أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡهِيۡهِمۡ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيۡعٌ عَنۡ ذِكۡرِ اللّٰهِ وَاِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِيۡتَآءِ الزَّكٰوةِ‌ۖ ۙ يَخَافُوۡنَ يَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِيۡهِ الۡقُلُوۡبُ وَالۡاَبۡصَارُ ۞

ترجمہ:

وہ مرد جن کو تجارت اور خریدو فروخت اللہ کے ذکر، اور نماز پڑھنے اور زکوۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل الٹ پلٹ جائیں گے اور آنکھیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وہ مرد جن کو تجارت اور خریدو فروخت اللہ کے ذکر اور نماز پڑھنے اور زکوۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل الٹ پلٹ جائیں گے اور آنکھیں۔ تاکہ اللہ ان کو ان کے بہترین کاموں کی جزا دے اور افپنے فضل سے انہیں زیادہ عطا فرمائے اور اللہ جس کو چاہے بےحساب رزق عطا فرماتا ہے۔ (النور :37-38)

ان لوگوں کو مصداق اور اجر جن کو تجارت اور خریدو فروخت اللہ کے ذکر اور نماز سے غافل نہیں کرتی 

امام عبدالرحمٰن بن محمد بن ادریس ابن ابی حاتم متوفی 327 ھ اپنی اسانید کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجال لاتلھیھم تجارۃ ولابیع عن ذکر اللہ (النور : ٣٧) کی تفسیر میں فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کا فضل تلاش کرنے کے لئے زمین میں سفر کرتے ہیں۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٤٦٤٥ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)

سالم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بازار میں تھے، نماز کی اقامت کہی گی تو مسلمانوں نے اپنی دکانیں بند کردیں اور مسجد میں چلے گئے۔ حضرت ابن عمر نے فرمایا ان ہی لوگوں کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی ہے : رجال لاتلھیھم تجارۃ…(تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٤٦٤٧ )

حضرت ابوالدرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں اس راستہ پر کھڑے ہو کر چیزیں فروخت کرتا اور ہر روز تین سو دینار نفع کماتا تھا، اور ہر روز مسجد میں جا کر نماز پڑھتا تھا، لیکن میں یہ نہیں کہتا کہ یہ (نفع) حلال نہیں ہے لیکن میں یہ چاہتا تھا کہ میں اس آیت میں داخل ہوں رجال لاتلھیھم …(تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٤٦٤٩ )

عمرو بن دینار بیان کرتے ہیں کہ میں سالم بن عبداللہ کے ساتھ تھا اور ہم مسجد میں جانے کا ارادہ رکھتے تھے، ہم مدینہ کے بازار سے گزرے مسلمان نے اپنا سامان ڈھانپ دیا اور مسجد میں چلے گئے سالم نے ان کے سامان کی طرف دیکھا جس کے پاس کوئی شخص نہیں تھا پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی رجال لاتلھیھم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللہ … پھر کہا یہی لوگ اس آیت کے مصداق ہیں۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :14651)

عطا بیان کرتے ہیں کہ اس آیت کے مصداق وہ مسلمان ہیں جن کو اللہ کے حقوق اور اس کے فرائض کی ان کے اوقات میں ادائیگی کو ان کی خریدو فروخت منع نہیں کرتی تھی۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :14652 مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)

حسن بیان کرتے ہیں کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو ایک منادی ندا کرے گا عنقریب اہل محشر جان لیں گے کہ کون اللہ کے کرم کے زیادہ لائق ہے پھر وہ کہے گا وہ لوگ کہاں ہیں جو اپنے پہلوئوں کو اپنے بستروں سے دور رکھتے تھے اور خوف اور طمع سے اپنے رب کو پکارتے تھے اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے تھے۔ (السجدۃ : ١٦) پھر وہ لوگ کھڑے ہوں گے اور لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے آئیں گے، منادی پھر کہعے گا، عنقریب اہل محشر جان لیں گے کہ کون کرم کا زیادہ اہل سے وہ لوگ کہاں ہیں جن کو ان کی تجارت اور ان کی خریدو فروخت اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتی تھی۔ (النور : ٣٧) پھر وہ لوگ کھڑے ہوں گے اور لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے آئیں گے، منادی پھر ندا کرے گا عنقریب اہل محشر جان لیں گے کہ کرم کے کون زیادہ لائق ہے، وہ لوگ کہاں ہیں جو ہرحال میں اللہ کی حمد کرتے تھے، پھر وہ کھڑے ہوں گے، اور پھر باقی لوگوں سے حساب لینا شرع کردیا جائے گا۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٦٩٣ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٠ ھ)

