أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَالَّذِيۡنَ هُمۡ لِفُرُوۡجِهِمۡ حٰفِظُوۡنَۙ ۞

ترجمہ:

اور جو لوگ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں

المئومنون : ٧-٥ میں فرمایا : اور جو لوگ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، سوا اپنی بیویوں کے یا باندیوں کے سو بیشک ان میں وہ ملامت کئے ہوئے نہیں ہیں اور جس نے ان کے علاوہ کسی اور کو طلبب کیا سو وہی لوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کرنے والے ہیں۔

بغیر نکاح کے باندیوں سے جنسی عمل کرنے کے جواز کی توجیہہ 

اس آیت میں یہ اجازت دی گئی ہے کہ انسان اپنی باندیوں سے بھی جنسی خواہش پوری کرسکتا ہے اور اس میں اس پر کوئی ملامت نہیں ہے، اس پر یہ اعتراض ہے کہ اسلام نے بغیر نکاح کے باندیوں سے جنسی خواہش پوری کرنے کی اجازت دی ہے اور بغیر نکاح کے جنسی عمل کرنا بہت معیوب اور ذموم فعل ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ نکاح سے جنسی عمل کرنے کے جواز کی کیا علت ہے ! نکاح میں دو گواہوں کے سامنے ایجاب اور قبول ہوتا ہے، لیکن اگر کوئی شخص پانچ عورتوں سے بیک وقت نکاح کر علت ہے ! نکاح میں دو گواہوں کے سامنے ایجاب اور قبول ہوتا ہے، لیکن اگر کوئی شخص پانچ عورتوں سے بیک وقت نکاح کرلے تو پانچویں عورت سے جنسی عمل جائز نہیں ہوگا حالانکہ اس کے ساتھ بھی گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول ہوا ہے، اسی طرح اگر دو بہنوں سے بیک وقت نکاح کرلے پھر بھی نکاح کے باوجود ان سے جنسی عمل جائز نہیں ہوگا اگر کسی مشرکہ سے نکاح کرلے تو گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کے باوجود اس سے جنسی عمل جائز نہیں ہوگا اور اگر کسی ایک مسلمان عورت سے ہی نکاح کرے تو اس سے بھی حیض اور نفاس کے ایام میں جسنی عمل جائز نہیں ہوگا حالانکہ ان تمام صورتوں میں ناح تو ہے تو پھر اس منکوحہ سے جنسی عمل کیوں جائز نہیں ہے اس کا ایک ہی جواب ہے کہ کسی عورت سے جنسی عمل کے جواز کی علت صرف نکاح نہیں ہے بلکہ اس کی علت اللہ تعالیٰ کی اجازت ہے وہ اگر اجازت نہ دے تو نکاح کے باوجود عورت سے جنسی عمل کرنا جائز نہیں ہے اور اگر وہ اجازت دے دے تو نکاح کے بغیر ہے وہ اگر اجازت نہ دے تو نکاح کے باوجودعورت سے جنسی عمل کرنا جائز نہیں ہے اگر وہ اجازت دے دے تو نکاح کے بغیر بھی باندیوں سے جنسی عمل کرنا جائز ہے۔

اس دور میں غلام اور باندی بنانے کا عدم جواز 

واضح رہے کہ اب دنیا میں غلاموں اور لونڈیوں کا چلن ختم ہوچکا ہے اسلام میں جنگی قیدیوں کو غلام اور لونڈیاں بنانا اس وقت مشروع تھا جب دشمن ہمارے جنگی قیدیوں کو غلام اور لونڈیاں بناتے تھے اور اب جبکہ تمام دنیا میں جنگی قیدیوں کو تبادلہ میں چھوڑ دیا جاتا ہے اور انسانوں کو غلام بنانا مذموم سمجھا جاتا ہے تو اسلام جو مکارم اخلاق کا سب سے بڑا داعی اور بملغ ہے، اس میں بھی اب جنگی قیدیوں کو غلام اور لونڈیاں بنانا جائز نہیں ہے۔ جنگی قیدیوں کے متعلق اسلام کی ہدایت یہ ہے :

فاذا لقتم الذین کفروا فضرب الرقاب حتی اذا اثخنتموھم قشدوا الوثاقفاما منا بعد واما فدآء حتی تضع الحرب اوزرھا (محمد : ٤) سو جب تمہارا کافروں سے مقابلہ ہو تو ان کی گردنوں پر وار کرو، حتیٰ کہ جب تم ان کا اچھی طرح خون بہا چکو تو ان کو مضبوطی سے باندھ کر گرفتار کرلو پھر خواہ تم ان پر احسان کر کے انہیں بلا معاوضہ آزاد کردو یا ان سے مالی یا جانی فدیہ لے کر انہیں آزاد کردو۔

مالی فدیہ سے مراد یہ ہے کہ ان سے رقم یا ہتھیار اور ساز و سامان لے کر انہیں آزاد کردیا جائے، اور جانی فدیہ سے مراد یہ ہے کہ ان کا اپنے جنگی قیدیوں سے تادبلہ کرلیا جائے۔ اس کی زیادہ تفصیل تبیان القرآن ج ٤ ص 276-682 میں ملاحظہ فرمائیں۔

