اِنَّ الَّذِيۡنَ يَرۡمُوۡنَ الۡمُحۡصَنٰتِ الۡغٰفِلٰتِ الۡمُؤۡمِنٰتِ لُعِنُوۡا فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِۖ وَلَهُمۡ عَذَابٌ عَظِيۡمٌۙ ۞- سورۃ نمبر 24 النور آیت نمبر 23
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّ الَّذِيۡنَ يَرۡمُوۡنَ الۡمُحۡصَنٰتِ الۡغٰفِلٰتِ الۡمُؤۡمِنٰتِ لُعِنُوۡا فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِۖ وَلَهُمۡ عَذَابٌ عَظِيۡمٌۙ ۞
ترجمہ:
بیشک جو لوگ پاک دامن بے خبر ایمان والی عورتوں پر (بدکاری کی) تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی ہے، اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک جو لوگ پاک دامن بیخبر ایمان والی عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے ۔ جس دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پائوں گواہی دیں گے کہ وہ دنیا میں کیا کرتے رہے تھے ۔ اس دن اللہ حق اور انصاف کے ساتھ ان کو پورا پورا بدلہ دے گا اور وہ جان لیں گے کہ بیشک اللہ ہی برحق ہے حقائق کو منکشف کرنے والا ۔ (النور : ٢٥۔ ٢٣ )
حضرت عائشہ (رض) پر تہمت لگانے والے منافقوں کی اخروی سزا
مذکور الصدر تین آیات بھی حضرت عائشہ (رض) کی تہمت سے برات اور آپ کی فضیلت کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہیں اور ہمارے نزدیک یہی تفسیر راجح ہے اور بعض مفسرین نے یہ کہا ہے کہ عام مسلمان عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگانے کے سلسلے میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں، ہمارے نزدیک یہ تفسیر اس لیے مرجوح ہے کہ عام مسلمان عورتوں پر تہمت لگانے کے متعلق حکم النور : ٥۔ ٤ میں نازل ہوچکا ہے ان آیات کا ترجمہ یہ ہے۔
جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر (اس کے ثبوت میں) چار گواہ پیش نہ کرسکیں تو تم ان کو اسی کوڑے مارو اور ان کی شہادت کو کبھی بھی قبول نہ کرو اور یہی لوگ فاسق ہیں ۔ سو ان لوگوں کے جو اس کے بعد توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا بےحد مہربان ہے 0
اس لیے زیر تفسیر آیات کا تعلق حضرت ام المومنین عائشہ (رض) پر تہمت لگانے والوں کی سزا کے سلسلے میں اور اسی کے سیاق میں ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ عام مسلمان عورتوں پر تہمت لگانے کی سز کم ہے، اسی کوڑوں کی سزا ہے، پھر جب وہ توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں تو ان کی مغفرت ہوجائے گی، اور ام المومنین زوجہ سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بدکاری کی تہمت لگانا کوئی معمولی اور سرسری جرم نہیں ہے کہ اسی شاخیں مارنے سے اس کی اصلاح ہوجائے اللہ تعالیٰ نے اس کی سزا میں تین آیتیں نازل فرمائی ایک یہ کہ اس پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی جائے گی، دوسری سزا یہ کہ قیامت کے دن اس کی زبان اور اس کے ہاتھ پائوں اس کے خلاف گواہی دیں گے وہ دنیا میں کیا کرتا رہا تھا اور اس کو اس طرح رسوا کیا جائے گا تیسری سزا یہ کہ قیامت کے دن اس کو پورا پورا عذاب دیا جائے گا۔ اور یہ بہت سخت سزا ہے اور یہ سزا اس کو دی جائے گی جس کا جرم بہت سنگین ہو۔
حضرت عائشہ (رض) پر تہمت لگانا عام عورتوں پر تہمت لگانے کی طرح ہرگز نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
اِذْ تَلَقَّوْنَہٗ بِاَلْسِنَتِکُمْ وَتَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاہِکُمْ مَّا لَیْسَ لَکُمْ بِہٖ عِلْمٌ وَّتَحْسَبُوْنَہٗ ہَیِّنًاقصلے وَّہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ عَظِیْمٌ (النور : ١٥)
جب تم یہ تہمت اپنی زبانوں سے نقل کرتے رہے اور اپنے مونہوں سے وہ بات کہتے رہے جس کا تمہیں علم نہ تھا اس کو معمولی بات سمجھتے رہے حالانکہ اللہ کے نزدیک وہ بہت سنگین بات تھی۔
تم حضرت ام المومنین کی شان میں یہ بات کہتے رہے اور اس کو معمولی بات سمجھتے رہے اور کسی بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ کی حرمت عام عورتوں کی طرح نہیں ہوتی چہ جائیکہ نبی امی، خاتم الانبیاء اور سید المرسلین کی زوجہ کی حرمت اللہ کے نزدیک یہ بہت سنگین جرم ہے کہ اس کے نبی اور رسول کی زوجہ کے متعلق ایسی بات کی جائے اللہ سبحانہ اس پر سخت غضب فرماتا ہے حاشا وکلاء وہ انبیاء میں سے کسی نبی کی زوجہ کے متعلق ایسی بات مقدر نہیں فرماتا اور جب کسی بھی نبی کی زوجہ کے متعلق یہ ممکن نہیں تو سید ولد آدم علی الاطلاق کی زوجہ اور سیدہ نساء الانبیاء کے متعلق یہ کیسے ممکن ہے اس لیے فرمایا تم اس کو معمولی بات سمجھتے رہے حالانکہ اللہ کے نزدیک وہ سنگین بات تھی سو جب حضرت عائشہ (رض) پر تہمت لگانا عام عورتوں پر تہمت لگانے کی مثل نہیں ہے تو اس جرم کی سزا عام جرائم کی سزا کی مثل کس طرح ہوسکتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں اس سزا کی شدت کو بیان فرمایا، حدیث میں ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ بیشک بندہ کوئی بات بےپرواہی سے کہہ دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کا باعث ہوتی ہے اور اس بات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے درجات بلند کردیتا ہے اور ایک بندہ بےپرواہی سے کوئی بات کہہ دیتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی موجب ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ جہنم میں گرتا چلا جاتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٤٧٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٩٨٨، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٣١٤، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١٤٢٨٣)
اس آیت میں جس وعید کا ذکر کیا گیا ہے وہ عبداللہ بن ابی اور دیگر ان منافقین کے لیے ہے جنہوں نے اس تہمت کو پھیلایا تھا اور جو مسلمان اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر اس تہمت لگانے میں شامل ہوگئے تھے وہ اس وعید میں داخل نہیں ہیں کیونکہ ان کا مقصد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ کی توہین کرنا اور آپ کو اذیت پہنچانا نہیں تھا ان پر حد قذف جاری کی گئی وہ صدق دل سے تائب ہوگئے اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، ہاں جو مسلمان اب حضرت ام المومنین پر تہمت لگائے گا وہ مرتد ہوجائے گا، کیونکہ اب آپ پر تہمت لگانا قرآن مجید کا انکار کرنا ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 24 النور آیت نمبر 23