قُل رَّبِّ اِمَّا تُرِيَنِّىۡ مَايُوۡعَدُوۡنَۙ ۞- سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 93
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قُل رَّبِّ اِمَّا تُرِيَنِّىۡ مَايُوۡعَدُوۡنَۙ ۞
ترجمہ:
آپ کہیے کہ اے میرے رب ! اگر تو مجھے وہ عذاب دکھا دے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آپ کہیے کہ اے میرے رب اگر تو مجھے وہ عذاب دکھا دے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ اے میرے رب تو مجھے ظلم کرنے والے لوگوں میں شامل نہ کرنا۔ بیشک ہم آپ کو وہ عذاب دکھانے پر ضرور قادر ہیں جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ برائی کو اس طریقہ سے دور کیجیے جو بہت اچھا ہو (آپ کے متعلق) یہ جو باتیں بناتے ہیں ہم ان کو خوب جانتے ہیں۔ آپ کہیے اے میرے رب ! میں شیطان کے وسوسوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ اور اے میرے رب ! میں اس سے تیری پناہ میں آتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں۔ (المومنون : ٩٨-٩٣)
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس دعا کرانے کی توجیہ کہ اللہ آپ کو ظالموں کے عذاب میں شامل نہ کرے
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ تعلیم دی ہے کہ آپ تواضح اور انکسار کے طور پر یہ دعا کریں کہ اے میرے رب ! اگر تو مجھے ضرور وہ عذاب دکھائے جو ان کافروں کو دنیا میں دیا جائے گا یا آخرت میں دیا جائے گا تو مجھے ان معذب لوگوں میں شامل نہ کرنا اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو معصوم ہیں آپ کو دنیا یا آخرت کے عذاب میں شامل کرنا کس طح متصور ہوسکتا ہے تو پھر آپ کو عذاب سے محفوظ رکھنے کی دعا کیوں تعلیم فرمائی ہے ؟ اس کے حسب ذیل جوابات ہیں :
(١) ایک جواب یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو تواضح کرنے اور انکسار کرنے کی تعلیم دی ہے۔
(٢) دوسرا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں یہ تعلیم دی ہے کہ ہرچند کہ آپ معصوم ہیں اور آپ نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کی وجہ سے آپ عذاب کے مستحق ہوں تاہم اللہ تعالیٰ بےنیاز ہے آپ اس کے جلال سے ڈرتے رہیے اور یہ دعا کرتے رہیے کہ جب اللہ ظالموں کو عذاب دے تو آپ کو وہ اس عذاب سے محفوظ رکھے۔
(٣) اور اس کا تیسرا جواب یہ ہے کہ آپ اپنی امت کے لئے آئیڈیل اور نمونہ ہیں آپ بھی دعا کریں تاکہ آپ کی امت بھی آپ کی اتباع میں یہ دعا کرے اور اس دعا کرنے میں آپ کی امت کے لئے دو فائدے ہیں ایک اس دعا کرنے کا صلہ ملے گا یعنی ان کی دعا قبول کی جائے گی اور دوسرا آپ کی سنت پر عمل کرنے اور آپ کی اتباع کرنے کا ان کو ثواب ملے گا۔
(٤) اور اس کا چوتھا جواب یہ ہے کہ آپ کو اس دعا کرنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ آپ اپنے رسول اور معصم ہونے سے صرف نظر کر کے صرف اس حیثیت سے یہ دعا ریں کہ آپ اللہ کے بندے ہیں اور بندگی کا یہ تقاضا ہے کہ بندہ اپنے رب سے یہ دعا کرتا رہے کہ وہ اس کو عذاب سے محفوظ رکھے۔
(٥) اور اس کا پانچواں جواب یہ ہے کہ بعض احکام عقل سے ماوراء اور محض تعبدی ہوتے ہیں جیسے پانی نہ ہونے یا پانی پر قدرت نہ ہونے کے وقت طہارت کے لئے تمیم کا حکم دیا، جب کہ ہاتھوں اور چہرے پر مٹی ملنے سے صفائی حاصل نہیں ہوتی یہ حکم عقل سے ماوراء ہے لیکن چونکہ ایسی صورت میں طہارت حاصل کرنے کے لئے ہم کو تمیم کرنے کا حکم دیا ہے اس لئے ہم تمیم کرتے ہیں، اسی طرح موزوں کے اوپر والے حصہ پر مسح کیا جاتا ہے اور یہ حکم بھی عقل سے ماوراء ہے کیونکہ موزوں کے نچلے حصہ پر گندگی یا میل کچیل لگنے کا احتمال ہے اوپر والے حصہ پر نہیں ہے لیکن ہم کو اوپر والے حصہ پر مسح کرنے کا