وَاَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسۡكَنّٰهُ فِى الۡاَرۡضِۖ وَاِنَّا عَلٰى ذَهَابٍۢ بِهٖ لَقٰدِرُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 18
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسۡكَنّٰهُ فِى الۡاَرۡضِۖ وَاِنَّا عَلٰى ذَهَابٍۢ بِهٖ لَقٰدِرُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اور ہم نے ایک اندازے کے مطابق آسمان سے پانی نازل کیا پھر اس کو زمین میں ٹھہرایا اور بیشک ہم اس کو (بہا کر) لے جانے پر پھبی قادر ہیں
المئومنون : ١٨ میں فرمایا اور ہم نے ایک اندازے کے مطابق آسمان سے پانی نازل کیا یعنی نہ اتنا زیادہ کہ تمام زمین والے سیلاب اور طوفانوں کی زد میں آجائیں اور نہ اتنا کم کہ وہ زمین کی پیداوار اور دیگر ضروریات کے لئے کافی نہ ہو اور فرمایا پھر اس کو زمین میں ٹھہرایا یعنی یہ تدبیر کی کہ تمام پانی نازل ہو کر فوراً بہہ کر ختم نہ ہوجائے بلکہ ہم نے چشموں، نہروں، دریائوں اور کنوئوں کی صورت میں اس پانی کو محفوظ کردیا، تاکہ جن دنوں میں بارشیں نہ ہوں یا جن علاقوں میں بارشیں کم ہوتی ہیں اور وہاں پانی کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے ان دنوں میں اس ذخیرہ کئے ہوئے پانی کو حاصل کرلیا جائے پھر فرمایا : اور بیشک ہم اس (پانی) کو بہا کرلے جانے پر بھی قادر ہیں، یعنی جس طرح ہم نے محض اپنے فضل سے پانی کے حصول کی ایسی وسیع تدبیر کی ہے وہیں ہم اس پر بھی قادر ہیں کہ ہم پانی کی سطح اتنی نیچی کردیں کہ تمہارے لئے پانی کا حصول ناممکن ہوجائے۔ ایک اور جگہ فرمایا :
(الملک : ٣٠) آپ کہیے اچھا یہ بتائو کہ اگر تمہارے پینے کا پانی زمین میں دھنس جائے اور بہت نیچے اتر جائے تو کون ہے جو تمہارے لئے صاف پانی مہیا کرے !
غور کے معنی ہیں خشک ہوجانا یا پانی کا اتنی گہرائی میں اتر جانا کہ وہاں سے پانی کا نکالنا ممکن نہ ہو، یعنی اگر اللہ پانی کو خشک فرما دے کہ اس کا وجود ہی نہ رہے یا پانی کو اتنی گہرائی میں کر دے کہ تمام قسم کی مشینیں پانی نکالنے میں ناکام ہوجائیں تو پھر کون ہے جو تم کو صاف ستھرا نتھرا ہوا پانی مہیا کرے، کہو اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 18