حدیث نمبر 412

روایت ہے حضرت عمرو بن عطاء سے فرماتے ہیں کہ نافع ابن جبیر نے انہیں حضرت سائب کے پاس اس چیز کے پوچھنے کے لیئے بھیجا جو امیر معاویہ نے ان سے نماز میں دیکھی ہو ۱؎ انہوں نے فرمایا ہاں میں نے امیر معاویہ کے ساتھ مقصورے میں جمعہ پڑھا ۲؎ جب امام نے سلام پھیرا تو میں اسی جگہ کھڑا ہوگیا۔۳؎ جب وہ چلا گیا تو مجھے بلایا اور فرمایا کہ یہ کام آئندہ نہ کرنا جب تم جمعہ پڑھو تو اسے اور نماز سے نہ ملاؤ یہاں تک کہ کوئی بات کرلو یا ہٹ جاؤ۴؎کیونکہ ہم کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا کہ بغیر کلام یا بغیر ہٹے نماز کو نماز سے نہ ملائیں ۵؎(مسلم)

شرح

۱؎ یعنی نافع ابن جبیر ابن مطعم نے عمرو ابن عطا کو حضرت سائب کے پاس یہ پوچھنے بھیجا کہ کیا تمہاری کوئی نماز یا نماز کا کوئی عمل حضرت معاویہ نے دیکھا ہے اور اس کی تائید یا تردید کی ہے چونکہ امیر معاویہ فقیہ صحابہ سے ہیں اس لیئے ان کی تائید یا تردید حجت شرعیہ ہے۔خیال رہے کہ عمرو ابن عطا اور جبیر ابن مطعم دونوں تابعی ہیں اور حضرت سائب اور امیر معاویہ دونوں صحابی مگر حضرت معاویہ فقیہ صحابی ہیں۔

۲؎ مقصورہ جامع مسجد کا وہ خاص مقام ہے جہاں مکبریا سلطان اسلام کھڑے ہو کر جماعت سے نماز ادا کریں،چونکہ یہ جگہ ان لوگوں پر مقصور و محدود ہوتی ہے اس لیئے اسے مقصورہ کہا جاتا ہے۔خیال رہے کہ جب سے حضرت عمر فاروق کو نماز میں شہید کیا گیا تب سے بادشاہوں کے لیئے مسجد میں خاص جگہ مقرر کی جانے لگی جہاں صر ف وہی کھڑے ہوں آس پاس ان کے خاص آدمی پیچھے حفاظتی پولیس تاکہ نماز میں ان پر کوئی حملہ نہ کرسکے۔

۳؎ اور سنت و نفل وہاں ہی ادا کر لیئے جگہ نہ بدلی فرض و سنن میں فاصلہ بھی نہ کیا۔

۴؎ اس سے معلوم ہوا کہ فرائض و نوافل میں کچھ فاصلہ ضروری ہے جگہ کا فاصلہ ہو یا دعا وظیفہ یا کلام کا ،بلکہ بہتر یہ ہے کہ دعا بھی مانگے جگہ بھی قدرے بدل لے بلکہ مقتدی لوگ صفیں بھی توڑ دیں پھر سنتیں ادا کریں تاکہ آنے والے کو یہ شبہ نہ ہو کہ جماعت ہورہی ہے اسی لیئے بعد نماز جنازہ صفیں توڑ کر بلکہ بیٹھ کر دعا مانگتے ہیں۔

۵؎ یعنی نوافل فرائض سے نہ ملاؤ یہ حکم استحبابی ہے نہ کہ وجوبی۔