أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَجَاهِدُوۡا فِى اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ‌ؕ هُوَ اجۡتَبٰٮكُمۡ وَمَا جَعَلَ عَلَيۡكُمۡ فِى الدِّيۡنِ مِنۡ حَرَجٍ‌ؕ مِلَّةَ اَبِيۡكُمۡ اِبۡرٰهِيۡمَ‌ؕ هُوَ سَمّٰٮكُمُ الۡمُسۡلِمِيۡنَ ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَفِىۡ هٰذَا لِيَكُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَهِيۡدًا عَلَيۡكُمۡ وَتَكُوۡنُوۡا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ‌ ‌ۖۚ فَاَقِيۡمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَاعۡتَصِمُوۡا بِاللّٰهِؕ هُوَ مَوۡلٰٮكُمۡ‌ۚ فَنِعۡمَ الۡمَوۡلٰى وَنِعۡمَ النَّصِيۡرُ۞

ترجمہ:

اور اللہ کی راہ میں اس طرح جہاد کرو جس طرح جہاد کرنے کا حق ہے، اسی نے تم کو برگزیدہ بنایا ہے اور اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی، (یہ) تمہارے باپ ابراہیم کی ملت ہے، اس نے اس سے پہلے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے اور اس (قرآن) میں تاکہ رسول تم پر گواہ ہوں اور تم لوگوں پر گواہ ہو جائو، پس تم نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور اللہ کی رسی مضبوطی سے پکڑلو، وہی تمہارا مالک ہے تو کیسا اچھا مالک ہے اور کیسا اچھا مددگار ہے۔ ؏

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اللہ کی راہ میں اس طرح جہاد کرو جس طرح جہاد کرنے کا حق ہے، اسی نے تم کو برگزیدہ بنایا ہے اور اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی، (یہ) تمہارے باپ ابراہیم کی ملت ہے، اس نے اس سے پہلے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے اور اس (قرآن) میں، تاکہ رسول تم پر گواہ ہوں اور تم لوگوں پر گواہ ہو جائ، پس تم نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور اللہ کی رسی مضبوطی سے پکڑ لو، وہی تمہارا مالک ہے تو کیسا اچھا مالک ہے اور کیسا اچھا مددگار ہے۔ (الحج : ٧٨)

جہاد کا حق ادا کرنے کی متعدد تفاسیر 

اس سے پہلی آیت میں تین احکام شرعیہ بیان فرمائے تھے نماز پڑھنا، عبادت کرنا (یعنی اطاعت کو بہ طور عبادت کرنا) ، اور نیکی کے کام کرنا اور اس آیت میں چوتھا حکم بیان فرمایا اور وہ اللہ کی راہ میں اس طرح جہاد کرنا ہے جس طرح جہاد کرنے کا حق ہے۔ اللہ کی راہ میں اسطرح جہاد کرنا جس طرح جہاد کرنے کا حق ہے اس کی حسب ذیل تفسیریں کی گئی ہیں :

(١) اس سے مراد خصوصیت کے ساتھ جہاد کرنا ہے، یعنی یہ جہاد دنیا کے لئے کیا جائے نہ ناموری کے لئے نہ مال غنیمت کے حصول کے لئے، صرف اللہ کے دین کی سربلندی اور اس کی رضا کے حصول کے لئے جہاد کیا جائے۔

(٢) جس طرح ابتداء جہاد کیا گیا ہے اسی طرح انتہاء بھی جہاد کیا جائے کیونکہ ابتداء جو جہاد کیا جاتا ہے وہ زیادہ قوی ہوتا ہے اور اس میں مسلمان نسبتاً زیادہ ثابت قدم ہوتے ہیں، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا تم اس طرح جہاد کرو جس طرح تم نے پہلی بار جہاد کیا تھا۔ (جامع البیان رقم الحدیث :19201)

(٣) ابن جریج نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا تم اللہ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرو۔ (جامع البیان : ١٩٢٠٢)

(٤) ضحاک نے کہا اس کا معنی ہے اللہ کے احکام پر عمل کرنے کا حق ادا کرو۔ (جامع البیان رقم الحدیث :19203)

(٥) اللہ کے دین کے احیاء اور اس کی اشاعت کے لئے اور زبان اور قوت سے اس کی حدود کو قائم کرنے کے لئے اپنی مقدور کے مطابق جدوجہد کرو جہاں تک تم سے ممکن ہو سکے اور اپنے دلوں سے ناجائز خواہشوں اور اللہ سے غافل کرنے الی چیزوں کی محبت کو نکال دو ۔ (تفسیر کبیرج ٨ ص ٢٥٥ )

(٦) عبداللہ بن مبارک نے کہا جہاد کنے کا حق یہ ہے کہ اپنے نفس اور اپنی خواہشوں سے جہاد کرو، خطیب بغدادی نے حضرت جابر (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک غزوہ سے آئے تو آپ نے مسلمانوں سے فرمایا تم آگئے خوش آمدید ہو، تم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف آئے ہو۔ مسلمانوں نے کیا جہاد اکبر کی کیا تعریف ہے آپ نے فرمایا بندہ کا اپنی خواہشوں سے جہاد کرنا۔ (تاریخ بغداد ج ١٣ ص ٤٩٣) اس حدیث کا امام سیوطی اور امام علی متوقی ہندی نے بھی ذکر کیا ہے۔ (جمع الجوامع رقم الحدیث : ١٥٢٣٣، کنز العمال رقم الحدیث : ١١٢٦٢، ١١٧٧٩)

اس حدیث کو امام غزالی نے ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف لوٹ آئے اور عراقی نے کہا اس حدیث کو امام بیہقی نے کتاب الزھد میں حضرت جابر (رض) سے روایت کیا ہے اور اس کی سند ضعیف ہے (احیاء علوم الدین ج ٣ ص ٧، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤١٩ ھ، اتحاف السادۃ المتقین ج ٧ ص ٢١٨ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٤ ھ) علامہ سید محمد بن محمد بزیدی متوفی ١٢٠٥ ھ نے لکھا ہے کہ جہاد بالنفس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے نفس پر قہر کر کے عبادات کو انجام دینا اور معاصی کو ترک کرنا اس کو جہاد اکبر اس لئے فرمایا ہے کہ جو شخص اپنے نفس سے جہاد نہ کرسکے اور اپنے داخل سے مقابلہ نہ کرسکے وہ اپنے خارج اور اللہ کے دشمن سے کیسے مقابلہ کرسکے گا اس کا نفس جو اس کا دشمن ہے وہ اس کے دو پہلوئوں کے درمیان ہے وہ اس پر قاہر اور مسلط ہے اور جب تک وہ دشمن کے قمبالہ پر جانے کے لئے اپنے نفس سے جہاد نہیں کرے گا اس کے لئے خارجی دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے نکلنا ممکن نہیں ہوگا اس لئے اپنے نفس سے جہاد کرنا جہاد اکبر ہے اور خارجی دشمن سے جہاد کرنا جہاد اصغر ہے۔ (اتحاد السادۃ المتقین ج ٦ ص ٢٧٩)

(٧) علامہ قرطبی نے کہا جہاد کرنے کا حق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لئے نفس سے جہاد کیا جائے اور نفس کی خواہشات کو رد کردیا جائے، اور شیطان کے وسوسوں کی مخالفت کی جائے، ظالموں کے ظلم کو رد کرنے میں اور کافروں کے کفر کو رد کرنے میں جہاد کیا جائے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٢ ص ٩٢)

حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جسب سے عظیم جہاد ظالم حکمران کے سامنے انصاف کی بات کہنا ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢١٧٤ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٣٤٤ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠١١، تاریخ بغداد ج ٧ ص ٢٣٨ المسند الجامع رقم الحدیث : ٤٦١٦)

دین میں تنگی نہ ہونے کی متعدد و تفاسیر 

حضرت ابن عباس (رض) نے ماجعل علیکم فی الدین من حرج کی تفسیر میں فرمایا حرج کا معنی تنگی ہے۔ (جامع البیان رقم الحدی : ١٩٢٠٤، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جس دین کی تم عبادت کرتے ہو اس میں تم پر کوئی تنگی نہیں ہے، تم کو جن احکام کا مکلف کیا گیا ہے ان میں کوئی مشکل حکم نہیں ہے اور کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس کا کوئی حل نہ ہو، کوئی ایسی دشواری نہیں ہے جس کا کوئی مخرج نہ ہو، بعض چیزوں کا مخرج توبہ ہے، بعض چیزوں کا مخرج کفارہ ہے اور بعض چیزوں کا مخرج قصاص ہے۔ 

بعض چیزوں میں عزیمت کے مقابلہ میں رخص ہے، جو شخص کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا وہ بیٹھ کر نماز پڑھ لے، سفر میں چار رکعت کی نماز کی جگہ دو رکعت نماز پڑھ لے، روزہ نہ رکھے بعد میں قضا کرلے اس طرح بیمار کے لئے بھی روزہ قضا کرنے کی رخصت ہے اور جو شخص دائمی مریض ہو وہ روزے رکھنے کے بجائے فدیہ دے دے، اگر اس سے کوئی گناہ سر زد ہوجائے تو توبہ کرے، قتل خطا میں، قسم توڑنے میں، روزہ توڑنے میں اور بیوی کو یہ کہہ دیا کہ تیری پشت میری ماں کی پشت کی مثل ہے ان سب میں کفارہ کو مشروع کردیا، قسم توڑنے کے سوا باقی سب میں دو ماہ کے روزے ہیں اور قسم توڑنے کا کفارہ دس آدمیوں کا کھانا کھلانا یا دس مسکینوں کو پکڑے پہنانا یا تین روزے ہیں غضر دین میں کوئی تنگی نہیں ہے۔

امام عبدالرحمٰن بن محمد بن ادریس رازی المعروف بابن ابی حاتم متوفی 327 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے پوچھا اللہ تعالیٰ نے ہم سے کون سی تنگی اور حرج کو دوڑ کیا ہے انہوں نے کہا بنو اسرائیل پر جو مشکل احکام تھے ان کا بوجھ تم سے اتار دیا گیا ہے۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٤٠٣٣) حضرت ابن عباس نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا اللہ تعالیٰ نے اسلام میں تم پر وسعت رکھی ہے تمہارے لئے توبہ اور کفارہ کو مشروع کردیا ہے۔ (تفسیر امام ابن ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٤٠٣٤)

