قَالَ رَبِّ انْصُرۡنِىۡ بِمَا كَذَّبُوۡنِ ۞- سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 26
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قَالَ رَبِّ انْصُرۡنِىۡ بِمَا كَذَّبُوۡنِ ۞
ترجمہ:
نوح نے دعا کی اے میرے رب ! میری مدد فرما کیونکہ یہ میری تکذیب کر رہے ہیں
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : نوح نے دعا کی اے میرے رب میری مدد فرما کیونکہ یہ میری تکذیب کر رہے ہیں۔ پس ہم نے ان کی طرف وحی کی کہ آپ ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی کے موافق کشتی بنائیں پھر جب ہمارا عذاب آنے لگے اور تنور جوش میں آجائے تو آپ ہر جنس کے جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا اس (کشتی) میں بٹھا لیں اور اپنے اہل کو بھی اس میں سوار کرلیں سوا ان کے جن کے متعلق پہلے فیصلہ ہوچکا ہے اور ان ظالموں کے متعلق آپ مجھ سے سفارش نہ کیجیے گا بیشک وہ ضرور غرق کئے جائیں گے۔ پھر جب آپ اور آپ کے اصحاب اطمینان سے کشتی میں سوار ہوجائیں تو آپ کہیں کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات دی۔ اور آپ کہیں : اے میرے رب مجھے برکت والی زمین پر اتارنا بیشک تو سب سے بہتر اتارنے والا ہے۔ بیشک اس قصہ میں ہماری (معرفت کی) ضرور نشانیاں ہیں اور ہم ضرور (بندوں کو) آزمانے والے ہیں۔ (المومنون : ٣٠-٢٦ )
حضرت نوح (علیہ السلام) کے قصہ کے اہم نکات
ان آیات کی مفصل تفسیر ھود : ٤٨–٣٦ میں بیان کی جا چکی ہے، تبیان القرآن ج ٥ ص ٥٦٠-٥٣٥ میں ملاحظہ فرمائیں ہم نے حسب ذیل عنوانات کے تحت ان آیات کی تفسیر کی ہے :
(١) امتناع کذب اور مسئلہ تقدیر (٢) جان بچانے کے وجوب پر بعض مسائل کی تفریع (٣) اللہ تعالیٰ کی صفات متشابہات میں متاخرین کا مسلک (٤) اللہ تعالیٰ کی صفات متشابہات میں متقدمین کا مسلک (٥) اللہ تعالیٰ کی صفات متشابہات کے متعلق قرآن مجید کی آیات (٦) اللہ تعالیٰ کی صفات متشابہات کے متعلق احادیث (٧) متاخرین کے اخلاف کا منشائ۔ (٨) کشتی بنانے کی کیفیت اس کی مقدار اور اس کو بنانے کی مدت کی تفصیل (٩) کشتی بنانے کا مذاق اڑانے کی وجوہ (١٠) حضرت نوح (علیہ السلام) کے جواباً مذاق اڑانے کا محمل (١١) تنور کا معنی اور اس کے مصداق کی تحقیق (١٢) حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی میں سوار ہونے والوں کی تفصیل (١٣) ہر کام کے شروع سے پہلے اللہ تعالیٰ کا نام لینا۔ (١٤) حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے بشیٹے کو کشتی پر کیوں بلایا جب کہ وہ کافر تھا۔ (١٥) اللہ اور اس کے رسول کا جمادات کو خطاب کرنا۔ (١٦) جودی پہاڑ پر کشتی ٹھہرنے کی تفصیل (١٧) تکبر کی مذمت اور تواضح کی تعریف (١٨) ان بچوں اور جانوروں کا کیا قصور تھا جن کو طوفان میں غرق کیا گیا ؟ (١٩) اللہ تعالیٰ کسی کافر پر رحم نہیں فرمائے گا۔ (٢٠) حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹوں کی تفصیل (٢١) منکرین عصمت کا حضرت نوح (علیہ السلام) پر اعتراض اور اس کا جواب۔ (٢٢) حضرت نوح (علیہ السلام) کے سوال پر امام رازی کی تقریر (٢٣) حضرت نوح (علیہ السلام) کے سوال پر سید ابوالاعلیٰ مودودی کا تبصرہ۔ (٢٤) حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا کے متعلق جمہور مفسرین کی توجیہہ (٢٥) حرام اور امور مشتبہ کے متعلق دعا کرنے کا عدم جواز (٢٦) ایمان اور تقویٰ کے بغیر نسلی امتیاز اور نسبی برتری کی کوئی وقعت نہیں۔ (٢٧) اللہ تعالیٰ کی طرف سے سل امتی اور برکتوں کا معنی۔
حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا کے بعد ان کی قوم کو طوفان میں غرق کرنے کا خلاصہ
حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال نو سو سال تبلیغ کرنے کے بعد بالآخر قوم کے ایمان سے مایوس ہو کر دعا کی :
قدعا ربہ انی مقلوب قانتصر (القمر : ١٠) سو انہوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں مظلوم ہوں تو ان سے میرا انتقام لے۔
وقال لوح رب لاتذر علی الارض من الکفرین دیاراً ۔ انک ان نذرھم یضلوا عبادک ولایلدوا الافاجراً کفاراً ۔ (نوح : ٢٧-٢٦) اور نوح نے دعا کی اے میرے رب زمین پر کافروں میں سے کوئی بسنے والا نہ چھوڑا۔ بیشک تو نے اگر انہیں چھوڑ دیا تو وہ تیرے بندوں کو گم راہ کردیں گے اور ان کی اولاد بدکار شدید کافر ہی ہوگی۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا قبول کی اور فرمایا میری آنکھوں کے سامنے یعنی میری نگرانی اور ہدیات کے مطابق کشتی تیار کریں اور حضرت نوح علیہ اسللام کو حکم دیا کہ حیوانات، نباتات اور ثمرات میں سے ہر ایک کا، ایک ایک جوڑا (نر فیصلہ ہوچکا ہے جیسے حضرت نوح کی بیوی اور ان کا بیٹا تو ان میں سے کسی کی سفارش نہ کریں اور کشتی میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اس نے ظالموں کو غرق کر کے ان سے نجات عطا فرمائی اور یہ دعا کریں کہ کشتی خیر و عافیت کے ساتھ کنارے لگ جائے حضرت نوح (علیہ السلام) کی جو سرگزشت بیان کی گئی ہے کہ اہل ایمان کو نجات دی گئی اور کافروں کو ہلاک کردیا گیا اس میں یہ نشانیاں ہیں کہ انبیاء (علیہم السلام) اللہ کی طرف سے جو پیغام لے کر آتے ہیں اس میں وہ سچے ہوتے ہیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور جب حق اور باطل میں کشمکش ہو تو وہ ایک مدت تک ڈھیل دیتا ہے پھر وقت مقرر پر کفار کو پانی گرفت میں لے لیتا ہے اور ان پر اپنا عذاب نازل فرما کر انکو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکتا ہے اور وہ انبیاء اور رسل کے ذریعہ اس طرح کی آزمائش کرتا رہتا ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 26