وَلَوِ اتَّبَعَ الۡحَـقُّ اَهۡوَآءَهُمۡ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالۡاَرۡضُ وَمَنۡ فِيۡهِنَّؕ بَلۡ اَتَيۡنٰهُمۡ بِذِكۡرِهِمۡ فَهُمۡ عَنۡ ذِكۡرِهِمۡ مُّعۡرِضُوۡنَؕ ۞- سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 71
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَلَوِ اتَّبَعَ الۡحَـقُّ اَهۡوَآءَهُمۡ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالۡاَرۡضُ وَمَنۡ فِيۡهِنَّؕ بَلۡ اَتَيۡنٰهُمۡ بِذِكۡرِهِمۡ فَهُمۡ عَنۡ ذِكۡرِهِمۡ مُّعۡرِضُوۡنَؕ ۞
ترجمہ:
اور اگر حق ان کی خواہشوں کی پیروی کرتا تو تمام آسمان اور زمینیں اور جو بھی ان میں ہیں وہ سب ہلاک ہوجاتے (نہیں نہیں ! ) بلکہ ہم تو ان کے پاس ان کی نصیحت لائے ہیں سو وہ اپنی نصیحت سے ہی منہ پھیرنے والے ہیں
المئومنون : ٧١ میں فرمایا اور اگر حق ان کی خواہشوں کی پیروی کرتا تو تمام آسمان اور زمینیں اور جو بھی ان میں ہیں وہ سب ہلاک ہوجاتے۔ اس کی حسب ذیل تفسیریں ہیں :
(١) مشرکین کا اعتقاد یہ تھا کہ حق یہی ہے کہ اللہ کیساتھ اس کے اور شرکاء بھی عبادت کے مستحق ہیں، حالانکہ اللہ کیساتھ اور شریک بھی ہوتے تو آسمان اور زمین کا نظام فاسد ہوجاتا کیونکہ ہر خدا کا حکم دوسرے کے مخالف ہوتا مثلاً ایک سورج کو مشرق سے نکالنا چاہتا اور دوسرا مغرب سے، دونوں کا ارادہ بیک وقت پورا ہونا محالت ھا پھر کسی ایک کا ارادہ پورا ہوتا اور وہی خدا ہوتا۔ الانبیائ : ٢٢ میں ہم اس معنی کو وضحت سے بیان کرچکے ہیں۔
(٢) ان کی خواہش یہ تھی کہ بتوں کی عبادت کی جائے اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعویٰ نبوت کی تکذیب کی جائے، اور ان کی اس خواہش کا پورا ہونا محال تھا کیونکہ متعدد خدائوں کی عبادت اس وقت صحیح ہوتی جب واقع میں متعدد خدا ہوتے اور اگر واقع میں متعدد خدا ہتے تو عالم کا نظام فاسد ہوجاتا۔
(٣) ان کی خواہشات متعارض اور متضادتھیں اور اگر ان متضاد خواہشوں کو پورا کیا جاتات و عالم کا نظام فاسد ہوجاتا۔ (المومنون ٧٢ میں فرمایا : کیا آپ ان سے کوئی اجرت طلب کر رہے ہیں۔ یعنی کیا یہ مشرکین اس لئے آپ کے دعویٰ نبوت کو نہیں مان رہے کہ آپ ان سے کوئی معاوضہ طلب کر رہے ہیں یہ شبہ تو بہت بعید ہے آپ کو تو آپ کا رب روزی دیتا ہے اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 71