۹۶ ۔ عن أنس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم : لاَ تَسْتَضِیْئُوا بِنَارِالْمُشْرِکِیْنَ ۔ المحجۃ المؤتمنہ ۶۳

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مشرکوں کی آگ سے روشنی نہ لو ۔

]۴[ امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں

حضرت امام حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کے معنی پوچھے گئے تو فرمایا:

لاَ تَسْتَشِیْرُوا الْمُشْرِکِیْنَ فِی شَیٔ ٍمِّنْ اُمُورِکُمْ ، قَالَ الْحَسَنُ:وَتَصْدِیْقُ ذٰلِکَ فِی کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالیٰ، یَا أیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ لاَ یَألُونَکُمْ خَبَالاً۔

ارشاد حدیث کے یہ معنی ہیں کہ مشرکوں سے اپنے کسی معاملہ میں مشورہ نہ لو ۔ پھر فرمایا : اسکی تصدیق خود کلام اللہ میں موجود ہے ۔ فرمایا: اے ایمان والو! غیروں کو اپنا رازدار نہ بنائو وہ تمہاری بد خواہی میں گئی نہ کریں گے ۔

اقول: یہ حدیث بھی اصول حنفیہ کرام پر حسن ہے، طبری میں اسکی سند یوں ہے ۔

حدثنا ابو کریب و یعقوب بن ابراہیم قالا:حدثنا ہشیم ،اخبرنا العوام حوشب عن الازہر بن راشد عن انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہم ۔

اس سند میں ابوکریب سے عوام بن حوشب تک سب اجلۂ مشاہیر ثقہ عدول رجال جملہ صحاح ستہ سے ہیں ۔ اور ازہربن راشد رجال سنن نسائی و تابعین سے ہیں ۔ان پر کسی امام معتمد سے کوئی جرح ثابت نہیں ۔ ابن معین نے جس ازہربن راشد کی تضعیف کی ہے وہ کاہلی ہیں نہ کہ بصری ۔ ان دونوں میں خود یحیی بن معین نے فرق واضح کیا ہے ۔

حافظ مزی نے تہذیب میں اور حافظ عسقلانی نے تقریب میں ایسا ہی کہا: اور ازدی ، کا یہ کہنا کہ یہ منکر الحدیث ہیں ،تو اس سلسلہ میں عرض ہے: کہ ازدی خود مجروح ہیں اور راویان حدیث پر بلا وجہ جرح کر نے میں مشہور و معروف ہیںنیز ازدی کا منکر الحدیث کہنا یہ جرح مبہم ہے مفسر نہیں اور ہمارے یہاں اسکا اعتبار نہیں ۔

اور یہ کہنا ہے کہ ان سے راوی صرف عوام بن حوشب ہیں جسکی بنا پر تقریب میں حسب اصطلاح محدثین مجہول کہا: لیکن ہمارے یہا ںااصلا ًجرح نہیں ۔ خصوصا ًتابعین میں ۔

مسلم الثبوت میں ہے

لا جرح بان لہ راویا و احدا و ہو مجہول العین ۔

یہ کوئی جرح کی بات نہیں کہ اس سے ایک ہی شخص نے روایت کی ،اسکو مجہول العین کہتے ہیں ۔

فواتح الرحموت میں ہے

وقیل لا یقبل عندالمحدثین و ہو تحکم ۔

اور بعض نے کہا: ایسا راوی محدثین کے نزدیک مقبول نہیں اور یہ نری زبردستی ہے ۔

فصول البدائع میں ہے ۔

العدالۃ فیما بین رواۃ الحدیث ہی الاصل ببرکتہ و ہو الغالب بینہم فی الواقع کما نشاہدہ، فلذا قبلنا مجہو ل القرون الثلثلۃ فی الروایۃ ۔

راویان حدیث میں حدیث کی برکت سے عدالت ہی اصل ہے اور مشاہدہ شاہد کہ واقع میں ثقہ ہونا ہی ان میں غالب ہے ۔ اسی لئے قرون ثلثہ کے مجہول کی روایت ہمارے ائمہ قبول فرماتے ہیں ۔

بعض روایات کہ ان احادیث صحیحہ بلکہ آیات صریحہ کے مقابل پیش کی جاتی ہیں ان

میں کوئی صحیح و مفید مدعا کے مخالف نہیں محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر میں انہیں ذکر کر کے فرمایا۔

