أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاَنۡكِحُوا الۡاَيَامٰى مِنۡكُمۡ وَالصّٰلِحِيۡنَ مِنۡ عِبَادِكُمۡ وَاِمَآئِكُمۡ‌ ؕ اِنۡ يَّكُوۡنُوۡا فُقَرَآءَ يُغۡنِهِمُ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ‌ ؕ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيۡمٌ ۞

ترجمہ:

اور تم اپنے بےنکاح مردوں اور عورتوں کا نکاح کردو اور اپنے نیک غلاموں اور باندیوں کا اگر وہ فقیر ہیں تو اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا، اور اللہ وسعت والا بہت جاننے والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور تم اپنے بےنکاح مردوں اور عورتوں کا نکاح کردو، اور اپنے نیک غلاموں اور باندیوں کا، اگر وہ فقیر ہیں تو اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا اور اللہ وسعت والا بہت جاننے والا ہے۔ (النور : ٣٢)

ایامیٰ کا معنی 

اس سورت کے زیادہ تر احکام زنا اور اس کے دواعی اور محرکات کے سدباب اور عفت اور پاکیزگی اور پاک دامنی سے متعلق ہیں اور نکاح کرنا زنا کے سدباب کا ایک بہت قوی ذریعہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم میں جو بےنکاح مرد اور عورتیں ہوں ان کا نکاح بھی کرو اور تمہارے خادموں اور خادمائوں میں جو بےناح ہوں ان کا نکاح بھی کردو۔

ایایٰ ایم کی جمع ہے، ایم اصل میں اس عورت کو کہتے ہیں جس کا شوہر نہ ہو خواہ وہ عورت کنواری ہو یا بیوہ، ابو عبید نے کہا ہے کہ ہرچند کہ ایم کا لفظ مرد اور عورت دونوں کے لئے ہے لیکن اس کا غالب استعمال عورتوں کے لئے ہوتا ہے، بہرحال اس آیت میں ایایٰ کا معنی ہے بےنکاح مرد اور بےنکاح عورتیں۔

عبدالنبی نام رکھنے کی تحقیق 

اس آیت میں فرمایا ہے : والصلحین من عبادکم واماء کم یعنی تم اپنے نیک بےنکاح غلاموں اور باندیوں کا ناح کردو، اس آیت میں عبد کیا ضافت مخلوق کی طرف کی ہے اس سے معلوم ہوا ہے کہ عبدالنبی نام رکھنا جائز ہے، اور یہاں عبد کا معنی غلام ہے اور جب عبداللہ کہا جاتا ہے تو وہاں عبد کا معنی بندہ ہوتا ہے، عربی میں غلام کو عہد کہا جاتا ہے اور اردو میں عبد بہ معنی بندہ لیا جاتا ہے لہٰذا عبد النبی اور عبدالرسول نام رکھنا جائز ہے شرک نہیں ہے، شیخ اشرف علی تھانوی نے کفر اور شرک کی باتوں کے تحت لکھا ہے : علی بخش، حسین بخش، عبدالنبی وغیرہ نام رکھنا (بہشتی زیورج ١ ص ٣٥ مطبوعہ ناشران قرآن لمیٹڈ لاہور) ظاہر ہے قرآن مجید کی اس نص قطعی کے مقابلہ میں تھانوی صاحب کا یہ قول صحیح نہیں ہے۔ تاہم چونکہ ہمارے عرف میں عبد کا اطلاق صرف بندے پر کیا جاتا ہے غلام پر نہیں کیا جاتا، اس لئے عید النبی کے بجائے غلام نبی نام رکھنا چاہیے، علامہ شامی نے عبدالنبی نام رکھنے کو ممنوع لکھا ہے، (ردا المختارج ٥ ص 369، استنبول) اس کی مفصل تحقیق ہم اس سے پہلے تبیان القرآن ج ١ ص 187 کرچکے ہیں۔

