أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

سُوۡرَةٌ اَنۡزَلۡنٰهَا وَفَرَضۡنٰهَا وَاَنۡزَلۡنَا فِيۡهَاۤ اٰيٰتٍۭ بَيِّنٰتٍ لَّعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُوۡنَ ۞

ترجمہ:

یہ ہے وہ سورت جو ہم نے نازل فرمائی اور ہم نے اس (کے احکام) کو فرض کیا اور ہم نے اس میں واضح آیتیں نازل فرمائیں تاکہ تم نصیحت حاصل کرو

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یہ ہے وہ سورت جو ہم نے نازل فرمائی اور ہم نے اس (کے احکام) کو فرض کیا اور اہم نے اس میں واضح آیات نازل فرمائیں تاکہ تم نصیحت حاصل کرو (النور : ١)

نحوی اشکال کا جواب، انزال پر اعتراض کا جواب اور سورت اور فرض کا معنی 

اس آیت پر عربی گرامر کے اعتبار سے یہ اعتراض ہوتا ہے کہ سورة متبدا ہے اور یہ لفظ نکرہ ہ اور نکرہ کا مبتدا ہونا صحیح نہیں ہے، اس کا ایک جواب یہ ہے کہ اس کا مبتداء محذوف ہے اور سورة خبر ہے، اصل عبارت یوں ہے ھذہ سورة النزلنا ھا دوسرا جواب یہ ہے کہ سورة موصوف ہے اور انزلناھا اس کی صفت ہے اور صفت کی وجہ سے اس میں تخصیص ہوگئی اور اب اس کا مبتداء ہونا صحیح ہے اور اس کی خبر محذوف ہے یعنی فیما اوحینا الیک ‘ اور اس کا معنی ہوں ہے وہ سورت جس کو ہم نے نازل کیا ہے ان امور میں سے ہے جن کی ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے۔ 

سورت کا معنی ہے المنزلۃ الرفیعۃ یعنی بلند مقام سورة المدینۃ اس چار دیواری کو کہتے ہیں جو کسی شہر کے گرد بنی ہوئی ہوتی ہے۔ قرآن مجید کی سورت کو بھی اسی مشابہت کی وجہ سے سورت کہا جاتا ہے، کیونکہ ایک سورت بھی اپنی آیتوں کو اسی طرح محیط ہوتی ہے جس طرح شہر کی چار دیواری شہر کو محیط ہوتی ہے یا جس طرح چاند کی منازل ہوتی ہیں اسی طرح سورت بھی قرآن کی منزل میں سے ایک منزل ہے اور سورة کا معنی ہے کسی چیز کا بقیہ اور سورت بھی قرآن مجید کا بقیہ ہے۔ (المفردات ج ا ص ٣٢٧۔ ٣٢٦ )

اس آیت پر دوسرا اعتراض یہ ہے کہ انزال کا معنی ہے کسی چیز کو اوپر سے نیچے کی طرف بھیجنا، اور اس سے بہ ظاہر اللہ تعالیٰ کا کسی ایک جہت اور جانب میں ہونا لازم آتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ جہات سے پاک ہے، اس اعتراض کے حسب ذیل جوابات ہیں :

(١) حضرت جبریل (علیہ السلام) نے اس سورت کو لوح محفوظ سے حفظ کرلیا پھر اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا اور چونکہ انہوں نے یہ سورت اللہ تعالیٰ کے حکم سے نازل کی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ ہے وہ سورت جو ہم نے نازل فرمائی۔ 

(٢) اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ سے اس سورت کو یکبارگی نازل فرمایا پھر اس کو قسط وار حضرت جبریل کی زبان سے نازل کرایا۔ 

(٣) انزلنا ھا کا معنی ہے، ہم نے یہ سورت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا کردی۔ 

پھر فرمایا : اور ہم نے اس (کے احکام) کو فرض کیا۔ 

فرض کا معنی ہے کہ کسی سخت چیز کو کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کرنا اور فرض کا معنی ہے کسی چیز کو حساب سے مقدر اور معین کرنا۔ 

فرمایا : فنصف مافرصتم (البقرۃ : ٢٣٧) یعنی تم نے میت کو جو ترکہ معین کیا ہے اس کا نصف، اور فرمایا الذی فرض علیک القران۔ (القصص : ٨٥) یعنی جس ذات نے آپ پر قرآن مجید کو معین کیا ہے۔ اور اس کا معنی کسی چیز کو واجب کرنا ہے اور اس آیت کا معنی ہے ہم نے اس سورت کے احکام کو آپ پر واجب کیا ہے۔ (المفردات ج ٢ ص ٤٨٧۔ ٤٨٦) ۔ 

نیز فرمایا اور ہم نے اس واضح آیات نازل فرمائیں تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ اس کے حسب ذیل محامل ہیں :

(١) اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتدا میں مختلف احکام اور حدود کو بیان فرمایا اور سورت کے آخر میں توحید کے دلائل بیان فرمائے، احکام اور حدود کا تو پہلے بندوں کو علم نہ تھا لیکن توحید کے دلائل تو زمین و آسمان میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان نشانیوں کو دیکھ کر ہر شخص صاحب نشان تک پہنچ سکتا ہے اس لئے آس آیت کے آخر میں فرمایا : تاکہ تم نصیھت حاصل کرو۔ 

(٢) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ واضح آیتوں سے مراد حدود اور احکام ِشرعیہ ہوں اور آیت پر شرعی حکم کا اطلاق اس آیت میں ہے :

………(مریم : ١٠) (زکریا نے) کہا اے میرے رب ! میرے لئے کوئی آیت (علامت) مقرر فرما دے فرمایا تمہاری آیت (علامت) یہ ہے کہ تم باوجود تندرست ہونے کے تین دن تک کسی سے بات نہیں کرسکو گے۔ 

(٣) اس سورت میں جس طرح فرائض اور واجبات بیان کئے گئے ہیں اسی طرح اس سورت میں بہت سے مستحبات بھی بیان کئے گئے ہیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 24 النور آیت نمبر 1