قَالُوۡا رَبَّنَاغَلَبَتۡ عَلَيۡنَا شِقۡوَتُنَا وَكُنَّا قَوۡمًا ضَآلِّيۡنَ ۞- سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 106
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قَالُوۡا رَبَّنَاغَلَبَتۡ عَلَيۡنَا شِقۡوَتُنَا وَكُنَّا قَوۡمًا ضَآلِّيۡنَ ۞
ترجمہ:
وہ کہیں گے اے ہمارے رب ! ہم پر ہماری بدبختی غالب آگئی اور ہم واقعی گمراہ لوگ تھے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وہ کہیں گے اے ہمارے رب ! ہم پر ہماری بدبختی غالب آگئی اور ہم (واقعی) گم راہ لوگ تھے۔ اے ہمارے رب ! ہمیں اس دوزخ سے نکال اگر ہم پھر (کفر کی طرف) لوٹیں تو بیشک ہم ظالم ہوں گے۔ (اللہ) فرمائے گا تم اسی میں دھتکارے ہوئے پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو۔ بیشک میرے بندوں میں سے ایک گروہ یہ کہتا تھا اے ہمارے رب ! ہم ایمان لائے تو ہماری مغفرت فرما اور ہم پر رحم فرما اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے اچھا ہے۔ تو (اے کافرو ! ) تم نے ان کا مذاق اڑایا حتی کہ (اس مشغلہ نے) تمہیں میری یاد (بھی) بھلا دی اور تم ان پر ہنسا کرتے تھے۔ بیشک میں نے ان کے صبر کی اچھی جزا دی اور بیشک وہی کامیاب ہیں۔ (المئومنون : ١١١-١٠٦)
دوزخ میں کافروں کی چھ دعائیں جو و چھ ہزار سال تک کریں گے
اس سے پہلے فرمایا تھا کیا تمہاریس امنے میری آیتوں کی تلاوت نہیں کی جاتی تھی پھر تم ان کی تکذیب کرتے تھے اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کا جو قول نقل فرمایا ہے وہ کہیں گے اے ہمارے رب ! ہم پر ہماری بدبختی غالب آگئی اور ہم (واقعی) گم راہ لگو تھے۔ یہ ان کی طرف سے جواب کے قائم مقام ہے۔
ان کی مراد یہ ہے کہ ہم نے حرام لذات کو طلب کیا اور ہم نے برے کاموں کی حرص کی جس کی وجہ سے بدبختی ہم پر غالب آگئی یہ ان کی طرف سے کوئی عذر نہیں ہے کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ ان کا کوئی عذر نہیں ہے، لیکن یہ ان کی طرف سے اعتراف ہے کہ ان کے غلط کاموں کی وجہ سے ان کے خلاف اللہ کی حجت قائم ہوچکی ہے۔ نیز انہوں نے کہا ہم واقعی گم راہ لوگ تھے ان کا اپنے آپ کو گمراہ کہنا اس لئے ہوگا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیتا کی جو تکذیب کی تھی اس کی علت یہی تھی کہ وہ گم راہ تھے، پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ اے ہمارے بر ہم کو اس دوزخ سے نکال لے اور ہمیں اس دار آخرت سے دار دنیا کی طرف بھیج دے اور اگر ہم نے دوبارہ کفر اور سرکشی کی تو پھر بیشک ہم ظالم ہوں گے۔ اگر یہ اعترضا کیا جائے کہ انہوں نے یہ درخواست کیوں کی جب کہ انہیں معلوم ہوچکا تھا کہ ان کا عذاب دائمی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ دوزخ کے عذاب کی شدت کی وجہ سے ان کے دماغوں سے اس عذاب سے اس عذاب کا دائمی ہونا نکل گیا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کو اس کا علم کے عذاب کی شدت کی وجہ سے ان کے دماغوں سے اس عذاب کا دائمی ہونا نکل گیا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کو اس کا علم ہو لیکن انہوں نے چلاین اور آہ وزاری کرنے کے طور پر ایسا کہا ہو۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 106