و لا شک ان ہذہ لا تقادم احادیث المنع فی القوۃ فکیف تعارضہا۔

کوئی شک نہیں کہ یہ روایتیں قوت میں احادیث منع کو نہیں پہونچتیں تو کیونکر انکے معارض ہوسکتی ہیں ۔

خودابو بکر حازمی شافعی نے کتاب الاعتبار میں حدیث مسلم دربارئہ ممانعت روایت کرکے کہا:

و یعارضہ لا یوازیہ فی الصحۃ و الثبوت فتعذر ادعاء النسخ۔

اور اسکا خلاف جن روایتوں میں آتا ہے وہ صحت و ثبوت میں ا نکے برابر نہیں تو ممانعت استعانت کو منسوخ ماننے کا ادعاء نا ممکن ہے ۔

یہ اجمالی جواب بس ہے ،اور مجمل تفصیل یہ کہ یہاں دو واقعے پیش کئے جاتے ہیں جن سے احادیث منع کو منسوخ بتاتے ہیں ،کہ وہ واقعۂ بدر واحد ہیں اور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے غزوئہ خیبر میں کہ انکے کئی برس بعد ہے ۔ بعض یہود بنی قینقاع سے یہود خیبر پر استعانت فرمائی ۔ پھر آٹھ ہجری غزوئہ حنین میں صفوان بن امیہ سے اور وہ اس وقت مشرک تھے ۔ تو اگر ان پہلے واقعات میں نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا مشرک یا مشرکوں کو رد فرمانا اس بنا پر تھا کہ حضور کو رد و قبول کا اختیار تھا جب تو حدیثوں میںکوئی مخالفت ہی نہیں،اور اگر اس وجہ سے تھا کہ مشرک سے استعانت ناجائز تھی تو ظاہر ہے کہ بعد کی حدیث نے انکو منسوخ کردیا ۔ یہ تمام وکمال و کلام امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے، کہ ان سے فتح اور فتح سے رد المحتار میں نقل کیا اور نا واقفوں نے نہ سمجھا ۔

واقعہ یہود بنی قینقاع کا جواب تو واضح ہے جو محقق علی الاطلاق اور خود حازمی شافعی نے ذکر کیا کہ وہ روایت کیا اس قابل ہے کہ احادیث صحیحہ کے سامنے پیش کی جائے؟ اس کا مخرج ۔

الحسن بن عمارۃ عن الحکم عن مقسم عن ابن عباس ہے ۔

قطع نظر انقطاع سے کہ حکم نے مقسم سے صرف چار حدیثیں سنیں جن میں یہ نہیں ۔ اور امام شافعی کے نزدیک منقطع مردو د ہے ۔ حسن بن عمارہ متروک ہے ۔ کما فی التقریب اور مرسل زہری مروی جامع ترمذی و مراسیل ابی داؤد ایک تو مرسل کہ امام شافعی کے یہاں مہمل ،اور سند مراسیل میں ایک انقطاع حیات بن شریح و زہری کے درمیان ہے ۔ تہذیب التہذیب میں امام احمد سے ہے ۔

لم یسمع حیاۃ من الزہری ۔

دوسری مرسل زہری کا جسے محدثین پا بر ہوا کہتے ہیں۔ تیسرے ضعیف بھی کما فی

الفتح ۔ یوں ہی بیہقی نے کہا: اسنادہ ضعیف و منقطع،

نصب الرایہ میں ہے ۔ انہا ضعیفۃ ۔

اقول : اور کچھ نہ ہو تو ا س میں یہ ہی تو ہے کہ ۔ أسْہَمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ

لِقَوْمٍ مِّنَ الْیَہُوْدِ قَاتَلُوا مَعَہٗ ۔

اس سے استعانت کہاں ثابت ۔ ممکن کہ انہوں نے بطور خود قتال کیا ہو۔ اور پانچواں

جواب امام طحاوی سے آتا ہے کہ سرے سے قاطع استناد ہے ۔

رہا قصہ صفوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا، قبل اسلام غزوئہ حنین شریف میں ہمراہ رکاب اقدس ہونا ضرورثابت ہے مگر ہرگز نہ ان سے قتال منقول ،نہ ہی یہ کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان سے قتال کو فرمایاہو، صرف اس قدر ہے کہ سو زرہ ، خود، بکتر۔ اور ایک روایت میں چار سو ان سے عاریت لئے ۔ اوروہ بطمع پرورش سرکار عالم مدارکہ مؤلفۃ القلوب سے تھے ہمراہ لشکر ظفر پیکر ہولئے ۔ انکی مراد بھی پوری ہوگئی اور اسلام بھی پختہ و راسخ ہوگیا ۔ سرکار اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے غنائم سے اتنا عطا فرمایا اتنا عطا فرمایا کہ یہ بے اختیار کہہ اٹھے ۔