مقاتل بن حیان اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دین میں تہارے اوپر تنگی نہیں رکھی اور جو شخص بھی دین میں داخل ہو اس کے لئے وسعت اور گنجائش ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ ہر وہ حکم جو بندہ پر فرض کیا گیا ہے جب اس کی ادائیگی میں مشکل یا اضطرار ہو تو ضرورت کے وقت اس میں رخصت کو مشروع کیا گیا ہے، مسلمانوں پر چار رکعت نماز فرض کی گئی ہے لیکن سفر میں چار رکعات کے بجائے دو رکعت مشروع کردی گئی ہیں، جب کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر نماز نہ پڑھ سکے تو اشارہ سے نماز کو مشرع کردیا ہے۔ اگر دشمن کے خوف سے قبلہ کی طرف منہ نہ کرسکے تو چلتی سواری کا جس طرح منہ ہو اسی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے۔ اگر وضو یا غسل کے لئے پانی نہ ملے تو تمیم کرلے، مقیم پر روزہ فرض ہے اور مسافر کے لئے قضا کی رخصت ہے اسی طرح بیماروں، کمزوروں اور معذوروں کے لئے جہاد نہ کرنے کی بھی رخصت ہے، اگر سخت حج نہ کرنے کی بھی رخصت ہے، اس طرح بیماروں، کمزوروں اور معذوروں کے لئے جہاد نہ کرنے کی بھی رخصت ہے، اگر سخت بھوک کی وجہ سے منے کا خطرہ ہو اور کوئی حلال چیز دستیاب نہ ہو تو بہ قدر ضرورت حرام چیز کھانے کی بھی رخصت ہے اور اس حالت میں مردار، خون، حتی کہ خنزیر کا گوشت کھانے کی بھی رخصت ہے اور ان تمام امور کا ذکر قرآن مجید میں ہے، اللہ تعالیٰ نے اس امت پر یہ آسانی فرمائی ہے کہ اس کو اتنی کثیر رخصتیں عطا فرمائی ہیں۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :14036، ج ٨ ص 2507، 2506 مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، 1417 ھ) 

جب عزیمت (فرض) پر عمل کرنا مشکل ہو تو رخصت پر عمل کرنا فرض ہے 

اللہ تعالیٰ نے عزیمت (اصل حکم) کو بھی مشروع فرمایا ہے اور عذر کے وقت رخصت کو بھی مشروع فرمایا ہے کیونکہ اسلام دین فطرت اور دین یسر ہے اور جس طرح بلا عذر اصل حکم پر عمل نہ کرنا گناہ ہے اسی طرح عذر کے وقت رخصت پر عمل نہ کرنا بھی گناہ ہے۔ حضرت جابر بن عبد اللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارے لئے اللہ کی دی ہوئی ان رخصتوں پر عمل کرنا واجب ہے جو اس نے تم کو دی ہیں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١١١٥، رقم الحدیث المسلسل : ٢٥٧٣ کنز العمال رقم الحدیث : ٥٣٣٨)

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال رمضان میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ روانہ ہوئے آپ نے روزہ رکھ لیا، جب آپ کراع الغمیم میں پہنچے تو آپ نے پانی کا پیالہ منگوا کر اسے اوپر اٹھایا حتیٰ کہ لوگوں نے اسے دیکھ لیا، پھر آپ نے وہ پانی پی لیا، آپ کو بتایا گیا کہ بعض لوگ اپنے روزے پر برقرار ہیں آپ نے فرمایا وہ نافرمان ہیں ! وہ نافرمان ہیں ! ! (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١١١٤، سن الترمذی رقم الحدیث : ٧١٠، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٢٦٢ )

ابو طمعہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابن عمر (رض) کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ایک شخص نے آ کر کہا اے ابو عبدالرحمٰن ! میں سفر میں روزے رکھنے کی قوت رکھتا ہں، حضرت ابن عمر نے کہا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ کی دی ہوئی رخصتوں کو قبول نہیں کرتا اس کو (میدان) عرفہ کے پہاڑوں جتنا گناہ ہوگا۔ (مسند احمد ج ٢ ص ٧١ طبع قدیم، احمد شاکر نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے، حاشیہ مسند احمد ج ٥ ص ٥١ رقم الحدیث : ٥٣٩٢، مطبوعہ دارالحدیث قاہر ١٤١٦ ھ المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٤٥٣٢ اس کی روایت حضرت عقبہ بن عامر سے ہے، مجمع الزوائد ج ٣ ص ١٦٢ )

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ اپنی دی ہوئی رخصتوں پر عمل کرنے کو اس طرح پسند کرتا ہے جس طرح اپنی نافرمانی کو ناپسند کرتا ہے۔ (مسند احمد ج ٢ ص ١٠٨ قدیم احمد شاکر نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے، حاشیہ مسند احمد رقم الحدیث : ٥٨٧٣، دارالحدیث قاہرہ، ١٤١٦ ھ، مسند البزار رقم الحدیث : ٩٨٨، ٩٨٩ شعب الایمان رقم الحدیث : ٣٨٩٠)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس کو پسند کرتا ہے کہ اس کی دی ہوئی رخصت پر عمل کیا جائے جس طرح اس کو پسند فرماتا ہے کہ اس کے عزائم (فرائض) پر عمل کیا جائے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١١٨٨٠ مسند البز ارقم الحدیث : ٩٩٠ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣٥٤، حافظ الہیثمی نے کہا مسند البزار کے راوی ثقہ ہیں، مجمع الزوائد ج ٣ ص ١٦٢ شعب الایمان رقم الحدیث : ٣٨٨٩) کنز العمال رقم الحدیث : ٥٣٣٥) 

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو پسند کرتا ہے کہ اس کی دی ہوئی رخصتوں کو قبول کیا جائے جس طرح اس کو پسند کرتا ہے کہ اس کے عزائم (فرائض) پر عمل کیا جائے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٠٠٣٠ المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٢٦٠٢، حافظ الہیثمی نے کہا اس کی سند میں معمر بن عبداللہ انصاری ہے اس کی مرفوع حدیث کی متابعت نہیں کی جاتی مجمع الزوائد ج ٣ ص ١٦٢ کنز العمال رقم الحدیث : ٥٣٤١ )

حضرت عمار بن یاسر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک غزوہ میں گئے یہ ہم نے سخت گرمی میں سفر کیا تھا، ہم راستہ میں ایک جگہ ٹھہرے گئے ہم میں سے ایک شخص درخت کے نیچے جا کر لیٹ گیا، وہ بیمار لگتا تھا اور اس کے ساتھی اس کی تیمار داری کر رہے تھے، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو دیکھا تو پوچھا اس کو کیا ہوا ہے، لوگوں نے کہا یہ روزہ دار ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے تم کو جو رخصتیں دی ہیں ان کو لازم کرلو اور ان کو قبول کرو۔ (حافظ الہیثمی نے کہا اس حدیث کو امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے، مجمع الزوائد ج ٣ ص ١٦١ )

دین آسان ہے سو مشکل احکام نہ بتائے جائیں 

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

ومن کان مریضاً او علی سفر فعدۃ من ایام اخر یرید اللہ بکم الیسر ولا یریدیکم العسر (البقرۃ : ١٨٥) اور جو شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرے (روزے قضا کرے) اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ فرماتا ہے اور تمہیں مشکل میں ڈالنا نہیں چاہتا۔ اور اس باب میں حسب ذیل احادیث ہیں :

دین آسان ہونے کے متعلق احادیث اور آثار 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک دین آسان ہے اور جو شخص بھی دین پر غالب آنے کی کوشش کرے گا اس پر دین غالب آجائے گا، پس تم ٹھیک ٹھیک کام کرو، صحت اور درستگی کے قریب اور خوشی سے عبادت کرو، صبح اور شام اور کچھ رات کے وقت۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٩، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٥٠٤٩، مسند احمد رقم الحدیث : ٢٠٩٤٥ عالم الکتب بیروت)

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ تین شخص (حضرت علی بن ابی طالب، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص اور حضرت عثمان بن مظعون : مصنف عبدالرزاق) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کے حجروں میں گئے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت (کی مقدار) کے متعلق پوچھ گچھ کی، جب ان کو آپ کی عبادت کے متعلق بتایا گیا تو انہوں نے اتنی عبادت کو کم سمجھا اور کہا، کہاں ہم ! اور کہاں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے تو اگلے اور پچھلے تمام بہ ظاہر خلاف اولیٰ کاموں کی مغفرت کردی گئی ہے ان میں سے ایک شخص نے کہا رہا میں تو میں ہمیشہ پوری رات نماز پڑھوں گا اور دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزے رکھوں گا اور کبھی دن میں کھانا نہیں کھائوں گا اور تیسرے نے کہا اور میں کبھی نکاح نہیں کروں گا اور عورتوں سے الگ رہوں گا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے اور آپ نے فرمایا تم لوگوں نے اس اس طرح کہا ہے سنو ! اللہ کی قسم ! بیشک میں ضرور تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تم سب سے زیادہ متقی ہوں لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور دن میں کھاتا بھی ہوں اور سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تم سب سے زیادہ متقی ہوں لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور دن میں کھاتا بھی ہوں اور میرے طرقہ (محمودہ) پر نہیں ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٠٦٣ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٤١ سنن الداری رقم الحدیث : ٣٢١٦)

حضرت ابو مسعود انصاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا : یا رسول اللہ ! لگتا ہے کہ میں جماعت سے نماز نہیں پڑھ سکوں گا، کیونکہ فلاں شخص بہت لمبی نماز پڑھاتا ہے، تو میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نصیحت کرتے ہوئے کبھی اس قدر زیادہ غصہ میں نہیں دیکھا آپ نے نہیں دیکھا آپ نے فرمایا : اے لوگو ! تم (جماعت سے) متنفر کرتے ہو، سو جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے وہ تخفیف سے نماز پڑھائے کیونکہ نمازیوں میں بیمار بھی ہوتے ہیں، کمزور بھی ہوتے ہیں اور ضروری کام پر جانے والے بھی ہوتے ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٩٠ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث ١٩٨٤ ء السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٥٨٩١) 

حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اور حضرت معاذ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تو ان دونوں سے فرمایا : تم دونوں آسان احکام نافذ کرنا اور لوگوں کو مشکل میں نہ ڈالنا اور لوگوں کو خوش رکھنا اور ان کو متنفر نہ کرنا اور ایک دوسرے سے موافقت کرنا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦١٢٤، ٧١٧٢ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٣٣، ٢٠٠١ ء الرقم المسلسل : ٥١١٨ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٣٥٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٣٩١)

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آسان احکام بیان کرو اور لوگوں کو مشکل میں نہ ڈالو اور پر سکون رکھو اور لوگوں کو متنفر نہ کرو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦١٢٥ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٣٤ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٩٨٥)

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جب بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو چیزوں میں سے کسی ایک کا اختیار دیا کیا تو آپ نے اس چیز کو اختیار فرمایا جو زیادہ آسان ہو بہ شرطی کہ وہ گناہ نہ ہو، اگر وہ گناہ ہو تو آپ اس سے سب سے زیادہ دور ہونے والے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦١٢٦ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٧٨٥، موطا امام مالک رقم الحدیث : ٥٦٣، مسند احمد رقم الحدیث : ٢٥٠٢٦ عالم الکتب)