عورتوں کا غلاموں سے جنسی عمل کرانا، ہم جنس پرستی، استمناء بالید اور متعہ 

اس جگہ ایک اور اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ جس طرح مردوں کے لئے جائز ہے کہ وہ بغیر نکاح کے اپنی باندھیوں سے جنسی عمل کریں کیا اس طرح عورتوں کے لئے بھی جائز ہے کہ وہ بغیر نکاح کے اپنے غلاموں سے جنسی عمل کرائیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ صریح فحشاء اور بےحیائی ہے اور قرآن مجید میں زنا اور بےحیائی کو سخت حرام فرمایا ہے اور مردوں کا پانی باندیوں سے جنسی عمل کرنا قرآن مجید کی متعدد نصوص اور بہ کثرت اور بہ کثرت احادیث سے جائز ہے اور اس ایٓتمیں بھی ماملکت ایمانھم کی ضمیر مذکر ہے جو مردوں کی طرف راجع ہے یعنی مرد جن باندیوں کے مالک ہیں ان سے بغیر نکاح کے جنسی عمل کرسکتے ہیں نہ یہ کہ عورتیں جن مردوں کی مالک ہیں ان سے جنسی عمل کرسکتی ہیں، اس آیت میں بیویوں اور باندیوں کے ماسوا سے جنتی لذت حاصل کرنے کو حرام فرمایا ہے، اس سے لواطت یعنی مردوں کا مردوں سے جنسی عمل کرنا یا عورتوں کا عورتوں سے جنسی لذت حاصل کرنا بھی حرام ہے، اسی طرح کوئی شخص اپنے ہاتھ سے یا اپنی ران سے رگڑ کر منی نکالے یہ بھی اس آیت سے حرام ہے، اس سلسلہ میں ایک حدیث بیان کی جاتی ہے ناکح الیدملعن ہاتھ سے ناح کرنے والا ملعون ہے۔ ملا علی قاری نے اس کے متعلق لکھا ہے :

اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے۔ (الاسرار المرفوعہ فی احادیث الموضوعہ ص ٢٥٧ مطبوعہ دارالباز مکہ مکرمہ ١٤٠٥ ھ)

علامہ ابو عبداللہ مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں کہ امام مالک سے استمناء بالید کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے اس آیت کو پڑھا۔ امام ابوحینفہ اور امام شافعی نے اس کو حرام کہا ہے الآ یہ کہ کسی شخص کو غلبہ شہوت کی وجہ سے اپنے نفس پر زنا کا خطرہ ہو، امام احمد بن حنبل نے باوجود بہت زیادہ پرہیز گار ہونے کے اس عمل کو جائز کہا ہے انہوں نے کہا یہ ضرورت کے وقت اپنے بدن سے فضلہ کو خارج کرنا ہے جیسے فصد لگواتے ہیں۔ (الجامع لا حکام القرآن جز ١٢ ص ٩٩ مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ )

اس آیت میں چونکہ بیویوں اور باندیوں کے سوا ہر طریقہ سے جنسی عمل کو حرام فرما دیا ہے اس لئے بعض مفسرین مثلاً امام رازی، عالمہ قرطبی اور علامہ آلوسی وغیرہ ہم نے اس آیت سے متعہ کو بھی حرام قرار دیا ہے کیونکہ ممنوعہ عورت کو بیوی نہیں کہا جاتا۔ بیوی شہر کی وارث ہوتی ہے اور ممنوعہ وارث نہیں ہوتی، بیوی کے لئے نکاح، طلاق، ایلاء ظہار اور عدت وغیرہ کے احکام ہیں جب کہ ممنوعہ کے لئے ان میں سے س کوئی حکم نہیں ہوتا اس لئے ممنوعہ بیوی نہیں ہے نہ باندی ہے اس لئے اس کے ساتھ بھی جنسی عمل ناجائز ہوا، لیکن یہ استدلال کمزور ہے کیونکہ یہ سورت مکی ہے اور مدینہ منورہ میں متعہ ہونا رہا تھا پھر سات ہجری میں غزوہ خیبر کے موقع پر متعہ کو پہلی بار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرام قرار دیا پھر فتح مکہ کے موقع پر اس کو تین دن کے لئے حلال قرار دیا اور پھر اس کو آخری بار قطعی طور پر آپ نے حرام قرار دے دیا، متعہ کی حرمت پر ہم اس آیت سے استدلال کرتے ہیں :

ویستعفف الذین لایجدون نکاحاً حتی یغنیھم اللہ من فضلہ (النور : ٣٣) اور جو لوگ نکاح کی طاقت نہیں رکھتے ان پر لازم ہے کہ وہ ضبط نفس کریں حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غیر مبہم الفاظ میں واضح فرما دیا ہے کہ اگر نکاح نہیں کرسکتے تو ضبط نفس کرو، اگر متعہ جائز ہوتا تو نکاح کی استطاعت نہ ہونے کی صورت میں معتہ کی اجازت دے دی جاتی اور جب متعہ کی اجازت کے بجائے ضبط نفس کا حکم دیا ہے تو معلوم ہوگیا کہ اسلام میں معتہ کے جواز کا کوئی تصور نہیں اور سورة نور مدنی ہے اس لئے سورة نور کی اس آیت سے حرمت متعہ پر استدلال کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ہم نے حرمت متعہ کی تفصیلی بحث النساء : ٢٤تبیان القرآن ج ٢ ص ٦٣٢- ٦٢٩ میں کی ہے دیکھیے۔

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 5