مسجدوں میں سینیٹائزر ؟؟؟

تحریر : نثار مصباحی

رکن : روشن مستقبل

حکومت نے آج 8 جون سے عبادت گاہوں میں جمع ہونے کے بارے میں کچھ شرطوں کے ساتھ ڈھیل دی ہے.

آج ہم نے ایک صوبائی حکومت کی جاری کردہ نئی گائڈ لائن دیکھی جس میں اب بھی 5 سے زیادہ لوگوں کو عبادت گاہوں میں ایک جگہ جمع ہونے سے صاف منع کر دیا گیا ہے. !!!! یعنی عبادت گاہیں اگرچہ کھل گئی ہیں مگر 5 لوگوں سے زیادہ ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے. !!!!

اتنا ہی نہیں, لائنوں اور صفوں میں ایک دوسرے کے درمیان 6 فٹ کا فاصلہ رکھنے کا آرڈر بھی دیا گیا ہے. !!! جب کہ مارکیٹ ہفتوں سے کھل رہے ہیں, لوگوں کی بھیڑ بھی لگتی ہے مگر وہاں 6 فٹ تو دور 2 فٹ کی بھی دوری نہیں ہوتی, اور کہیں کہیں اختلاط تو ایسا ہوتا ہے کہ لگتا ہے فاصلہ بنا کر رکھنے کا کوئی آرڈر ہی نہیں ہے. !!!!

اس کے علاوہ اس گائڈ لائن میں صاف صاف الکحل کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ دروازے پر الکحل والے سینیٹائزر کا لازمی انتظام کیا جائے اور ہر داخل ہونے والا شخص دروازے پر اپنا ہاتھ الکحل والے سینیٹائزر سے سینیٹائز کرکے ہی اندر داخل ہو. !!!

بعض جگہوں سے مسجدوں میں سینیٹائزر استعمال کرنے کی اطلاعات بھی آ رہی ہیں. (حقیقت کیا ہے, اللہ جانے) !!!

برادرِ گرامی مولانا غلام مصطفی نعیمی (رکن : روشن مستقبل) کا ایک مضمون سوشل میڈیا پر آپ حضرات نے دیکھا ہوگا جس میں انھوں نے مفتیانِ کرام سے کچھ گزارشات کی ہیں, اس میں آپ نے سینیٹائزر کے بارے میں بھی گزراش کی ہے. انھوں نے ذکر کیا ہے کہ ہندو پجاریوں نے الکحل والے سینیٹائزر کے خلاف آواز بلند کی ہے اور مندروں کے باہر صابن اور پانی کا انتظام کرنے کے لیے حکومت سے کہا ہے تاکہ “الکحل” کی وجہ سے مندر ‘اَپَوِتر'(ناپاک) نہ ہو. !!

یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ الکحل اپنی حقیقت کے اعتبار سے ‘شراب کی روح’ اور حکمِ شرع کے اعتبار سے ناپاک ہے. جس طرح پیشاب ناپاک ہوتا ہے.

آگے بڑھنے سے پہلے ایک شرعی اصول کا ذکر ضروری ہے.

صرف مسجدوں کو ہی نہیں بلکہ کسی بھی پاک چیز کو قصداً ناپاک کرنا حرام ہے.

فقہ کا مشہور ضابطہ ہے:

“تنجیس الطاہر حرام”

“پاک چیز کو ناپاک کرنا حرام ہے.”

جب عام پاک چیزوں کا یہ حکم ہے تو پھر مسجدیں ناپاک کرنے کا حکم کتنا شدید ہوگا.؟ مسجد تو وہ جگہ ہے جس کی اندرونی دیوار پر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے انسانی ناک سے نکلی پاک رینٹھ یا تھوک بھی ایک لمحے کے لیے گوارا نہ کیا اور کسی صحابی کو حکم دینے کی بجائے خود ہی اسے صاف فرما دیا. (بخاری شریف وغیرہ متعدد کتب)

پھر کسی غلیظ اور ناپاک چیز سے مسجدوں کی آلودگی اُن کی شریعت کیسے گوارا کر سکتی ہے.؟

جہاں عبادت گاہوں کے دروازے پر الکحل والا سینیٹائزر لازم کر دیا گیا ہے, وہاں مسجدوں کے دروازے پر الکحل والے سینیٹائزر سے ہر نمازی کا ہاتھ ناپاک ہوگا. اور پھر اس ناپاکی کی وجہ سے اس کی نماز بھی درست نہیں ہوگی.