نکاح کا لغوی اور اصطلاحی معنی 

قاضی عبدالنبی بن عبدالرسول احمد نگری لکھتے ہیں :

لغت میں نکاح کا معنی جمع کرنا اور ملانا ہے اور شریعت میں نکاح اس عقد کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ سے کسی عورت کے جسم سے فائدہ اٹھانے کا مالک بنایا جاتا ہے۔ اگر کسی انسان کی شہوت معتدل ہو تو نکاح کرنا سنت ہے اور اگر کسی انسان پر شہوت بہت غالبہ و تو اس پر ناح کرنا واجب ہے اور جب اس کو اپنے نفس پر ظلم کا خدشہ ہو (یعنی وہ سخت گیر آدمی ہے اور بیوی پر ظلم کرے گا) تو پھر اس کا نکاح کرنا مکروہ ہے اور اگر وہ جماع کرنے پر قادر نہ ہو تو پھر اس کا نکاح کرنا حرام ہے۔

جو ناح بغیر تشہیر کے خفیہ کیا جائے اس کو ناکح السر کہتے ہیں اگر کوئی شخص کسی عورت سے یہ کہے یہ دس روپے لو میں اس کے عوض دس دن تم سے جماع کروں گا تو اس کو نکاح المعتہ یا النکاح الموقت کہتے ہیں یہ نکاح باطل اور حرام ہے، اگر کوئی شخص کسی کی بہن سے نکاح کرے اور مہر کے بجائے یہ مقرر کرے کہ وہ دوسرا شخص اس کی بہن سے نکاح کرلے تو اس کو نکاح الشغار کہتے ہیں اس کا حکم یہ ہے کہ یہ نکاح صحیح ہے اور فریقین کو مہر مثل دینا لازم ہوگا اور اگر کوئی شخص فریقین میں سے کسی ایک سے یا دونوں سیاجازت لئے بغیر کسی مرد اور عورت کا معروف طریقہ سے نکاح کر دے تو یہ نکاح الفضولی کہا جاتا ہے اس کا حکم یہ ہے کہ جب فریقین اس نکاح کو برقرار رکھیں تو یہ نکاح صحیح اور نافذ ہوجاتا ہے۔ (دستور العلماء ج ٣ ص 289-290 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1421 ھ)

علامہ سید محمد بن علی بن محمد الحصلفی الحفی المتوفی 1088 ھ لکھتے ہیں :

ایمان اور ناح کے سوا کوئی اور ایسی عبادت نہیں ہے جو حضرت آدم (علیہ السلام) کے عہد سے لے کر اب تک مشروع رہی ہو اور فقہاء کے نزدیک نکاح اس عقد کو کہتے ہیں جس سے مرد کا عورت کے جسم سے فائدہ حاصل کرنا حلال ہوجائے جب کہ کوئی شرعی مانع نہ ہو، عورت کی قید سے مرد، خنثی مشکل اور جنیہ خارج ہوگئے اور مانع شرعی کی قید سیم حارم خارج ہوگئے۔ البتہ حسن نے جنیہ سے نکاح کو جائز قرار دیا ہے۔ نکاح کا لفظ جماع کرنے میں حقیقت ہے اور عقید میں مجاز ہے، ناح فریقین میں سے کسی ایک کے ایجاب اور دوسرے کو قبول کرنے سے منعقد ہوتا ہے، اور اس میں دو آدمی مسلمان مکلف گواہوں کا حاضر ہونا شرط ہے جو ایجاب اور قبول کرنے والوں کا کلام معاسن رہے ہوں خواہ وہ فاسق ہوں، یا مرد والشہادۃ ہوں یا نابینا ہوں۔ (الدرا المخار مع ردالمختارج ٤ ص ٧٦ ملخصاً مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، 1419 ھ)