ازرق بن قیس کہتے ہیں کہ ہم (مقام) اھواز میں دریا کے کنارے نماز پڑھ رہے تھے، اس کا پانی خشک ہوچکا تھا، حضرت ابوبرزہ (رض) گھوڑی پر آئے اور گھوڑی کو چھوڑ کر نماز پڑھنے لگے، وہ گھوڑی چل پڑی، تو انہوں نے نماز کو چھوڑ کر گھوڑی کا پیچھا کیا اور گھوڑی کو واپس لا کر باندھ دیا پھر آ کر نماز پڑھی، ایک شخص نے ان کو دیکھ کر کہا اس بڈھے کو دیکھو نماز کو چھوڑ کر گھوڑی کو پکڑنے کے لئے چل دیا تھا، حضرت ابوبرزہ نے مڑ کر اس کو جواب دیا اور فرمایا جب سے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جدا ہوا ہوں مجھے کسی نے ملامت نہیں کی اور میرا گھر متراخ (ایک جگہ کا نام) میں ہے اور اگر میں نماز پڑھتا رہتا اور گھوڑی کو چھوڑ دیتا تو میں اپنے اہل کے پاس رات تک نہیں پہنچ سکتا تھا، اور انہوں نے بتایا کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی ہیں اور انہوں نے دیکھا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (عبادات اور احکام کو) آسان کرتے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦١٢٧ : ١٢١١)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نے آ کر مسجد میں پیشاب کردیا، لوگ اس کو مارنے کے لئے دوڑے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو چھوڑ دو ، اور اس کے پیشاب کے اوپر ایک ڈول یا دو ڈول پانی بہا دو ، کیونکہ تم آسانی پیدا کرنے کے لئے بھیجے گئے ہو اور مشکل میں ڈالنے کے لئے نہیں بھیجے گئے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦١٢٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٥، مسند احمد رقم الحدیث : ٧٧٨٦، عالم الکتب بیروت)

حضرت عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ غزوہ ذات السلاسل میں ایک سردی کی رات میں ان کو احتلام ہوگیا، انہوں نے کہا مجھ کو خطرہ تھا کہ اگر میں نے غسل کیا تو میں ہلاک ہو جائوں گا، میں نے تمیم کیا اور اپنے اصحاب کو صبح کی نماز پڑھا دی، لوگوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس واقعہ کا ذکر کیا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اے عمرو کیا تم نے جنبی ہونے کی حالت میں لوگوں کو نماز پڑھا دی، تب میں نے بتایا کہ میں نے بتایا کہ میں نے بتایا کہ میں نے کس وجہ سے غسل نہیں کیا تھا اور میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ پڑھتے ہوئے سنا ہے : لاتقتلوا انفسکم ان اللہ کان بکم رحیماً (النسائ : ٢٩) اپنے نفسوں کو قتل نہ کرو، اللہ تم پر بہت رحم فرمانے الا ہے۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٣٣٤) 

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں گئے ہم میں سے ایک شخص کے سر پر پتھر آ کر لگا جس سے اس کا سر پھٹ گیا۔ پھر اس کو احتلام ہوگیا اس نے اپنے اصحاب سے پوچھا کیا تم میرے لئے تمیم کی رخصت پاتے ہو، اس کے اصحاب نے کہا ہم تمہارے لئے تمیم کی رخصت نہیں پاتے تم پانی کے اسعتمال پر قادر ہو، اس نے غسل کیا جس سے وہ مرگیا، جب ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچے تو ہم نے آپ کو اس واقعہ کی خبر دی تو آپ نے فرمایا ان لوگوں کو اللہ مار ڈالے انہوں نے تو اس کو قتل کردیا جب ان کو اس صورتحال کے حکم کا علم نہیں تھا انہوں نے کسی (اہل علم سے) سے پوچھا کیوں نہیں ! جہالت کی شفاء سوال کرنے میں ہے، اس کے لئے تمیم کرنا کافی تھا یا وہ اپنے زخم پر کپڑا باندھ کر اس پر مسح کرلیتا پھر باقی جسم کو دھو لیتا۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٣٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٥٧٢)

ابوعروہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتظار کر رہے تھے آپ نے ایک پیر کو باہر نکالا اور وضو یا غسل کی وجہ سے آپ کے سر سے پانی کے قطرے گر رہے تھے، لوگ آپ سے پوچھ رہے تھے یا رسول اللہ ! ہم پر کوئی حرج ہے اگر ہم فلاں کام کرلیں ! آپ نے فرمایا نہیں اے لوگو، پھر آپ نے تین بار فرمایا بیشک اللہ کا دین آسان ہے۔ (مسند احمد ج ٥ ص ٦٩ طبع قدیم، مسند احمد رقم الحدیث : ٩٤٥، عالم الکتب)

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک یہ دین متین (مضبوط) ہے، اس میں نرمی کے ساتھ داخل ہو جائو۔ (مسند احمد ج ٣ ص ١٩٩، مسند احمد رقم الحدیث : ١٣٠٨٣ عالم الکتب) حضرت انس بن مالک، حضرت ابذر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اسلام نرم دین ہے اس میں نرمی کے ساتھ داخل ہونا چاہیے۔ (مسند احمد ج ٥ ص ١٤٥، مسند احمد رقم الحدیث : ٢١٦١٧ عالم الکتب بیروت، شعب الایمان رقم الحدیث : ٣٨٨٦)

حضرت ابوامامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے اوپر سختی نہ کرو (سخت اور مشکل کاموں کی نذر نہ مانو) تم سے پہلی امتیں اس لئے ہلاک ہوگئیں کہ انہوں نے اپنے اوپر سخت اور مشکل کاموں کو لازم کرلیا تھا (مثلاً رہبانیت) ان کے باقی ماندہ لوگوں کو تم کلیسائوں اور گرجوں میں دیکھو گے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٥٥٥١ مجمع الزوائد ج ١ ص ٦٢ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٤٨٨ شعب الایمان رقم الحدیث : ٣٨٨٤)

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فرائض کو ادا کرو اور رخصتوں کو قبول کرو اور لوگوں کو چھوڑو دو تم ان سے کفایت کرچکے ہو۔ (جمع الجوامع رقم الحدیث : ٧٨٦ کنز العمال رقم الحدیث : ٥٣٣٧) حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری امت کے سب سے افضل لوگ وہ ہیں جو رخصتوں پر عمل کرتے ہیں۔ (المعجم الکبیرج ١٩ ص ١٦٥ الصیحتہ للالبانی رقم الحدیث : ١٥٠٥ الجامع الصغیر رقم الحدیث : ١٣٠٠)

حضرت ابوقتادہ (رض) ایک اعرابی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارے دین میں سب سے بہتر وہ عبادت ہے جو سب سے آسان ہو، تمہارے دین میں سب سے بہتر وہ عبادت ہے جو سب سے آسان ہو۔ (دوبارہ فرمایا) (مسند احمد ج ٣ ص ٤٧٩ طبع قدیم، مسند احمد رقم الحدیث : ١٦٠٣٢ عالم الکتب بیروت)

حضرت ابراہیم کو مسلمانوں کا باپ فرمانے کی توجیہ 

اس کے بعد الحج : ٧٨ میں فرمایا یہ تمہارے باپ ابراہیم کی ملت ہے اس نے اس سے پہلے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے، اور اس (قرآن) میں تاکہ رسول تم پر گواہ ہوں اور تم لوگوں پر گواہ ہو جائوے 

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ مسلمانوں کو جن احکام شرعیہ کا مکلف فرمایا ہے وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام عرب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے محبت کرتے تھے کیونکہ وہ ان کی اولاد سے تھے اس تنبیہ سے مقصود یہ ہے کہ عرب کے مشرکین کو اسلام قبول کرنے پر اغب کیا جائے کہ آخر یہ تمہارے جد کریم کا دین ہے تم اس دین پر ایمان لانے سے کیوں گریز کر رہے ہو۔

اس آیت میں فرمایا یہ تمہارے باپ ابراہیم کی ملت ہے اور حضرت ابراہیم کو تمام مسلمانوں کا باپ فرمایا ہے، حالانکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تمام مسلمانوں کے باپ نہیں ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے باپ ہیں اور آپ اپنی تمام امت کے لئے بہ منزلہ باپ ہیں، کیونکہ باپ اولاد کی حیات کا سبب ہوتا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کی حیات ابدیہ کا سبب ہیں اور اخروی حیات کا سبب ہیں اور وہی حیات قابل شمار اور قابل ذکر ہے اور یا اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر عرب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں سو عرب کے لوگوں کو باقی امت پر غلبہ دے کر فرمایا وہ تمہارے باپ ہیں۔

ملت کا معنی 

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں : ملت کی اصل ہے املت الکتاب میں نے کتاب لکھوائی، قرآن مجید میں ہے :

ولیملل الذی علیہ الحق (البقرہ : ٢٨٢) فان کان الذی علیم الحق سفیھاً اوضعیفاً اولاً یستطیع ان یمل ھو فلیملل ولیہ بالعدل (البقرہ : ٢٨٢) اور جس کے ذمہ حق ہے وہ لکھوائے۔ پس جس کے ذمہ حق ہے اگر وہ کم عقل ہو یا کزور ہو یا لکھوانے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو پھر اس کا ولی عدل کے ساتھ لکھوائے۔

ملت کے معنی دین کی مثل ہے اور دین کا معنی ہے اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کی وساطت سے اپنے بندوں پر جو احکام مشرع اور مقرر فرمائے ہیں تاکہ اس کے بندے ان احکام پر عمل کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کریں اور ملت اور دین میں فرق یہ ہے کہ ملت کی اضافت صرف نبی کی طرف ہوتی ہے جیسے قرآن مجید میں ہے اتبعوا ملۃ ابراہیم (آل عمران : ٩٥) ملت ابراہیم کی پیروی کرو اور حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا و اتبعت ملۃ آباءی (یوسف : ٣٨) میں نے اپنے آبائو اجداد کی ملت کی پیروی کی ہے اور ملت کی اضافت اللہ کو طرف نہیں کی جاتی اور نہ نبی کی امت کے افراد کی طرف کی جاتی ہے اس کا استعمال صرف حاملین شریعت کے لئے ہوتا ہے ان کے افراد کی طرف نہیں ہوتا، اس لئے اللہ کی ملت اور میری ملت اور زید کی ملت نہیں کہا جاتا جس طرح اللہ کا دین اور زید کا دین اور میرا دین کہا جاتا ہے۔ 

علامہ راغب اصفہانی کی اس تقریر پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں باطل مذاہب پر بھی ملت کا اطلاق کیا ہے، حضرت یوسف نے فرمایا : انی ترکت ملۃ قوم لایومنون یب اللہ وھم بالاخرۃ ہم کفرون (یوسف : ٣٧) میں نے ان لوگوں کا مذاہب چھوڑ دیا جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور وہ آخرت کا بھی کفر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کا قول نقل فرمایا :

ماسمعنا بھذا فی الملۃ الاخروان ھذا الا اختلاق (ص : ٧) ہم نے یہ بات پچھلی ملت میں (بھی) نہیں سنی یہ صرف من گھڑت بات ہے۔

کفار کا مطلب یہ تھا کہ یہ نبی جو توحید کی دعوت دے رہے ہیں یہ ان کی خود ساختہ دعوت ہے ورنہ عیسائیت میں بھی دوسروں کو اللہ کے ساتھ شریک بنایا گیا ہے۔

ان آیات میں باطل مذاہب پر بھی ملت کا اطلاق کیا گیا ہے اور یہ اطلاق علامہ راغب کے بیان کئے ہوئے معنی کے خلاف ہیں۔

