أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَدۡ كَانَتۡ اٰيٰتِىۡ تُتۡلٰى عَلَيۡكُمۡ فَـكُنۡتُمۡ عَلٰٓى اَعۡقَابِكُمۡ تَـنۡكِصُوۡنَۙ ۞

ترجمہ:

بیشک اس سے پہلے میری آیتیں تم پر تلاوت کی جاتی تھیں تو تم ایڑیوں کے بل پلٹ کر بھاگ جاتے تھے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک اس سے پہلے میری آیتیں تم پر تلاوت کی جاتی تھیں تو تم ایڑیوں کے بل پلٹ کر بھاگ جاتے تھے۔ اس پر تکبر کرتے ہوئے اس قرآن کو افسانہ کہہ کر بکواس کرتے ہوئے۔ (المومنن : ٦٧-٦٦ )

نکوص، سمر اور ہجر کے معانی 

تنکصون، نکوص سے بنا ہے، نکوص کا معنی ہے کسی چیز سے پھرنا، باز رہنا اور بھاگ جانا۔

سامرا : سمر سے بنا ہے اس کا معنی ہے رات کو باتیں کرنا قصے کہانیاں سناتا، اور سامر کا معنی ہے کہانی سنانے والا افسانہ گو داستان سرا علامہ آلوسی نے لکھا ہے کہ سمر اصل میں ظل قمر (چاند کا سایا) کو کہتے ہیں ” مطلع “ میں مذکور ہے کہ چاند کا سایا اپنے دھند لے پن کی وجہ سے اس نام سے موسوم ہے اور البحر المحیط میں مذکور ہے کہ جو چاندنی درختوں پر چڑھتی ہے اس کو سمر کہتے ہیں اور علامہ راغب نے لکھا ہے کہ رات کے اندھیرے کو سمر کہتییں، بعد میں اس لفاظ کا استعمال رات میں باتیں کرنے کے لئے ہونے لگا اور بعض نے کہا سامر کا معنی ہے اندھیری رات۔

تھجرون : یہ لفظ ھجر سے بنا ہے، ھجر کا معنی ہے گپ چھوڑنا شیخی بگھارنا، ڈینگ مارنا، بےہودہ باتیں کرنا، ہذیان بکنا اور کسی چیز کے ترک کرنے کو بھی ہجر کہتے ہیں۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مرض الموت میں کاغذ اور قلم مانگا تاکہ آپ ایسی چیز لکھ دیں جس کے بعد مسلمان گمراہ نہ ہوں تو بعض مسلمانوں نے کہا اھجر استفھمرہ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٤٣١، صحیح مسلم رقم الحدیث، ١٦٥٧، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٠٢٩ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث، ٥٨٥٤ یعنی کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں چھوڑ کر اللہ کے پاس جا رے ہیں، آپ سے دریافت کرلو، اس حدیث میں ہجر بیماری میں ہذیان بکنے اور بےہودہ باتیں کرنے کے معنی میں نہیں ہے۔ ترک کرنے اور چھوڑنے کے معنی میں ہے اور قرآن مجید کی اس آیت میں تھجرون بیہودہ باتیں کرنے اور ہذیان بکنے کے معنی میں ہے۔

مشرکین کے تکرب کے محامل 

اس آیت میں ہے اس پر تکبک کرتے ہوئے، جمہور نے کہا یہ ضمیر حرم کی طرفیا مسجد حرام کی طرف یا شہر مکہ کی طرف لوٹ رہی ہے، ہرچند کہ اس کا پہلے ذکر نہیں ہے، کیونکہ وہ مشہور ہے، مشرکین کہا کرتے تھے ہم اہل حرم ہیں کسی سے نہیں ڈرتے ایک قول یہ ہے کہ ان کا اپنے دلوں میں یہ اعتقاد تھا کہ حرم پر اور کعبہ پر ان کا تمام لوگوں سے زیادہ حق ہے سو وہ اس پر تکبر کرتے تھے اور بعض مفسرین نے کہا یہ ضمیر قرآن مجید کی طرف لوٹ رہی ہے کیونھ کہ اس سے پہلے یہ ذکر ہے : بیشک اس سے پہلے میری آیتیں تم پر تلاوت کی جاتی تھیں اور اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب تم میری آیات کو سنتے ہو تو تم تکبر اور سرکشی کرتے ہو اور تم ان پر ایمان نہیں لاتے، ابن عطیہ نے کہا یہ بہت عمدہ تفسیر ہے اور النحاس نے کہا پہلی تفسیر راجح ہے مشرکین حرم پر فخر کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اللہ کے حرم کے رہنے والے ہیں۔