حکم دیا ہے تو ہم اس حصہ پر مسح کریں گے خواہ ہماری عقل میں نہ آئے اسی طرح ریح خارج ہنے سے وضو ٹوٹنے کا حکم دیا ہے اور یہ بھی عقل سے ماوراء حکم ہے کیونکہ ریح خارج ہونے سے جسم پر کوئی نجسات نہیں لگتی اور یہ طہارت کے منافی نہیں ہے، اسی طرح نماز میں قہقہہ لگانے سے وضو ٹوٹنے کا حکم بھی عقل سے ماوراء ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ سے افضل ہیں، اس کے باوجود آپ کو کعبہ کا طواف کرنے کا حکم دیا یہ حکم بھی عقل سے ماوراء ہے اور تعبدی حکم ہے، اس طرح باوجود اس کے کہ آپ رسول معصوم ہیں آپ کو یہ حکم دیا کہ آپ یہ دعا کریں کہ اے میرے رب ! جب تو ظالموں کو عذاب دے تو مجھے ان میں شامل نہ کرنا سو یہ حکم بھی ماوراء عقل ہے اور محض تعبدی ہے۔
(٦) اور اس کا چھٹا جواب یہ ہے کہ آپ رسول معصوم ہیں آپ نے کوئی گناہ نہیں کیا اس کے باوجود آپ کو توبہ کرنے اور استغفار کرنے کا حکم دیا :
(النصر : ٣) آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کریں اور اس سے مغفرت کی دعا کریں بیشک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔
حدیث میں ہے : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ کی قسم ! میں ایک دن میں ستر مرتبہ سے زیادہ اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٣٠٧ سنن الترمذی رقم الحدیث، ٣٢٥٩ سنن النسائی رقم الحدیث : ٤٣٤ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث، ٣٨١٥ مسند احمد رقم الحدیث : ٨٤٧٤)
ظاہر ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی قسم کا بھی گناہ نہیں کیا اور توبہ اور استغفار گناہوں پر کیا جاتا ہے اس لئے اس حدیث کا محمل یہ ہے کہ آپ کا توبہ اور استغافر کرنا آپ کے درجات اور مراتب میں ترقی اور بلندی کے لئے ہے، اسی طرح اس آیت میں آپ کو جو یہ حکم دیا ہے کہ آپ یہ دعا کریں کہ جب اللہ ظالموں کو عذاب دے تو وہ آپ کو اس عذاب میں شامل نہ کرے آپ کی یہ دعا بھی آپ کے درجات اور مرتاب میں ترقی کے لئے ہے۔
اس آیت کے موافق وہ طویل حدیث ہے جس کو حضرت معاذ بن جبل نے روایت کیا ہے اس کے آخر میں ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا کی اور جب تو کسی قوم کو فتنہ میں ڈالنے کا ارادہ فرمائیتو مجھے فتنہ سے بچا کر میری روح قبض فرماتا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث، ٣٢٣٥ مسند احمد ج ٥ ص ٢٤٣ طبع قدیم، مسند احمد رقم الدیث، ٢٢٤٦٠ عالم الکتب بیروت)
۷۔ اور اس کا ساتواں جواب یہ ہے کہ ہرچند کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معصوم ہیں اور آپ کا ظالموں کے عذاب میں مبتلا ہونا متصور نہیں ہے اس کے باوجود آپ کو یہ حکم دیا کہ آپ یہ دعا کریں کہ اللہ آپ کو ظالموں کے عذاب میں شامل نہ کرے کیونکہ کبھی ظالموں کے ظلم کی نحوست ان کو بھی پہنچ جاتی ہے جو ظالم نہیں ہوتے، جیسا کہ اس آیت میں ہے :
(الانفال : ٢٥) اور تم اس وبال سے بچو جو خصوصیت سے صرف ان ہی لوگوں پر نہیں آئے گا جو تم میں سے ظلم اور گناہ کے مرتکب ہوئے تھے۔
اور کبھی جب عام عذاب آتا ہے تو اس سے بروں کے ساتھ نیک بھی متاثر ہوجاتے ہیں، دنیا میں اس کی مثال یہ یہ کہ جب کثرت سے بارشیں ہوں، سیلاب آجائیں، یا زلزلے آجائیں، یا قحط پڑجائے یا کوئی اور ارضی و سماوی آفات ہوں تو اس سے نیک اور بدسب ہی متاثر ہت یہیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا کہ جب ظالموں کو عام عذاب دیا جائے تو آپ یہ دعا کریں کہ اللہ آپ کو ظالموں کے عذاب کی نحوست سے اور اس عذاب کے عموم سے سلامت اور محفوظ رکھے۔
ہم نے اس آیت پر اشکال کے یہ سات جواب لکھے ہیں اور اپنے کلام کی حکمتوں اور اس کی باریکیوں کو اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 93