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اطلاقات مجاز ہیں ورنہ ملت حقیقت میں اس دستور الٰہی کا نام ہے جو انبیاء کے واسطہ سے انسانوں کی طرف بھجیا جاتا ہے، یکن اگر کبھی انسان اس دستور میں تحریف کرلیں تب بھی اس پر ملت کا اطلاق کردیا جاتا ہے۔

علامہ راغب نے دین اور ملت میں یہ فرق بھی کیا ہے کہ دین کا معنی اصل میں اطاعت ہے پس اللہ کے بھیجے ہوئے دستور میں یہ لحاظ کیا جائے کہ انبیاء اس دین کو قائم کریں گے اور لوگ اس دستور کی اطاعت کریں گے تو اس دستور کو دین کہتے ہیں اور اگر اس دستور میں صرف یہ لحاظ کیا جائے کہ وہ اللہ کا مشروع اور مقرر کیا ہوا دستور ہے تو اس کو ملت کہتے ہیں۔ (المفردات ج ٢ ص ٦١، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ)

ملت سے یہاں پر دین کے اصول اور فروع مراد ہیں یعنی عقائد اور احکام شرعیہ یا صرف احکام شرعیہ مراد ہیں۔ (روح المعانی جز ١٧، ص ٣١٠)

حضرت زید بن ارقم (رض) بیان کرتے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب نے کہا :

یا رسول اللہ ماھذہ الاضاحی قال سنۃ ابیکم ابراہیم، یا رسول اللہ یہ قربانیاں کیا ہیں فرمایا تمہارے باپ ابراہیم کی سنت ہیں۔

انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ اس میں ہمارے لئے کیا اجر ہے ؟ فرمایا ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ہے انہوں نے کہا یا رسول اللہ اگر اون ہو تو فرمایا اون کے ہر بال کے بدلہ میں ایک نیکی ہے۔ (اس حدیث کی سند ضعیف ہے لیکن فضائل اعمال میں سند ضعیف بھی معتبر ہوتی ہے) (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣١٢٧، مسند احمد ج ٤ ص ٣٦٨ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٧٠٧٥ المسند الجامع رقم الحدیث : ٣٨٠٦)

امام رازی نے یہ اعتراض قائم کیا ہے کہ اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملت یہ ہے کہ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی الگ اور مخصوص شریعت نہیں ہے، پھر امام رازی نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی الگ اور مخصوص شریعت نہیں ہے، پھر امام رازی نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ آیت بت پرستوں کے لئے اتری ہے گویا اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا کہ اللہ کی عبادت کرنا اور بت پرستی کو ترک کرنا یہ ملت ابراہیم ہے یعنی ملت کا تعلق صرف عائد سے ہے اور باقی تمام احکام شرعیہ مفصلہ کا اس اتباع سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ (تفسیر کبیرج ٨ ص ٢٥٦ )

ممکن ہے کہ امام رازی کا جواب صحیح ہو لیکن ہمارے نزدیک اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ تمام احکام شرعیہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اتباع نہیں کی جاتی حتی کہ یہ اعتراض ہو کہ پھر ہمارے نبی کی الگ مخصوص شریعت نہیں رہی بلکہ صرف مناسک حج، قربانی اور طہارت کی دس سنتوں (ختنہ، زیرناف بالوں کو کاٹنا، ناخن تراشنا، کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، ڈاڑھی بڑھانا، مونچھیں کم کرانا وغیرہ) میں ان کی اتباع کی جاتی ہے اور باقی تمام احکام شرعیہ میں ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کی جاتی ہے اور اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مناسک حج اور قربانی میں آپ کی مطلقاً اتباع نہیں ہے بلکہ اس میں بھی آپ کی مخصوص شریعت ہے ایک دفعہ مفتی سید شجاعت علی قادری (رح) نے مجھ سے کہا بعض آزاد خیال لوگ یہ کہتے ہیں کہ حج میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی فعل کی اتباع نہیں ہے صفا اور مروہ کی سعی میں حضرت ہاجرہ کی اتباع ہے، شیطان کو کنکریاں مارنے میں اور طواف کرنے میں حضرت ابراہیم کی اتباع ہے اور قربانی دینے میں حضرت اسماعیل کی اتباع ہے، میں نے کہا یہ غلط ہے، طواف کے ابتدائی تین چکروں میں جو رمل کیا جاتا ہے اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع ہے اور حجر اسود کو بوسہ دینے اور رکن یمانی کی تعظیم کرنے میں صرف ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع ہے، اس سلسلہ میں حسب ذی احادیث ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب (عمرہ حدیبیہ کی قضاء کرنے) مکہ میں آئے تو مشرکین نے ان کو دیکھ کر کہا تمہارے پاس ایک وفد آ رہا ہے جس کو یثرب کے بخار نے کمزور کردیا ہے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب کو کم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل کریں (کندھے ہلاتے ہوئے بھاگ بھاگ کر طواف کریں) اور حجر اسود اور کن یمانی کے درمیان آہستہ آہستہ چلیں اور طواف کے باقی چکروں میں رمل کا اس لئے حکم نہیں دیا کہ وہ اپنی اص پر باقی رہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٦٠٢ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٢٦٤ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٨٨٥)

زید بن اسلم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے حجر اسود کو مخاطب کر کے کہا مجھے خوب علم ہے کہ تو ایک پتھر ہے کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع پہنچ اسکتا ہے اور اگر میں نے یہ نہ دیکھا ہوتا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تجھے بوسہ دیا ہے تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا پھر حضرت عمر نے اس کو بوسہ دیا، پھر کہا ہمیں رمل کرنے کی کیا ضرورت ہے ! ہم مشرکین کو (اپنی طاقت) دکھانے کے لئے رمل کرتے تھے اور اب اللہ مشرکین کو ہلاک کرچکا ہے، پھر کہا جس فعل کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا ہے ہم اس کو ترک کرنا نہیں چاہتے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٦١٠، ١٦٠٥، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٣٩١٨)

عبید بن جریج بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے پوچھا کیا وجہ ہے کہ آپ (کعبہ کے ارکان میں سے) صرف حجر اسود اور رکن یمانی کی تعظیم کرتے اور باقی ارکان کی تعظیم نہیں کرتے ؟ حضرت ابن عمر نے جواب دیا اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صرف ان ہی دو رکنوں کی تعظیم کرتے ہوئے دیکھا ہے (کعبہ کے ارکان سے مراد خانہ کعبہ کے چار کونے ہیں پہلے دو کونوں کو حجر اسود اور رکن یمانی کہتے ہیں اور حطیم کی جانب پچھلے دو کونوں کو رکن عراقی اور رکن شامی کہتے ہیں۔ ) (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٦٦ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١١٨٧ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٧٧٢ سنن النسائی رقم الحدیث : ١١٧ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٦٢٦ )

حج میں احرام باندھنا حضرت ابراہیم کی سنت ہے لیکن احرام میں جو کام منع ہیں اور جو جائز ہیں یہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان کئے ہیں اور یہ آپ کی شریعت ہے، احرام باندھنے کے لئے جو مختلف میقات ہیں یہ آپ نے بیان فرمائے ہیں اور یہ آپ کی شریعت ہے، نفس طواف حضرت ابراہیم کی سنت ہے اور طواف قدوم، طواف زیارت اور طواف و داع کا تعین یہ آپ کی شریعت ہے، جس طواف کے بعد سعی ہو اس میں رمل کرنا یہ آپ کی شریعت ہے، مقام ابراہیم پر نماز پڑھنا یہ آپ کی شریعت ہے، رمی، ذبح اور حق کی ترتیب یہ آپ کی سنت ہے، حج افراد، حج تمتع اور حج قرآن کا تعین یہ آپ کی شریعت ہے اور جنایات میں دم دینے کا تعین بھی آپ نے کیا ہے۔

نفس قربانی حضرت ابراہیم یا حضرت اسماعیل کی سنت ہے قربانی کے جانوروں کی اصناف اونٹ، گائے اور بکری کا تعین یہ آپ کی شریعت ہے، اونٹ اور گائے میں سات آدمیوں کی شرکت یہ آپ کی شریعت ہے، ان جانوروں کی کیا عمریں ہونی چاہیں اور کن عیوب سے ان کو خالی ہونا چاہیے یہ آپ نے بیان فرمایا ہے کہ یہ آپ کی شریعت ہے، قربانی کرنا نماز عید کے بعد معتبر ہے نماز عید سے پہلے قربانی کرنا معتبر نہیں ہے یہ آپ نے بیان فرمایا ہے کہ یہ آپ کی شریعت ہے، قربانی کرنا نماز عید کے بعد معتبر ہے نماز عید سے پہلے قربانی کرنا معتبر نہیں ہے یہ آپ کا ارشاد ہے اور یہ آپ کی شریعت ہے۔

غرض مناسک حج اور قربانی میں نفس حج اور نفس قربانی تو ملت ابراہیم ہے لیکن اس کی تمام تفصیلات اور تمام جزئیات آپ نے بیان فرمائی ہیں حج کے فرئاض، واجبات، آداب اور ممنوعات اور ممنوعات کے ارتکاب پر دم اور تاوان کا تعین یہ سب آپ نے کیا ہے اور یہ تمام امرو آپ کی شریعت ہیں اور ہم تو کہتے ہیں کہ حج اور قربانی کو اور طہارت کی سنتوں کو بھی ہم اس نیت سے کرتے ہیں کہ یہ کام آپ نے کئے ہیں خواہ آپ نے حضرت ابراہیم کی سنت اور ملت کی وجہ سے حج کیا ہو اور قربانی کی ہو لیکن ہم اس لئے حج کرت یہیں کہ آپ نے حج کیا ہے اور اس لئے قربانی کرتے ہیں کہ آپ نے قربانی کی ہے، یہ درست ہے کہ ہم کو ملت ابراہیم کی پیروی کا حکم ہے لیکن ہم ملت ابراہیم کی پیروی شریعت محمد میں کرتے ہیں۔

اس امت کا نام امت مسلمہ اللہ نے رکھا ہے یا حضرت ابراہیم نے !

