حدیث نمبر 386

روایت ہے حضرت عبداﷲ ابن شقیق سے ۱؎ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نفل نماز کے بارے میں دریافت کیا انہوں نے فرمایا کہ آپ میرے گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے پھر تشریف لے جاتے لوگوں کو نماز پڑھاتے اور میرے گھر میں تشریف لاتے تو دو رکعتیں پڑھتے اور لوگوں کو نماز مغرب پڑھاتے پھر تشریف لاتے تو دو رکعتیں پڑھتے پھر لوگوں کو عشاء پڑھاتے اور میرے گھر میں تشریف لاتے تو دو رکعتیں پڑھتے ۲؎ اور رات میں نو رکعتیں پڑھتے تھے جن میں وتر بھی ہیں ۳؎ اور رات میں بہت دیر کھڑے ہو کر نماز پڑھتے اور بہت دیر تک بیٹھ کر ۴؎ اور جب کھڑے ہوتے قرأت کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی بیٹھ کر ہی کرتے ۵؎ اور جب فجر طلوع ہوتی تو دو رکعتیں پڑھتے(مسلم)ابوداؤد نے یہ بڑھایا کہ پھر جاتے لوگوں کو فجر پڑھاتے۔

شرح

۱؎ آپ مشہور تابعی ہیں بہت صحابہ سے آپ کی ملاقات ہے، ۱۰۸ھ؁ میں وفات پائی۔

۲؎ اس میں سنت مؤکدہ کی تعداد بھی معلوم ہوئی اور یہ بھی کہ سنتیں گھر میں ادا کرنا افضل ہے اگرچہ مسجد میں بھی جائز۔

۳؎ اس طرح کہ چھ رکعتیں تہجد اور تین وتر۔خیال رہے کہ تہجد کم از کم دو رکعت ہیں اور زیادہ سے زیادہ بارہ آٹھ پر زیادہ عمل رہا۔

۴؎ یعنی تہجد کے نوافل بہت دراز پڑھتے تھے،بعض نفل کھڑے ہو کر بہت دراز پڑھتے اور بعض نفل بہت دیر تک بیٹھ کر پڑھتے۔

۵؎ خیال رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تہجد تین طرح کی ہوتی تھی،پوری رکعت کھڑے ہوکر یعنی قرأت بھی کھڑے ہوکر اور رکوع و سجدہ بھی کھڑے سے ہی کرتے،پوری رکعت بیٹھ کر اور رکوع و سجدہ بھی بیٹھے ہی سے،بعض رکعت بیٹھ کر اور بعض کھڑے ہو کر یعنی اولًا بیٹھ کر نماز شروع کی پھر کچھ قرأت کرکے کھڑے ہوگئے پھر قرأت کی پھر رکوع یہ کبھی نہ کرتے کہ پوری قرأت بیٹھ کر کرتے پھر صرف رکوع کے لیئے کھڑے ہوتے کہ کھڑے ہوتے ہی رکوع میں چلے جاتے، ام المؤمنین یہی فرمارہی ہیں لہذا یہ حدیث ان احادیث کے خلاف نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی رکعت میں بہت دیر تک بیٹھے قرأت کرتے تھے بہت دیر تک کھڑے ہو کر پھر رکوع۔