اور اگر مسجدوں میں الکحل والا سینیٹائزر چھڑکا گیا یا کسی گھول میں اس کا تھوڑا سا حصہ بھی ملایا گیا تو پورا گھول ناپاک ہو جائے گا, اور چھڑکنے پر جہاں جہاں وہ پڑے گا وہاں وہاں مسجد ناپاک ہوجائے گی.

اس طرح نمازی کا ہاتھ اور نماز کی جگہ دونوں ناپاک ہونے کی وجہ سے نماز سرے سے ہوگی ہی نہیں.

بعض لوگ کہتے ہیں کہ سینیٹائزر کا اثر تھوڑی دیر کے بعد ختم ہو جاتا ہے.

بالفرض ناپاک سینیٹائزر تھوڑی دیر بعد اڑ بھی جاتا ہو تب بھی ‘تنجیس’ یعنی (ہاتھ اور مسجد کو) ناپاک کرنے کا فعل تو پایا گیا, اگرچہ ہمارے فعل کا اثر زیادہ دیر باقی نہیں رہا. اور فعلِ تنجیس یعنی پاک کو ناپاک کرنا ہی حرام ہے.

بہرحال ناپاک سینیٹائزر سے مسجد کو سینیٹائز کرنا حرام ہی رہے گا. اس کی اجازت کی کوئی صورت نہیں بن سکتی.

صرف وضو خانوں اور سیڑھیوں پر استعمال کی بات معقول نہیں ہے. کیوں کہ پہلی بات تو یہ کہ حکومتی کارندوں کی نگرانی ہو تو ایسا ممکن ہی نہیں ہے. وہ ضرور مسجد کے اندرونی حصے کو بھی سینیٹائز کروائیں گے. دوسری بات یہ کہ لوگ اس لاک ڈاؤن میں دی گئی ہدایات کے مطابق عموماً گھر سے وضو کرکے آئیں گے اس لیے صرف وضو خانوں کو سینیٹائز کرنے کی کوئی معقول وجہ ہمارے پاس نہیں ہوگی. تیسری بات یہ کہ وضو خانے, سیڑھی اور گیٹ اگرچہ اصل مسجد میں داخل نہیں مگر انھیں ناپاک کرنا بھی درست نہیں. کیوں کہ وہ بھی پاک جگہیں ہیں. جنھیں جان بوجھ کر نجاست سے آلودہ کرنا حرام ہے. سیڑھیوں میں ایک دقت یہ بھی ہے کہ ناپاک ہونے پر لوگ اسی پر پاؤں رکھ دیں تو سینیٹائزر سے پاؤں بھی آلودہ ہو جائے گا.

آخر میں گزارش ہے کہ بیماریوں کے خدشات کے پیشِ نظر مسجد کے اندر پاکیزگی کے ساتھ صفائی کا ہر ضروری اہتمام کریں. صفائی, ستھرائی اور وائرس سے بچاؤ کے لیے جائز تدبیریں استعمال کریں. مگر خدا را مسجدوں کو آلودہ نہ کریں.

پانچ وقت وضو کرتے ہی ہیں, ان کے علاوہ جب بھی وضو ٹوٹے فوراً تازہ وضو کرلیں. اور ہمیشہ باوضو رہنے کی کوشش کریں. ہمیشہ طہارت پر رہنا جہاں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا طریقہ ہے وہیں یہ ظاہری اور باطنی طہارت کے ساتھ طبیعت میں نفاست اور ستھرائی بھی لاتا ہے. اس کے علاوہ پانی سے بار بار ہاتھ منہ دھونا وائرس سے بچاؤ کا سب سے اچھا طریقہ ہے, یہ سبھی مانتے ہیں.

مفتیانِ کرام, قائدین ملت, اور پیشوایانِ مسلمین اس معاملے میں یک زبان ہو کر انتظامیہ سے یہ کَہ دیں کہ مسجدوں کے دروازے یا اندرونی حصے پر الکحل والا سینیٹائزر استعمال نہیں ہوگا. ہاں, دروازے پر صابن اور سادہ پانی استعمال ہوسکتا ہے, مگر الکحل والا سینیٹائزر ہرگز نہیں.

نثارمصباحی

8 جون1441ھ