نیز اس آیت میں فرمایا اس نے اس سے پہلے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے اور اس میں۔

اس آیت کے دو محمل ہیں ایک یہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے تمہارا نام مسلمان رکھا کیونکہ ہر نبی کی دعا مقبول ہوتی ہے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دعا کی تھی :

ربنا واجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنا امۃ مسلمۃ لک (البقرہ : ١٢٨) اے ہمارے رب ! ہمیں اپنے لئے مسلمان (اطاعت گزار) رکھ اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک امت کو مسلمان رکھ۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس دعا کو قبول فرمایا اور سیدنا محد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کو امت مسلمہ بنادیا۔ اس آیت کا دوسرا محمل یہ ہے کہ ضمیر اللہ کی طرف راجع ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارا نام امت مسلمہ رکھا ہے۔

امام ابو جعفر محدم بن جریر طبری متوفی 310 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس (رض) ، قتادہ، مجاہد اور ضحاک کا قول یہ ہے کہ اللہ نے تمہارا نام مسلمین رکھا ہے۔ (جامع البیان جز ١٧ ص ٢٧١ مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

ابن زید نے یہ کہا ہے کہ حضرت ابراہیم نے تمہارا نام مسلمین رکھا ہے، امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ ابن زید کا قول بلا دلیل ہے کیونکہ یہ معلوم ہے کہ حضرت ابراہیم نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کا نام قرآن میں مسلمین نہیں رکھا، کیونکہ قرآن مجید حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بہت عرصہ بعد نازل ہوا ہے۔ (جامع البیان جز ١٧ ص ٢٧٢-٢٧١ مطبوعہ دارالفکر بیروت)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم کے عموم پر علامہ آلوسی کے اعتراضات 

اس کے بعد الحج : ٧٨ میں فرمایا تاکہ رسول تم پر گواہ ہوں اور تم لوگوں پر گواہ ہو جائو۔

علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

حدیث میں وارد ہے کہ قیامت کے دن نبیوں کو اور ان کی امتوں کو لایا جائے گا پھر انبیاء (علیہم السلام) سے سوال کیا جائے گا کیا آپ لوگوں نے اپنی اپنی امتوں کو تبلیغ کی تھی وہ گواہیدیں گے کہ انہوں نے تبلیغ کی تھی ان سے کہا جائے گا تم کو اس کا کیسے پتا چلا وہ کہیں گے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبان سے ہم کو اس کی اپنی کتاب میں خبر دی ہے۔

یا اس آیت کا معنی یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ شہادت دیں گے کہ فلاں شخص نے اطاعت کی ہے اور فلاں شخص نے معصیت کی ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں کی اطاعت اور معصت کا ان علامات سے پتا چلے گا جو اللہ تعالیٰ اس دن نیکوں اور گناہگاروں میں نیکی اور گناہ کی علامت رکھے گا اور آپ اس علامت سے پہچان لیں گے اور اس وجہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لوگوں کی اطاعت اور معصیت کی گواہی دینا صحیح ہوگا۔

اور یہ جو بعض احادیث میں ہے کہ بزرخ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوپر ہر ہفتہ یا اس سے کم دن میں امت کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں یہ احادیث اگر صحیح بھی ہوں تو یہ علم قطعی اور یقین کا فائدہ نہیں دیتیں اور شہادت کے لئے علم قطعی اور یقین کی ضرورت ہے اور ان احادیث پر یہ اشکال بھی ہے کہ مسند احمد اور صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں وارد ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن میرے پاس حوض پر میرے اصحاب آئیں گے حتیٰ کہ جب میں ان کو دیکھ لوگوں گا اور پہچان لوں گا تو میں کہوں گا میرے اصحاب ! میرے اصحاب ! تو مجھ سے کہا جائے گا آپ اپنی عقل اور قیاس سے نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا بدعتیں نکالیں اور نئے کام کئے۔ امت کے اعما پیش کئے جانے والی احادیث اگر صحیح ہوں تو خواہ وہ یقین اور علم قطعی کا فائدہ دیں یا نہ دیں اس حدیث سے ان پر اشکال ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ جس وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کو دیکھا اس وقت آپ کے ذہن میں یہ مستحضر نہیں تھا کہ یہ لوگ دین میں کیا بدعات نکال چکے ہیں یعنی اس طرف آپ متونہ نہیں تھے اس سے آپ کے علم کی نفی نہیں ہوتی اور یہ حدیث ان احادیث کے خلاف نہیں ہے کہ آپ پر امت کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں اور چونکہ آپ کی توجہ ان کی بدعات کی طرف نہیں تھی اس لئے آپ نے وہ فرمایا جو فرمایا۔

اور یہ جو فرشتوں نے کہا آپ اپنی عقل سے نہیں جانتے اس سے آپ کی وفات کے بعد بدعات کے ارتکاب کے جرم کی سنگینی مراد ہے یہ مراد نہیں ہے کہ آپ کو علم نہیں ہے، جو شخص آپ کی وفات کے بعد نیکی کرتے ہوئے مرایا جو شخص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات میں گناہ کرتا ہوا مرا اس کے اعما آپ کے سامنے پیش کئے جانے کا کسی حدیث میں ذکر نہیں ہے اور یہ کہنا کہ ایسے شخص کا وجود نہیں ہے بہت بعید ہے اور جس نے یہ کہا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امت کے اعمال کا علم ہے اور آپ ہر شخص کو جانتے ہیں خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ اور اسی وجہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی اطاعت یا معصیت کے متعلق قیامت کے دن گواہی دیں گے اس کے اس قول پر کوئی دلیل نہیں ہے اور اس آیت سے استدلال کرنے میں یہی بحث ہوگی۔ علاوہ ازیں جب حضرت عائشہ (رض) پر تہمت لگائی تھی، وہ حدیث نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم کے عموم اور شمول کے خلاف پر دلالت کرتی ہے۔ (روح المعانی جز ١٧ ص ٣١٢-٣١١ مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٧ٌ)

علامہ آلوسی کے اعتراضات کے جوابات اور آپ کے علم کے عموم کا دفاع 

علامہ آلوسی کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ یہ آیت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم کے عموم پر دلالت نہیں کرتی کیونکہ یہ آیت اس باب میں قطعاً نص صریح ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام مسلمانوں کے اوپر شاہد اور گواہ ہیں، اور شہادت میں اصل یہ ہے کہ واقعہ کا مشاہدہ کر کے گواہیدی جائے اور بغیر علم کے گواہی دینا جائز نہیں ہے اور جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام مسلمانوں کے اعمال پر شاہد اور گواہ ہیں تو ضروری ہوا کہ آپ کو تمام مسلمانوں کے اعمال کا علم ہو، اور اگر کچھ روایات اس کے خلاف ہیں تو اگر ان کی توجیہہ ممکن ہو تو ان کی توجیہ کی جائے گی ورنہ اس نص قطعی کے مقابلہ میں ان روایات کو ترک کردیا جائے گا اس بحث میں ان کی توجیہہ ممکن ہو تو ان کی توجیہ کی جائے گی ورنہ اس نص قطعی کے مقابلہ میں ان روایات کو ترک کردیا جائے گا، اس بحث میں پہلے ہم مستند تفاسیر کے حوالوں سے یہ بیان کریں گے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی تمام امت کے اعمال پر شاہد ہیں پھر اس کی تائید میں احادیث کا ذکر کریں گے اور خود علامہ آلوسی کی عبارت سے آپ کے علم کا عموم بیان کریں گے اور آخر میں ان روایات کا محمل بیان کریں گے جن کو علامہ آلوسی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم کے عموم کے خلاف سمجھا ہے۔ قنقول وباللہ التوفیق :

مشہور مفسر قاضی عبداللہ بن عمر بیضاوی متوفی ٦٨٢ ھ اس اشکال کا جواب دیتے ہیں کہ جب شہادت کے بعد علی کا ذکر ہو تو اس کا معنی عربی قواعد کے مطابق کسی کے خلاف گواہی دینا ہوتا ہے اور یہاں مقصود یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امت کے حق میں ان کے نیک ہونے اور ان کی شہادت کے صادق اور برحق ہونے کی شہادت دیں، پس قاضی بیضاوی لکھتے ہیں :

اس آیت میں شہید کا لفظ رقیب اور مھیمن (نگہبان) کے معنی کو متضمن ہے اور علیٰ کا لفظ شہادت کا صلہ نہیں ہے بلکہ رقیب کا صلہ ہے اور اس کا معنی ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت پر نگہبان اور ان کے احوال پر مطلع ہیں۔

علامہ احمد بن محمد خفا جی حنفی متوفی ١٠٦٩ ھ قاضی بیضاوی کی اس عبارت کی شرح میں لکھتے ہیں :

جب شہادت کا صلہ عل یٰ ہو تو اس کا معنی کسی کے خلاف شہادت دینا ہوتا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شہادت امت یہ جواب دیا کہ یہاں شہید کا لفظ رقیب اور مھیمن کے معنی کو متضمن ہے کیونکہ جو شخص کسی تزکیہ کرتا ہے وہ اس کے احوال کو جاننے والا ہوتا ہے۔ (عنایۃ القاضی علی تفسیر البیضایو ج ٢ ص ٤١٢ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٧ ھ)

شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی متوفی ١٢٣٩ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

یعنی تمہارے رسول تمہارے اوپر گواہ ہیں کیونکہ وہ نور نبوت سے ہر دین دار کے دین پر مطلع ہیں کہ وہ میرے دین کے کس درجہ پر پہنچا ہوا ہے اور اس کے ایمان کی حقیقت کیا ہے جس حجاب کی وجہ سے وہ دین میں ترقی نہ کرسکا وہ کون سا ہے پس وہ تمہارے گناہوں اور ایمان کے درجات اور تمہارے اچھے اور برے اعمال اور اخلاص و نفاق کو پہچانتے ہیں اس لئے امت کے دنیاوی امور میں آپ کی گواہی بہ حق شرع مقبول اور واجب العمل ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو اپنے زمانہ کے حاضرین مثلاً اصحاب و ازواج و اہل بیت (رض) اجمعین یا غائبین مثلاً اویس و مہدی اور مفتون دجال کے فضائل و مناقب بیان فرمائے ہیں یا اپنے زمانہ کے حاضر و غائب لوگوں کے عیوب و قبائح بیان فرمائے ہیں ان پر اعتقاد رکھنا واجب ہے اور اسی قبیل سے ہے جو روایات میں آیا ہے کہ ہر نبی کو اپنی امت کے اعمال پر مطلع کیا جاتا ہے کہ فلاں آج یہ کرتا ہے اور فلاں یہ تاکہ قیامت کے دن ان پر گواہی دے سکیں۔ (تفسیر عزیزی (فارسی) ج ١ ص ٦٣٢ مطبوعہ ہند)

قرآن مجید کی اس آیت کریمہ اور مستند اور مسلم مفسرین نے جو اس کی تفسیر کی ہے اس سے یہ واضح ہوگیا کہ قیامت کے دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی امت کے ایمان اور اس کے درجات کا اور ان کے اعمال کا علم ہوگا اس کے علاوہ بہ کثرت احادیث میں بھی اس پر دلیل ہے :

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن نوح کو بلایا جائے گا وہ کہیں گے اے میرے رب ! میں حاضر ہوں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا تم نے تبلیغ کی تھی وہ کہیں گے ہاں، پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا آیا انہوں نے تم کو تبلیغ کی تھی اور اس کی تصدیق اس آیت میں ہے : وکذلک جعلنکم امۃ و سطا لتکونوا شھدآء علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیداً (البقرہ : ١٤٣) (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٤٨٧، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٩٦١، صحیح ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢٨٤ مصنف ابن ابی شیبہ ج ١١ ص ٤٥٤، مسند احمد ج ٣ ص ٩ مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ١١٧٣، کتاب الاسماء الصفات ص ٢١٦)

