أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلۡخَبِيۡثٰتُ لِلۡخَبِيۡثِيۡنَ وَالۡخَبِيۡثُوۡنَ لِلۡخَبِيۡثٰتِ‌ۚ وَالطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيۡنَ وَالطَّيِّبُوۡنَ لِلطَّيِّبٰتِ‌ۚ اُولٰٓئِكَ مُبَرَّءُوۡنَ مِمَّا يَقُوۡلُوۡنَ‌ؕ لَهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّرِزۡقٌ كَرِيۡمٌ۞

ترجمہ:

بری باتیں برے لوگوں کے لیے ہیں اور برے لوگ بری باتوں کے لیے ہیں اور اچھی باتیں اچھے لوگوں کے لیے ہیں اور اچھے لوگ اچھی باتوں کے لیے ہیں، وہ (اچھے لوگ) ان تہمتوں سے بری ہیں جو لوگ ان پر لگاتے ہیں ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی ہے ؏

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بری باتیں برے لوگوں کے لیے ہیں اور برے لوگ بری باتوں کے لیے ہیں، اور اچھی باتیں اچھے لوگوں کے لیے ہیں اور اچھے لوگ اچھی باتوں کے لیے ہیں، وہ اچھے لوگ ان تہمتوں سے بری ہے جو لوگ ان پر لگاتے ہیں ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی ہے ۔ (النور : ٢٦ )

حضرت عائشہ (رض) کے لیے جنت کی بشارت 

النور : سے لے کر النور : ٢٦ تک سولہ آیتیں حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ (رض) پر منافقوں کی لگائی ہوئی تہمت کی برات کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہیں اور یہ اس سلسلہ کی آخری آیت ہے۔

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی اسانید کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) ، مجاہد، ضحاک، سعید بن جبیر، قتادہ، عطاء وغیرھم سے روایت کرتے ہیں کہ یہ آیت حضرت عائشہ صدیقہ زوجہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی منافقین کی تہمت سے برات کے متعلق نازل ہوئی ہے، اور اس کا معنی ہے بری باتیں برے لوگوں کے لیے ہیں اور برے لوگوں کے لیے بری باتیں ہیں۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٩٦٠٦، ١٩٦٠٥، ١٩٦٠٤، ١٩٦٠١، ١٩٥٩٧، ١٩٥٩٥)

مجاہد نے کہا اس میں فرمایا وہ لوگ اس تہمت سے بری ہیں اس سے مراد حضرت عائشہ اور حضرت صفوان بن معطل (رض) ہیں ہرچند کہ یہ دو افراد ہیں اور ان کے لیے تشنیہ کے بجائے جمع کا صیغہ لایا گیا ہے جیسے فان کان لاہ اخوۃ (النساء : ١١) میں اخوۃ سے مراد اخوان ہیں یعنی جمع کے صیعہ سے دو فرد مراد ہیں۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٩٦٠٨)

اور ابن زید نے کہا اس آیت کا معنی ہے خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں یہ آیت حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے متعلق نازل ہوئی ہے جب ان پر منافقوں نے تہمت لگائی تھی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس تہمت سے بری کردیا اور عبداللہ بن ابی خبیث مرد تھا اس کے لائق خبیث عورث تھی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طیب اور پاک تھے اور آپ کے لائق طیبہ اور پاک عورت تھی اور حضرت عائشہ (رض) طیبہ تھیں اور وہی آپ کی شان کے لائق تھیں۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٩٦٠٧، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

یہ دو تفسیریں ہیں ایک تفسیر میں الخبیثات سے مراد بری باتیں ہیں اور دوسری تفسیر میں الخبیثات سے مراد بری عورتیں ہیں امام بن جریر طبری نے پہلی تفسیر کو راجح قرار دیا ہے۔ (جامع البیان جز ٨ ١ ص ١٤٤، مطبوعہ دارالفکر بیروت ١٤١٥ ھ)

امام ابوالقاسم طبرانی نے ان دونوں تفسیروں کو حضرت ابن عباس (رض) ، سعید بن جبیر، زید بن اسلم، حضرت ابن عمر (رض) ، ضحاک، مجاہد وغیرھم سے روایت کیا ہے 

photo_2020-06-11_11-41-15

ہم نے اس ترجمہ کو اختیار کیا ہے جو راجح تفسیر کے مطابق ہے۔

اس آیت کے آخر میں فرمایا : ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی ہے اس کی تفسیر میں حسب ذیل احادیث ہیں :

امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد متوفی ٣٦٠ ھ اپنی اسانید کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا مغفرت سے مراد دنیا میں گناہوں سے محفوظ رہنا اور آخرت میں بخشش ہے اور رزق کریم سے مراد جنت کا رزق اور ثواب عظیم ہے سعید بن جبیر اور قتادہ سے بھی یہی تفسیر مروی ہے۔ (الممعجم الکبیر ج ٢٣، رقم الحدیث : ٢٥٩، ٢٥٤، ٢٥٣، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)

امام ابن جریر متوفی ٣١٠ ھ نے قتادہ سے اس تفسیر کو نقل کیا ہے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٩٦٠٩)

امام ابن ابی حاتم متوفی ٣٦٧ ھ نے اپنی سند کے ساتھ سعید بن جبیر سے روایت کیا ہے کہ جب حضرت عائشہ (رض) کی برات نازل ہوگئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اپنے سینہ سے لگایا اور وہ جنت میں آپ کی زوجہ ہیں۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٤٣٤٠، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکۃ المکرمہ ١٤١٧ ھ)

اگر یہ کہا جائے کہ اس سے پہلے یہ گزر چکا ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا تھا کہ مجھے یہ توقع نہیں تھی کہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر میری برات کے متعلق قرآن مجید کی آیات نازل فرمائے گا لیکن اللہ تعالیٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا خواب دکھا دے گا جس سے میری برات ظاہر ہوجائے گی ابھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اٹھنے کا قصد نہیں کیا تھا کہ میری برات میں سورة نور کی دس آیتیں نازل فرما دیں۔ (النور : ٢٠۔ ١١) (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٧٥٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٦٦١ )

اور یہاں آپ نے یہ لکھا ہے کہ سورة نور کی سولہ آیتیں (النور : ٦٢۔ ١١) حضرت عائشہ (رض) کی شان میں نازل ہوئی ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ دس آیتیں اس وقت نازل ہوئیں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابوبکر کے گھر اس معاملہ میں گفتگو کرنے کے لیے گئے تھے جن کا حضرت عائشہ (رض) سے ذکر فرمایا ہے اور بقیہ چھ آیتیں بعد میں نازل ہوئیں اور حضرت عائشہ (رض) کی شان میں یہ کل سولہ آیات ہیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 24 النور آیت نمبر 26