وجودِ مسلم اور مشرکینِ ہند
وجودِ مسلم اور مشرکینِ ہند
احساس کی زندگی قومی زندگی سے مربوط ہے…. اسلاف کی دور بیں نگاہوں نے قوتِ فکر و عمل کو بیدار کیا… صدرالافاضل علامہ سید نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: “آپ اسِ کا احساس فرمائیں کہ گزشتہ تجربوں نے یقین دلا دیا ہے کہ ہندو؛ مسلمانوں کی تباہی و بربادی کو سوراج سے زیادہ عزیز جانتے ہیں، انہیں کسی طرح یہ گوارا نہیں کہ سرزمینِ ہند میں مسلمانوں کا وجود رہے-“
(السواد الاعظم محرم الحرام ١٣٤٩ھ، مکاتیب صدرالافاضل، مرتب مفتی محمد ذوالفقار خان نعیمی، نوری دارالافتاء کاشی پور٢٠١٧ء، ص٨١)
تقریباً ٩٢ برس قبل مشرکینِ ہند کی پالیسی کا تجزیہ صدرالافاضل رحمۃ اللہ علیہ نے اِس اقتباس میں فرمایا… اور یہ اُجاگر کیا ہے کہ….ہند میں انھیں وجودِ مسلم کھٹکتا ہے… انھیں یہ قبول نہیں کہ یہاں مسلمان بھی رہیں… وہ مسلمانوں کا خاتمہ چاہتے ہیں… ان کے سامنے اندلس کا زوال ہے… جہاں سے سیاسی زوال کے ساتھ ہی مسلمان چُن چُن کر ختم کر دیے گئے… ان کے سامنے فلسطین کا قضیہ ہے… جہاں مسلمانوں کی زمین تنگ کر دی گئی… ان کے سامنے اسرائیل کے مظالم کی مثال ہے… جو مسلمانوں کی نسل کشی کر رہے ہیں… مشرکینِ ہند تقریباً ایک صدی تک ہمیں مٹانے کے لیے پَر تولتے رہے… جدوجہد کرتے رہے… منتشر قوتوں کو یکجا کرتے رہے…ہزار اصنام کے حامل ایک جگہ ہو گئے… کہ کسی طرح مسلمانوں کو ختم کر دیا جائے… دوسری طرف صورت حال یہ رہی کہ… بعض قائدین؛ مشرکین کی خوشنودی حاصل کرنے میں کوشاں رہے…بعض اُن کے پیشواؤں کی تعظیم بجا لاتے رہے… اُن کی جی حضوری میں لگے رہے…چاپلوسی کے ذریعے انھیں راضی کرتے رہے…اُن کی مشرکانہ رَسموں میں شریک ہوتے رہے… اُن کے قائدین کو گلے لگاتے رہے… اُن کے شرکیہ مراسم میں شرکت کرتے رہے… اُن کی خوشی کے لیے اسلامی شعار ترک کرتے رہے… شریعت سے منھ موڑتے رہے… کفر کی خوشنودی چاہتے رہے… اِس مدت میں وہ ان تمام پہلوؤں پر نظریں جمائے رہے؛ جو اُن کے ہندو راشٹر کے منصوبے کی راہ میں رکاوٹ تھے… جمہوری نظام کے خلاف وہ سرگرم رہے…کیونکہ یہ ہندو راشٹر کے خواب کو حقیقت میں بدلنے میں مانع تھا….سی اے اے (Citizenship Amendment Act 2019) مسلمانوں کی شہریت چھیننے کے لیے لایا گیا… لیکن اِس کے خلاف پورا ملک سڑکوں پر نکل آیا…تو آر ایس ایس کے غنڈے دہشت گردی پھیلانے لگے… پولیس ان کی پشت پناہی میں سرگرم دکھائی دی!!… CAA کے مخالفین کو غدار کہا گیا… حالانکہ پُر امن احتجاج جمہوری حق تھا…لیکن پُر امن احتجاجیوں کو لاک ڈاؤن کی آڑ میں جیلوں میں ٹھوس دیا گیا… ان پر سخت دفعات عائد کی گئیں… تاکہ پھر کوئی دستوری حق کی آواز نہ اٹھ سکے… مشرکین نے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا… کروناوائرس جو چین سے آیا… اسے مسلمانوں کے سر ڈالنے کی کوشش کی… نفرتوں کو بڑھاوا دیا… پولیس نے بھی بعض مقامات پر جمہوریت کی دھجیاں اڑا دیں… جیسا کہ گوالیار میں ہوا… ایک وکیل کو مسلم سمجھ کر زدوکوب کیا… افسران نے دھڑلے سے اعتراف کیا کہ غلط فہمی سے مسلمان سمجھ کر پیٹ دیا… پھر ایک تعلیم یافتہ خاتون جو یوپی سے تعلق رکھتی ہیں؛ انھوں نے زہریلا بیان داغا… مسلمانوں کے خلاف بکواس کی… لیکن تمام زہریلی حرکتوں پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی… کیونکہ یہ زہر تو اقتدار کا ہی پھیلایا ہوا ہے…اس طرح کے واقعات خوابِ غفلت سے جگانے کو کافی تھے… شاید اس وقت جاگیں گے جب کارواں تاراج ہو چکا ہو گا… مسلمان بیدار ہو جائیں… مشرکین کی سازشوں سے ہوشیار رہیں… اپنے دستوری حقوق کو سمجھیں… اپنے حق کے لیے آنکھیں کھولیں…
اے جُوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تُند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
کھویا نہ جا صَنم کدۂ کائنات میں
محفل گداز! گرمیِ محفل نہ کر قبول
تحریر : غلام مصطفیٰ رضوی
ترسیل: نوری مشن مالیگاؤں
٩ جون ٢٠٢٠ء