کیا سائنس میں سوال کرنا منع ہے؟

تحریر: حیدر خان

دو دن پہلے ایک تحریر لکھی تھی کہ جب سکون زمین کی بات شروع ہوئی تو جو لوگ سکون زمین کے قائل ہیں ان کی جانب سے عقلی اور نقلی دلائل آرہے ہیں لیکن حرکت زمین والوں کی جانب سے فقط گالیاں یا پھر رٹی رٹائی تھیوریز آرہی ہیں۔ ان چند دنوں میں ایک چیز کا مجھے احساس ہوا کہ مذہبی طبقہ تو فالتو میں بدنام ہے کہ وہ سوال کرنے والوں کو ڈانٹ دیتا ہے۔ اصل عدم برداشت تو ہمارے سائنس کے دعویدار لوگوں میں ہے۔

قرآن نقلی دین ہے اور اسلام کے کئی معاملات بغیر کسی عقلی دلیل کے بیان کیے جاتے ہیں جیسے جن، ملائکہ، جنت، دوزخ۔ اور کئی عبادات کے طریقوں میں بھی کسی عقلی دلیل کا ہونا ضروری نہیں۔ لیکن ہمارا سائنس سے متاثر یہ طبقہ مذہبی معاملات میں کئی نقلی اور عقلی دلائل صرف اس لیے رد کردیتا ہے کہ اس شخص کے انفرادی طور پر عقل میں نہیں آرہے۔ اور اس کی بے جا مخالفت کے بعد کہیں جا کر کوئی عالم اس شخص پر جرح کرتا ہے، لیکن جاہل جیسے الفاظ کبھی نہیں کہتا۔

اور اس کے برعکس ہم سائنس کو دیکھیں تو سائنس خالصتاً عقلی علم ہے، کیونکہ سائنس میں جو بات عقل میں آئے اس پر عمل کیا جاتا ہے ورنہ رد کردیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں سائنس نقلی علم بنادیا ہے کہ جو سائنسدانوں نے تھیوریز دے دیں وہی صحیح ہیں اگر وہ کسی بھی طرح سے آپ کے عقل میں نہیں آرہیں یا آپ کے ذہن میں فقط ایک سوال بھی آتا ہے، تو اس سوال کا جواب دینے اور لاجک سمجھانے کی بجائے سب سے پہلے کہا جاتا ہے کہ جائیں اور سائنس کی بنیادی معلومات حاصل کرکے آئیں۔ جب کہ عقلی سوال کا جواب تو کوئی بھی معقول لاجک بناکر دیا جاسکتا ہے۔ اور وہ بھی اس وقت جب آپ سائنس کے دعویدار بنتے ہوئے مولویوں کو رگڑا لگایا کرتے ہیں۔ تو آپ یہاں سائنس پر یقین نہیں رکھتے بلکہ سائنسدانوں پر اندھا یقین کر رہے ہیں جس اندھے یقین کا آپ مولویوں پر کرنے سے منع کرتے ہیں۔ کل اتفاقیہ طور پر ایک سائنسی گروپ میں ایک صاحب کی پوسٹ پر کمینٹ کردیا۔ سوچا اس مکالمے کے کچھ احوال آپ سے شیئر کرلیے جائیں کہ سائنس و عقلی دلائل کے دعوے دار کس حد تک اپنی بات میں سچے ہیں۔ پوسٹ حاجی عمران عطاری کے متعلق تھی کہ انہوں نے اعلٰحضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ پر اندھا بھروسا کیا۔ اور پوری پوسٹ میں فقط اندھی تقلید پر کلام تھا نہ کہ کسی سائنسی لاجک پر۔ اس پر جو مکالمہ ہوا وہ درج ذیل ہے۔

راقم: کیا آپ نے اعلٰحضرت کے دلائل پڑھے ہیں؟

موصوف: جی میں نے کچھ ویڈیوز دیکھی ہیں اور الفوز المبین کی تلخیص پڑھی ہے۔

راقم: تو آپ ان دلائل کا جواب کس طرح سے دیں گے؟

موصوف: دلائل کا جواب دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ حرکت زمین تجربہ سے ثابت ہے تو دلائل کے جوابات دینے کی کوئی وجہ نہیں رہ جاتی۔ (وہ تجربات کیا ہیں میں آگے تحریر میں ذکر کرتا ہوں )

