قُلْ لِّمَنِ الۡاَرۡضُ وَمَنۡ فِيۡهَاۤ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 84
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قُلْ لِّمَنِ الۡاَرۡضُ وَمَنۡ فِيۡهَاۤ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞
ترجمہ:
آپ کہیے کہ یہ زمین اور اس میں جو لوگ ہیں وہ کس کی ملکیت ہیں ؟ (بتائو) اگر تم جانتے ہو ؟
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
آپ کہیے کہ یہ زمین اور اس میں جو لوگ ہیں وہ کس کی ملکیت ہیں ؟ (بتائو) اگر تم جانتے ہو۔ عنقریب وہ کہیں گے کہ سب اللہ کی ملکیت ہیں، آپ کہیے کہ کیا پھر تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔ آپ کہیے کہ سات آسمانوں کا رب اور عرش عظیم کا رب کون ہے ؟۔ عنقریب وہ کہیں گے کہ اللہ ہی سب کا رب ہے ! آپ کہیے کہ کیا پھر (بھی) تم نہیں ڈرتے۔ آ کہیے کہ کس کے اتھ میں سب کی سلطنت ہے ؟ اور وہ پنا ہدیتا ہے اور اس کے مقابل ہمیں کوئی پناہ نہیں دے سکتا (بتائو) اگر تم جانتے ہو۔ عن قریب وہ کیں گے کہ سب کا اللہ ہی مالک ہے، آپ کہیے پھر کہاں سے تم پر جادو کیا گیا ہے ؟۔ بلکہ ہم ان کے پاس حق لائے ہیں اور بیشک وہ ضرور جھوٹے ہیں۔ (المئومنوکن : ٩٠-٨٤)
مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے اور بت پرستی کے بطلان پر دلائل
ان آیتوں سے ان کا رد کرنا مقصود ہے جو مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے کا انکار کرتے تھے اور ان مشرکین کا رد کرنا مقصود ہے جو بتوں کی پرستش کرتے تھے، کیونکہ مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ کا اقرار کرتے تھے اور ہتے تھے کہ ہم بتوں کی اس لئے عبادت کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب کردیں گے پھر اللہ تعالیٰ نے اس پر تین دلیلیں قائم کیں :
(١) فرمایا : یہ زمین اور اس میں جو لوگ ہیں وہ کس کی ملکیت ہیں اور ! اور حشر پر اس طرح استدلال ہے کہ جب تم یہ جانتے ہو کہ اس زمین کو اور اس میں بسنے والے لوگوں کو ہم نے پیدا کیا ہم نے ان کو زندگی اور قدرت عطا کی تو پھر واجب ہے کہ ان کو فنا کرنے کے بد بھی ہم ان کو زندگی دینے پر قادر ہوں اور بتوں کی عبادت کی نفی پر اس طرح استدلال ہے کہ جس نے تم کو زندگی عطا کی اور زندگی گزارنے کے لئے بیشمار نعمتیں عطا کیں وہ اس کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے نہ کہ وہ جو کسی قسم کا نفع یا ضرر پہنچانے پر قادر نہیں ہیں اور فرمایا کیا پھر تم نصیحت حاصل نہیں کرتے اس میں ان کا غور و فکر اور تدبر کرنے کی ترغیب دی ہے تاکہ وہ جان لیں کہ ان کا بت پرستی کرنا انصاف سے دور اور باطل ہے۔
(٢) فرمایا : سات آسمانوں ا رب کون ہے اور عرش عظیم کا رب کون ہے ؟ یعنی جب تم یہ مانتے ہو کہ اللہ ہی سات آسمانوں اور عرش عظیم کا بنانے والا ہے تو وہ تمہیں مرنے کے بعد زندہ کیوں نہیں کرسکتا، اور سات آسمان اور عرش عظیم کو بنانے والا عبادت کے لائق ہے یا پھتر کی وہ بےجان مورتیاں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتیں، فرمایا کیا پھر تم ڈرتے نہیں ہو ؟ اس میں یہ تنبیہ ہے کہ آخرت میں اللہ کے عذاب سے وہی بچ سکتا ہے جو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے پر ایمان لائے اور بتوں کی پرستش کو باطل قرار دیکر ترک کر دے۔
(٣) فرمایا : کس کے ہاتھ میں سب کی سلطنت ہے ؟ پہلے اللہ تعالیٰ نے زمین کو بنانے کا ذکر کیا پھر سات آسمانوں اور عرش عظیم کے بنانے کا ذکر کیا پھر اپنی قدرت کا عموم اور شمول بتایا کہ تمام چیزوں کو اسی نے بنایا ہے، تو جو ایسا زبرسدت قادر ہے وہ تمہیں موت دے کر پھر زندہ کیوں نہیں کرسکتا ؟ اور جس نے اس ساری کائنات کو پیدا کیا ہے وہ عبادت کا مسحتق ہے یا پتھر کی بےجان مورتیاں ؟ فرمایا : پھر تم کہاں سے جادو کئے گئے ہو، یعنی تم نے کس سے دھوکا کھایا ہے، ان کو دھوکا دینے والا شیطان ہے اور ان کی باطل خواہشیں ہیں اور فرمایا ہم حق لے کر آئے ہیں اور یہ حق کی تکذیب کرنے والے ہیں۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 84