عشاء کی نماز کے بعد جاگ کر باتیں کرنے کا شرعی حکم اور اس کے متعلق احادیث 

سامراً کے معنی ہم نے ذکر کئے کہ اس کا معنی ہے رات کو باتیں کرنے والا اور تھجرون کا معنی ہے بری باتیں کرنا یعنی وہ رات کو قرآٰن مجید اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بری اور بےہودہ باتیں کرتے تھے، حضرت ابن عباس نے فرمایا وہ اپنی راتیں اطاعت اور عبادت کے بجائے، معصیت اور بےہودہ گوئی میں گزارتے تھے، سمر (رات کو باتیں کرنے) کے متعلق یہ حدیث ہے :

حضرت ابوبرزہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عشاء کی نماز سے پہلے سونے اور عشاء کی نماز کے بعد باتیں کرنے کو مکروہ قرار دیتے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٦٨ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٦٤٣ سنن النسائی رقم الحدیث : ١١٠٩ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث، ٥١٨)

جو شخص عشاء کی نماز کے بعد رات گئے تک باتیں کرتا رہے گا وہ تہجد کی نماز کے لئے نہیں اٹھ سکے گا اور بعض اوقات صبح کی نماز کے وقت بھی اس کی آنکھ نہیں کھلے گی، رات کو باتیں کرنے کی ممانعت میں یہ حدیث بھی ہے :

بنو سلمہ کے ایک شخص بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم عشاء کے بعد باتیں کرنے سے اجتناب کرو اور جب رات کو گدھے بولیں تو اعوذ باللہ من الشیطان الجیم پڑھو۔

حضرت عمران لوگوں کو مارا کرتے تھے جو رات کو باتیں کرتے تھے، رات کو عشاء کی نماز کے بعد باتیں کرنے کی ممانعت کی حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دن کام کاج اور روزی کمانے کے لئے بنایا ہے اور رات آرام کرنے اور سونے کے لئے بنائی ہے، اور رات کو دیرتک جاگ کر باتیں کرنا اللہ تعالیٰ کی اس حکمت اور صنعت کے خلاف ہے قرآن مجید میں ہے :

(الفرقان : ٤٧) اور وہی ہے جس نے رات کو تمہارے لئے لباس بنادیا اور نیند کو راحت بنادیا اور دن کو اٹھ کھڑے ہونے کا وقت بنادیا۔

حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بستر پر لیٹتے تو یہ دعا کرتے باسمک اموت واحیا ” تیرے نام سے ہی میں سوتا ہوں اور تیرے نام سے ہی بیدار ہوں گا “ اور جب بستر سے اٹھتے تو یہ دعا پھڑتے : الحمد اللہ الذی احیانا بعد ما اماتنا والیہ النشور ” تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کردیا اور اسی کی طرف اٹھنا ہے۔ “ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٣١٤ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٤١٧ سنن النسائیرقم الحدیث : ٧٤٧ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨٨٠ مسند احمد رقم الحدیث : ٢٣٦٦٠ عالم الکتب بیروت، سنن دارمی رقم الحدیث : ٢٦٨٩، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٥٥٣٢)