مجلس نکاح میں دو گواہوں کے معا سننے کی قید سے واضح ہوگیا کہ ٹیلی فون پر نکاح کرنا جائز نہیں ہے، نیز اگر دو ٹیلی فون سیٹ رکھ لئے جائیں اور دو آدمی معاً ایجاب و قبول کو ان دو ٹیلی فون سے معا سن رہے ہوں تب بھی یہ جائز نہیں ہے کیونکہ عرف اور قانون میں ٹیلی فون پر بات سننے والے کو گواہ نہیں قرار دیا جاتا سو شرعاً بھی ان کو گواہ نہیں قرار دیا جائے گا، لہٰذا ٹیلی فون پر نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔

نکاح کی فضیلت میں احادیث 

حضرت عبداللہ مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے نوجوانو ! تم میں سے جو شخص گھر بسانے کی طاقت رکھتا ہے وہ نکاح کرلے، کیونکہ نکاح نظر و نیچے رکھتا ہے اور شرم گاہ کی حفاظت کرتا ہے، اور جو نکاح کرنے کی طاقت نہیں رکھتا وہ روزے رکھے، کیونکہ روزے شہوت کو کم کرتے ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :5066 صحیح مسلم رقم الحدیث :1400، سنن ابو دائود رقم الحدیث :2046، سنن الترمذی رقم الحدیث :1081)

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نحے فرمایا جو شخص یہ چاہتا ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ سے پاکیزہ حالت میں ملاقات کرے اسے چاہیے کہ وہ آزاد عورتوں سے نکاح کرے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :1862)

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا ایک متاع ہے اور دنیا کی بہترین متاع نیک بیوی ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث 1467، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :1855، مسند احمد ج ٢ ص 168)

حضرت ابوامامہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ عزوجل کے تقویٰ کے بعد مئومن کی سب سے بڑی خیر یہ ہے کہ اس کی نیک بیوی ہو، اگر وہ اس کو کوئی حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے، اگر وہ اس کی طرف دیکھے تو وہ اس کو خوش کرے اور اگر وہ اس کے اوپر کوئی قسم کھائے تو وہ اس کو پورا کرے اور اگر وہ کہیں چلا جائے تو وہ اپنی ذات اور اس کے مال کی حفاظت کرے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :1857)

حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ابن آدم کی سعادت (نیک بختی) سے تین چیزیں ہیں نیک بیوی، آرام دہ مکان اور آرام دہ سواری، اور ابن آدم کی شقاوت (بدبختی) سے تین چیزیں ہیں، بری بیوی، بےآرام مکان اور بری سواری۔ (مسند احمد ج ١ ص 168 صحیح ابن حبان رقم الحدیث :4021 المستدرک ج ٢ ص 144)

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب بندہ نے نکاح کر لای تو اس کا نصف ایمان کامل ہوگیا اب اس کو چاہیے کہ باقی نصف میں اللہ سے ڈرتا ہے۔ (شعب الایمان رقم الحدیث :5486)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ازراہ کرمتین شخصوں کی مدد اپنے ذمہ لے لی ہے، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا، وہ مکاتب جو اپنا بدل کتابت ادا کرنے کی نیت رکھتا ہو (جس غلام کو اس کا مالک یہ کہہ دے تم اتنی رقم ادا کردو تو آزاد ہو اس کو مکاتب کہتے ہیں اور اس رقم کو بدل کتابت کہتے ہیں) اور وہ شخص جو پاک دامن رہنے کی نیت سے نکاح کرے۔

(سنن الترمذی رقم الحدیث :1655 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :2518 مسند احمد ج ٢ ص 251، صحیح ابن حبان رقم الحدیث :4019 المستدرک ج ٢ ص 160)

ابونجیح بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص خوش حال ہو اور نکاح کی طاقت رکھتا ہو پھر بھی نکاح نہ کرے وہ میرے طریقہ (محمودہ) پر نہیں ہے۔

