وَلَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ سُلٰلَةٍ مِّنۡ طِيۡنٍ ۞- سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 12
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَلَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ سُلٰلَةٍ مِّنۡ طِيۡنٍ ۞
ترجمہ:
اور بیشک ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور بیشک ہم نے انسان کی مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے اس کو نطفہ بنا کر ایک محفوظ جگہ میں رکھ دیا۔ پھر ہم نے نطفہ کو جما ہوا خون بنادیا، پھر ہم نے اس جمے ہوئے خون کو گوشت کا لوتھڑا بنادیا پھر ہم نے اس گوشت کو ہڈیاں بنادیا، پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت پہنا دیا، پھر اس کے بعد دوسری تخلیق میں انسان کو پیدا کردیا، پس اللہ برکت والا ہے جو سب سے حسین پیدا کرنے والا ہے۔ پھر اس کے بعد تم (سب) ضرور مرنے والے ہو۔ پھر یقیناً تم سب قیامت کے دن اٹھائے جائو گے۔ (المئومنون :12-16)
تخلیق انسان کے مراحل کی حدیث
روایت ہے کہ جب حضرت عمر نے المئومنون : ١٥ کو یہاں تک سنا پھر اس کے بعد دوسری تخلیق میں انسان کو پیدا کردیا تو ان کے منہ سے بےاختیار نکلا فتبارک اللہ احسن الخالقین تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ آیت اسی طرح نازل ہوئی ہے، حافظ ابن کثیر نے اس تفسیر کو امام ابن ابی حاتم سے روایت کیا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٣ ص ٢٦٩ مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٩ ھ)
علامہ قرطبی نے لکھا ہے کہ عبداللہ بن ابی سرح نے اس طرح کہا تھا اس نے کہا فتبارک اللہ احسن اخالقین تو یہ آیت اسی طرح نازل ہوگئی وہ مرتد ہوگیا اس نے کہا مجھ پر بھی قرآن اسی طرح نازل ہوتا ہے جس طرح سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے رد میں یہ آیت نازل فرمائی :
(الانعام : ٩٣) اس سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹ افتراء باندھتا ہے اور جو کہتا ہے کہ مجھ پر وحی کی گئی ہے حالانکہ اس پر کچھ وحی کی گئی اور جو کہتا ہے میں عنقرب اس طرح نازل کروں گا جس طرح اللہ نے نازل کیا ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٤ ص ١٠٣ مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ٌ )
ان آیتوں میں انسان کی تخلیق کے جو مراحل بیان کئے گئے ہیں حدیث میں بھی اسی طرح انسان کی تخلیق کے مراحل کا بیان کیا گیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اور آپ صادق اور مصدوق ہیں بیشک تم میں سے کسی ایک کی خلقت کو اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک رکھا جاتا ہے پھر چالیس دن تک وہ جما ہوا خون ہوتا ہے پھر چالیس دن میں وہ گوشت بن جاتا ہے پھر اللہ فرشتہ بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونک دیتا ہ ہے اور اس کو چار کلمات لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے وہ اس کا رزق لکھتا ہے اس کی موت حیات لکھتا ہے اس کا عمل لکھتا ہے اور اس کا شقی یا سعید ہونا لکھتا ہے۔ پس اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہی تم میں سے کوئی شخص اہل جنت کے سے عمل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے پھر اس پر کتاب (تقدیر) سبقت کرتی ہے وہ اہل دوزخ کے عمل کرتا ہے اور دوزخ میں داخل ہوجاتا ہے، اور تم میں سے کوئی شخص اہل دوزخ کے سے عمل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے پھر اس پر کتاب (تقدیر) سبقت کرتی ہے اور وہ اہل جنت کے عمل کرتا ہے اور جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٤٣ صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٥٩٤ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٧٠٨ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢١٣٧ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٧٦ سنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ١١٢٤٦ )
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 12