قیامت کے دن دلوں اور آنکھوں کے الٹ پلٹ جانے کا معنی 

فرمایا وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل الٹ پلٹ جائیں گے اور آنکھیں۔

قیامت کے دن کے ہول اور اس کی دہشت سے دل اور آنکھیں الٹ پلٹ جائیں گی اس سے مراد کفار کے دل اور ان کی آنکھیں ہیں، ان کے دل اپنی جگہ سے نکل کر حلق میں آجائیں گے وہ واپس اپنی جگہ جاسکیں گے نہ لحق سے باہر نکل سکیں گے، اور آنکھوں کے پلٹنے کا معنی یہ ہے کہ پہلے ان کی سرمگیں آنکھیں تھیں اور قیامت کے دن ان کی آنکھیں نیلی ہوجائیں گی۔ ایک قول یہ ہے کہ دلوں کے الٹ پلٹ جانے کا معنی یہ ہے کہ نجات کی طمع اور ہلاکت کے خوف سے ان کے دل مضطرب ہوں گے، اور آنکھیں مضطرب ہوں گی کہ کس جانب سے ان کے اعمال نامے دیئے جائیں گے اور کس طرح سے ان سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔ ایک قول یہ ہے کہ دلوں کے الٹ پلٹ جانے کا معنی یہ ہے کہ ایک بار آگ ان کو جھسا دے گی، پھر جلا دے گی پھر ان کو دوسرے دلوں سے بدل دیا جائے گا اور یہ عمل یونہی ہوتا رہے گا۔

عبادت میں غفلت نہ کرنے والوں کا اجر 

اس کے بعد فرمایا تاکہ اللہ ان کو ان کے بہترین کاموں کی جزا دے۔ اس آیت میں نیک کاموں کی جزا کا ذکر فرمایا ہے اور برے کاموں کی سزا کا ذکر نہیں فرمایا حالانکہ یا مت کے دن جزا اور سزا دونوں ہوں گی، اس کی دو وجہیں ہیں ایک وجہ یہ ہے کہ تاکہ مسلمانوں کو نیک کاموں کی ترغیب دی جائے، دوسری وجہ یہ ہے کہ اس آیت میں ان مسلمانوں کا ذکر ہے جو گناہ کبیرہ سے اجتناب کریں گے اور ان کے صغیرہ گناہ کبائر سے اجتناب کی وجہ سے معاف کردیئے جائیں گے۔ نیز فرمایا اللہ اپنے فضل سے ان کے اجر کو زیادہ کر دے گا اس کا ایک محمل یہ ہے کہ ایک نیکی کا دس گنا پھر سات سو گنا اجر عطا فرمائے گا اور جس کے لئے چاہے گا اس کو بھی دگنا کر دے گا اور اس کا دوسرا محمل یہ ہے کہ ان کے استحقاق کے بغیر ان کو اجر عطا فرمائے گا، اس کے بعد فرمایا اور اللہ جس کو چاہے بےحساب اجر عطا فرمائے گا یعنی جو شخص گن گن کر نیکیاں کرے گا اس کو گن گن کر اجر دے گا اور جو بغیر گنے اور شمار کیے نیکیاں کرے گا اس کو بےحساب اور بیشمار اجر عطا فرمائے گا۔

علامہ ابوالحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی 450 ھ لکھتے ہیں :

ایک قول یہ ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد قباء کو بنانے کا حکم دیا تو حضرت عبداللہ بن رواحہ نے آ کر کہا یا رسول اللہ ! قد افلح من بنی المساجد (جس نے مسجد بنائیں وہ کامیاب ہوگیا ؟ ) آپ نے فرمایا : ہاں اے ابن رواحہ ! انہوں نے کہا وصلی فیھا قائما وقاعدا (اور اس نے ان میں کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر نماز پڑھی ؟ ) آپ نے فرمایا : ہاں اے ابن رواحہ ! انہوں نے کہا ولم بیت اللہ الا ساجدا (اور اس نے سجدوں کے بغیر کوئی رات نہیں گزاری) آپ نے فرمایا : ہاں اے ابن رواحہ ! اور اپنے مسجع اور موزون کلام پیش کرنے سے رک جائو کیونکہ بندے کو طلاقت لسان (روانی سے بولنے اور چرب زبانی) سے بری اور کوئی چیز نہیں دی گئی۔ (النکت والیعون ج ٤ ص 108 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 24 النور آیت نمبر 37