(المعجم الکبیرج ٢٢ ص 366 المعجم الاوسط رقم الحدیث :993 شعب الایمان رقم الحدیث :5482، 5481، مجمع الزوائد ج ٤ ص 251)

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کے حجروں میں چند مسلمان آئے اور انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کے متعلق دریافت کیا، جب انہیں آپ کی عبادت کے متعلق بتایا گیا تو انہوں نے اس عبادت کو گم خیال کیا اور انہوں نے کہا کہاں ہم کہاں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بیشک اللہ نے آپ کے تمام اگلے اور پچھلے بظاہر خلاف اولیٰ سب کام بخش دیئے ہیں ان میں سے ایک نے کہا رہا میں، تو میں ہمیشہ تمام رات نماز پڑھتا رہوں گا، اور دوسرے نے کہا میں ساری عمر مسلسل روزے رکھوں گا اور کبھی روزہ ترک نہیں کروں گا، اور تیر سے نے کہا میں ہمیشہ عورتوں سے الگ رہوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس آئے اور فرمایا تم وہ لوگ ہو جنہوں نے اس طرح، اس طرح کہا تھا، اور میں بیشک اللہ کی قسم تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ متقی ہوں۔ لیکن میں (نفلی) روزہ رکھتا ہوں، اور (نفلی) روزہ چھوڑتا بھی ہوں، اور (رات کو) نماز بھی پڑھتا ہوں اور نیند بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح کرتا ہوں، سو جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ میرے طریقہ پر نہیں ہے۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث :5063 صحیح مسلم رقم الحدیث :1401 سنن النسائی رقم الحدیث :3216)

حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عورت سے اس کے جمال، اس کے مال، اس کے اخلاق اور اس کی دینداری کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے، تم اس کی دین داری اور اس کے اخلاق کے سبب کو لازم کرلو۔ (مسند احمد ج ٣ ص 80 مسند ابویعلی رقم الحدیث :1012 مسند البزار رقم الحدیث :1403 صحیح ابن حبان رقم الحدیث :4026 المستدرک ج ٢ ص 161)

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص کسی عوتر سے اس کی عزت کی وجہ سے نکاح کرے گا اللہ اس شخص کی ذلت میں اضافہ کرے گا اور جو شخص کسی عورت سے اس کے مال کی وجہ سے نکاح کرے گا اللہ عزوجل اس کے فقر میں اضافہ کرے گا اور جو شخص کسی عورت سے اس کے منصب کی وجہ سے نکاح کرے گا اللہ عزوجل اس کی پستی میں اضافہ کرے گا اور جو شخص کسی عورت سے اس وجہ سے نکاح کرے گا کہ اس کی نظر نیچی رہے، یا اس کی شرم گاہ گناہ سے بچی رہے، یا رشتہ جوڑنے کے لئے نکاح کرے گا اللہ اس شخص کو اس نکاح میں برکت دے گا اور اس عورت کو بھی اس نکاح میں برکت دے گا۔

(المعجم الاوسط رقم الحدیث :2527 الترغیب و الترھیب للمندری رقم الحدیث :2872 حافظ الہیثمی نے کہا اس کی سند ضعیف ہے، مجمع الزوائد ج ٤ ص 254

حضرت معقل بن یسار (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آ کر عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے ایک عزت والی مال دار اور منصب والی عورت مل رہی ہے لیکن اس کے ہاں اولاد نہیں ہوتی کیا میں اس سے نکاح کرلوں ؟ آپ نے اس کو منع کیا وہ پھر آیا تو آپ نے اس کو پھر منع کیا پھر وہ تیسری بار آیا تو آپ نے فرمایا محبت کرنے والی اور بچے دینے والی عورت سے نکاح کرو، کیونکہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث :2050 سنن النسائی رقم الحدیث :3227 المستدرک ج ٢ ص 162)