راقم: محترم ہمیں ان دلائل کا حقائق کے ساتھ رد کرنا چاہیے۔ کیا سائنس نے ہمیں پہلے کبھی دھوکہ نہیں دیا؟ کیا ہم سوچ نہیں سکتے؟اب سائنس کوئی وحی الٰہی تو نہیں جس پر سوال نہ بلند کیاجائے۔ متحرک زمین کی تھیوری میں اتنا تو تضاد ہے کہ کبھی ایک چیز کو ثابت کرتے ہیں اور کبھی اس کا انکار۔

اس کے بعد موصوف نے میری فیس بک وال وزٹ کی اور اپنے ریمارکس کچھ اس انداز سے دیے۔

موصوف: آپ کی یہ غلط فہمی سائنس کے بنیاد اصول کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ (اگر یہ بات کوئی عالم دینی معاملات میں رائے دینے والے کے متعلق کرتا ہے تو آپ اس کا رد عمل بہتر جانتے ہیں۔) آپ نے جو ویڈیو شئیر کی ہے وہ آپ کا تھیوری آف ریلیٹیوٹی اور تھیوری آف رفرینس نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ جیسے ریل گاڑی یا جہاز میں بیٹھے افراد ایک دوسرے کے لیے ساکن ہوتے ہیں اور باہر والوں کے لیے متحرک یہی مثال زمین کی گردش کی وجہ سے ہے۔

راقم: کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ زمین اپنے ایٹموسفئیر کے ساتھ ملحق ہے؟ اور اس کے ساتھ حرکت کر رہی ہے۔

موصوف: جی

راقم: یہاں میں نے ایسٹرو فزکس کے بڑے نام نیل ڈی گراس ٹائسن کا ایک ٹویٹ شئیر کیا کہ پروفیسر صاحب تو دس فٹ کی بلند پر بھی زمین کی روٹیشن کو اثر انداز بتا رہے ہیں اور آپ 60000 فٹ کی بلندی کو بھی غیر موثر مان رہے رہیں۔ اب جو اس ٹویٹ کی فاسد تاویل کی گئی ہم تو امام احمد رضا خان کے کلام کی نہیں کرتے۔

موصوف: اس ٹویٹ میں زمین کی گولائی اور گیند کی رفتار کی بات ہے۔

راقم: کیا روٹیشن کا مطلب زمین کی گولائی ہوتا ہے؟

(ٹویٹ کے الفاظ):

“In north south oriented stadiums, like NRG in Houston, Earth’s rotation deflects a 50 yd field goal to the right by 1/2 inch” Neil De Grass Tyson. Tweet: 05-02-2017

( یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سائنس کا موقف حرکت زمین پر تبدیل ہوجاتا ہے۔ کبھی کہتے ہیں ایٹموسفئیر شامل ہے اور دلیل دے کر کہتے ہیں نہیں ہے۔ یہ صرف ایک تناقض ہے، جب اور بات ہو تو کئی دوسرے بھی نکل سکتے ہیں۔)

موصوف کی جانب سے مجھے دو لنک سینڈ کیے گئے۔

راقم: محترم آپ کے دونوں لنکس میں نے دیکھے اس میں نظریہ ہی بتایا گیا ہے۔ کوئی دلیل یا تجربہ نہیں (جب کے موصوف نے اوپر تجربہ سے ثابت شدہ کہا تھا) میں آپ سے ایک سوال اور کرلیتا ہوں کہ اگر ایٹموسفیر زمین کے ساتھ مشرق سے مغرب کی طرف رواں دواں ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ بادل جو ایٹموسفئیر کا حصہ ہے مغرب سے مشرق، شمال سے جنوب جاتے ہیں۔ اور سائنسدانوں کے مطابق قطبین پر زمین کی رفتار آدھی رہ جاتی ہے۔ تو پھر جو جہاز 860 کلو میٹر فی گھنٹہ چلنے والی زمین سے اڑ کر 1600 کلومیٹر فی گھنٹہ چلنے والی وسط زمین پر 500 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار بغیر کسی رکاوٹ کے کیسے آجاتا ہے۔

اس تمام مکالمے کے بعد موصوف کا جواب: اب اسپیس ٹوورازم شروع ہونے والا ہے آپ اسپیس میں جا کر دیکھ لینا۔

