وَاِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُكُمۡ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّاَنَا رَبُّكُمۡ فَاتَّقُوۡنِ ۞- سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 52
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُكُمۡ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّاَنَا رَبُّكُمۡ فَاتَّقُوۡنِ ۞
ترجمہ:
بیشک یہ تمہارا دین ایک ہی دین ہے اور میں تمہارا رب ہوں سو تم مجھ سے ڈرو
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک یہ تمہارا دین ایک ہی دین ہے اور میں تمہارا رب ہوں سو تم مجھ سے ڈرو۔ (المومنون : ٥٢ )
امت کا معنی
اس آیت میں دین کے لئے امت کا لفظ ہے اور امت کا معنی ہے جماعت اور حیوان کی جنس میں سے ہر جماعت ای کا مت ہے حدیث میں ہے اگر کتے امتوں میں سے ایک امت نہ ہوتے تو میں ان کو قتل کرنے کا حکم دیتا اور امت کا معنی طریقہ اور دین ہے کہا جاتا ہے فلان لا امۃ لہ یعنی اس کا کوئی دین نہیں ہے، قرآن مجید میں ہے کنتم خریامۃ یعنی تم اہل دین میں سب سے بہتر ہو اور امت کا معنی ہے وقت اور مدت قرآن مجید میں ہے واذکر بعد امۃ اس کو ایک مدت کے بعد یاد آگیا۔ (مختار الصحاح میں ٢٨ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٩ ھ)
اس آیت کا معنی ہے کہ جس طرح تمام انبیاء کا اس پر اتفاق واجب ہے کہ وہ حلال کھائیں اور اعمال اصلحہ کریں اسی طرح ان کا اس پر اتفاق واجب ہے کہ وہ توحید پر قائم رہیں اور گناہوں سے اجتناب کریں۔
اس پر یہ اعتراض ہے کہ جب تمام رسولوں کی شریعتیں مختلف ہیں تو ان کا دین واحد کیسے ہوسکتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دین سے مراد وہ امور ہیں جن میں ان کا اختلاف نہیں ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی معرفت اور رہیں ان کی شریعتیں تو ان میں جو ان کا اختلاف ہے اس کو دین میں اختلاف نہیں کیا جاتا اور فرمایا میں تمہارا رب ہوں سو تم مجھ سے ڈرو اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت میں سب کا ایک ہی دین ہے اور اس کی معصیت سے اجتناب میں سب کا ایک ہی دین ہے اور اس میں شریعتوں کے اختالف کا کوئی دخل نہیں ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 52