رات کو جاگ کر دیر تک باتیں کرنا اس صورت میں ممنع اور مکروہ ہے، جب قصہ کہانی اور کھیل تماشے کی یا دنیاوی باتیں کی جائیں لیکن اگر فقہ اور دین کی باتیں کی جائیں یا ذکر اذکار، تسبیح پڑھنے یا نوافل پڑھنے، صلاۃ التسبیح اور شبینہ پڑھنے یا وعظ اور دینی تقاریر سننے اور سنانے میں رات کو دیر تک جاگا جائے تو وہ مذموم نہیں ہے محمود ہے، حدیث ہے، حدیث میں ہے :

قرۃ بن خالد بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حسن بصری کا انتظار کیا انہوں نے آنے میں دیر کردی تھی حتیٰ کہ ہم اٹھنے کے وقت کے قریب پہنچ گئے پھر وہ آگئے اور کہا ہم کو ہمارے ان پڑوسیوں نے بلا لیا تھا، پھر کہا کہ حضرت انس (رض) نے بیان کیا کہ ایک رات ہم عشاء کی نماز کے لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتنظار کرتے رہے حتیٰکہ آدھی رات کے قریب وقت آگیا پھر آپ آئے اور آپ نے ہم کو نماز پڑھائی پھر ہم کو خطبہ دیا اور فرمایا سنو ! لوگوں نے عشاء کی نماز پڑھی اور سو گئے اور بیشک تمہارا شمار ہوتا رہا جب تک تم نماز کا انتظار کرتے رہے، حسن بصری نے کہا لوگوں کا اس وقت تک نیکی میں شمار ہوتا رہتا ہے جب تک وہ نیکی کے انتظار میں رہتے ہیں، قرۃ نے کہا یہ بھی حضرت انس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٠٠ مسند احمد رقم الحدیث : ١٥٠١٢ (صحیح مسلم رقم الدیث : ٦٤٠ )

نیکی اور خیر کی وجہ سے رات کو جاگنے اور باتیں کرنے کے متعلق یہ حدیث بھی ہے :

حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر (رض) بیان کرتے ہیں کہ اصحاب صفہ (مسجد نبوی کے طالب علم) فقراء تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تیسرا (طالب علم) لے جائے، اور اگر چار کا کھانا ہو تو پانچواں لے جائے اور اگر پانچ کا کھانا ہو تو چھٹا لے جائے اور حضرت ابوبکر صدیق تین کو لے گئے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دس کو لے گئے پس میں اور میرے والد حضرت ابوبکر اور میری والدہ اور میری بیوی اور میرا خادم ہم لوگ حضرت ابوبکر کے گھر میں تھے اور حضرت ابوبکر رات کا کھانا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کھاتے تھے پھر وہیں ٹھہرے رہتے تھے اور جب عشاء کی نماز پڑھ لی جاتی تھی تو پھر واپس آتے تھے پس اس رات وہ ٹھہرے رہے حتی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھانا کھالیا پھر کافی رات گزرنے کے بعد آئے انکی بیوی نے کہا آپ کو کسی چیز نے مہانوں کی خاطر جلد آنے سے روک لیا، حضرت ابوبکر نے پوچھا کیا تم نے ان کو کھانا نہیں کھلایا ان کی بیوی نے کہا انہوں نے آپ کے بغیر کھانے سے انکار کردیا، انہیں کھانا پیش کیا گیا تھا مگر انہوں نے کھانے سے انکار کردیا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر نے کہا میں ایک جگہ جا کر چھپ گیا، حضرت ابوبکر نے (میرے متعلق) کہا اے ملامت زدہ، اللہ اس کی ناک کاٹ ڈالے اور مزید برا کہا، اور مہمانوں سے کہا تم کھائو خدا کرے تمہیں یہ کھانا اچھا نہ لگے اور کہا اللہ کی قسم میں اس کھانے کو کبھی نہیں کھائوں گا، اور اللہ کی قسم ہم اس کھانے سے جو بھی لقمہ کھاتے وہ نیچے سے اور زیادہ نکل آتا اور پہلے سے زیادہ ہوجاتا حضرت عبدالرحمٰن نے کہا حتیٰ کہ مہمان سیر ہوگئے اور وہ کھانا پہلے سے زیادہ تھا، حضرت ابوبکر نے اس کھانے کی طرف دیکھا وہ اتنا ہی تھا یا اس سے زیادہ تھا تو انہوں نے اپنی بیوی سے کہا : اے بنو فراس کی بہن ! یہ کیا معاملہ ہے ان کی بیوی نے کہا میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم یہ کھانا تو پہلے سے تین گنا زیادہ ہے پھر حضرت ابوبکر نے بھی اس کھانے سے کھایا اور کہا میں نے جو اس کھانے کو نہ کھانے کی قسم کھائی تھی وہ شیطانی کام تھا، انہوں نے اس کھانے سے ایک لقمہ اور لیا پھر وہ کھانا اٹھا کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے گئے اور وہ کھانا آپ کے پاس رہا اور ہمارے اور ایک قوم کے درمیان معاہدہ تھا اس کی مدت گزر چکی تھی، ہم نے بارہ نقیبوں (مختار کار، قوم کے معاملات کی دیکھ بھال کرنے والوں) کو بلایا اور ہر نقیب کے ساتھ لوگ تھے اللہ ہی جانتا ہے ان لوگوں کی تعداد کتنی تھی، سو ان سب لوگوں نے وہ کھانا کھالیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٠٤ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٠٥٧ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٣٢٧١)