حضرت ابو ایوب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا چار چیزیں رسولوں کی سنت ہیں، ختنہ رنا، عطر لگانا، مسواک کرنا اور نکاح کرنا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :1080 مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث :10390 المعجم الکبیر رقم الحدیث :4085 مسند الشامبین رقم الحدیث :3549)

نکاح کے شرعی حکم میں مذاہب فقہاء 

امام شافعی نے کہا نکاح کرنا کھانے پینے کی طرح مباح ہے، امام مالک نے کہا نکاح کرنا مستحب ہے، امام ابوحنیفہ نے کہا غلبہ شہوت کے وقت نکاح کرنا واجب ہے، عام حالات میں سنت ہے اور اگر ظلم اور جو رکا خدشہ ہو تو پھر نکاح کرنا مکروہ ہے۔ 

علامہ موفق الدین عبداللہ بن احمد بن قدامہ حنبلی متوفی 620 ھ لکھتے ہیں : نکاح کرنے کے شرعی حکم میں تین مذاہب ہیں :

(١) جس شخص کو یہ خطرہ ہے کہ اگر اس نے نکاح نہیں کیا تو وہ گناہ میں مبتلا ہوجائے گا تو عام فقہاء کے نزدیک اس پر نکاح کرنا واجب ہے کیونکہ اس پر واجب ہے کہ وہ اپنے نفس کو گناہوں سے دور رکھے۔

(٢) جس شخص میں شہوت ہو اس کے باوجود اس کو اطمینان ہو کہ وہ گناہ میں مبتلا نہیں ہوگا اس کے لئے نکاح کرنا مستحب ہے اور نفلی عبادات میں مشغول رہنے سے اس کا نکاح کرنا افضل ہے اور یہ اصحاب رائے (فقہائ، احناف) اور صحابہ (رض) کا ظاہر قول اور ان کا فعل ہے، حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا اگر میری زندگی کے صرف دس دن باقی رہ جائیں اور مجھے معلوم ہوجائے کہ میں آخری دن فوت ہو جائوں گا اور مجھے ان ایام میں نکاح کرنے کی طاقت ہو تو میں فتنہ میں مبتلا ہونے کے خوف سے نکاح کروں گ، حضرت عمر نے ابوالزوائد سے کہا نکاح نہ کرنے کی صرف دو وجہیں ہیں تم میں طاقت نہیں یا تم گناہ کرتے ہو، المروزی کی روایت ہے امام احمد نے کہا مجرد رہنا اسلام سے نہیں ہے اور جس نے تم کو نکاح نہ کرنے کی دعوت دی اس نے تم کو غیر اسلام کی دعوت دی، اور امام شافعی نے کہا نکاح کرنے سے عبادت کے لئے فارغ رہنا افضل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نکاح نہ کرنے کی وجہ سے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی تعریف کی اور فرمایا :

سیدا وحصوراً (آل عمران : ٣٩) وہ سردار اور نفس پر ضبط (کنٹرول) کرنے والے تھے۔

المحصور اس شخص کو کہتے ہیں جو عورتوں کی طرف میلان نہ کرے، اگر نکاح کرنا افضل ہوتا تو نکاح نہ کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کی تعریف نہ فرماتا، نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

(آل عمران : ١٤) عورتوں کی طرف سے شہوت اور نبیوں کی محبت لوگوں کے لئے خوش نما بنادی گی ہے۔

اگر نکاح کرنا افضل ہوتا تو اس آیت میں عورتوں کی طرف شہوت اور بیٹوں کی محبت کو بطور مذمت نہ ذکر کیا جاتا، نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

(الانفال، 28) اور یقین رکھو کہ تمہاعرے اموال اور تمہاری اولاد محض فتنہ ہیں اور یہ بھی یقین رکھو کہ اللہ کے پاس بہت عظیم اجر ہے۔

(التغابن : ١٤) اے ایمان والو ! بیشک تمہاری بعض بیویاں اور بعض بچے تمہایر دشمن ہیں، سو ان سے خبردار ہو۔