و اللہ! ما طابت الانفس نبی ۔ خدا کی قسم !اتنی عطائیں خوش دلی سے دینا نبی کے سوا کسی کا کام نہیں ۔ اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمد ا عبدہ و رسولہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔

امام ابن سعد طبقات، پھر حافظ الشان عسقلانی الاصابہ فی تمیز الصحابہ میں انہیں صفوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت فرماتے ہیں ۔

لم یبلغنا انہ غزامع النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

ہمیں روایت نہ پہونچی کہ انہوں نے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا ہو۔ امام طحاوی مشکل الآثار میں فرماتے ہیں ۔

صفوان کان معہ لا باستعانۃ منہ، ففی ہذا ما یدل علی انہ انما امتنع من الاستنعانۃ بہ و بامثالہ و لم یمنعہم من القتال معہ باختیار ہم لذلک ۔

یعنی صفوان خود ہی حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ساتھ ہولئے تھے حضور نے ان سے استعانت نہ فرمائی تھی ، اس میں دلیل ہے اس پر کہ حضور مشرکوں سے استعانت سے باز رہتے تھے ،اور وہ اپنے اختیار سے ہمراہی میں لڑیںاس سے منع نہ فر ماتے تھے ۔

اسی میں ہے ۔

حدثنا ابو امیۃ قال: حدثنابشر بن الزہرانی قال: قلت لما لک: ألیس ابن شہاب کَانَ یُحَدِّثُ اَنَّ صَفْوَانَ بْنَ أمَیَّۃَ سَارَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَشَہِدَ حُنَیْنًا وَ الطَّائِفَ وَ ہُوَ کَافِرٌ، قَالَ : بَلیٰ، وَ لٰکِنْ ہُوَ سَارَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یَأمُرْہٗ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔

ہم سے ابو امیہ نے حدیث بیا ن کی کہ ہم سے بشر بن عمر زہرانی نے حدیث بیان کی کہ ہم نے امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گزارش کی: کہ کیا زہری یہ حدیث نہ بیان کرتے تھے کہ صفوان ابن امیہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ہمراہ رکاب اقدس چل کر حنین اور طائف کے غزووں میں بحالت کفر حاضر ہوئے ۔ فرمایا: ہاں، وہ خود رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ہمراہ رکاب ہولئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان سے نہ فرمایا تھا

علامہ جلال الدین ابو المحاسن یوسف حنفی معتصر میں فرماتے ہیں:

لا مخالفۃ بین حدیث صفوان و بین قولہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لا نستعین بمشرک ، لان صفوان قتالہ کان باختیارہ دون ان یستعین بہ النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ، و ان الاستعانۃ بالمشرک غیر جائزۃ لکن تخلیتہم للقتال جائزۃ لقولہ تعالیٰ لا تتخذوا بطانۃ من دونکم ، و الاستعانۃ اتخاذ بطانۃ و قتالہم دون استعانۃ بخلاف ذلک ۔

حضرت صفوا ن اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اس ارشاد میں کہ ہم کسی مشرک سے مدد نہیں لیتے کچھ مخالفت نہیں، کہ صفوان کا قتال کو جانا اپنے اختیار سے تھا نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان سے استعانت فرمائی ہو، مشرک سے استعانت حرام ہے، لیکن وہ خود لڑیں تو لڑنے دینا جائز ہے۔ اسلئے کہ رب عزوجل نے فرمایا :غیروں کو اپنا راز دار نہ بنائو۔ مشرک سے استعانت کرنا اسے راز دار بنانا ہے اور بلااستعانت خود اسکے لڑنے میں یہ بات نہیں ۔ المحجۃ المؤتمنہ ص ۶۳تا ۶۹

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۹۶۔ المسند لاحمد بن حنبل ۳/ ۹۹ ٭ الدر المنثور للسیوطی، ۲/۶۶

التاریخ الکبیر للبخاری، ۱/۴۵۵ ٭ کنز العمال للمتقی، ۴۳۷۵۹، ۱۶/ ۲۱