حضرت ابو ذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جھ پر میری امت کے اعمال پیش کئے گئے نیک اور بد میں نے نیک اعمال میں یہ (عمل) پایا کہ راستہ سے کوئی تکلیف وہ چیز ہٹا دی جائے اور برے اعمال میں یہ پایا کہ مسجد میں ناک کی رینٹ ڈال دی جائے اور اس کو دفن نہ کیا جائے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٥٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٦٨٣، مسند احمد ج ٥ ص ١٨٠، ١٧٨ صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ١٣٠٨)

حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک جب اللہ اپنے بندوں میں سے کسی امت پر رحمت کا ارادہ فرماتا ہے تو اس امت سے پہلے اس کے نبی کی روح کو قبض فرما لیتا ہے اور اس کو ان کے لئے صالح پیش رو اور ان کی خیر اور فلاح کا منتظم بنا دیتا ہے اور وہ ان کے حق میں نیکی کی گواہی دیتا ہے اور جب اللہ کسی امت کی ہلاکت کا ارادہ فرماتا ہے تو نبی کی زندگی میں اس امت کو عذاب میں مبتلا کر کے ہلاک کردیتا ہے اور اس کو ہلاک کر کے نبی کی آنکھیں ٹھنڈی کردیتا ہے، کیونکہ انہوں نے نبی کی تکذیب کی تھی اور اس کی نافرمانی کی تھی۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٨٨، المسند الجامع رقم الحدیث : ٨٩٢٨ البدایہ والنہایہ ج ٤ ص ٢٥٧- ٢٥٦ )

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان رتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری حیات تمہارے لئے بہتر ہے، تم باتیں کرتے ہو اور تمہارے لئے احادیث بیان کی جاتی ہیں اور میری وفات (بھی) تمہارے لئے بہتر ہے، تمہارے اعمال مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں میں جو نیک عمل میں جو نیک عمل دیکھتا ہوں اس پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہوں اور میں جو برا عمل دیکھتا ہوں اس پر تمہارے لئے استغفار کرتا ہوں۔ (الطبقات : الکبریٰ ج ٢ ص ١٤٩، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ مسند البز اور رقم الحدیث : ٨٤٥، الوفاء ص ٨١٠ مجمع الزوائد ج ٩ ص ٢٤، البدانیہ والنہایہ ج ٤ ص ٢٥٧ الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٣٧٧١)

ان کے علاوہ بعض دیگر احادیث میں ایسے واقعات مذکور ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کو امت کے احوال اور اعمال کا علم ہوتا ہے، حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ یا مکہ کے باغات میں سے ایک باغ میں گزرے، آپ نے دو ایسے انسانوں کی آواز سنی جن کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا تھا آپ نے فرمایا ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی ایسے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جارہا ہے جس سے بچنا بہت دشوار ہو، پھر فرمایا کیوں نہیں ! ان میں سے ایک پیشاب کے قطروں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا تھا، پھر آپ نے درخت کی ایک شاخ منگائی پھر اس کے دو ٹکڑے کئے اور ہر قبر پر ایک ٹکڑا نصب کردیا، آپ سے کہا گیا، یا رسول اللہ ! آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ آپ نے فرمایا جب تک یہ ٹہنیں خشک نہیں ہوں گی ان کے عذاب میں تخفیف رہے گی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢١٦ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٩٢ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٠ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٧٠، سنن النسائی رقم کرتی ہیں ان میں سے بعض احادیث یہ ہیں۔

(١) حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں تشریف فرما ہوئے اور قیامت تک جو امور پیش ہونے والے تھے آپ نے ان میں سے کسی کو نہیں چھوڑا اور وہ سب امور بیان کردیئے جس نے ان کو یاد رکھا اس نے یاد رکھا اور جس نے ان کو بھلا دیا اس نے بھلا دیا، اور میرے ان اصحاب کو ان کا علم ہے، ان میں سے کئی ایسی چیزیں واقع ہوئیں جن کو میں بھول چکا تھا جب میں نے ان کو دیکھا تو وہ یاد آگئیں، جیسے کوئی شخص غائب ہوجائے تو اس کا چہرہ دیکھ کر اس کو یاد آجاتا ہے کہ اس نے اس کو دیکھا تھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٦٠٤، صحیح مسلم الجنتہ ٢٣ (٢٨٩١) ٧١٣٠، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٢٤٠، جامع الاصول ج ١١ رقم الحدیث : ٨٨٨٣) 

(٢) حضرت ابو زید عمرو بن اخطب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم کو صبح کی نماز پڑھائی اور منبر پر رونق افروز ہئے، پھر آپ نے ہمیں خطبہ دیا حتیٰ کہ ظہر آگئی، آپ منبر سے اترے اور نماز پڑھائی پھر منبر پر رونق افروز ہوئے اور ہمیں خطبہ دیا حتیٰ کہ عصر آگئی، پھر آپ منبر سے اترے اور نماز پڑھائی، پھر منبر پر تشریف فرما ہئے اور ہم کو خطبہ دیا حتیٰ کہ سورج غروب ہوگیا، پھر آپ نے ہمیں ماکان ومایکون (جو ہوچکا ہے اور جو ہونے والا ہے) کی خبریں دیں، پس ہم میں سے زیادہ عالم وہ تھا جو سب سے زیادہ حفاظہ والا تھا۔ (صحیح مسلم الجنتہ : ٢٦ (٢٨٩٢) ٧١٣٤، مسند احمد ج ٣ ص ٣١٥، مسند عبدبن حمید رقم الحدیث : ١٠٢٩، البدایہ والنہایہ ج ٦ ص ١٩٢ جامع الاصول ج ١١ رقم الحدیث : ٨٨٨٥، الاحادو المثانی ج ٤ رقم الحدیث : ٢١٨٣، دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٦، ص ٣١٣)

(٣) حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں تشریف فرما ہوئے اور آپ نے ہمیں مخلوق کی ابتداء سے خبریں دینی شروع کیں، حتیٰ کہ اہل جنت اپنے ٹھکانوں میں داخل ہوگئے اور اہل دوزخ اپنے ٹھکانوں میں داخل ہوگئے، جس نے اس کو یاد رکھا اس نے یاد رکھا اور جس نے اس کو بھلا دیا اس نے بھلا دیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث، ٣١٩٢ امام احمد نے اس حیدث کو حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت کیا ہے، مسند احمد رقم الحدیث : ١٨١٤٠ طبع دارالحدیث، قاہرہ)

امام ترمذی نے کہا اس باب میں حضرت حذیفہ، حضرت ابومریم، حضرت زید بن اخطب اور حضرت مغیرہ بن شعبہ سے احادیث مروی ہیں، انہوں نے ذکر کیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو قیامت تک تمام ہونے والے امور بیان کردیئے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢١٩٨) 

(٤) حضرت ابو ذر (رض) فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حال میں چھوڑا کہ فضا میں جو بھی اپنے پروں سے اڑنے والا پرندہ تھا آپ نے ہمیں اس سے متعلق علم کا ذکر کیا۔ (مسند احدم ج ٥ ص ١٥٣، مسند احمد رقم الحدیث : ٢١٢٥٨ مطبوعہ قاہرہ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٦٤٧ مسند البز ارقم الحدیث : ١٤٧ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٢٦٥ حافظ الہیثمی نے کہا اس حدیث کے راوی صحیح ہیں۔ (مجمع الزوائد ج ٨ ص ٢٦٤ مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ٥١٠٩)

ہم نے یہ کہا تھا کہ علامہ آلوسی نے خود بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم کے عموم کی تصریح کی ہے ان کی وہ عبارت یہ ہے : اللہ تعالیٰ نے فرمایا انزلہ بعلمہ (النسائ : ١٦٦) اس کی تفسیر میں علامہ آلوسی لکھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو اپنے علم کے ساتھ نازل کیا یعنی قرآن مجید اللہ تعالیٰ کے اس علم محیط کے ساتھ مقارات ہے جس سے آسمانوں اور زمینوں کا ایک ذرہ بھی غائب نہیں ہے اور اس جگہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مالکان اور مایکون (جو کچھ ہوچکا ہے اور جو کچھ آئندہ ہوگا) کو جان لیا۔ (روح المعانی جز ٦ ص ٣٣، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٧ ھ)

رہا علامہ آلوسی کا یہ اعتراض کہ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام امت کے احوال کا علم ہے تو قیامت کے دن جب وہ لوگ حوض پر آئیں گے جنہوں نے آپ کے بعد دین میں بدعات نکالی تھیں تو پھر آپ نے ان کو کیوں فرمایا کہ یہ میرے اصحاب ہیں یہ میرے اصحاب ہیں، حتیٰ کہ آپ سے کہا جائے گا کہ آپ محض اپنی عقل سے نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا بدعات نکالی ہیں پھر آپ فرمائیں گے یہ دور ہوں، یہ دور ہوں، اس کا جواب خود علامہ آلوسی نے یہ دیا ہے کہ یہ حدیث آپ کے علم کی نفی پر دلالت نہیں کرتی، اس کا محمل یہ ہے کہ آپ کا علم اس وقت مستحضر نہیں تھا۔

اور یہی جواب صحیح ہے کیونکہ قیامت کے دن ہر شخص کو علم ہوگا کہ مومن کون ہے اور کافر کون ہے، کیونکہ مومنوں کے اعمال نامہ ان کے بائیں ہاتھ میں ہوگا کافروں کے چہرے سیاہ تاریک اور مرجھائے ہوئے ہوں گے اور مومنوں کے چہرے خوش، تروتازہ اور ہنستے ہوئے ہوں گے اور جو وگ آپ کے بعد مرتد ہوگئے تھے ان نشانیوں سے تو ہر شخص ان کو جان لے گا کہ یہ آپ کے امتی نہیں ہیں تو پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیسے یہ علم نہیں ہوگا کہ یہ لوگ آپ کے امتین ہیں ہیں، نیز حدیث میں ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبرستان میں آئے اور فرمایا : السلام علیکم اے مومنوں کے گھر والو ! ہم انشاء اللہ تمہارے ساتھ لاحق ہوں گے اور میں یہ چاہتا ہوں کہ ہم اپنے بھائیوں کو دیکھیں تو ! صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں میں آپ نے فرمایا تم میرے اصحاب ہو اور ہمارے بھائی وہ ہیں جو ابھی تک نہیں آئے، صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ! آپ اپنی امت کے ان لوگوں کو کیسے پہچانیں گے جو ابھی تک نہیں آئے آپ نے فرمایا یہ بتائو کہ اگر کسی آدمی کے گھوڑے غر محجل (جن کا ماتھا اور ہاتھ پیر سفید ہوں) اور وہ سیاہ گھوڑوں میں مخلوط ہوجائیں تو کیا وہ اپنے گھوڑوں کو نہیں پہچان لے گا ؟ صحابہ نے کہا کیوں نہیں یا رسول اللہ ! فرمایا میرے امتی بھی قیامت کے دن غرمحجل ہوں گے وضو کی وجہ سے ان کا چہرہ اور ہاتھ پیر سفید ہوں گے اور میں حوض پر ان کا استقبال کروں گا اور سنو ! کچھ لوگوں کو حوض سے اس طرح دور کیا جائے گا جس طرح آوارہ اونٹوں کو دور کیا جاتا ہے، میں انہیں آواز دے کر بلائوں گا ادھر آئو تو کہا جائے گا انہوں نے آپ کے بعد دین بدل لیا تھا پس میں کہوں گا یہ دور ہوں، دور ہوں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٩ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٣٠٦)

اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غرمحجل کی علامت سے اپنے امتیوں کو دوسروں سے ممتاز کرلیں گے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ قیامت دن جو مرتدین آپ کے پاس حوض پر آئیں اور ان میں کافروں کی نشانیوں ہوں گی آپ کو ان کا پتا نہ چلے اور آپ ان کو اپنا امتی سمجھیں جب کہ میدان محشر میں ہر شخص کو ان نشانیوں سے پتا چل جائے گا کہ یہ آپ کے امتی نہیں ہیں اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ کو ان کا علم نہ ہو جب کہ آپ کو دنیا میں بھی علم ہے کہ کچھ مرتدین آپ کے پاس حوض پر آئیں گے اور ان کو حوض سے دور کیا جائے گا یہ اور بات ہے کہ اللہ اپنی کسی حکمت کو پورا فرمانے کے لئے وقتی طور پر آپ کی توجہ ہٹا دے اور آپ انہیں میرے صحابی میرے صحابی فرمائیں اور توجہ دلانے پر پھر فرمائیں یہ دور ہوں، یہ دور ہوں۔

رہا علامہ آلوسی کا دوسرا اعتراض کہ حضرت عائشہ پر جب منافقین نے بری بات کی تہمت لگائی اور آپ نے اس کا رد نہیں کیا تو یہ بھی آپ کے علم کے عموم کے خلاف ہے اکثر منکرین علوم نبوت یہی اعتراض کرتے ہیں اور ہمارے علماء نے اس کا بارہا یہ جواب دیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت عائشہ (رض) کی پاک دامنی اور پاکیزگی کا علم تھا لیکن آپ نے ان کی برأت کا اس لئے اعلان نہیں فرمایا کہ آپ کو علم تھا کہ خود خالق کائنات حضرت عائشہ کی برأت کے سلسلہ میں قرآن مجید میں سورة نور کی دس آیتیں نازل فرمانے والا ہے۔ صحیح بخاری میں ایک بہت طویل حدیث ہے اس کی بعض سطریں یہ ہیں :

فقال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وھو علی المنبر یا معشر المسلمین من یعذرنی من رجل قد بلغنی اذاہ فی اہل بیتی فو اللہ ماعلمت علی اھلی الاخیر ! ولقد ذکروا رجا ماعلمت علیہ الاخیرا وماکان یدخل علی اھلی الامعی۔ الحدیث :۔ (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منبر پر فرمایا اے مسملانو ! تم میں سے کون شخص میرا اس شخص سے دفاع کرے گا جس نے میری اہلیہ کے متعلق مھے اذیت پہنچائی ہے، پس اللہ کی قسم مجھے اپنی اہلیہ کے متعلق مجھے اذیت پہنچائی ہے، پس اللہ کی قسم مجھے اپنی اہلیہ کے متعلق سوا نیکی کے اور کسی چیز کا علم نہیں ہے اور انہوں نے جس شخص کے متعلق تہمت لگائی ہے اس کے متعلق بھی مجھے نیکی کے سوا اور کسی چیز کا علم نہیں ہے اور وہ شخص جب بھی میری اہلیہ کے پاس میں اس کے ساتھ تھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :4750، سنن ابو دائود رقم الحدیث :2138، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :2347، 1970 ء مسند احمد رقم الحدیث :25371)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس صراحت کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نزول وحی سے پہلے حضرت عائشہ کی پاک دامنی کا علم نہیں تھا اور آپ کے علم کے عموم پر اعتراض کرے تو ہم سو افسوس کے اور کیا کرسکتے ہیں۔

احکام شرعیہ کی تعداد، ان کی تعریفات اور ان کی مثالیں 

(الحج : ٧٨ کے آخر میں فرمایا : پس تم نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو، اور اس آیت کے شروع میں فرمایا تھا اور اللہ کی راہ میں اس طرح جہاد کرو جس طرح جہاد کرنے کا حق ہے اور ہم نے شروع میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا تھا کہ اس سے مراد جہاد بالنفس ہے اور جہاد بالنفس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے نفس پر قہر کر کے عبادات کو انجام دینا اور معاصی کو ترک کرنا، سو تمام احکام شرعیہ جہاد بالنفس میں آگئے نماز اور زکوۃ کا حکم بھی جہاد بالنفس میں آگیا تھا ان کی اہمیت کی وجہ سے ان کا علیحدہ ذکر فرمایا، اس مناسب سے ہم یہاں پر احکام شرعیہ کی تعداد ان کی تعریفات اور ان کی مثالیں لکھ دینا چاہتے ہیں قنقول وباللہ التوفیق۔

کل احکام شرعیہ گیارہ ہیں : (١) فرض (٢) واجب (٣) سنت مئوکدہ (٤) سنت غیر مئوکدہ (٥) مستحب (٦) حرام (٧) مکرہ تحریمی (٨) اساءت (٩) مکروہ تنزیہی (١٠) خلاف اولیٰ (١١) مباح۔

فرض کی تحقیق 

فرض : وہ کام جس کا کرنا ضروری ہو اور اس کا ترک کرنا لازماً منع ہو اس کا ثبوت بھی قطعی ہو اور اس کے فعل کے لزوم پر دلالت بھی قطعی ہو، اس کا انکار کفر اور اور اس کا ترک کرنے والا عذاب کا مستحق ہو خواہ دائما ترک کیا جائے یا احیاناً (کبھی کبھی) (خصلہ ردا المختارج ١ ص 186) اس کی مثال ہے نماز، زکوۃ رمضان کے روزے اور بہ شرط استطاعت حج کرنا۔

نماز اور زکواۃ کا ثبوت قطعی ہے کیونکہ اس آیت میں فرمایا ہے نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور قرآن مجید قطعی الثبوت ہے اور اس کی لزوم پر دلالت بھی قطعی ہے کیونکہ نماز اور زکوۃ کا تارک عذاب کا مستحق ہے۔

الا اصحبٰ الیمین۔ فی جنت یتسآء لون۔ عن المجرمین۔ ماسلککم فی سقر۔ قالو الم تک من المصلین۔ ولم تک نظعم المسکین۔ (المدثر :39-44) جن کی دائیں ہاتھوں میں ناشتہ اعمال ہوگا۔ وہ جنتوں میں بیٹھے سوال کر رہے ہوں گے۔ مجرمین سے تم کو سک عمل نے دوزخ میں داخل کردیا ؟ وہ کہیں گے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے اور ہم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔

واجب کی تحقیق 

واجب : جس کا کرنا ضروری ہو اور اس کا ترک کرنا لازماً منع ہو اور ان دونوں میں سے کوئی ایک چیز نطنی ہو یعنی اس کا ثبوت قطعی ہو اور لزوم پر دلالت ظنی ہو یا ثبوت ظنی ہو اور لازوم پر دلالت قطعی ہو اور اس کا انکار نہ ہو اور اس کا ترک کرنے الا عذاب کا مستحق ہو خاہ دائما ترک کرے یا احیاناً ۔ (محصلہ ردا المختارج ج ١ ص ١٨٧)

جس واجب کا ثبوت قطعی اور لزوم پر دلالت ظنی ہو جیسے جماعت سے نماز پڑھنے کے وجوب پر یہ آیت دلالت کرتی ہے : وارکعا مع الرکعین (البقرہ : ٤٣) اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکع کرو، اس کا ثبوت قطعی ہے کیونکہ قرآن مجید کی یہ آیت قطعی ہے اور اس کی لزوم پر دلالت ظنی ہے کیونکہ رکوع کا معنی نماز پڑھنا بھی ہے اور رکوع کا معنی اللہ سے ڈرنا اور خشوع بھی ہے۔ 

اور جس واجب کا ثبوت ظنی ہو اور لزوم پر دلالت قطعی ہو جیسے نماز میں سورة فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے لیکن اس کا ثبوت ظنی ہے کیونکہ اس کا ثبوت اس حدیث سے ہے :

حضرت عبادہ بن الصامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے سورة فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٥٦ صحیح مسلم رقم الحدیث، ٣٩٤ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٨٢٢ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٤٧ سنن النسائی رقم الحدیث : ٩١١ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٨٢٧ تاہم یہ حدیث خبر واحد ہے اور اس کا ثبوت ظنی ہے لیکن اس کا لزوم قطعی ہے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سورة فاتحہ کو پڑھے بغیر نماز نہیں ہوگی۔

واجب کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ جس کام کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بطور عبادت دائما کیا ہو اور اس کے تارک پر آپ نے انکار کیا ہو یا اس کے ترک پر وعید فرمائی ہو، (البحرالرائق ج ١ ص ١٧ فتح القدیر ج ٢ ص ٣٩ بیروت) اس کی مثال بھی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ہے کیونکہ آپ نے بطور عبادت ہمیشہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھی ہے اور اس کے ترک پر انکار اور وعید فرمائی ہے، حدیث میں ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، میں نے یہ ارادہ کیا کہ میں لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں، پھر نماز کا حکم دوں اس کے لئے اذان دی جائے، پھر کسی شخص کو نماز پڑھانے کا حکم دوں، پھر یہ دیکھوں جو نماز پڑھنے نہیں آئے تو میں ان کے اوپر ان کے گھروں کو جلا ڈالوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٤٤ صحیح مسلم رقم الحدیث، ٦٥١ )

اس کی دوسری مثال ہے کہ نفس ڈاڑھی رکھنا واجب ہے آپ نے ہمیشہ ڈاڑھی رکھی اور ڈاڑھی منڈوانے پر انکار فرمایا۔

حضرت عبداللہ بن عتبہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک مجوسی آیا اس نے اپنی ڈاڑھی مونڈی ہوئی تھی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ کیا ہے ؟ اس نے کہا یہ ہمارے دین میں ہے آپ نے فرمایا ہمارے دین میں یہ ہے کہ ہم مونچھیں کم کریں اور ڈاڑھی بڑھائیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ٨ ص ٣٧٩ مطبوعہ کراچی، ١٤٠٦ ھ)

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ڈاڑھی منڈوانے پر انکار فرمایا ہے، قبضہ سے کم مقدار ڈاڑھی رکھنے پر انکار نہیں فرمایا اس لئے قبضہ تک ڈاڑھی رکھنا واجب نہیں ہے لیکن اتنی ڈاڑھی رکھنا ضروری ہے جس پر بغیر کسی قید کے ڈاڑھی کا اطلاق ہو سکے، خشخشی ڈاڑھی رکھنے یا فرنچ کٹ ڈاڑھی رکھنے سے ڈاڑھی رکھنے کے حکم پر عمل نہیں ہوتا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دراز گردن تھے اور آپ کی ڈاڑھی مبارک سینہ کے ابتدائی حصہ کو بھر لیتی تھی اس لئے آپ کی سنت صرف قبضہ تک ڈاڑھی رکھنا نہیں ہے بلک ہقبضہ سے زائد ڈاڑھی مبارک سینہ کے ابتدائی حصہ کو بھر لیتی تھی اس لئے آپ کی سنت صرف قبضہ تک ڈاڑھی رکھنا نہیں ہے بلک ہقبضہ سے زائد ہے یا ڈیڑھ یا دو قبضہ کے برابر، پس آپ کی محبت اور سنت کا تقاضا یہ ہے کہ قبضہ بھر ڈاڑھی سنت ہے اس سے مراد آپ کی سنت نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ہے ڈاڑھی کا معروف طریقہ اور مسلمانوں کا چلن۔