یہ آیت اس موقع پر نازل ہوئی جب بعض مسلمانوں نے بیوی اور بچوں کی محبت میں مکہ سیم دینہ کی طرف ہجرت نہیں کی حالانکہ اس وقت ہجرت کرنے کا بہت مئوکد حکم تھا پھر انہوں نے کافی عرصہ کے بعد ہجرت کی۔ اور یہ عام مشاہدہ ہے کہ لوگ بیوی اور بچوں کی محبت میں عبادات سے غافل ہوجاتے ہیں اور فرئاض کو ترک کردیتے ہیں۔ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

(المنافقون : ٩) اے ایمان والو ! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں اور جنہوں نے ایسا کیا سو وہ بہت ہی نقصان اٹھنے والے لوگ ہیں۔

اور یقین رکھو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا ہے اور خوش نمائی ہے اور ایک دور سے پر فخر اور مال اور اولاد میں ایک دور سے پر سبقت ہے اس کی مثل اس بارش کی طرح ہے جس کا زمین میں فصل کا اگانا کسانوں کو اچھا لگتا ہے، پھر جب وہ کھیتی خشک ہو تو تم اس کو زرد رنگ کی دیکھتے ہو پھر وہ بالکل چورا چورا ہوجاتی ہے اور آخرت میں سخت عذاب اور (اگر کوئی آزمائش میں پورا اترا تو) اللہ کی مغفرت اور رضا مندی ہے اور دنیا کی زندگی تو دھوے کے سوا کچھ نہیں۔الحدید۲۰

اگر کوئی شخص آزمائش میں پورا نہ اترا تو مال اور اولاد میں سبقت سے دنیا میں بربادی اور آخرت میں عذاب کا سامنا ہوگا، اس لئے سلامتی اور امن اسی میں ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے نفس پر ضبط کرسکتا ہے تو وہ نکاح کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی عبادت میں مصروف رہے، نیز نکاح، خریدو فروخت کی طرح ایک عقد معاوضہ ہے اس لئے نکاح کرنے سے عبادت میں مشغول رہنا افضل ہے۔

علامہ ابن قدامہ فرماتے ہیں : ہماری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے نکاح کرنے کا حکم دیا ہے اور اس پر برانیگختہ کیا ہے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لیکن میں روزے بھی رکھتا ہوں اور روزے ترک بھی کرتا ہے اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے ناح بھی کرتا ہوں، پس جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ میرے طریقہ (محمودہ) پر نہیں ہے اور صحیح

Surah Noor Ayat no 32

قسم توڑنے اور روزہ توڑنے کے کفارہ میں غلام آزاد کرنے کا حکم دیا، غلام کو مکاتب کرنا بھی غلامی کو ختم کرنے کی ایک صورت ہے ایک شخص اپنے غلام سے یہ کہتا ہے کہ تم مثلاً پنچ ہزار روپے مجھے لا کردو تو تم آزاد ہو اس فعل کو مکاتبت کہتے ہیں اور اس غلام کو مکاتب کہتے ہیں، اب اس غلام کے ذمہ یہ ہے کہ وہ محنت مزدوری کرے اور اپنے آقا کو وہ رقم لا دے تو وہ آزاد ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے زکوۃ کی مد میں ایک یہ شق بھیرکھی ہے کہ غلاموں کو آزاد کرانے کی مد میں زکوۃ ادا کردی جائے اور مسلم معاشرہ میں مسلمان اپنے ایک غلام بھائی کو غلام سے آزاد کرانے کے لئے رقم خرچ کریں اور اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا کہ تم کو اللہ تعالیٰ نے جو مال دیا ہے اس مال کو غلام آزاد کرانے میں خرچ کرو۔

