکلنے کے وقت کا غسل ہے،نیز اگر علاجًا ہوتا تو یہ بعد نماز بھی ہوسکتا تھا۔
۶؎ نہ دروازہ عالیہ پر آواز دیتے تھے کہ بے ادبی ہے اور نہ اکیلے نماز پڑھتے تھے کہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء سے محرومی ہے۔
۷؎ یعنی حضرت بلال مؤذن رسول ا ﷲ بعض تاریخی روایات میں ہے کہ آپ روتے ہوئے آئے اور کہا کہ لوگو مدینہ اجڑ چلا،مسجد نبوی ویران ہوچلی آج بغیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جماعت ہوگی پھر یہ پیغام عرض کیا۔
۸؎ ظاہر یہ ہے کہ یہ امروجوب کے لیئے ہے کیونکہ بعض روایات میں بھی ہے کہ فرمایا جہاں ابوبکر ہوں وہاں کسی کی امامت کا حق نہیں۔
۹؎ اس فرمان میں حکم سرکاری سے سرتابی نہیں بلکہ اظہار معذوری ہے کیونکہ آپ کو اندیشہ تھا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مصلیٰ خالی دیکھ کر صبر نہ کرسکو ں گا،لوگوں کو قرأت نہ سنا سکوں گا،چیخیں نکل جائیں گی۔
۱۰؎ یعنی میری کیا مجال کہ آپ کی موجودگی میں امام بنوں،آپ جناب مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے انتخاب میں آچکے،آپ کی اس امامت سے لوگوں کی تقدیریں وابستہ ہوچکیں،اس سے بہت سے سربستہ راز کھلیں گے،آگے بڑھیئے اﷲ آپ کو صبر دے گا۔
۱۱؎ یعنی داہنی طرف اور بائیں طرف بار ی باری سے حضرت علی مرتضٰے فضل ابن عباس اور اسامہ ابن زید جیسا کہ مرقاۃ وغیرہ میں ہے۔خیال رہے کہ یہ حضرات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تیمارداری کی وجہ سے جماعت میں شریک نہ ہوئے وہ سمجھتے تھے کہ یہ آخری خدمت ہے جتنا موقع مل جائے غنیمت ہے۔شعر
نمازیں گر قضا ہوں پھر ادا ہوں نگاہوں کی قضائیں کب ادا ہوں
۱۲؎ معلوم ہوا کہ ان نمازوں میں صدیق اکبر بجائے سجدہ گاہ کے جناب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ کو کنکھیوں سے دیکھتے تھے یعنی تن بکار او ر دل بیار پر عمل تھا ایسی کامل نماز کسے نصیب ہوسکتی ہے۔
۱۳؎ خیال رہے کہ یہ حضرات حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کو حجرے شریف سے محراب النبی تک لائے یعنی آدھی صف کے سامنے سے گزرے ان کے لیئے یہ گزرنا جائز تھا کیونکہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے تھا۔شرعی حکم تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے۔خیال رہے کہ صدیق اکبر نے اس زمانہ میں ۱۷ نمازیں پڑھائیں ہیں کیونکہ دو دن پہلے عشاء کے وقت آپ کو امام بنایا گیا اور آج ظہر کو یہ وقعہ ہوا۔
۱۴؎ بعض کم عقلوں نے کہا کہ حضرت عائشہ صدیقہ حضرت علی سے ناراض تھیں کیونکہ علی مرتضی نے تہمت کے موقعہ پر آپ کی حمایت پر زور نہ دیا تھا بلکہ یہ کہا تھا کہ حضور آپ کو بیویاں اور بھی مل جائیں گی مگر یہ غلط ہے کیونکہ دوسروں سے عائشہ صدیقہ نے آپ کا نام لیا ہے جیسا کہ بہت سی روایات میں ہے۔(مرقاۃ)نیز تعجب ہے کہ ام المؤمنین یہاں تو علی مرتضٰی کا نا م تک نہ لیں ادھر آپ کے اکثر فضائل کی روایتیں حضرت عائشہ صدیقہ سے ہی مروی ہیں،نام نہ لیں فضائل بیان کریں یہ کیسے ہوسکتا ہے بلکہ اس کی وجہ وہی ہے جو ہم پہلے عرض کرچکے کہ اس جانب کچھ دور حضرت علی مرتضٰی رہے،کچھ دور فضل ابن عباس اور کچھ دور حضرت اسامہ ابن زید۔خیال رہے کہ یہ واقعہ ہفتہ یا اتوار کی ظہر کا ہے۔سوموار یعنی خاص وفات کے دن فجرکے وقت اولًا آپ نے پردہ اٹھا کر جماعت کو دیکھا اور دعائیں دیں،دوسری رکعت میں تشریف لا کر نماز میں شریک ہوگئے پہلے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم امام ہوئے ہیں اور صدیق مقتدی مگر سوموار کی فجر میں صدیق اکبر ہی امام رہے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے پیچھے ایک رکعت پڑھی ہے اور اسی دن وفات شریف ہوگئی۔یہ مرقاۃ کی تحقیق ہے اور اس سے تمام روایتیں جمع ہوجاتی ہیں۔