وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَاؕ-فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظّٰلِمِیْنَۙ(۱۳)

اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا ہم ضرور تمہیں اپنی زمین (ف۳۵) سے نکال دیں گے یا تم ہمارے دین پر ہوجاؤتو انہیں ان کے رب نے وحی بھیجی کہ ہم ضرور ان ظالموں کو ہلاک کریں گے

(ف35)

یعنی اپنے دیار ۔

وَ لَنُسْكِنَنَّكُمُ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِهِمْؕ-ذٰلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِیْ وَ خَافَ وَعِیْدِ(۱۴)

اور ضرور ہم تم کو ان کے بعد زمین میں بسائیں گے (ف۳۶) یہ اس کے لیے ہے جو (ف۳۷) میرے حضو ر کھڑے ہونے سے ڈرے اورمیں نے جو عذاب کا حکم سنایا ہے اس سے خوف کرے

(ف36)

حدیث شریف میں ہے جو اپنے ہمسائے کو ایذا دیتا ہے اللہ اس کے گھر کا اسی ہمسائے کو مالک بناتا ہے ۔

(ف37)

قیامت کے دن ۔

وَ اسْتَفْتَحُوْا وَ خَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍۙ(۱۵)

اور انہوں نے (ف۳۸) فیصلہ مانگا اور ہر سرکش ہٹ دھرم نامراد ہوا (ف۳۹)

(ف38)

یعنی انبیاء نے اللہ تعالٰی سے مدد طلب کی یا اُمّتوں نے اپنے اور رسولوں کے درمیان اللہ تعالٰی سے ۔

(ف39)

معنٰی یہ ہیں کہ انبیاء کی نصرت فرمائی گئی اور انہیں فتح دی گئی اور حق کے معانِد ، سرکش کافِر نامراد ہوئے اور ان کے خلاص کی کوئی سبیل نہ رہی ۔

مِّنْ وَّرَآىٕهٖ جَهَنَّمُ وَ یُسْقٰى مِنْ مَّآءٍ صَدِیْدٍۙ(۱۶)

جہنم اس کے پیچھے لگی اور اسے پیپ کا پانی پلایا جائے گا

یَّتَجَرَّعُهٗ وَ لَا یَكَادُ یُسِیْغُهٗ وَ یَاْتِیْهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّ مَا هُوَ بِمَیِّتٍؕ-وَ مِنْ وَّرَآىٕهٖ عَذَابٌ غَلِیْظٌ(۱۷)

بمشکل اس کا تھوڑا تھوڑا گھونٹ لے گا اور گلے سے نیچے اتارنے کی امید نہ ہوگی (ف۴۰) اور اسے ہر طرف سے موت آئے گی اور مرے گا نہیں اور اس کے پیچھے ایک گاڑھا عذاب (ف۴۱)

(ف40)

حدیث شریف میں ہے کہ جہنّمی کو پیپ کا پانی پلایا جائے گا جب وہ منہ کے پاس آئے گا تو اس کو بہت ناگوار معلوم ہوگا اور جب اور قریب ہو گا تو اس سے چہرہ بُھن جائے گا اور سر تک کی کھال جل کر گر پڑ ے گی جب پئے گا تو آنتیں کٹ کر نکل جائیں گی ۔ ( اللہ کی پناہ)

(ف41)

یعنی ہر عذاب کے بعد اس سے زیادہ شدید و غلیظ عذاب ہوگا ۔ ( نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَ مِنْ غَضَبِ الْجَبَّارِ ) ۔

مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَ مَادِ ﹰ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍؕ-لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰى شَیْءٍؕ-ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ(۱۸)

اپنے رب سے منکروں کا حال ایسا ہے کہ ان کے کام ہیں (ف ۴۲) جیسے راکھ کہ اس پر ہوا کا سخت جھونکا آ یا آندھی کے دن میں (ف۴۳) ساری کمائی میں سے کچھ ہاتھ نہ لگا یہی ہے دُور کی گمراہی