نیز اس آیت میں فرمایا، اور تمہاری باندیاں اگر پاک دامن رہنا چاہیں تو ان کو بدکاری پر مجبور نہ کرو تاکہ تم دنیا کی زندگی کا فائدہ طلب کرو اور جو ان کو مجبور کرے گا تو اس کے جبر کے بعد اللہ (ان باندیوں کو) بہت بخشنے والا بےحد رحم فرمانے والا ہے۔

اس آیت کی شان نزول میں حسب ذیل احادیث ہیں :

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ بعض انصار کی ایک باندیھ تھی مسیکہ اس نے کہا میرا مالک مجھے زنا کرنے پر مجبور کرتا ہے، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔

(جامع البیان رقم الحدیث :19741 تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :14522 المستدرک ج ٢ ص 397)

زہری بیان کرتے ہیں کہ جنگ بدر میں قریش کا ایک شخص قید ہوگیا یہ قیدی عبداللہ بن ابی ابن سلول کے گھر میں تھا اور عبداللہ بن ابی کی ایک معاذہ نام کی باندی تھی، وہ قیدی اس سے زنا کرنا چاہتا تھا، وہ باندی مسلمان تھی وہ اسلام کے احکام کی وجہ سے منع کرتی تھی اور ابن ابی اس کو مارتا تھ اور اس کام پر مجبور کرتا تھا، کیونکہ اسے امید تھی کہ وہ باندی اس قیدی سے حاملہ ہوجائے گی اور ابن ابی اس قیدی سے اس بچہ کا فدیہ طلب کرے گا اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (تفسیر امام عبدالرزاق رقم الحدیث :2041، مطبوعہ دارالمعرفت ہبیروت، 1411 ھ)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن ابی کی باندی زمانہ جاہلیت میں زنا کراتی تھی، جب اسلام نے زنا کو حرام کردیا تو ابن ابی نے اس سے کہا کیا تم اب زنا نہیں کرائو گی اس نے کہا نہیں اللہ کی قسم میں اب کبھی بھی زنا نہیں کروں گی اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث :11747، مسند البزارج ٧ ص 83)

اس آیت میں فرمایا ہے اور تمہاری باندیاں اگر پاک دامن رہنا چاہیں تو ان کو بدکاری پر مجبور نہ کرو اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اس کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اگر وہ پاک دامن نہ رہنا چاہیں تو پھر تم ان کو بدکاری پر مجبور کرسکتے ہو، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اشکال ان پر ہوگا جو مفہوم مخالف کے قائل ہوں، رہے ہم احناف تو ہم مفہوم مخلاف کے قائل نہیں ہیں اور اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ جو فرمایا ہے اگر وہ پاک دامن رہنا چاہیں تو یہ قید احترازی نہیں ہے بلکہ یہ قید بیان واقع کے لئے ہے، کیونکہ صورت واقعیہ یہی تھی کہ بعض مسلمان باندیاں زنا سے بچنا چاتہی تھی اور ان کے منافق مالکان اجرت کے لالچ میں ان کو بدکاری پر مجبور کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو فرمایا کہ جب تمہاری باندیاں زنا سے بچنا چاتہی ہیں تو تم ان کو زنا پر مجبور نہ کرو، تیسرا جواب یہ ہے کہ جبر کی صورت اسی وقت متحقق ہوگی جب باندیاں بدکاری سے بچنا چاہتی ہوں اور جب وہ خود بدکاری کی طرف مائل ہوں اور شوق سے بدکاری کرتی ہوں تو پھر انہیں بدکاری پر مجبور کرنے کی کیا ضرورت ہے، اس لئے یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ اس آیت سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جب وہ پاک دامنی کا ارادہ نہ کریں تو پھر ان کو بدکاری پر مجبور کرنا جائز ہ، کیونکہ جب وہ پاک دامنی کا ارادہ نہیں کرتیں تو پھر ان کو بدکاری پر مجبور کرنے کی کب ضرورت ہوگی

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 24 النور آیت نمبر 32