وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(۷)

اور یاد کرو جب تمہارے رب نے سنادیا کہ اگر احسان مانو گے تو میں تمہیں اور دوں گا (ف۱۷) اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب سخت ہے

(ف17)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ شکر سے نعمت زیادہ ہوتی ہے ۔ شکر کی اصل یہ ہے کہ آدمی نعمت کا تصوّر اور اس کا اظہارکرے اور حقیقتِ شکر یہ ہے کہ مُنعِم کی نعمت کا اس کی تعظیم کے ساتھ اعتراف کرے اور نفس کو اس کا خُوگر بنائے ۔ یہاں ایک باریکی ہے وہ یہ کہ بندہ جب اللہ تعالٰی کی نعمتوں اور اس کے طرح طرح کے فضل و کرم و احسان کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے شکر میں مشغول ہوتا ہے اس سے نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں اور بندے کے دل میں اللہ تعالٰی کی مَحبت بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ یہ مقام بہت برتر ہے اور اس سے اعلٰی مقام یہ ہے کہ مُنعِم کی مَحبت یہاں تک غالب ہو کہ قلب کو نعمتوں کی طرف التفات باقی نہ رہے ، یہ مقام صدیقوں کا ہے ۔ اللہ تعالٰی اپنے فضل سے ہمیں شکر کی توفیق عطا فرمائے ۔

وَ قَالَ مُوْسٰۤى اِنْ تَكْفُرُوْۤا اَنْتُمْ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاۙ-فَاِنَّ اللّٰهَ لَغَنِیٌّ حَمِیْدٌ(۸)

اور موسیٰ نے کہا اگر تم اور زمین میں جتنے ہیں سب کافر ہوجاؤ (ف۱۸) تو بےشک اللہ بے پرواہ سب خوبیوں والا ہے

(ف18)

تو تم ہی ضَرر پاؤ گے اور تم ہی نعمتوں سے محروم رہو گے ۔

اَلَمْ یَاْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ ﲣ وَ الَّذِیْنَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ ﳍ لَا یَعْلَمُهُمْ اِلَّا اللّٰهُؕ-جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَرَدُّوْۤا اَیْدِیَهُمْ فِیْۤ اَفْوَاهِهِمْ وَ قَالُوْۤا اِنَّا كَفَرْنَا بِمَاۤ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ وَ اِنَّا لَفِیْ شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَنَاۤ اِلَیْهِ مُرِیْبٍ(۹)

کیا تمہیں ان کی خبریں نہ آئیں جو تم سے پہلے تھے نوح کی قوم اور عاد اور ثمود اور جو ان کے بعد ہوئے انہیں اللہ ہی جانے (ف۱۹) ان کےپاس ان کے رسول روشن دلیلیں لے کر آئے (ف۲۰) تو وہ اپنے ہاتھ (ف۲۱) اپنے منہ کی طرف لے گئے (ف۲۲) اور بولے ہم منکر ہیں اس کے جو تمہارے ہاتھ بھیجا گیا اور جس راہ (ف۲۳) کی طرف ہمیں بلاتے ہو اس میں ہمیں وہ شک ہے کہ بات کھلنے نہیں دیتا

(ف19)

کتنے تھے ۔

(ف20)

اور انہوں نے معجزات دکھائے ۔

(ف21)

شدّتِ غیظ سے ۔

(ف22)

حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ وہ غصّہ میں آ کر اپنے ہاتھ کاٹنے لگے ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ انہوں نے کتاب اللہ سن کر تعجب سے اپنے منہ پر ہاتھ رکھے ، غرض یہ کوئی نہ کوئی انکار کی ادا تھی ۔

(ف23)

یعنی توحید و ایمان ۔

قَالَتْ رُسُلُهُمْ اَفِی اللّٰهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-یَدْعُوْكُمْ لِیَغْفِرَ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَ یُؤَخِّرَكُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّىؕ-قَالُوْۤا اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَاؕ-تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَصُدُّوْنَا عَمَّا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا فَاْتُوْنَا بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ(۱۰)

ان کے رسولوں نے کہا کیا اللہ میں شک ہے (ف۲۴) آسمانوں اور زمین کا بنانے والا تمہیں بلاتا ہے (ف۲۵) کہ تمہارے کچھ گناہ بخشے (ف۲۶) اور موت کے مقرر وقت تک تمہاری زندگی بے عذاب کاٹ دے بولے تم تو ہمیں جیسے آدمی ہو (ف۲۷) تم چاہتے ہو کہ ہمیں اس سے باز رکھو جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے (ف۲۸) اب کوئی روشن سند ہمارے پاس لے آؤ (ف۲۹)

(ف24)

کیا اس کی توحید میں تردُّد ہے ، یہ کیسے ہو سکتا ہے ، اس کی دلیلیں تو نہایت ظاہر ہیں ۔

(ف25)

اپنی طاعت و ایمان کی طرف ۔

(ف26)

جب تم ایمان لے آؤ اس لئے کہ اسلام لانے کے بعد پہلے کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں سوائے حقوقِ عباد کے اور اسی لئے کچھ گناہ فرمایا ۔

(ف27)

ظاہر میں ہمیں اپنی مثل معلوم ہوتے ہو پھر کیسے مانا جائے کہ ہم تو نبی نہ ہوئے اور تمہیں یہ فضیلت مل گئی ۔

(ف28)

یعنی بُت پرستی سے ۔

(ف29)

جس سے تمہارے دعوے کی صحت ثابت ہو ۔ یہ کلام ان کا عناد و سرکشی سے تھا اور باوجود یکہ انبیاء آیات لا چکے تھے ، معجزات دکھا چکے تھے پھر بھی انہوں نے نئی سند مانگی اور پیش کئے ہوئے معجزات کو کالعدم قرار دیا ۔

قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ اِنْ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَمُنُّ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖؕ-وَ مَا كَانَ لَنَاۤ اَنْ نَّاْتِیَكُمْ بِسُلْطٰنٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ(۱۱)

ان کے رسولوں نے ان سے کہا (ف۳۰) ہم ہیں توتمہاری طرح انسان مگر اللہ اپنے بندوں میں جس پر چاہے احسان فرماتا ہے (ف۳۱) اور ہمارا کام نہیں کہ ہم تمہارے پاس کچھ سند لے آئیں مگر اللہ کے حکم سے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہیے(ف۳۲)

(ف33)

ہم سے ایسا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ قضائے الٰہی میں ہے وہی ہوگا ، ہمیں اس پر پورا بھروسہ اور کامل اعتماد ہے ۔ ابو تراب رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول ہے کہ توکُّل بدن کو عبودیت میں ڈالنا ، قلب کو ربوبیت کے ساتھ متعلق رکھنا ، عطا پر شکر ، بلا پر صبر کا نام ہے ۔

(ف34)

اور رُشد و نَجات کے طریقے ہم پر واضح فرما دیئے اور ہم جانتے ہیں کہ تمام امور اس کے قدرت و اختیار میں ہیں ۔

وَ مَا لَنَاۤ اَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللّٰهِ وَ قَدْ هَدٰىنَا سُبُلَنَاؕ-وَ لَنَصْبِرَنَّ عَلٰى مَاۤ اٰذَیْتُمُوْنَاؕ-وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ۠(۱۲)

اور ہمیں کیا ہوا کہ اللہ پر بھروسہ نہ کریں (ف۳۳) اس نے تو ہماری راہیں ہمیں دکھادیں (ف۳۴) اور تم جو ہمیں ستا رہے ہو ہم ضرور اس پر صبر کریں گے اور بھروسہ کرنے والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہیے

(ف35)

یعنی اپنے دیار ۔