(ف42)

جن کو وہ نیک عمل سمجھتے تھے جیسے کہ محتاجوں کی امداد ، مسافروں کی اعانت اور بیماروں کی خبر گیری وغیرہ چونکہ ایمان پر مبنی نہیں اس لئے وہ سب بے کار ہیں اور ان کی ایسی مثال ہے ۔

(ف43)

اور وہ سب اڑ گئی اور اس کے اجزاء منتشر ہو گئے اور اس میں سے کچھ باقی نہ رہا یہی حال ہے کُفّار کے اعمال کا کہ ان کے شرک و کُفر کی وجہ سے سب برباد اور باطل ہو گئے ۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّؕ-اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَ یَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍۙ(۱۹)

کیا تو نے نہ دیکھا کہ اللہ نے آسمان و زمین حق کے ساتھ بنائے (ف۴۴)اگر چاہے تو تمہیں لے جائے (ف۴۵) اور ایک نئی مخلوق لے آئے (ف۴۶)

(ف44)

ان میں بڑی حکمتیں ہیں اور ان کی پیدائش عبث نہیں ہے ۔

(ف45)

معدوم کر دے ۔

(ف46)

بجائے تمہارے جو فرمانبردار ہو اس کی قدرت سے یہ کیا بعید ہے جو آسمان و زمین پیدا کرنے پر قادر ہے ۔

وَّ مَا ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ بِعَزِیْزٍ(۲۰)

اور یہ (ف۴۷) اللہ پر کچھ دشوار نہیں

(ف47)

معدوم کرنا اور موجود فرمانا ۔

وَ بَرَزُوْا لِلّٰهِ جَمِیْعًا فَقَالَ الضُّعَفٰٓؤُا لِلَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْۤا اِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍؕ-قَالُوْا لَوْ هَدٰىنَا اللّٰهُ لَهَدَیْنٰكُمْؕ-سَوَآءٌ عَلَیْنَاۤ اَجَزِعْنَاۤ اَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِنْ مَّحِیْصٍ۠(۲۱)

اور سب اللہ کے حضور (ف۴۸) علانیہ حاضر ہوں گے تو جو کمزور تھے وہ (ف۴۹) بڑائی والوں سے کہیں گے (ف۵۰)ہم تمہارے تابع تھے کیا تم سے ہوسکتا ہے کہ اللہ کے عذاب میں سے کچھ ہم پر سے ٹال دو (ف۵۱) کہیں گے اللہ ہمیں ہدایت کرتا تو ہم تمہیں کرتے (ف۵۲) ہم پر ایک سا ہے چاہے بے قراری کریں یا صبر سے رہیں ہمیں کہیں پناہ نہیں

(ف48)

روزِ قیامت ۔

(ف49)

اور دولت مندوں اور با اثر لوگوں کی اِتّباع میں انہوں نے کُفر اختیار کیا تھا ۔

(ف50)

کہ دین و اعتقاد میں ۔

(ف51)

یہ کلام ان کا توبیخ و عنادکے طور پر ہوگا کہ دنیا میں تم نے گمراہ کیا تھا اور راہِ حق سے روکا تھا اوربڑھ بڑھ کر باتیں کیا کرتے تھے ، اب وہ دعوے کیا ہوئے اب اس عذاب میں سے ذرا سا تو ٹالو ، کافِروں کے سردار اس کے جواب میں ۔

(ف52)

جب خود ہی گمراہ ہو رہے تھے تو تمہیں کیا راہ دکھاتے ، اب خلاصی کی کوئی راہ نہیں ، نہ کافِروں کے لئے شفاعت ، آؤ روئیں اور فریاد کریں ، پانچ سوبرس فریاد و زاری کریں گے اور کچھ نہ کام آئے گی تو کہیں گے اب صبر کر کے دیکھو شاید اس سے کچھ کام نکلے ، پانچ سو برس صبر کریں گے وہ بھی کام نہ آئے گا تو کہیں گے کہ ۔