سنت مئوکدہ کی تحقیق 

جس فعل کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بطور عبادت دائما کیا ہو اور اس کو ترک کرنے پر انکار نہ فرمایا ہو آپ نے اس فع کو اکثر اوقات بطور عبادت کیا ہو، اس کا ترک اساءت ہے یعنی برا کام، جو شخص سنت مئوکدہ کو دائما ترک کرے وہ مستحق عذاب ہے اور جو اس کو احیاناً ترک کرے وہ مستحق ملامت ہے۔

علامہ علائو الدین حصکفی حنفی متوفی ١٠٨٨ ھ لکھتے ہیں :

علامہ شمنی نے سنت کی یہ تعریف کی ہے کہ جو کام نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول یا فعل سے ثابت ہو اور وہ کام واجب یا مستحب نہ ہو، لیکن یہ مطلق سنت کی تعریف ہے اور سنت کمئوکدہ کی یہ شرط ہے کہ آپ نے اس پر دوام کیا ہو اور کبھی ترک بھی کیا ہو خاہ ترک حکماً ہو۔ (در مختار مع ردا المختارج ١ ص ١٩٨ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٧ ھ)

علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی ١٢٥٢ ھ لکھتے ہیں :

جس فعل پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا آپ کے بعد خلفاء راشدین نے دائما عمل کیا ہو اور اس کو ترک کرنے سے منع نہ فرمایا ہو وہ سنت مئوکدہ ہے ورنہ وہ مستحب اور نفل ہے اور سنت کی دو قسمیں ہیں ایک سنت الھدیٰ ہے اس کا ترک کراہیت اور اساءت کو واجب کرتا ہے جیسے جماعت، اذان اور اقامت اور دوسری سنتہ الزوائد ہے جیسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لباس پہننے، کھڑے ہونے اور بیٹھنے میں سیرت، اس کا ترک مکروہ نہیں ہے۔ (ردا المختارج ١ ص ١٩٦ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٧ ھ)

سنت مئوکدہ کی مثال صبح و شام کے فرئاض کے ساتھ بارہ رکعات نمازیں ہیں جن کا ذکر اس حدیث میں ہے :

حضرت ام حبیبہ (رض) عنہہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے ایک دن اور رات بارہ رکعات نماز پڑھیں اس کے لیء جنت میں گھر بنایا جائے گا، چار رکعات ظہر سے پہلے دو رکعت ظہر کے بعد دو رکعت مغرب کے بعد، دو رکعت عشاء کے بعد اور دو رکعت صلاۃ فجر سے پہلے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤١٥ سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٢٥٠ سنن النسائی رقم الحدیث : ٧٩٣ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١١٤١ مصنف ابن ابی شیبہ ج ٢ ص 203 مسند اد ج ٦ ص 326 سنن الدارمی رقم الدیث ٤٤٥ ١ مسند ابویعلی رقم الحدیث ٧١٤٤ صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ١١٨٥ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٢٢٥١ المستدرک ج ١ ص ٣١١ سنن کبریٰ للبیہقی ج ٢ ص ٤٧٣)

علامہ ابراہیم جلی حنفی متوفی ٩٥٦ ھ لکھتے ہیں، جمعہ سے پہلے چار رکعات اور جمعہ کے بعد چار رکعت بھی سنت مئوکدہ ہیں۔ (غنیتہ المستملی ص ٣٨٨ مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور) جمعہ کے بعد چار رکعت پڑھنے کی دلیل یہ حدیث ہے۔

قتادہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود جمعہ سے پہلے اور جمعہ کے بعد چار رکعت پڑھتے تھے، ابو اسحاق نے کہا کہ حضرت علی جمعہ کے بعد چھ رکعت پڑھتے تھے۔ (مصنف عبدالرزاق ج ٣ ص ٢٤٧، طبع بیروت، ١٣٩٠ ھ)

چار رکعت سنت مئوکدہ میں پہلے قعدہ میں صرف تشہد پڑھے اور تیسری رکعت کے شروع میں ثناء نہ پڑھے اور آخری قعدہ میں تشہد کے بعد درود اور دعا بھی پڑھے۔ (مراتی الفلاح ص ٣٩١ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ)

علامہ کمال الدین عبدالواحد بن عماء حنفی متوفی ٨٦١ ھ لکھتے ہیں :

اگر کوئی شخص ان سنتوں کا استخفاف کرے اور کہے کہ میں یہ نہیں پڑھتا تو اس کی تکفیر کی جائے گی، نوازل میں مذکور ہے جو شخص پانچ نمازوں کی سنتیں نہ پڑھے اور ان کو حق نہ جانے اس کی تکفیر کی جائے گی اور اگر کوئی شخص ان سنتوں کو برحق جانے اور نہ پڑھے تو ایک قول ہے کہ وہ گناہگار نہیں ہوگا اور صحیح یہ ہے کہ وہ گناہگار ہوگا کیونکہ اس کے ترک پر وعید ہے۔ (فتح القدیر ج ١ ص ٤٥٥، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

علامہ سید محمد امین ابن عابین شامی متوفی ١٢٥٢ ھ لکھتے ہیں :

البحر الرائق میں ہے کہ سنت مئوکدہ کے ترک پر ملامت ہے عذاب نہیں ہے۔ لیکن تلویح میں ہے کہ سنت مئوکدہ کا ترک حرام کے قریب ہے، اس سے وہ شفاعت سے محرومی کا مستحق ہوگا کیونکہ حدیث میں ہے جس نے میری سنت کو ترک کیا وہ میری شفاعت کو نہیں پائے گا اور ابن ھمام کی تحریر میں مذکور ہے ان سنتوں کا تارک گمراہ قرار دیئے جانے اور ملامت کا مستحق ہے اور ترک سے مراد یہ ہے کہ جو بلا عذر ترک کرے اور اس ترک پر اصرار کرے جیسا کہ شرح میں ابن امیر الحاج نے لکھا ہے۔ (ردا المختارج ١ ص 197-198 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، 1417 ھ)

سنت غیر مئوکدہ کی تحقیق 

سنت غئر مئوکدہ جس فعل کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض اوقات کیا ہو، اس کو دائما ترک کرنے پر ملامت کا استحقاق ہے اور احیاناً ترک کرنے پر ملامت نہیں ہے۔ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252 ھ لکھتے ہیں :

سنت وہ ہے جس پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دائمی عمل کیا ہو، لیکن اگر اس کو کبھی ترک نہ کیا ہو تو وہ سنت مئوکدہ ہے اور اگر اس کو کبھی کبھی ترک بھی کیا ہو توہ سنت غیر مئوکدہ ہے اور اگر آپ نے اس پر دائمی عمل کیا ہو اور ترک کرنے والے پر انکار بھی کیا ہو تو وہ وجوب کی دلیل ہے۔ (ردالمختارج ١ ص 198 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، 1415 ھ)

سنت غیر مئوکدہ کی مثال عصر سے پہلے چار رکعت ہیں۔

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ اس شخص پر رحم کرے جو عصر سے پہلے چار رکعت پڑھتا ہے۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٢٧١ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٣٠ مسند احمد ج ٢ ص ١١٧ صحیح ابن حبان رقم الحدیث، ٢٤٥٣

علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی متوفی ٩٧٠ ھ نے لکھا ہے کہ عشاء سے پہلے چار رکعت میں کوئی خصوصی حدیث نہیں ہے اس لئے ان کو مستحب لکھا ہے۔ (البحر الرائق ج ٢ ص ٥٠ مطبوعہ مکتبہ ماجد یہ کوئٹہ) 

علامہ طحطاوی متوفی ١٢٣١ ھ نے لکھا ہے کہ چار رکعت سنت غیر مئوکدہ کے ہر دوگانہ کی ابتداء میں ثناء بسم اللہ اعوذ باللہ اور تشہد کے بد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوۃ پڑھی جائے گی۔ (مراقی الفلاح علی نور الایضاح ص ٣٩٢ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ)

مستحب کی تحقیق 

مستحب : یہ وہ فعل ہے جس کا ثبوت بھی ظنی ہو اور اس کی دلالت بھی ظنی ہو جیسے وضو میں دائیں عضو کو پہلے دھونا، وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنا، مسجد میں جاتے وقت پہلے دایاں پیر داخل کرنا اور آتے وقت بایاں پیر پہلے باہر نکالنا، چاشت اور اشرق کے نوافل، ہر وضو کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا اور تحیتہ المسجد پڑھنا وغیرہ اس کا فعل موجب ثواب ہے اور اس کے ترک پر عذاب ہے نہ ملامت خواہ دائما ترک ہو یا احیاناً (محصلہ ردالمختارج ج ١ ص ١٨٦) حدیث میں ہے :

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وضو کرتے تو دائیں اعضاء سے ابتداء کو پسند فرماتے تھے اور جب کنگھی کرتے تو دائیں جانب سے کنگھی کی ابتداء پسند فرماتے اور جب جوتی پہنتے تو دائیں پیر سے ابتداء کو پسند فرماتے، دوسری روایت میں ہے کہ آپ تمام کاموں میں دائیں جانب سے ابتداء کو پسند فرماتے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٦٨ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٨ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤١٤٠ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٦٠٨، سنن النسائی رقم الحدیث : ١١٢ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠١)

یہ بھی محلوظ رہے کہ مستحب کام کو لازم نہیں کرلینا چاہیے اور جو مستحب کام کو نہ کرے اس کو ملامت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ مستحب کام کو لازم کرلینا اور اس کے ترک پر ملامت کرنا اس مستحب کو واجب بنادینا ہے اور یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کو بدلنا ہے اور احداث فی الدین ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں شیطان کا حصہ نہ بنائے اور یہ نہ سمجھے کہ اس پر واجب ہے کہ وہ نماز پوری کرنے کے بعد دائیں طرفہی موڑ کر بیٹھے گا کیونکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کتنی بار بائیں طرف بھی مڑ کر بیٹھتے ہوئے دیکھا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث، ٨٥٢ صحیح مسلم رقم الحدیث، ٧٠٧ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٠٤٢، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٣٥٩ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٩٣٠)

نماز سے فارغ ہو کر دائیں طرف مڑ کر بیٹھنا مستحب ہے لیکن اگر کوئی شخص اس کو لازم سمجھ لیتا ہے تو حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس کی مذمت فرمائی ہے۔ اسی طرح عمامہ کے ساتھ نماز پڑھنا مستحب ہے لیکن اس کو لازم سمجھنا بدعت سیئہ ہے اور واضح رہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت سیاہ رنگ کا عمامہ ہے۔

Hajj78001Hajj78002Hajj78003Hajj78004Hajj78005Hajj78006Hajj78007Hajj78008