راقم: ہمارا اسپیس میں پہنچنا نہ پہنچنا بعد کی بات ہے، کہنے کو مارس پر مشن جا چکا ہے تو وہاں سے کوئی ویڈیو ثبوت لے لیا جاتا جو ایجوکیشنل پرپز کے لیے ہوتا۔ جب بلیک ہول کی ویڈیو کے لیے کئی ڈالرز خرچ کردیے گئے تو اس سے پہلے تو زمین کی حرکت کو سمجھنا ضروری تھا۔ اس کے بعد کوئی جواب نہیں آیا۔

وہیں پر ایک دوسرے موصوف نے بھی جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایک ٹیلی اسکوپ لے کر خود دیکھ لیں کہ زمین حرکت کرتی ہے یا نہیں۔

راقم: ٹیلی اسکوپ کے ذریعے میں مارس جوپیٹر کی حرکت کو دیکھ کر زمین کا متحرک ہونا قیاس کرلوں۔ سائنس قیاسی علم نہیں بلکہ مشاہداتی، نظریاتی اور تجرباتی علم ہے۔ اور مارس پر ہی قیاس کرنا ہے تو زمین ریویلیشن اسپیڈ مارس سے کم ہونی چاہیے کیونکہ مارس کا آربٹ بڑا ہے، لیکن ایسا نہیں زمین کی رفتار 107300 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے اور مارس کی کوئی 80 ہزار فی گھنٹہ۔

الحاصل یہ کہ ابھی تک باقاعدہ تجربے سے بات ثابت نہیں کہ زمین حرکت کرتی ہے۔ جیسا کہ آئنسٹائن نے خود کہا ہے۔ اور جو ایک دلیل ہر بندہ دیتا ہے کہ ٹرین میں بیٹھے ہوں تو آپ کو محسوس نہیں ہوتا۔ ان سے عرض ہے ٹرین کی حرکت لینئر موشن ہے۔ اور زمین کی حرکت روٹیٹو موشن ۔ اگر اس ڈبے کو لٹو کی طرح گھماؤ تو پھر معلوم ہوجائے گا کہ فیل ہوتا ہے یا نہیں۔ یہ دو سوال تو صرف زمین کی روٹیشن پر ہے اس سے اور بھی کئی زیادہ سوال روٹیشن اور ریوولیوشن پر ہیں۔ جو کہ روٹیشن سے زیادہ تیز ہے۔ اب تک زمین کا متحرک ہونا صرف قیاسی بات ہے کبھی مریخ اور دوسرے سیاروں پر قیاس اور کبھی ریل گاڑی اور جہاز پر۔ اور اسی قیاس کوتجربہ کا نام دیا جاتا ہے۔

اور آخر میں میرا سوال ان علماء سے ہے جو کسی مسلکی اختلاف یا پھر سائنس سے مرعوب ہوکر زبردستی زمین کو گھمانے اور چلانے کے لیے سورہ یاسین اور سورہ الذاریات کی آیات پیش کر رہے ہیں تووہ ان آیت کو مکمل پڑھیں یا پیچھے سے پڑھیں تو سورج اور چاند کا ہی ذکر ہے کہیں بھی زمین کا ذکر نہیں۔ کسی مفسر نے یہاں زمین مراد نہیں لیا تو آپ کیوں موجودہ سائنس کو مسلمان کرنے پر تلے ہیں۔ جب رب تعالیٰ نے قرآن پاک میں واضح فرمایا کہ ووضعھا للانام، تو وضع کا مطلب آپ مجھ سے بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ زمین کے لیے قرآن میں پھیلانا، بچھانا، رکھنا اور روکنا کے الفاظ آئے ہیں اور سورج چاند کے لیے چلنے، تیرنے کے۔ اور بالفرض اگر زمین کو متحرک اور سورج کو ساکن مان لیا جائے تو آپ بیت المعمور کی کیا تشریح کریں گے کہ کیا بیت المعمور بھی آسمان میں گھوم رہا ہے۔ تو یاد رکھیے آپ کا صرف ایک دعویٰ کا زبردستی قرآن سے اپنی مرضی کی تشریح کرتے ہوئے ثابت کرنا کئی اسلامی عقائد و نظریات پر سوالیہ نشان ہوگا۔ اور وہ بھی ایسے دعویٰ کے لیے جس کا ابھی تک کوئی تجربے کی بنیاد پر ثبوت نہیں۔