حضرت ابوبکر کے مہمانوں کی حدیث سے استباط شدہ مسائل 

اس حدیث سے بہت سے فقہی احکام مستنبط ہوتے ہیں، ہم نے جس وجہ سے اس حدیث کو ذکر کیا ہے وہ ہے عشاء کے بعد نیکی کی باتیں کرنا، کیونکہ حضرت ابوبکر عشاء کی نماز نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ پڑھ کر آئے تھے پھر گھر آ کر مہمانوں کے متعلق دریافت کیا ان کو کھانا کھلایا اور بقیہ کھانا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے کر گئے اور نقیبوں اور ان کے ساتھیوں کو وہ برکت والا کھانا کھلایا۔

اس حدیث کے بقیہ مسائل اور احکام یہ ہیں کہ فقراء کی غم خواری کرنی چاہیے اور ان کے لئے ایثار کرنا چاہیے اور جب فقراء زیادہ ہوں تو قوم کے امیر کو انہیں لوگوں میں تقسیم کردینا چاہیے اور جو شخص جتنے مہمان لے جاسکے اتنے مہمان لے جائے اور قوم کے امیر کو چاہیے کہ وہ بھی جتنے مہمان یا فقراء لے جاسکتا ہو وہ لے جائے، حضرت ابوبکر تین کو لے گئے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دس کو لے گئے اس سے معلوم ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جود و سخا میں سب سے بڑھ کر تھے اور آپ دوسروں کو جو حکم دیتے تھے خود اس سے زیادہ پر عمل کرتے تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عیال کی تعداد ان مہمانوں کے قریب تھی آپ نے اور آپ کے عیال نے نصف طعام کھایا اور باقی مہمانوں کو کھلا دیا اور حضرت ابوبکر نے دو تہائی کھانا اپنے عیال کو کھلایا اور باقی مہمانوں کو کھلا دیا، حضرت ابوبکر رات کا کھانا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کھاتے تھے اور رات گئے عشاء کی نماز پڑھ کر آتے تھے اس سے پتاچلتا ہے کہ ان کو آپ سے کتنی محبت تھی اور وہ اپنے اہل، اپنی اولاد اور اپنی بیوی اور مہمانوں کے لئے جو قوت ہوتا تھا وہ بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں گزار دیتے تھے۔ مہمانوں نے جو حضرت ابوبکر کے بغیر کھانا نہیں کھایا وہ ان کا حسن ادب تھا اور حضرت ابوبکر کے اہل خانہ کے ساتھ نرمی اور ملائمت تھی ان کو یہ گمان تھا کہ انکے کھانے کے بعد شاید حضرت ابوبکر کے لئے کھانا نہ بچے علماء نے یہ کہا ہے کہ مہمان کو یہ چاہیے کہ وہ میزبان کے کہنے کے مطابق کریں اگر وہ ان کو جلد کھانا کھلانا چاہیے یا جس طرح کا اور جتنی مقدار میں کھلانا چاہیے اس کی موافقت کریں، ہاں اگر اس کو معلوم ہو کہ میزبان اس کی وجہ سے تکلف کر رہا ہے اور دشواری میں پڑ رہا ہے تو وہ نرمی سے منع کر دے ہوسکتا ہے کہ میزبان کا اس میں کوئی عذر ہو یا کوئی غرض ہو اور وہ اس کا اظہار نہ کرنا چاہتا ہو اور مہمانوں کے اختالف کر نیکی وجہ سے اس کو دشاری کا سامنا ہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر، حضرت ابوبکر کے آنے کے بعد انکے ڈر کی وجہ سے چھپ گئے۔ حضرت ابوبکر نے ان کو ڈانٹا اور تادیباً برا کہا اس سے معلوم ہوا کہ اولاد بڑی بھی ہوجائے پھر بھی ماں باپ کو اسے جھڑکنے اور ڈانٹنے کا ختیار ہوتا ہے، حضرت ابوبکر نے مہمانوں سے کہا تم کھائو تم کو یہ کھانا خوشگوار نہ لگے، انہوں نے مہمانوں کو بد دعا نہیں دی تھی بلکہ یہ بتایا تھا کہ اتنی تاخیر سے کھانا خوش گواری کا باعث نہیں ہوتا، حضرت ابوبکر نے قسم کھائی تھی کہ وہ یہ کھانا نہیں کھائیں گے پھر جب ان کو معلوم ہوا کہ یہ کھانا برکت والا ہے اور پہلے سے تین گنا زیادہ ہے تو انہوں نے قسم توڑ دی اور اس کھانے سے کھایا اور اس حدیث پر عمل کیا کہ جو شخص کسی کام کو نہ کرنے کی قسم کھائے پھر معلوم ہو کہ وہ کام اچھا ہے تو وہ قسم توڑ کر اس کام کو کرلے اور اس قسم کا کفارہ دے دے۔

