أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَالَّذِيۡنَ هُمۡ عَلٰى صَلَوٰتِهِمۡ يُحَافِظُوۡنَ‌ۘ ۞

ترجمہ:

اور وہ لوگ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرنے والے ہیں

المئومنون : ٩ میں فرمایا اور وہ لوگ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرنے والے ہیں۔

نماز کو سستی اور غفلت سے پڑھنے اور وقت نکلنے کے بعد پڑھنے کی ممانعت 

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جو لوگ نماز کو اپنے قوت پر پڑھ لیتے ہیں اور نماز کو ضائع نہیں کرتے اور نماز کے وقت میں کسی اور کام میں مشغول نہیں ہوتے اور اس کا معنی یہ بھی ہے کہ جو لوگ نماز کو دائما پڑھتے ہیں 

حضرت ابو ذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تم پر ایسے حکام مسلط ہوں گے جو نماز کو اس کے وقت سے مئوخر کر کے پڑھیں گے یا نماز کا وقت ضائع کر کے پڑھیں گے میں نے پوچھا کہ اس صورت میں آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا تم نماز کو اس کے وقت میں پڑھ لو، پھر اگر تم نماز میں ان سے مل جائو تو پڑھ لو یہ تمہاری نفل نماز ہوگی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٣١ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٦٤٨ سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٧٦ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٢٥٧ )

حضرت انس (رض) نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں جو عبادت کے معمولات تھے میں اب ان میں سے کسی کو نہیں پہچانتا ان سے کہا گیا کہ نماز ؟ انہوں نے کہا کیا تم نماز میں بھی ان چیزوں کو ضائع نہیں کرچکے جن کو ضائع کرچکے ہو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٢٩ مطبوعہ دارارقم بیروت)

زہری بیان کرتے ہیں کہ میں دمشق میں حضرت انس بن مالک (رض) کے پاس گیا تو وہ رو رہے تھے، میں نے پوچھا آپ کو کیا چیز رلا رہی ہے، انہوں نے کہا میں جن چیزوں کو جانتا تھا اب ان میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہی سوا اس نماز کے اور یہ نماز بھی ضائع کی چکی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٣٠ دارارقم بیروت)

العلاء بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ ہم بصرہ میں ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد حضرت انس بن مالک (رض) کے گھر گئے اور ان کا گھر مسجد کے پہلو میں تھا، جب ہم ان کے پاس گئے تو انہوں نے پوچھا کیا تم لوگوں نے عصر کی نماز پڑھ لی ہے ؟ ہم نے کہا ہم تو ابھی ظہر کی نماز پڑھ کر آ رہے ہیں انہوں نے کہا عصر کی نماز پڑھو ہم نے ان کے ساتھ نماز پڑھی جب ہم نماز سے فارغ ہوگئے تو انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ منافق کی نماز کا وقت ہے، وہبیٹھ کر سورج کا اتنظار کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہوجاتا ہے تو وہ کھڑا ہو کر چار ٹھونگیں مار لیتا ہے اور وہ نماز میں بہت کم اللہ کا ذکر کرتا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٦٢٢ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤١٣ سنن الترمذیرقم الحدیث : ١٦٠ سنن النسائی رقم الحدیث : ٥١١)

اللہ تعالیٰ نے سستی اور غفلت سے نماز پڑھنے اور نماز ضائع کرنے کی بہت مذمت فرمائی ہے :

واذا قاموا الی الصلوۃ قاموا کسالی یرآئون الناس ولایذکرون اللہ الا قلیلاً (النسائ : ١٤٢) اور منافق جب نماز پڑھنے کھڑے ہوتے ہیں تو بہت سستی سے کھڑے ہوتے ہیں، لوگوں کو دکھانے کے لئے پڑھتے ہیں اور اللہ کا ذکر بہت کم کرتے ہیں۔

فویل للمصلین، الذین ھم عن صلاتھم ساھون، الذین ھم یرآئون، (الماعون :4-6) ان نمازیوں پر افسوس اور عذاب ہے، جو اپنی نماز سے غافل رہتے ہیں اور جو ریا کاری کرتے ہیں۔

حافظ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ نماز کو ضائع کرنے کا مطلب ہے نماز کا وقت نکلنے کے بعد نماز کو پڑھنا، امام ابن سعد نے الطبقات میں یہ حدیث بیان کی ہے : ثابت بانی بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت انس بن مالک (رض) کے ساتھ تھے حجاج نے نماز میں تاخیر کردی، حضرت انس نے ارادہ کیا کہ اس سے بات کریں تو ان کے دوستوں نے حضرت انس پر شفقت کرتے ہوئے ان کو اس سے منع کیا، پھر حضرت انس اپنی سواری پر بیٹھ گئے اور راستے میں کہہ رہے تھے کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں عبادت کے جو معمولات دیکھتا تھا اب ان میں سے کسی کو نہیں پاتا ماسوا لا الہ الا اللہ کی شہادت کے ایک شخص نے کہا اے ابو حمزہ ! اور نماز ! حضرت انس نے کہا تم ظہر کو مغرب کے وقت پڑھتے ہو کیا یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز تھی ؟ (فتح الباری ج ٢ ص ١٩٦ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤٢١ ھ)

علامہ ابوالحسین علی بن خلف بن عبدالملک المعروف بابن بطال المتوفی ٤٤٩ ھ لکھتے ہیں :

حضرت انس نے جو فرمایا تھا کہ تم نے نماز کو ضائع کردی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑگئے وہ عنقریب دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے۔

اس کی تفسیر میں یہ کہا گیا ہے کہ انہوں نے اس طرح نماز کو ضائع نہیں کیا تھا کہ نماز کو ترک کردیا تھا اگر وہ نماز کو ترک کردیتے تو وہ کافر ہوجاتے، لیکن انہوں نے نمازوں کو ان کے اوقات سے مئوخر کردیا تھا۔ (شرح صحیح البخاری لابن بطال ج ٢ ص ١٥٧ مطبوعہ مکتبتہ الرشد ریاض، ١٤٢٠ ھ) 

نماز کے اوقات ضائع کرنے سے مراد ہے وقت پر نماز نہ پڑھنا، جب جی چاہا نماز پڑھ لی، یا بلا عذر نمازیں اکٹھی کر کے سکیپھڑنا، کبھی دو نمازیں کبھی چار نمازیں اور کبھی پانچویں نمازیں اکٹھی کر کے پڑھنا، یہ تمام صورتیں نماز کو ضائع کر کے پڑھنے کی ہیں۔ اس کا مرتکب سخت گناہگار ہے اور وہ اس آیت میں مذکور و عید کا مستحق ہے، غی دوزخ کی ایک وادی کا نام ہے۔

علامہ ابن بطال نے نماز کو ضائع کرنے کی تفسیر اس کے مستحب وقت نکلنے کے بعد نماز پڑھنے سے کی ہے یہ صحیح نہیں ہے، نماز کو ضائع کرنا یہی ہے کہ نماز کا وقت نکلنے کے بعد اس کو پڑھا جائے جی اس کہ حفاظ ابن حجر نے طبقات کے حوالے سے بیان کیا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 9