أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ الَّذِيۡنَ هُمۡ مِّنۡ خَشۡيَةِ رَبِّهِمۡ مُّشۡفِقُوۡنَۙ‏ ۞

ترجمہ:

بیشک جو لوگ اپنے رب کے جلال سے ڈرتے رہتے ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک جو لوگ اپنے رب کے جلال سے ڈرتے رہتے ہیں۔ اور جو لوگ اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور جو لوگ اپنے رب کے ساتھ شرک نہیں کرتے۔ اور جو لوگ (اللہ کی راہ میں) جو کچھ دیتے ہیں وہ خوف زدہ دلوں کے ساتھ دیتے ہیں (اس یقین کے ساتھ) کہ وہ اللہ کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ وہ لوگ نیک کاموں میں جلدی کرتے ہیں اور وہی نیکیوں میں سب سے بڑھنے والے ہیں۔ (المومنون : ٦١-٥٧ )

مومنوں کی تحسین کی پانچ وجوہ 

اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی مذمت فرمائی تھی اور ان آیتوں میں حسب ذیل پانچ وجوہ سے مومنین کی تحسین فرمائی ہے :

(١) مومنین اپنے رب سے ڈرتے ہیں، مقاتل اور کلبی وغیرہ نے کہا وہ اپنے رب کے عاب سے ڈرتے ہیں اور بعض مفسرین نے کہا وہ اپنے رب کے ڈر سے دائما اس کی اطاعت کرتے ہیں اور تحقیق یہ ہے کہ جس شخص کے دل میں اپنے رب کا خوف کامل درجہ کا ہوگا، وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے ناراض ہونے سے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے عذب سے بےحد خوف زدہ ہوگا اور جس شخص کا یہ حال ہوگا وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بہت دور رہے گا۔

(٢) اور جو لوگ اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہی، اس کا معنی یہ ہے کہ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی ذات اور صفات پر نشانیاں بکھری ہوئی ہیں جو لوگ ان نشانیں میں غور اور فکر کر کے صاحب نشان تک پہنچتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات پر ایمان لاتے ہیں۔

(٣) اور جو لوگ اپنے رب کے ساتھ شرک نہیں کرتے، اس سے مراد شرک جلی نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی ذات اور صفات پر نشانیاں بکھری ہوئی ہیں جو لوگان نشانیوں میں غور اور فکر کے صاحب نشان تک پہنچتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات پر ایمان لاتے ہیں۔

(٣) اور جو لوگ اپنے رب کے ساتھ شرک نہیں کرتے، اس سے مراد شرک جلی نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اس کو مستلزم ہے کہ اس کے ساتھ شرک نہ کیا جائے بلکہ اس سے مراد شرک خفی ہے یعنی وہ ریا کاری نہیں کرتے اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت صرف اللہ کی رضا کے لئے کرتے ہیں کسی کو دکھانے اور سنانے کے لئے اللہ کی عبادت نہیں کرتے۔

(٤) اور جو لوگ (اللہ کی راہ) جو کچھ دیتے ہیں وہ خوف زدہ دلوں کے ساتھ دیتے ہیں، اس سے مراد وہ تمام کام ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان پر الزم کردیئے ہیں خواہ ان کا تعلق حقوق اللہ سے ہو، جیسے نماز اور زکوۃ وغیرہ یا انکا تعلق حقوق العباد سے ہو جیسے لوگوں کی امانتیں ادا کرنا اور ان کے قرض ادا کرنا اور ان کے معاملات میں عدل و انصاف کرنا۔

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے اس آیت کے متعق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : والذین یوتون ما اتوا و قلوبھم وجلۃ (المومنون : ٦٠) کیا اس آیت کا مصداق وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ہیں اور چوری کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں اے صدیق کی بیٹی اس کا مصداق وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور صدقہ کرتے ہیں اس کے باوجود وہ اس سے ڈرتے ہیں کہ ان کی یہ عبادتیں قبول نہ کی جائیں۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣١٧٥ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث، ٤١٩٨ مسند حمیدی رقم الدیث، ٢٧٥ المستدرک ج ٢ ص ٣٩٣ شرح السنتہ ج ٦ ص ٢٥ )

(٥) وہ لوگ نیک کاموں میں جلدی کرتے ہیں، اس کا معنی یہ ہے کہ وہ بہت رغبت اور اہتمام سے اللہ تعالیٰکی عبادت کرتے ہیں اور انہیں یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ کہیں یہ عبادت اپنے وقت سے مئوخر نہ ہوجائے اور کہیں اس عبادت کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ ہوجائے اور فرمایا وہی نیکیوں میں سبقت کرنے والے ہیں، یعنی وہ دوسرے لوگوں سے پہلے نیکی کرنا چاہتے ہیں یا اس کا معنی یہ ہے کہ وہ عبادت کے اجر میں سبقت کرنے والے ہیں ان کو انکی نیکیوں کا اجر آخرت سے پہلے دنیا میں بھی مل جاتا ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 57