حضرت ابوبکر ایثار کر کے تین آدمیوں کو کھانا کھلانے کے لئے اپنے ساتھ لے گئے تھے اللہ تعالیٰ نے اس کی جزاء میں اس کھانے کو تین گنا زیادہ کردیا، اس حدیث میں حضرت ابوبکر صدیق کی ظاہر کرامت ہے اور اہل سنت کے نزدیک اولیاء کی کر اتم ثابت ہے اور معتزلہ اس کے منکر ہیں، حضرت ابوبکر کی بیوی نے قسم کھائی میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم ! اس کی وجہ یہ ہے کہ خشوی کے آنسو ٹھنڈے ہوتے ہیں اور جلد خشک ہوجاتے ہیں اور غم کے آنسو گرم ہوتے ہیں اور جلد خشک نہیں ہوتے اس لئے کہا جاتا ہے اللہ تمہاری آنکھیں ٹھنڈی رکھے، غیر اللہ کی قسم کھانا منع ہے اور حضرت ابوبکر کی بیوی نے قسم کھائی میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم ! یعنی حضرت ابوبکر کی قسم اس کا جواب یہ ہے کہ غیر اللہ کی قسم کھانا اس وقت منع ہے جب مقصود یہ ہو کہ اگر قسم پوری نہیں کی تو و کفارہ دے گا یعنی شرعی قسم اور یہ لغوی قسم ہے جس سے مقصود صرف اظہار تعظیم ہے۔ حضرت ابوبکر اس کھانے کو اٹھا کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے گئے اس سے حضرت ابوبکر کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے غیر معملوی محبت کا پتا چاہتا ہے کہ جو اچھی چیز ہو وہ اس کو آپ کے پاس لے جاتے تھے اور وہ کھانا آپ کی برکت سے اتنا زیادہ ہوگیا کہ بارہ نقیبوں اور ان کے ساتھ جتنے آدمی تھے ان سب نے کھالیا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 66